کرائے کے کارکن کرائے کا پولنگ ایجنٹ

سیاسی جماعتیں شکست کو خندہ پیشانی سے تسلیم کرکے اپنی جماعت میں کرائے کے کارکنان کے بجائے پھر سے نظریاتی افراد جمع کریں

کارکنان نہ ہونے کی وجہ سے پولنگ ایجنٹ بھی کرائے پر ہی حاصل کیے جاتے ہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

پاکستان میں 25 جولائی 2018 کو ہونے والے انتخابات کوئی پہلی بار کرائے جانے والے انتخابات نہیں تھے بلکہ 11 ویں مرتبہ کے الیکشن تھے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں ملک میں 2 موروثی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی جو ایک طویل عرصے سے میوزیکل چیئر گیم کھیل رہی تھیں جس کے نتیجے میں کبھی ایک اپوزیشن کی سیاست کر رہا ہو تا تو دوسرا اقتدار کے مزے لوٹتا تھا۔ اور کیونکہ ایک طویل عرصے تک ان جماعتوں کے مدمقابل کوئی تیسری سیاسی قوت نہیں بن سکی، لہذا یہ سب کچھ تقریباً نصف صدی سے کچھ کم تک جاری رہا۔

مگر گزشتہ چند سالوں کے دوران پاکستان تحریک انصاف وجود میں آئی اور اس نے ملک سے کرپشن کے خاتمے کےلیے دھرنوں احتجاج کے ذریعے عوام کے دلوں میں گھر کر لیا جس کے نتیجے میں 2013 کے انتخا بات میں تحریک انصاف کو قومی اسمبلی کی سطح پر کچھ کامیابی نصیب ہوئی جبکہ خیبرپختونخواہ میں وہ حکو مت بنانے میں کامیاب ہوگئی اور اس نے اپنے انقلابی اقدامات کے ذریعے خیبرپختونخواہ میں صوبے اور عوام کی ترقی کےلیے ایسے ایسے اقدامات اٹھائے کہ دوسرے صوبے کی عوام بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ اگر تحریک انصاف کو ایک چانس دیا جائےتو نا صرف موروثی سیاسی جماعتیں جو کہ کر پشن میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں، سے نا صرف چھٹکارا ملے گا بلکہ ملک میں بننے والی تیسری سیاسی قوت ان کی نجات دہندہ ثابت ہوگی۔

بالآخر 25 جولائی کو ملک بھر میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کےلیے انتخابات منعقد ہوئے اور تحریک انصاف نے میدان مارنے کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق، متحدہ (پاکستان) کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار، سابق وزیراعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم سمیت ایسے ایسے برج گرا دیے جن کے بارے میں کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ یہی نہیں، تحریک انصاف نے پاکستان پیپلز پارٹی کے مضبوط گڑھ لیاری جہاں 1970 سے پیپلز پارٹی کو کوئی شکست دینے والا نہیں تھا، پیپلز پارٹی کے ہی ایک منحرف کارکن شکور شاد نے تحریک انصاف کے امیدوار کی حیثیت سے بلاول بھٹو زرداری کو شکستِ فاش دے دی۔ رہی سہی کسر تو اس وقت نکل گئی جب لیاری کے 2 صوبائی اسمبلی کے حلقے بھی پیپلز پارٹی کے ہاتھ سے نکل گئے اور ایک صوبائی حلقے پر متحدہ مجلس عمل کے سید عبدالرشید جبکہ دوسرے پر تحریک لبیک پاکستان کے امیدوار کامیاب ہوئے۔

ملک کے اندر تحریک انصاف کی اس کامیابی کے بعد ظاہر ہے وہ سیاسی جماعتیں جو کہ ایک طویل عرصے سے میوزیکل چیئر گیم کھیل رہی تھیں، کس طرح نتائج تسلیم کرتیں؟ لہذا انہوں نے اور ان کے ساتھ ناکام ہونے والی تمام سیاسی قوتوں نے نتائج کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے یہ الزامات عائد کردیے کہ ان کے پولنگ ایجنٹوں کو باہر نکال کر ووٹوں کی گنتی کی گئی اور انہیں شکست سے دو چار کیا گیا۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ جب ملک بھر کے پولنگ اسٹیشنوں سے سیاسی جماعتوں کے پولنگ ایجنٹوں کو باہر نکالا گیا اور نتائج فارم 45 کے بجائے سادہ کاغذ پر دیے گئے، اس وقت تک کسی سیاسی جماعت کو ہوش نہیں آیا اور انہوں نے اس سلسلے میں کسی بھی پولنگ اسٹیشن پر اس حوالے سے اپنا احتجاج ریکارڈ نہیں کرایا۔ مگر جیسے جیسے انہیں اپنی ناکامی کی اطلاع موصول ہوتی رہی، ویسے ہی انہوں نے حسب دستور شکست نہ ماننے کی روایتی سیاست کا نا صرف آغاز کردیا بلکہ اس پر واویلا مچانا شروع کر دیا، مگر اس وقت تک چڑیاں کھیت چگ چکی تھیں۔ اور ظا ہر سی بات ہے اس کے بعد وہ پچھتانے کے علاوہ کیا کر سکتی تھیں۔

اگر اس سلسلے میں تمام سیاسی قوتوں کے الیکشن میں دھاندلی اور اس دھاندلی میں فوج کی شراکت کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات کسی طور پر درست معلوم نہیں ہوتی، کیونکہ اگر ماضی میں ہونے والے 10 الیکشنز کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت سیاسی پارٹیوں میں نظریاتی کارکنان ہوتے تھے جو کہ نظریے کے حصول کے لئے کٹ مر نے کو تیار رہتے تھے، مگر کیونکہ چند سالوں کے دوران انہیں سیاستدانوں کی بداعمالیوں اور بدعنوانیوں کی وجہ سے اب نظریاتی کارکنان ناپید ہوچکے ہیں۔ اور ان کی جگہ ایسے کارکنان نے لے لی ہے جو پارٹی میں رکنیت حاصل کر نے کے پہلے ہی روز یہ سوال کرتے ہیں کہ انہیں کیا ملے گا؟


یہی وجہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو بہ امرِ مجبوری کرائے کے کارکنان سے کام کرانا پڑتا ہے جن کی اگر ایک دن کی دیہاڑی بھی تاخیر سے ملے تو وہ انتخابی مہم چلانے سے منہ موڑ لیتے ہیں جس کا نقصان انتخابی امیدواروں کو سہارنا پڑتا ہے۔ جس طرح سیاسی پارٹیوں کے کارکنان کرائے پر کام کر تے ہیں، ٹھیک اسی طرح کارکنان نہ ہونے کی وجہ سے پولنگ ایجنٹ بھی کرائے پر ہی حاصل کیے جاتے ہیں جن کے دل میں نہ تو پارٹی کےلیے کوئی ہمدردی ہوتی ہے اور نہ ہی انہیں امیدواروں سے کوئی لگاؤ ہوتا ہے۔ انہیں اگر کسی بات سے دلچسپی ہوتی ہے تو وہ صرف 500 یا 1000 روپے کے نوٹ سے ہوتی ہے، لہذا ایسی صورت میں کرائے والے پولنگ ایجنٹ سیاسی پارٹی اور امیدواروں کا دفاع کیوں کریں گے؟

یہی وجہ ہے کہ اس بار ہونے والے انتخابات میں بھی سیاسی پارٹیوں کے مطابق ان کے پولنگ ایجنٹوں کو گنتی سے پہلے باہر نکال دیا گیا یا دوسرے کمروں میں بند کرکے ووٹوں کی گنتی اور دھاندلی کی گئی تو ان کی جانب سے کسی قسم کا کوئی احتجاج سامنے نہیں آیا اور نہ ہی ملک کے کسی بھی پولنگ اسٹیشن پر ان پولنگ ایجنٹوں کی طرف سے کوئی بحث و تکرار ہوئی۔ جبکہ اگر اس سلسلے میں ماضی میں سیاسی کارکنوں کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو تاریخ گواہ ہے کہ انہیں سیاسی جماعتوں جس میں پاکستان پیپلز پارٹی سرفہرست ہے، کے کارکنان نے اپنے قائد کےلیے پھانسی کے پھندے چوم کر جانیں تک نچھاور کیں، کوڑے کھا کر بھی اپنے قائد کے نعرے بلند کیے، جبر و تشدد، قید و بند کی صوبتیں بھی ان کے مضبوط ارادوں کو کمزور نہیں کر سکیں؛ لیکن شاید اب سیاسی پارٹیوں کے پاس ایسے کارکنان نہیں۔

اسی طرح ماضی کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو انتخابات کے موقع پر سیاسی پارٹی اپنے ان سیاسی وفاداروں کو چیف پولنگ ایجنٹ اور پو لنگ ایجنٹ بناتی تھیں جو کہ ان کا اور ان کی پارٹی کا مضبوط دفاع کرسکیں۔ ان پولنگ ایجنٹوں کی باقاعدہ طور پر تربیتی نشستیں ہوتی تھیں جن میں انہیں اس بات کی تربیت دی جاتی تھی کہ وہ کس طرح دوسری سیاسی پارٹیوں کے گڑھ میں ووٹوں کی رفتار کو کم کرکے انہیں نقصان پہنچا سکتی ہیں، اور اس طرح وہ سیاسی قوتیں اپنی اس حکمت عملی کے تحت دوسرے پولنگ اسٹیشنوں جہاں ان کی قوت مضبوط ہوتی تھی، فا ئدہ اٹھا کر کامیاب ہوا کرتی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ اس وقت الیکشن میں ناکا می یا کامیابی کی صورت میں اس قسم کے الزامات سامنے نہیں آتے تھے۔ بالخصوص افواج پاکستان جو کہ اس سے قبل بھی پو لنگ اسٹیشنوں کے اندر اور باہر دونوں جگہ انتخابی عمل کو شفاف بنانے اور پرامن ماحول قائم رکھنے کےلیے تعینات کیے جا چکے ہیں، کے باوجود ان پر کسی قسم کا الزام عائد نہیں کیا جاتا تھا۔

اب بھی ضرور ت اس بات کی ہے کہ سیاسی پارٹیاں انتخابات میں ہونے والی شکست کو خندہ پیشانی سے تسلیم کریں اور اپنی سیاسی جماعتوں میں کرائے کے کارکنان کے بجائے پھر سے نظریے کے تحت کام کر نے والے کارکنان کو لے کر آئیں تو شاید آئندہ انتخابات میں انہیں پھر سے کامیابی نصیب ہوگی۔ ورنہ کرائے کے کارکنان اور پولنگ ایجنٹس کی صورت میں ذلت ہمیشہ ان کا مقدر رہے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story