پلانٹڈ سیاسی پودا اور مردہ ڈولفن

انڈس ڈولفن کو اللہ نے آنکھیں تو دے رکھی ہیں لیکن وہ چمگادڑ کی طرح آواز کی مدد سے راستہ اور شکار تلاش کرتی ہے

ہماری پیاری اندھی ڈولفن تازہ سانس لینے کیلئے سطح آب کا راستہ ہی بھول گئی اور دم گھٹ کر پانی میں ڈوب گئی۔ (فوٹو: فائل)

KARACHI:
آج کل ہمارے یہاں "محکمہ زراعت" والوں کا توتی بولتا ہے، اور جب سے "غذائی تحفظ" (فوڈ سیکیورٹی) کے مسئلے نے سراٹھایا ہے، تب سے "محکمہ زراعت" نے بھی جگہ جگہ "تحقیقی مراکز" کھول لیے ہیں جہاں وہ نت نئے تجربات کرتے رہتے ہیں۔ وہ ملک میں نئے نئے پودے لگاتے اور اجاڑتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ واقعہ چند برس قبل کراچی میں بھی پیش آیا جہاں محکمہ زراعت والوں نے ایک پودا پی ایس پی (پلانٹڈ سیاسی پارٹی) کے نام سے لگایا تھا جس کا مقصد آغاز میں تو معلوم نہ ہوسکا مگر حال ہی میں مون سون کی بارشوں کا موسم آیا تو پتا چلا کہ یہ نایاب جھاڑی نما پودا تو محض "پتنگیں" پکڑنے یا روکنے کےلیے لگایا گیا تھا تاکہ یہ "پتنگیں" محکمہ زراعت والوں کی دوسری "پلانٹڈ فصلیں" خراب نہ کرسکیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ یہ پودا پھل دینے کے بجائے پتنگوں اور ڈوروں میں ہی الجھ کر رہ گیا۔

"محکمہ زراعت" یعنی شعبہ زراعت کا بیشتر انحصار موسم اور پانی پر ہوتا ہے اور اسی طرح مویشی گھاس پھوس اور چارے کے بغیر جبکہ مچھلیاں پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتیں۔ چونکہ تینوں شعبے میں باہمی گہرا تعلق قائم ہے، اس لیے تینوں کو عام طور پر ایک وزارت کے ماتحت رکھا جاتا ہے، یعنی "وزارت زراعت لائیو اسٹاک اینڈ فشریز۔" بڑی سوچ بچار کے بعد آخرکار زرعی ماہرین کو وہی "جانور" مل گیا جسے "مچھلی" بھی کہا جاسکتا تھا، یعنی "ڈولفن۔"

سمندری مخلوقات میں ذہین ترین سمجھی جانے والی ڈولفن جسے مختلف کرتبوں کےلیے بھی سدھایا جاتا ہے اور یہ انسانی ہنسی جیسی آواز بھی نکالنے پر قدرت رکھتی ہے، دوسری مچھلیوں سے یکسر مختلف ہے۔ یہ پانی میں رہنے والا مگر ممالیہ (دودھ دینے والا) "جانور" ہے، ممالیہ جانور چونکہ مچھلیوں کی طرح پانی سے آکسیجن حاصل نہیں کرسکتے، اس لیے انہیں تھوڑی تھوڑی دیر بعد سانس لینے کےلیے سطح پر آنا پڑتا ہے۔

یوں تو ڈولفن دنیا کے بہت سے ممالک میں پائی جاتی ہے لیکن اندھی ڈولفن صرف پاکستان میں پائی جاتی ہے جسے انڈس ڈولفن، سندھی ڈولفن یا صرف ''اندھی ڈولفن'' بھی کہا جاتا ہے۔ انڈس ڈولفن کو اللہ نے آنکھیں تو دے رکھی ہیں لیکن وہ اندھی اس وجہ سے کہلاتی ہے کہ وہ ان آنکھوں سے دیکھتی نہیں بلکہ "چمگادڑ" کی طرح آواز کی مدد سے راستہ اور شکار تلاش کرتی ہے۔ ڈولفن کی یہ نایاب نسل اپنے اختتام کے قریب پہنچ چکی ہے۔ حال ہی میں کسی ساحل پر ایک مردہ اندھی ڈولفن کو دیکھ احساس ہوا کہ "محکمہ زراعت" والوں نے اگر اس کی افزائش نسل پر مزید توجہ نہ دی تو پاکستانی قوم بالخصوص کراچی کے عوام اس نایاب مچھلی سے محروم بھی ہوسکتے ہیں۔

حالیہ انتخابات میں یہ جان کر بے حد افسوس ہوا کہ ہماری پیاری اندھی ڈولفن اس قدر اندھی ہوگئی تھی کہ پانی کی سطح تک پہنچنے اور تازہ سانس لینے کا راستہ ہی بھول گئی اور دم گھٹ کر پانی میں ڈوب کر رہ گئی۔

خیر، ڈولفن کے ساتھ جو ہوا سو ہوا، جیپ اور کرین کے ساتھ بھی اچھا سلوک نہیں برتا گیا۔ شیر بیچارے کو بھی اسی لیے پابند سلاسل کیا گیا تھا کہ کہیں فصلیں خراب نہ کردے۔


خیر چھوڑیئے، ہمیں کیا لینا دینا ان باتوں سے۔ خوشی اس بات کی ہے کہ ملک میں مسلسل تیسری بار اقتدار کی "جمہوری" طریقے سے منتقلی، خواہ وہ جیسے بھی ہوئی ہو، نہایت ہی خوش آئند ہے۔ اگرچہ الزامات کی بوچھاڑ ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے؛ دھاندلی ہوئی ہو یا دھاندلا، الیکشن آیا اور چلا گیا، نئی حکومت بھی منتخب ہوگئی اور نیا وزیراعظم بھی شیروانی سلوا کر حلف اٹھانے کےلیے تیار بیٹھا ہے۔

سیاست میں الزامات کوئی نئی بات نہیں، مگر الزام وہی لگاتا ہے جسے اقتدار میں حصہ نہ ملا ہو۔ جسے کچھ مل جاتا ہے، اس کے لیے سب شفاف ہوجاتا ہے۔

اس بار بھی ایسا ہی ہے۔ الزام ہے کہ عام انتخابات میں خفیہ ہاتھ یا خلائی مخلوق نے کام دکھایا۔ یہ بھی کوئی نئی بات نہیں۔ جب سے پاکستان بنا ہے یہی کچھ ہوتا چلا آیا ہے اور جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے یہی سنا ہے مگر پھر بھی اس "غلط العام" کو ہم مکمل طور پر صحیح العام قرار دینے پر آمادہ نہیں۔ جب یہی خلائی مخلوق، خفیہ ہاتھ یا ایجنسیاں ہماری پسند کی سیاسی پارٹیوں کےلیے سرتوڑ کوششیں کر رہی ہوتی ہیں تو ہمیں کوئی خرابی نظر نہیں آتی بلکہ سب اچھا ہی دکھائی دیتا ہے۔ اور جب کسی دوسرے کی سپورٹ کرتی ہیں تو ہمیں دشمن لگنے لگتی ہیں اور ان کا کام ملک کےلیے خطرہ محسوس ہونے لگتا ہے۔

خیر! کچھ بھی ہو، اصل مسئلہ ہمارے اپنے ساتھ ہے کہ ہمارے اندر موجود جسٹس سسٹم (ضمیر) ہی انتہائی دقیانوسی ہے، اس کے پاس اصول پسندی نام کی کوئی چیز ہی موجود نہیں۔ اسے جو اچھا لگتا ہے، بس اسے ہی درست سمجھتا ہے اور جو اسے برا لگتا ہے وہ اسے ہی غلط سمجھتا ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ عدل کیا ہے، اور عدل کے عمل کو خود اپنی ذات سے کیسے شروع کیا جاتا ہے۔ اگر عدل کو اپنی ذات میں سمو نہیں سکتے تو پھر ہمیں اس دنیا اور اس معاشرے سے بھی عدل کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔

پس اگر ہم اپنے ذاتی معاملات میں ہی عدل کرنے والے بن جائیں اور بغیر کسی چشمے کے معاملات کا ادراک کرنے لگیں تو موجودہ اور ماضی (بالخصوص 2013 اور 2008) کی صورتحال میں کوئی فرق نظر نہیں آئے گا اور ہم اپنے سیاست کاروں کی ہار جیت پر جشن منانے یا ماتم کرنے کے بجائے ان کی شعبدہ بازیوں کو انجوائے کرنا شروع کردیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story