سب کچھ ٹھیک نہیں تھا اللہ کا شکر ہے الیکشن ہوگئے چیف جسٹس

عدالت نے آئی بی فنڈزکی آڈٹ رپورٹ اور2009میں پنجاب حکومت گرانے سے متعلق خبر کے ثبوت مانگ لیے،آڈیٹر جنرل سے وضاحت طلب

نگراں وزیر اطلاعات کی اہلیہ کی شاپنگ کے لیے سرکاری فنڈ سے جاری 30 لاکھ روپے کو بھی خفیہ رکھا جا رہا ہے،اخبارنویس کا عدالت میں بیان۔ فوٹو: فائل

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اللہ کا شکر ہے کہ ملک میں انتخابات ہو گئے۔

آئی بی فنڈز کے مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے یہ ریمارکس دیے اور کہا کہ سب کچھ بالکل ٹھیک نہیں تھا مگر شکر ہے الیکشن ہوگئیاور قدریِ بہتر ماحول میں ہوئے۔جمعرات کو انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے فنڈز مبینہ طورپر2009میں پنجاب حکومت کو گرانے کیلیے استعمال کرنے کے بارے ازخود نوٹس کے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ تمام سرکاری خفیہ فنڈز قابل آڈٹ ہیں اور انھوں نے آڈیٹر جنرل سے انٹیلی جنس بیورو(آئی بی)کے خفیہ فنڈز کی آڈٹ رپورٹ طلب کرلی ہے ۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے آڈیٹر جنرل سے وضاحت طلب کی ہے کہ اگر اب تک آئی بی کے خفیہ فنڈز کا آڈٹ نہیں ہو سکا ہے تو اس کی وجوہات کیا ہیں؟عدالت نے اس بارے میں اٹارنی جنرل، سیکریٹری خزانہ اور ڈائریکٹر جنرل آئی بی سے بھی رپورٹ طلب کی ہے، جبکہ پنجاب حکومت کو گرانے کے لیے انٹیلی جنس بیورو(آئی بی ) کے فنڈز کے استعمال کے الزامات کی تصدیق کے لیے رپورٹ شائع کرنے والے اخبار نویس سے بھی ثبوت طلب کیے ہیں۔

عدالت نے رپورٹر اسد کھرل کو ہدایت کی ہے کہ اپنی رپورٹ کی تصدیق کے لیے وہ اگر چاہیں تو ان کیمرہ ثبوت بھی دے سکتے ہیں،دوسری صورت میں عدم ثبوت کی بنیاد پر مقدمہ نمٹا دیا جائے گا۔ اٹارنی جنرل عرفان قادر نے فنڈز کے استعمال کے بارے خفیہ رپورٹ عدالت میں پیش کی اور اسے خفیہ رکھنے کی استدعا کی۔ عدالت کے استفسار پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ انٹیلی جنس اداروں کے فنڈز کو خفیہ رکھنے اور آڈٹ نہ کرنے کے بارے میں کچھ قوانین موجود ہیں، اگر وہ قوانین آئین سے متصادم ہیں تو عدالت انھیں کالعدم قراردیدے۔




جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ ہمارے سامنے یہ نکتہ زیر غور نہیں،آڈٹ سے استثنٰی کسی کو نہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ تمام سرکاری اخراجات کا آڈٹ آئینی تقاضہ ہے تاہم قانون نے آڈیٹر جنرل کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ آڈٹ کے بعد کچھ اخراجات کی تفصیل قومی مفاد میں خفیہ رکھ سکتے ہیں لیکن آڈٹ ہر صورت میں ہو گا۔اسد کھرل نے عدالت کو بتایا کہ نگراں وزیر اطلاعات عارف نظامی کی اہلیہ کی شاپنگ کے لیے سرکاری فنڈ سے 30 لاکھ روپے دیے گئے، اس کو بھی خفیہ رکھا جا رہا ہے ۔اٹارنی جنرل نے کہاکہ آڈیٹر جنرل کی کمزوری ہے کہ وہ ان فنڈز کا آڈٹ نہیں کر سکے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئی بی نے اپنی رپورٹ میں حکومت گرانے کے الزام کی تردید کر دی ہے اور کہا ہے کہ مبینہ رقم جس مقصد کے لیے جاری ہوئی قانون اس طرح کے کورآپریشن کی اجازت دیتا ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ وزارت خزانہ کی رپورٹ کے مطابق 40 کروڑ روپے آئی بی کو جاری ہوئے جبکہ رپورٹ میں صرف 27کروڑ کا تذکرہ ہے۔ اسد کھرل نے کہا کہ ان کے ذرائع نے انھیں صحیح اطلاعات فراہم کی تھیں اور وہ اب بھی اپنی رپورٹ پر قائم ہیںکہ یہ رقم پنجاب حکومت کو گرانے کے لیے استعمال ہوئی۔چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت اطلاعات پر فیصلے نہیں کر سکتی اور ہم کسی ایسے راستے پر نہیں جائیں گے جس سے ہر چیز سبو تاژ ہو جائے،اگر باقی تفصیلات نہیں تو صرف اتنا بتا دیا جائے کہ یہ رقم کس کس کو ملی، محض الزام پر فیصلہ نہیں دیا جا سکتا۔ عدالت نے اخبار نویس کو ثبوت کی فراہمی کے لیے 15مئی تک کی مہلت دے دی۔
Load Next Story