غریب ترین وزیراعظم
الیکشن کی بدولت مدت کے بعد،ہمارے نصیب میں ایک ایمانداروزیراعظم آیاہے۔
وزیراعظم بننے سے پہلے شیشیل کورالا پورے دس برس نیپالی کانگریس کاصدررہا۔اسکارہن سہن حیران کن حدتک سادہ تھا۔2014ء میں نیپال کاوزیراعظم بن گیا۔پہلے دن جب اپنے سرکاری دفترپہنچاتو انتہائی سستی قیمت کے کپڑے پہن رکھے تھے۔اس طرح کے کپڑے جونیپال کاعام آدمی پہنتاہے۔لباس کی مجموعی قیمت دوسوروپے سے بھی کم تھی۔سرپرانتہائی پرانی ٹوپی اورپیروں میں کھردری سی چپل۔وزیراعظم کااسٹاف اسے دیکھ کرحیران رہ گیا۔
وہاں ویٹریانائب قاصدکے کپڑے بھی شیشیل کورالاسے بہت بہتر تھے۔ منتخب وزیراعظم کوان کے دفتر لیجایاگیا۔دفترکے باہرچپل اُتاری اورننگے پاؤں چلتا ہوا کرسی پرچوکڑی مارکربیٹھ گیا۔سیکریٹری اوردیگرعملے کے اوسان خطاہوگئے کہ یہ کس طرح ملک کے لوگوں سے ووٹ کی طاقت سے وزیراعظم بن گیاہے۔کورالانے فائلیں منگوائی اور بڑی محنت سے کام شروع کردیا۔سیکریٹری دوگھنٹے اپنے کمرے میں انتظارکرتارہاکہ باس اب بلائے گایا اب۔اس نے کئی بارچپڑاسی سے پوچھاکہ مجھے وزیراعظم نے تونہیں بلایا۔چپڑاسی شرمندگی سے جواب دیتاتھاکہ نہیں۔
ابھی تک انھوں نے کسی کوبھی بلانے کے لیے نہیں کہا۔خیرپورادن گزرگیا۔شیشیل سرکاری کام کرکے بڑے آرام سے واپس چلاگیا۔سختی سے منع کیاکہ کوئی بھی اسے خوش آمدیدکہنے یاخداحافظ کہنے نہ آئے۔ یعنی اس نے ہرطرح کے پروٹوکول کوختم کردیا۔اسی صورتحال میں ایک ہفتہ گزرگیا۔تمام عملہ بیکار بیٹھا رہا۔ وزیراعظم ٹھیک آٹھ بجے صبح دفترآتاتھا۔رات گئے تک کام کرتا تھا۔ پھر بڑے آرام سے چلاجاتاتھا۔
ایک ہفتہ بعد،سیکریٹری نے کورالاکوچٹ بھجوائی کہ وہ اسے کسی سرکاری کام سے ملناچاہتاہے۔چٹ بھجوائے ہوئے دوچارمنٹ ہوئے تھے کہ وزیراعظم خوداس کے کمرے میں آگیااورتہذیب سے پوچھاکہ فرمایے، کیا کام ہے۔ سیکریٹری کی جان نکل گئی کہ ملک کا وزیراعظم اس کے دفترمیں آکرکام پوچھ رہاہے۔کرسی سے کھڑا ہوگیا۔ لجاجت سے کورالاکوکہاکہ سر،قانون کے مطابق بطوروزیراعظم آپ نے اثاثے ڈیکلیئر کرنے ہیں۔وزیراعظم نے سیکریٹری سے فارم لیااور خاموشی سے اپنے دفترچلاگیا۔
شام کوفارم واپس آیاتو سیکریٹری نے پڑھناشروع کردیا۔اثاثوں کا کاغذدیکھ کر آنکھیں باہراُبل پڑی۔اس پربے حدنادر جملے لکھے ہوئے تھے۔درج تھا،"میرے پاس کوئی گھرنہیں ہے۔ کوئی گاڑی بھی نہیں ہے کیونکہ میں بس میں سفر کرتا ہوں۔کسی قسم کی کوئی جائیداد، پلاٹ، زیور، سونا، ہیرے بھی نہیں ہیں۔جہاں تک زرعی زمین کاتعلق ہے،ساری زمین خیرات کرچکاہوں اوراس وقت میرے پاس ایک ایکڑزمین بھی نہیں ہے۔میراکسی قسم کاکوئی بینک اکاؤنٹ بھی نہیں ہے۔میرے پاس کوئی رقم ہی نہیں ہے۔ ہاں، اگرآپ اثاثے سمجھتے ہیں تو پھرمیرے پاس صرف تین موبائل فون ہیں جن میں سے ایک آئی فون ہے۔اس کے علاوہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے"۔
نیپال جیساملک جہاں سیاست اورکرپشن،بالکل ہماری طرح لازم وملزوم ہے۔وہاں وزیراعظم کے ڈیکلیئریشن فارم میں کسی قسم کے اثاثے نہ ہونااچھنبے کی بات تھی اور ہے۔سیکریٹری اگلے دن صرف اس لیے وزیراعظم کے پاس گیاکہ کہیں اس سے کوئی غلطی نہ ہوگئی ہو۔مگروزیراعظم نے تسلی دی اورکہاکہ میں نے ڈیکلیئریشن فارم کے نیچے دستخط کیے ہیں۔ فکرنہ کریں۔ بس متعلقہ دفترمیں بھجوا دیں۔ مرتاکیانہ کرتا۔اسٹاف نے فارم حکومتی دفترمیں بھجوادیا۔ تھوڑے دن کے بعدکسی صحافی نے اخبارمیں چھاپ دیا کہ یہ دنیاکاسب سے غریب وزیراعظم ہے۔
اپوزیشن نے کہناشروع کر دیاکہ یہ شائدجھوٹ ہے۔کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک ایسا شخص جسکے خاندان میں تین وزیراعظم گزرے ہوں، اتنامفلوک الحال ہو۔اپوزیشن نے ہر طرح کی تحقیق کرڈالی۔مگرشیشیل کورالاکی لکھی ہوئی باتوں میں کوئی سقم نہ نکال سکے۔واقعی وزیراعظم کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔وہ معاشی کسمپرسی کاشکارتھا۔ایک سرکاری دورے میں حکومت کی طرف سے اسے چھ سوپنتالیس ڈالر ملے۔
دورے کے بعداس نے یہ تمام ڈالرسرکاری خزانے میں واپس جمع کروادیے کہ اس کا دورہ پرکسی قسم کے کوئی پیسے خرچ نہیں ہوئے۔لہذایہ ڈالراس کے کسی کام کے نہیں ہیں۔بطوروزیراعظم شیشیل کورالانے انتہائی سادگی سے وقت گزارااورحکومت کے بعد بھائی کے گھرمنتقل ہوگیا۔آخری عمرمیں پھیپھڑوں کا کینسر ہوگیا۔اس کے پاس علاج کے پیسے نہیں تھے۔سیاسی پارٹی کے اراکین نے باقاعدہ چندہ اکٹھاکیااورپھروہ اپناعلاج کروانے کے قابل ہوا۔ بہرحال کینسرجیسے موذی مرض سے بہادری سے لڑتے ہوئے2016ء میں دم توڑگیا۔
اس کاانتقال لندن یاامریکا کے کسی مہنگے اسپتال میں نہیں ہوابلکہ نیپال کے ایک سرکاری اسپتال میں زندگی کی بازی ہارگیا۔آج بھی آپ اس کی زندگی پر لکھی گئی کتابیں پڑھیں توآنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ انسان پوچھتاہے اے خدا،ایسے درویش لوگ بھی اس دنیاپرحکومت کرتے ہیں۔الیکشن جیتتے ہیں اور اپنے دامن پرکرپشن کی ایک چھینٹ بھی نہیں پڑنے دیتے۔ اسی تنگدستی میں دنیاچھوڑدیتے ہیں۔
جہاں ایک شیشیل کورالاجیسے عظیم آدمی کودیکھ کر انسانیت پراعتمادبحال ہوتاہے تودوسری طرف اپنے ملک میں سیاستدانوں کودیکھتے ہوئے سرشرم سے جھک جاتا ہے۔آپ کسی پاکستانی اخباریاجریدے پریقین نہ کریں۔ ہوسکتاہے کہ وہ کسی خاص زاویہ سے کسی زمینی دیوتاکی تعریف یابدخوئی کررہے ہوں۔بین الاقوامی ساکھ کے اخبارات اورچینل دیکھیے۔کیایہ شرم کی بات نہیں کہ ہمارے جیسے غریب ملک کے ایک سیاسی خاندان کولندن کے ایک اخبارنے ان کی صرف لندن میں اٹھتیس بیش قیمت جائیدادیں بیانگ دہل سب کے سامنے کھول کررکھ دیں۔
مگرپاکستان میں خدائی دعوے کرنے والاخاندان لندن کے اس اخبارکابال بھی بیکانہ کرسکا۔اس کے خلاف عدالت تک سے رجوع کرنے کی ہمت نہ کرسکا۔ان کی خاموشی سے ہرصاحب الرائے سمجھ گیاکہ اخبارمیں لگائے گئے الزامات مکمل طورپرسچ ہیں۔یہ خاندان تین دہائیوں سے جمہوریت کے نام پرملک پر مسلط رہاہے۔ان کی ہوشربااور متضاد شفافیت دیکھ کرانسان دنگ رہ جاتا ہے۔ دل نہیں چاہتا کہ مشکل الفاظ استعمال کروں۔مگرجھوٹ بولناانکاوتیرہ ہے۔ ان کی شخصیت کی بنیادہے۔یہ جس دن سچ بولنے کی غلطی کرینگے،وہ دن شائدان کی اپنی زندگی کا آخری دن ہوگا۔
قانون کی گرفت میں آئے ہیں توسوائے ملکی اداروں کوگالیاں دینے کے علاوہ ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔سندھ کی صورتحال بھی اَبترہے۔وہاں کے سیاسی بادشاہ نے دس سال میں ملک کوہرطریقے سے برباد کیاہے۔انھوں نے درست کہاتھاکہ''جمہوریت سب سے بہترین انتقام ہے''۔مگروہ لوگوں کواصل جملہ نہیں بتاتے۔'کرپشن سے ملک کوبربادکرنابہترین سیاسی انتقام ہے''۔ صوبائی حکومت اپنی اورسرکاری عمال بھی اپنے۔ کس سے شکایت کریں۔کون سنے گا۔
ملک میں ایک بھی ادارہ نہیں جوطاقتورترین شخصیات پرہاتھ ڈالنے کی جرات کرسکے۔اگرکوئی معمولی سی حرکت ہوتی ہے تو بہترین قانونی دماغ،ان سے بھاری رقم لے کر،انھیں قانون کی گرفت سے بچالیتے ہیں۔ بلوچستان میں بھی یہی حال ہے۔وہاں کے ایک طاقتور سیاستدان صرف گوادرکوصاف پانی کے ٹینکروں سے ڈیڑھ کروڑروپے روزانہ وصول کرتے تھے۔ جب ان کے خلاف تحریک عدم اعتمادپیش ہوئی توایک دن میں ہاتھ پاؤں پھول گئے۔
استعفیٰ دیکرعزت بچانے کی ناکام کوشش کی۔مگر باخبر حلقے ہر بات جانتے ہیں۔ پنجاب،سندھ اوربلوچستان کے ان جغادری خاندانوں کے پاس سب کچھ ہے۔مگرصرف ایک چیز نہیں ہے اور وہ ہے"عزت"۔مگرشائدعزت کی انھیں ضرورت ہی نہیں ہے۔یہ عوامی اعتمادکونہیں بلکہ دولت کو عزت سمجھتے ہیں۔
الیکشن کی بدولت مدت کے بعد،ہمارے نصیب میں ایک ایمانداروزیراعظم آیاہے۔آپ اس سے ہزار اختلاف کریں مگراس کی شخصی اورمالیاتی ایمانداری مسلمہ ہے۔وہ دانشورجودس برس سے اس کے خلاف مالی فائدہ کے عوض مسلسل لکھ رہے تھے۔آج وہ بھی اس لیڈر کی تعریف کررہے ہیں۔خیرمیں انھیں دانشورنہیں سمجھتا۔پیسے لے کرکسی بھی شخص کاقصیدہ یاحجولکھنے والا دانشوریاادیب نہیں ہوسکتا۔نیپال کاشیشیل ایمانداری کارول ماڈل تھا۔ ہوسکتاہے کہ خداکوہم پررحم آگیا ہو اورہمیں بھی ایک ایمانداراورسادہ ساانسان تحفہ میں دے دیاہو۔ہوسکتاہے کہ یہ شخص سادگی میں شیشیل کورالاکوبہت پیچھے چھوڑ جائے۔ ویسے دو دہائیوں میں تویہ پاکستان کاغریب ترین وزیراعظم ہے!
وہاں ویٹریانائب قاصدکے کپڑے بھی شیشیل کورالاسے بہت بہتر تھے۔ منتخب وزیراعظم کوان کے دفتر لیجایاگیا۔دفترکے باہرچپل اُتاری اورننگے پاؤں چلتا ہوا کرسی پرچوکڑی مارکربیٹھ گیا۔سیکریٹری اوردیگرعملے کے اوسان خطاہوگئے کہ یہ کس طرح ملک کے لوگوں سے ووٹ کی طاقت سے وزیراعظم بن گیاہے۔کورالانے فائلیں منگوائی اور بڑی محنت سے کام شروع کردیا۔سیکریٹری دوگھنٹے اپنے کمرے میں انتظارکرتارہاکہ باس اب بلائے گایا اب۔اس نے کئی بارچپڑاسی سے پوچھاکہ مجھے وزیراعظم نے تونہیں بلایا۔چپڑاسی شرمندگی سے جواب دیتاتھاکہ نہیں۔
ابھی تک انھوں نے کسی کوبھی بلانے کے لیے نہیں کہا۔خیرپورادن گزرگیا۔شیشیل سرکاری کام کرکے بڑے آرام سے واپس چلاگیا۔سختی سے منع کیاکہ کوئی بھی اسے خوش آمدیدکہنے یاخداحافظ کہنے نہ آئے۔ یعنی اس نے ہرطرح کے پروٹوکول کوختم کردیا۔اسی صورتحال میں ایک ہفتہ گزرگیا۔تمام عملہ بیکار بیٹھا رہا۔ وزیراعظم ٹھیک آٹھ بجے صبح دفترآتاتھا۔رات گئے تک کام کرتا تھا۔ پھر بڑے آرام سے چلاجاتاتھا۔
ایک ہفتہ بعد،سیکریٹری نے کورالاکوچٹ بھجوائی کہ وہ اسے کسی سرکاری کام سے ملناچاہتاہے۔چٹ بھجوائے ہوئے دوچارمنٹ ہوئے تھے کہ وزیراعظم خوداس کے کمرے میں آگیااورتہذیب سے پوچھاکہ فرمایے، کیا کام ہے۔ سیکریٹری کی جان نکل گئی کہ ملک کا وزیراعظم اس کے دفترمیں آکرکام پوچھ رہاہے۔کرسی سے کھڑا ہوگیا۔ لجاجت سے کورالاکوکہاکہ سر،قانون کے مطابق بطوروزیراعظم آپ نے اثاثے ڈیکلیئر کرنے ہیں۔وزیراعظم نے سیکریٹری سے فارم لیااور خاموشی سے اپنے دفترچلاگیا۔
شام کوفارم واپس آیاتو سیکریٹری نے پڑھناشروع کردیا۔اثاثوں کا کاغذدیکھ کر آنکھیں باہراُبل پڑی۔اس پربے حدنادر جملے لکھے ہوئے تھے۔درج تھا،"میرے پاس کوئی گھرنہیں ہے۔ کوئی گاڑی بھی نہیں ہے کیونکہ میں بس میں سفر کرتا ہوں۔کسی قسم کی کوئی جائیداد، پلاٹ، زیور، سونا، ہیرے بھی نہیں ہیں۔جہاں تک زرعی زمین کاتعلق ہے،ساری زمین خیرات کرچکاہوں اوراس وقت میرے پاس ایک ایکڑزمین بھی نہیں ہے۔میراکسی قسم کاکوئی بینک اکاؤنٹ بھی نہیں ہے۔میرے پاس کوئی رقم ہی نہیں ہے۔ ہاں، اگرآپ اثاثے سمجھتے ہیں تو پھرمیرے پاس صرف تین موبائل فون ہیں جن میں سے ایک آئی فون ہے۔اس کے علاوہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے"۔
نیپال جیساملک جہاں سیاست اورکرپشن،بالکل ہماری طرح لازم وملزوم ہے۔وہاں وزیراعظم کے ڈیکلیئریشن فارم میں کسی قسم کے اثاثے نہ ہونااچھنبے کی بات تھی اور ہے۔سیکریٹری اگلے دن صرف اس لیے وزیراعظم کے پاس گیاکہ کہیں اس سے کوئی غلطی نہ ہوگئی ہو۔مگروزیراعظم نے تسلی دی اورکہاکہ میں نے ڈیکلیئریشن فارم کے نیچے دستخط کیے ہیں۔ فکرنہ کریں۔ بس متعلقہ دفترمیں بھجوا دیں۔ مرتاکیانہ کرتا۔اسٹاف نے فارم حکومتی دفترمیں بھجوادیا۔ تھوڑے دن کے بعدکسی صحافی نے اخبارمیں چھاپ دیا کہ یہ دنیاکاسب سے غریب وزیراعظم ہے۔
اپوزیشن نے کہناشروع کر دیاکہ یہ شائدجھوٹ ہے۔کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک ایسا شخص جسکے خاندان میں تین وزیراعظم گزرے ہوں، اتنامفلوک الحال ہو۔اپوزیشن نے ہر طرح کی تحقیق کرڈالی۔مگرشیشیل کورالاکی لکھی ہوئی باتوں میں کوئی سقم نہ نکال سکے۔واقعی وزیراعظم کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔وہ معاشی کسمپرسی کاشکارتھا۔ایک سرکاری دورے میں حکومت کی طرف سے اسے چھ سوپنتالیس ڈالر ملے۔
دورے کے بعداس نے یہ تمام ڈالرسرکاری خزانے میں واپس جمع کروادیے کہ اس کا دورہ پرکسی قسم کے کوئی پیسے خرچ نہیں ہوئے۔لہذایہ ڈالراس کے کسی کام کے نہیں ہیں۔بطوروزیراعظم شیشیل کورالانے انتہائی سادگی سے وقت گزارااورحکومت کے بعد بھائی کے گھرمنتقل ہوگیا۔آخری عمرمیں پھیپھڑوں کا کینسر ہوگیا۔اس کے پاس علاج کے پیسے نہیں تھے۔سیاسی پارٹی کے اراکین نے باقاعدہ چندہ اکٹھاکیااورپھروہ اپناعلاج کروانے کے قابل ہوا۔ بہرحال کینسرجیسے موذی مرض سے بہادری سے لڑتے ہوئے2016ء میں دم توڑگیا۔
اس کاانتقال لندن یاامریکا کے کسی مہنگے اسپتال میں نہیں ہوابلکہ نیپال کے ایک سرکاری اسپتال میں زندگی کی بازی ہارگیا۔آج بھی آپ اس کی زندگی پر لکھی گئی کتابیں پڑھیں توآنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ انسان پوچھتاہے اے خدا،ایسے درویش لوگ بھی اس دنیاپرحکومت کرتے ہیں۔الیکشن جیتتے ہیں اور اپنے دامن پرکرپشن کی ایک چھینٹ بھی نہیں پڑنے دیتے۔ اسی تنگدستی میں دنیاچھوڑدیتے ہیں۔
جہاں ایک شیشیل کورالاجیسے عظیم آدمی کودیکھ کر انسانیت پراعتمادبحال ہوتاہے تودوسری طرف اپنے ملک میں سیاستدانوں کودیکھتے ہوئے سرشرم سے جھک جاتا ہے۔آپ کسی پاکستانی اخباریاجریدے پریقین نہ کریں۔ ہوسکتاہے کہ وہ کسی خاص زاویہ سے کسی زمینی دیوتاکی تعریف یابدخوئی کررہے ہوں۔بین الاقوامی ساکھ کے اخبارات اورچینل دیکھیے۔کیایہ شرم کی بات نہیں کہ ہمارے جیسے غریب ملک کے ایک سیاسی خاندان کولندن کے ایک اخبارنے ان کی صرف لندن میں اٹھتیس بیش قیمت جائیدادیں بیانگ دہل سب کے سامنے کھول کررکھ دیں۔
مگرپاکستان میں خدائی دعوے کرنے والاخاندان لندن کے اس اخبارکابال بھی بیکانہ کرسکا۔اس کے خلاف عدالت تک سے رجوع کرنے کی ہمت نہ کرسکا۔ان کی خاموشی سے ہرصاحب الرائے سمجھ گیاکہ اخبارمیں لگائے گئے الزامات مکمل طورپرسچ ہیں۔یہ خاندان تین دہائیوں سے جمہوریت کے نام پرملک پر مسلط رہاہے۔ان کی ہوشربااور متضاد شفافیت دیکھ کرانسان دنگ رہ جاتا ہے۔ دل نہیں چاہتا کہ مشکل الفاظ استعمال کروں۔مگرجھوٹ بولناانکاوتیرہ ہے۔ ان کی شخصیت کی بنیادہے۔یہ جس دن سچ بولنے کی غلطی کرینگے،وہ دن شائدان کی اپنی زندگی کا آخری دن ہوگا۔
قانون کی گرفت میں آئے ہیں توسوائے ملکی اداروں کوگالیاں دینے کے علاوہ ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔سندھ کی صورتحال بھی اَبترہے۔وہاں کے سیاسی بادشاہ نے دس سال میں ملک کوہرطریقے سے برباد کیاہے۔انھوں نے درست کہاتھاکہ''جمہوریت سب سے بہترین انتقام ہے''۔مگروہ لوگوں کواصل جملہ نہیں بتاتے۔'کرپشن سے ملک کوبربادکرنابہترین سیاسی انتقام ہے''۔ صوبائی حکومت اپنی اورسرکاری عمال بھی اپنے۔ کس سے شکایت کریں۔کون سنے گا۔
ملک میں ایک بھی ادارہ نہیں جوطاقتورترین شخصیات پرہاتھ ڈالنے کی جرات کرسکے۔اگرکوئی معمولی سی حرکت ہوتی ہے تو بہترین قانونی دماغ،ان سے بھاری رقم لے کر،انھیں قانون کی گرفت سے بچالیتے ہیں۔ بلوچستان میں بھی یہی حال ہے۔وہاں کے ایک طاقتور سیاستدان صرف گوادرکوصاف پانی کے ٹینکروں سے ڈیڑھ کروڑروپے روزانہ وصول کرتے تھے۔ جب ان کے خلاف تحریک عدم اعتمادپیش ہوئی توایک دن میں ہاتھ پاؤں پھول گئے۔
استعفیٰ دیکرعزت بچانے کی ناکام کوشش کی۔مگر باخبر حلقے ہر بات جانتے ہیں۔ پنجاب،سندھ اوربلوچستان کے ان جغادری خاندانوں کے پاس سب کچھ ہے۔مگرصرف ایک چیز نہیں ہے اور وہ ہے"عزت"۔مگرشائدعزت کی انھیں ضرورت ہی نہیں ہے۔یہ عوامی اعتمادکونہیں بلکہ دولت کو عزت سمجھتے ہیں۔
الیکشن کی بدولت مدت کے بعد،ہمارے نصیب میں ایک ایمانداروزیراعظم آیاہے۔آپ اس سے ہزار اختلاف کریں مگراس کی شخصی اورمالیاتی ایمانداری مسلمہ ہے۔وہ دانشورجودس برس سے اس کے خلاف مالی فائدہ کے عوض مسلسل لکھ رہے تھے۔آج وہ بھی اس لیڈر کی تعریف کررہے ہیں۔خیرمیں انھیں دانشورنہیں سمجھتا۔پیسے لے کرکسی بھی شخص کاقصیدہ یاحجولکھنے والا دانشوریاادیب نہیں ہوسکتا۔نیپال کاشیشیل ایمانداری کارول ماڈل تھا۔ ہوسکتاہے کہ خداکوہم پررحم آگیا ہو اورہمیں بھی ایک ایمانداراورسادہ ساانسان تحفہ میں دے دیاہو۔ہوسکتاہے کہ یہ شخص سادگی میں شیشیل کورالاکوبہت پیچھے چھوڑ جائے۔ ویسے دو دہائیوں میں تویہ پاکستان کاغریب ترین وزیراعظم ہے!