حالیہ انتخابات ایک جائزہ

ان انتخابات کے اعلان سے قبل ہی ان کی شفافیت پر سوالات اٹھنا شروع ہوگئے تھے۔

muqtidakhan@hotmail.com

بالآخر عام انتخابات ہوگئے۔ نتائج تقریباً وہی آئے، جن کی بعض حلقے توقع کررہے تھے۔ لازمی بات ہے کہ الیکشن کمیشن اور جیتنے والی جماعت تحریک انصاف کے شفاف اور آزادانہ (Fair & Free) ہونے کا دعویٰ کررہے ہیں۔ لیکن ملک کی بیشتر سیاسی جماعتیں اور کچھ تجزیہ نگاروں سمیت متوشش شہریوں کا ایک بڑا حلقہ مختلف رائے بھی رکھتا ہے۔

ان انتخابات کے اعلان سے قبل ہی ان کی شفافیت پر سوالات اٹھنا شروع ہوگئے تھے۔ مگر ان سوالات کا جواب تلاش کرنے اور مناسب کارروائیاں کرنے کے بجائے تاویلات دے کر تحفظات کا اظہار کرنے والوں کا منہ بند کرنے کی کوشش کی گئی، جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج ایک بار پھر 2013 جیسی یا اس سے بدتر صورتحال پیدا ہونے کے خدشات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

اس بات میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ پاکستان جیسے معاشروں میں جہاں انتخابی نظام کمزور، الیکشن کمیشن کی بااختیاریت محدود ہو اور طاقتور ریاستی حلقوں کا اثر ونفوذ بہت زیادہ ہو، وہاں حقیقتاً شفاف انتخابات کی توقع عبث ہے۔ لیکن حالیہ انتخابات میں دو مظاہر (Phenomenon) قابل توجہ ہیں۔ اول، قبل از الیکشن (Pre-Poll) کھیلا گیا باریک کھیل۔ دوئم، نئی نسل (جو گزشتہ دس برسوں کے دوران جوان ہوئی ہے) کا قدرے پرانی نسل سے خاصی حد تک مختلف تصور حیات۔ ان مظاہر کو سمجھنے کے لیے کراچی کو بطور Sample مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔

ایم کیوایم 1987 کے بلدیاتی انتخابات سے کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں کی طاقتور نمایندہ جماعت چلی آ رہی ہے۔ 2013 کے انتخابات تک اس نے 7 عام اور دو بلدیاتی انتخابات میں فقیدالمثال کامیابی حاصل کی۔ لیکن وہ جن مسائل کے حل کے لیے وجود میں آئی تھی، ان پر توجہ دینے کے بجائے اقتدار کی رسہ کشی کے کھیل کا حصہ بن گئی۔ 2013 میں عوام نے ساڑھے چھ لاکھ ووٹ تحریک انصاف کی جھولی میں ڈال کر اسے سنبھلنے کا موقع دیا، مگر اس کی قیادت نے اس موقع کو ضایع کردیا۔

دوسرے 18 سے 30 برس عمر والا وہ نوجوان طبقہ جو گزشتہ دس برسوں کے دوران سن بلوغت میں داخل ہوا، اس کی سوچ اور طرزعمل اپنے سے قدرے سینئر شہریوں کی سوچ اور طرز عمل سے خاصا مختلف ہے۔ وہ ایک ایسے سیاسی و سماجی ڈھانچہ کے قیام کا خواہشمند ہے، جس میں اعلیٰ علم تک رسائی اور باوقار روزگار کی فراہمی اولین یقینی ہو۔ دیگر روایتی جماعتوں کی طرح ایم کیو ایم بھی اپنے ووٹر (خاص طور پر نوجوان ووٹر) کی سوچ اور طرز عمل میں وقت اور حالات کے تحت آنے والی تبدیلیوں کو سمجھنے سے قاصر رہی۔ اس کے علاوہ اندرونی اختلافات اور ٹوٹ پھوٹ نے بھی اس کی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب کیے۔ ان وجوہات کے باعث اس کی مقبولیت گہناتی چلی گئی۔

لیکن اس صورتحال کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ ایم کیو ایم متوسط اور نچلے متوسط طبقہ سے ابھر کر سامنے آئی تھی۔ مگر اس میں دو بنیادی اسقام Inbuilt تھے۔ ایک لسانی طرز سیاست، دوسرے غیر جمہوری کی حد تک سخت گیر تنظیمی ڈھانچہ۔ چند برس پہلے معروف شاعرہ فہمیدہ ریاض سے ایک نجی محفل میں گفتگو ہورہی تھی، ان کا کہنا تھا کہ جب ایم کیوایم بنی تو (بقول ان کے) ان سمیت ترقی پسند دانشوروں نے اس کی قیادت پر زور دیا کہ اس نئی جماعت کو لسانی کے بجائے اربن ڈیموکریٹک بنیادوں پر ایک سیکولر جماعت کے طور پر استوار کیا جائے، تاکہ تمام تر توجہ اربن معاشرے سے متعلق شہریوں کو درپیش مسائل پر مرکوز کی جاسکے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس جماعت نے تسلسل کے ساتھ ان دونوں اہداف سے صرف نظر کیا، جس کی وجہ سے روشن خیال طبقہ اس سے کنارہ کشی پر مجبور ہوا۔


اب ایک دوسرے پہلو کی طرف آتے ہیں۔ صرف ملک کی سیاسی جماعتیں ہی نہیں بلکہ ریاستی منصوبہ ساز بھی ایم کیوایم کی طرز سیاست سے پریشان تھے۔ کیونکہ اس قسم کی سیاست کے ملک میں پھیلنے سے Status quo کے ٹوٹنے کے خدشات پیدا ہونے لگے تھے۔ لہٰذا اس کی سمت کو تبدیل کرنے کے لیے مختلف نوعیت کے اقدامات کیے جانے لگے۔ یہ ایک الگ طویل داستان اور بحث ہے۔ 1992 اور 2013 کے آپریشنوں کا مقصد دراصل ایم کیو ایم کی سیاست کو محدود اور کنٹرول کرنا رہا ہے۔

2016 میں اس کے منحرفین پر مبنی پاک سرزمین پارٹی (PSP) قائم کرائی گئی۔ جس میں پارٹی سے نکالے گئے عناصر کے علاوہ بے شمار کارکنوں کو زبردستی شامل کرایا گیا۔PSP کے قیام کا اصل مقصد ایم کیوایم کو تقسیم کرکے تحریک انصاف کے لیے راہ ہموار کرنا تھا۔ لیکن اس پہلو کو بھی مدنظر رکھا گیا تھا کہ اگر یہ جماعت ایم کیو ایم کی متبادل کے طور پر اپنی حیثیت بنا لیتی ہے، تو پھر تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد بنوا کر کراچی کی سیاست کو کنٹرول کیا جائے۔ بانی ایم کیوایم کی متنازع تقریر کے بعد باقی ماندہ جماعت خود کو اس انداز میں مجتمع رکھنے میں ناکام رہی، جو اپنے بانی کی زیر قیادت تھی۔ طاقتور حلقوں کو یہ یقین تھا کہ بانی ایم کیوایم کو سیاسی منظرنامہ سے ہٹانے کے بعد اس جماعت کا بکھر جانا یقینی ہے، جو درست ثابت ہوا۔

جس طرح کراچی میں قائد ایم کیو ایم کی جانب سے بائیکاٹ کے اعلان، ایم کیو ایم پاکستان کے اندر اختلافات اور PSP کے علاوہ نئی وجود میں آنے والی TLP نے ایم کیوایم کے ووٹ بینک میں دراڑ ڈالی، اسی طرح پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے ووٹ بینک کو تقسیم کرنے میں TLP اور ملی مسلم لیگ (MML) نے کلیدی کردار ادا کیا۔ جس کی وجہ سے پورے ملک میں انتخابی ڈھانچہ Upset کا شکار ہوا۔ جو طاقتور حلقوں کی منشا و مطلوب تھا۔

لیکن یہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ سازشی تھیوریاں اور طاقتور حلقوں کا کردار اپنی جگہ، لیکن ہمیں گزشتہ دس برسوں کے دوران جوان ہونے والی نسل کے جذبات، احساسات اور تصورات کو کسی بھی طور پر فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ وہ سوشل اور سیٹلائٹ میڈیا کے ذریعہ جو کچھ دیکھ اور سمجھ رہی ہے اور اس کی بنیاد پر اپنے یہاں جدید معاشرتی تشکیلات کی خواہاں ہے۔ اس لیے اس پہلوکو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ کیونکہ جب میں اپنے بچوں، طلبا وطالبات اور دیگر نوعمر لڑکوں اور لڑکیوں سے بات کرتا ہوں، تو مجھے ان کے ذہنوں میں موجودہ نظام کے لیے پائی جانے والی نفرت واضح طور پر نظر آتی ہے۔

ان صفحات پر کئی بار لکھا کہ ترقی دراصل انسانی ترقی (Human Development) ہوتی ہے، جو معیاری تعلیم اور حفظان صحت کی جدید سہولیات تک رسائی کے ساتھ روزگار کے نئے ذرایع کے قیام سے مشروط ہوتی ہے۔ اس کے بعد انفرااسٹرکچر کو جدید بنانے کا مرحلہ آتا ہے۔ مگر ہمارے یہاں قومی خزانے کا خطیر حصہ ترقی کے نام پر صرف انفرااسٹرکچر کی تعمیرپر صرف کیا جاتا ہے، جس سے نہ تعلیم وصحت کی سہولیات میں اب تک بہتری آسکی ہے اور نہ ہی روزگار کے نئے ذرایع پیدا ہوسکے ہیں۔ خاص طور پر گزشتہ دس برسوں کے دوران قائم ہونے والی حکومتیں ان معاملات کو سمجھنے سے بالکل ہی قاصر رہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے، نادیدہ قوتوں کی جانب سے حالیہ انتخابات کو Manipulate کرنے کا الزام اپنی جگہ درست سہی، مگر نوجوان نسل کے ذہنوں میں پروان چڑھتی سوچ اور طرز عمل کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، جنھوں نے عقیدے، قومیت اور لسانی وابستگی سے بالاتر ہوکر مسائل کے حل کو اپنی اولین ترجیح بنایا ہے۔ لہٰذا اس حقیقت کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ حالیہ انتخابی عمل میں پائی جانے والی خامیاں، کوتاہیاں اور کمزوریاں اپنی جگہ، مگر چار کروڑ سے زائد نوجوانوں کی سوچ میں تبدیلی کی خواہش نے بھی انتخابات کا رخ تبدیل کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
Load Next Story