ہڈی جھپٹ سیاست کا تازہ دور
اب کہتے ہیں تحریک چلاویں گے مگر جس جس کے ہاتھ جو آیا اسے بھی پھینکنے کو تیار نہیں۔
اس بار سیاستدانوں کے تجزیے بھی مجھ جیسے صحافیوں جیسے نکلے۔نونیوں کو آخر تک امید تھی کہ نوے کا ہندسہ پار کر لیں گے مگر گاڑی چونسٹھ پر رک گئی۔آصف زرداری کا تجزیہ تھا کہ جو بھی حکومت سازی کرے گا، اسے پہلے ہماری چوکھٹ پر سلام کرنا ہوگا اور یہ کہ اس بار آزاد امیدوار اتنی بڑی تعداد میں کامیاب ہوں گے کہ حکومت سازی کا مارکیٹ ریٹ وہی نکالیں گے۔
متحدہ مجلسِ عمل کو یقین تھا کہ تنگ آئے لوگ پھر سے ان کی جانب رجوع کریں گے۔اے این پی کی قیادت سمجھتی تھی کہ پچھلی بار انھیں طالبانی تشدد نے کامیابی حاصل کرنے سے روکا مگر اس بار اتنا مینڈیٹ ضرور مل جائے گا کہ وہ خیبر پختون خوا میں کم ازکم مخلوط حکومت سازی میں اہم کردار ادا کر پائیں۔اور مسلم لیگ کے نونیوں کو پکا پکا معلوم تھا کہ پابندِ سلاسل نواز شریف اور مریم بی بی کا غصہ پنجابی عوام کے غیض میں بدل کر اتنا ووٹ پڑوائے گا کہ دشمنوں اور سازشیوں کے عزائم خاک میں مل جائیں گے۔
سندھ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے حلقوں میں یہ بحث چل نکلی تھی کہ اگلا وزیرِاعلی ایاز لطیف پلیجو ہوگا کہ حسنین مرزا کہ پیر صاحب پگارا کا کوئی فنگشنل مرید۔کیونکہ پیپلز پارٹی کے گڈ گورننس نے اوپر سے نیچے تک ہر سندھی کو پچھلے دس برس میں فل تپا دیا ہے۔
ایم کیو ایم کی کیلکولیشن تھی کہ کراچی کی اکیس سیٹوں میں سے دس سیٹیں تو ملی ہی ملیں۔تحریکِ انصاف کو تین سے چار سیٹیں بھی مل جائیں تو بڑی بات ہوگی۔مصطفیٰ کمال کی پاک سرزمین پارٹی کے ساتھی اس قدر پر امید تھے کہ شہری سندھ کی تیرہ سیٹیں تو جھولی میں گر ہی رہی ہیں۔ ذرا سا زور اور لگا لیا جائے تو سولہ بھی ہو سکتی ہیں۔
پیپلز پارٹی کی صوبائی قیادت کا تجزیہ یہ تھا کہ کراچی چونکہ اگست دو ہزار پندرہ میں بھائی کی خود کش تقریر کے نتیجے میں کھلا شہر بن چکا اور نئی انتخابی حلقہ بندیاں بھی پیپلز پارٹی کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں گی لہذا چھ سے آٹھ سیٹیں کراچی سے نہ نکالیں تو پھر پچاس برس سے سیاست کرنے کا فائدہ ؟ سب اپنی اپنی گنتی میں اتنے مست تھے کہ کوئی دیکھ ہی نہ پایا کہ تحریکِ لبیک کا ہاتھی بھی کھلی سیاسی چراگاہ میں گھس چکا ہے اور قومی سطح پر پانچویں اور کراچی کی حد تک تیسرے پائیدان پر کھڑا ٹکر ٹکر دیکھ رہا ہے۔لبیک نہ ہوتی تو لیاری بلاول کا ہوتا۔
دوسری جانب یہ تجزیے ہو رہے تھے کہ نتائج پہلے سے تیار ہو چکے ہیں۔پولنگ کا دن بس ایک رسم ہے۔ مرکز اور خیبر پختون خوا تحریکِ انصاف کو الاٹ ہو گا۔ شریفوں کی اشک شوئی کے لیے پنجاب کی زیادہ تر صوبائی نشستیں ان کے حوالے کر دی جائیں گی تاکہ وہ سادہ اکثریتی حکومت بنا لیں۔ جیسے دو ہزار تیرہ میں پیپلز پارٹی کو سندھ تک محدود کر دیا گیا۔
پنڈت کہہ رہے تھے کہ اس بار پیپلز پارٹی کو سندھ اسمبلی میں مضبوط اپوزیشن کا سامنا ہوگا اور اگر اس نے اصلی تے باتصویر اشرافیہ کی کچھ ضروری باتیں نہ مانی تو پھر سندھ میں اپوزیشن کو ویلڈ کر کے ایک جام صادق ٹائپ حکومت بنا دی جائے گی۔مگر یہ کیا ہوا ؟ سندھ میں تو پیپلز پارٹی پچھلی بار سے زیادہ سیٹیں لے گئی اور یہ شکوہ الگ کہ ہائے ہائے دھاندلی ہو گئی۔ تو پھر دھاندلی کس نے کس کے حق میں کی ؟
جنھیں اندر کی ضرورت سے زیادہ خبر تھی انھوں نے انتخابات سے دو ہفتے پہلے ہی خود سے سیٹیں بانٹنی شروع کر دیں۔بقول ان کے تحریکِ انصاف کی مرکز میں حکومت بنے گی ضرور مگر عمران خان کا دماغ سیٹ رکھنے کے لیے چوہدری نثار علی خان کی قیادت میں جیپ گروپ کو بھی ساتھ جوڑا جائے گا۔اور جو اکسٹھ الیکٹ ایبلز تحریکِ انصاف کو لیز کیے گئے ہیں ان کی وفاداریوں کی تلوار بھی خان کے سر پے لٹکا کے رکھی جائے گی تاکہ وہ اگلے پانچ برس سیدھی سیدھی بالنگ کرے اور باؤنسر ، شارٹ پچ گیند اور بہت زیادہ وائیڈ بالیں کرنے سے باز رہے۔
مگر یہ کیا ہوا ؟ یہ کیسا نقشہ بن گیا کہ مرکز اور پنجاب میں جو بھی حکومت بنائے گا اسے پوری مدت تگڑی اپوزیشن اتنا مصروف رکھے گی کہ منشور ونشور بھول کر اپنی ہی پڑی رہے گی۔اگر بادشاہ گروں کا یہی منصوبہ تھا تو وہ سو فیصد کامیاب ہو گیا۔جیپ گروپ، سندھ کا گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس ،کراچی کی پاک سرزمین پارٹی کے غبارے گرینڈ منصوبے سے توجہ ہٹانے کے لیے چھوڑے گئے لہذا وہ کام نکل جانے کے بعد فضا میں ہی پھٹ گئے۔
بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی مخلوط زہری حکومت کے خلاف جس سرفراز بگٹی نے پہلا بگلِ بغاوت بجایا تھا اسے وزارتِ اعلی کا خواب دکھا کر انتخابات میں پورا قالین ہی قدموں تلے سے گھسیٹ لیا گیا۔ بلوچستان عوامی پارٹی اگر اسٹیبلشمنٹ کی جماعت تھی تو اس کی گاڑی پندرہ سیٹوں پر کیوں رک گئی۔پچیس کیوں نہیں دلوائی گئیں۔ مطلب یہ ہوا کہ بلوچستان میں جو بھی پارٹی حکومت کرے اس کا نام بھلے کچھ بھی ہو مگر خدمت باپ کی طرح ہی بجا لائے گی۔لہذا باپ جیتے کہ بیٹا کیا فرق پڑتا ہے۔
مگر انجینرنگ ہوئی بھی تو کیسی ؟ بس اتنی کہ انتخابی ٹرک کھول کر انجن تحریکِ انصاف کو تھما دیا گیا اور پھر ڈھانچہ گیرج سے باہر کھڑا کر دیا گیا جس پر ہجوم ٹوٹ پڑا۔ ق لیگ کا ہاتھ بونٹ پر پڑ گیا، شیخ رشید ٹائر پکڑ کے نکل لیے۔ نونیوں کے حصے میں چیسز باڈی آگئی ، پیپلز پارٹی نے بیٹری اٹھا لی ، اے این پی نے سیٹ کور نوچ لیا ، اختر مینگل نے ٹائر بدلنے کی کٹ ہتھیا لی ، جی ڈی اے کو پچھلی دو بتیاں مل گئی ۔فضل الرحمان کو بس گئیر ہی مل پایا۔نثار علی خان کبھی خود کو تو کبھی جیپ کی تصویر کو دیکھ رہے ہیں اور پرسوز مصطفی کمال رندھے سر میں پاک سرزمین شاد باد گا رہے ہیں۔
اب کہتے ہیں تحریک چلاویں گے مگر جس جس کے ہاتھ جو آیا اسے بھی پھینکنے کو تیار نہیں۔جس کا جہاں بس چلا حکومت بھی بنائیں گے یا شامل ہوں گے مگر چرائے ہوئے الیکشن پر سینہ کوبی بھی جاری رہے گی۔ایسے نتائج اور ایسی اپوزیشن کسی بھی انجینیر کے لیے من و سلویٰ سے کم نہیں۔اگلے پانچ برس کے لیے ہڈی جھپٹ سیاست کا ایک اور دور مبارک ہو۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
متحدہ مجلسِ عمل کو یقین تھا کہ تنگ آئے لوگ پھر سے ان کی جانب رجوع کریں گے۔اے این پی کی قیادت سمجھتی تھی کہ پچھلی بار انھیں طالبانی تشدد نے کامیابی حاصل کرنے سے روکا مگر اس بار اتنا مینڈیٹ ضرور مل جائے گا کہ وہ خیبر پختون خوا میں کم ازکم مخلوط حکومت سازی میں اہم کردار ادا کر پائیں۔اور مسلم لیگ کے نونیوں کو پکا پکا معلوم تھا کہ پابندِ سلاسل نواز شریف اور مریم بی بی کا غصہ پنجابی عوام کے غیض میں بدل کر اتنا ووٹ پڑوائے گا کہ دشمنوں اور سازشیوں کے عزائم خاک میں مل جائیں گے۔
سندھ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے حلقوں میں یہ بحث چل نکلی تھی کہ اگلا وزیرِاعلی ایاز لطیف پلیجو ہوگا کہ حسنین مرزا کہ پیر صاحب پگارا کا کوئی فنگشنل مرید۔کیونکہ پیپلز پارٹی کے گڈ گورننس نے اوپر سے نیچے تک ہر سندھی کو پچھلے دس برس میں فل تپا دیا ہے۔
ایم کیو ایم کی کیلکولیشن تھی کہ کراچی کی اکیس سیٹوں میں سے دس سیٹیں تو ملی ہی ملیں۔تحریکِ انصاف کو تین سے چار سیٹیں بھی مل جائیں تو بڑی بات ہوگی۔مصطفیٰ کمال کی پاک سرزمین پارٹی کے ساتھی اس قدر پر امید تھے کہ شہری سندھ کی تیرہ سیٹیں تو جھولی میں گر ہی رہی ہیں۔ ذرا سا زور اور لگا لیا جائے تو سولہ بھی ہو سکتی ہیں۔
پیپلز پارٹی کی صوبائی قیادت کا تجزیہ یہ تھا کہ کراچی چونکہ اگست دو ہزار پندرہ میں بھائی کی خود کش تقریر کے نتیجے میں کھلا شہر بن چکا اور نئی انتخابی حلقہ بندیاں بھی پیپلز پارٹی کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں گی لہذا چھ سے آٹھ سیٹیں کراچی سے نہ نکالیں تو پھر پچاس برس سے سیاست کرنے کا فائدہ ؟ سب اپنی اپنی گنتی میں اتنے مست تھے کہ کوئی دیکھ ہی نہ پایا کہ تحریکِ لبیک کا ہاتھی بھی کھلی سیاسی چراگاہ میں گھس چکا ہے اور قومی سطح پر پانچویں اور کراچی کی حد تک تیسرے پائیدان پر کھڑا ٹکر ٹکر دیکھ رہا ہے۔لبیک نہ ہوتی تو لیاری بلاول کا ہوتا۔
دوسری جانب یہ تجزیے ہو رہے تھے کہ نتائج پہلے سے تیار ہو چکے ہیں۔پولنگ کا دن بس ایک رسم ہے۔ مرکز اور خیبر پختون خوا تحریکِ انصاف کو الاٹ ہو گا۔ شریفوں کی اشک شوئی کے لیے پنجاب کی زیادہ تر صوبائی نشستیں ان کے حوالے کر دی جائیں گی تاکہ وہ سادہ اکثریتی حکومت بنا لیں۔ جیسے دو ہزار تیرہ میں پیپلز پارٹی کو سندھ تک محدود کر دیا گیا۔
پنڈت کہہ رہے تھے کہ اس بار پیپلز پارٹی کو سندھ اسمبلی میں مضبوط اپوزیشن کا سامنا ہوگا اور اگر اس نے اصلی تے باتصویر اشرافیہ کی کچھ ضروری باتیں نہ مانی تو پھر سندھ میں اپوزیشن کو ویلڈ کر کے ایک جام صادق ٹائپ حکومت بنا دی جائے گی۔مگر یہ کیا ہوا ؟ سندھ میں تو پیپلز پارٹی پچھلی بار سے زیادہ سیٹیں لے گئی اور یہ شکوہ الگ کہ ہائے ہائے دھاندلی ہو گئی۔ تو پھر دھاندلی کس نے کس کے حق میں کی ؟
جنھیں اندر کی ضرورت سے زیادہ خبر تھی انھوں نے انتخابات سے دو ہفتے پہلے ہی خود سے سیٹیں بانٹنی شروع کر دیں۔بقول ان کے تحریکِ انصاف کی مرکز میں حکومت بنے گی ضرور مگر عمران خان کا دماغ سیٹ رکھنے کے لیے چوہدری نثار علی خان کی قیادت میں جیپ گروپ کو بھی ساتھ جوڑا جائے گا۔اور جو اکسٹھ الیکٹ ایبلز تحریکِ انصاف کو لیز کیے گئے ہیں ان کی وفاداریوں کی تلوار بھی خان کے سر پے لٹکا کے رکھی جائے گی تاکہ وہ اگلے پانچ برس سیدھی سیدھی بالنگ کرے اور باؤنسر ، شارٹ پچ گیند اور بہت زیادہ وائیڈ بالیں کرنے سے باز رہے۔
مگر یہ کیا ہوا ؟ یہ کیسا نقشہ بن گیا کہ مرکز اور پنجاب میں جو بھی حکومت بنائے گا اسے پوری مدت تگڑی اپوزیشن اتنا مصروف رکھے گی کہ منشور ونشور بھول کر اپنی ہی پڑی رہے گی۔اگر بادشاہ گروں کا یہی منصوبہ تھا تو وہ سو فیصد کامیاب ہو گیا۔جیپ گروپ، سندھ کا گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس ،کراچی کی پاک سرزمین پارٹی کے غبارے گرینڈ منصوبے سے توجہ ہٹانے کے لیے چھوڑے گئے لہذا وہ کام نکل جانے کے بعد فضا میں ہی پھٹ گئے۔
بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی مخلوط زہری حکومت کے خلاف جس سرفراز بگٹی نے پہلا بگلِ بغاوت بجایا تھا اسے وزارتِ اعلی کا خواب دکھا کر انتخابات میں پورا قالین ہی قدموں تلے سے گھسیٹ لیا گیا۔ بلوچستان عوامی پارٹی اگر اسٹیبلشمنٹ کی جماعت تھی تو اس کی گاڑی پندرہ سیٹوں پر کیوں رک گئی۔پچیس کیوں نہیں دلوائی گئیں۔ مطلب یہ ہوا کہ بلوچستان میں جو بھی پارٹی حکومت کرے اس کا نام بھلے کچھ بھی ہو مگر خدمت باپ کی طرح ہی بجا لائے گی۔لہذا باپ جیتے کہ بیٹا کیا فرق پڑتا ہے۔
مگر انجینرنگ ہوئی بھی تو کیسی ؟ بس اتنی کہ انتخابی ٹرک کھول کر انجن تحریکِ انصاف کو تھما دیا گیا اور پھر ڈھانچہ گیرج سے باہر کھڑا کر دیا گیا جس پر ہجوم ٹوٹ پڑا۔ ق لیگ کا ہاتھ بونٹ پر پڑ گیا، شیخ رشید ٹائر پکڑ کے نکل لیے۔ نونیوں کے حصے میں چیسز باڈی آگئی ، پیپلز پارٹی نے بیٹری اٹھا لی ، اے این پی نے سیٹ کور نوچ لیا ، اختر مینگل نے ٹائر بدلنے کی کٹ ہتھیا لی ، جی ڈی اے کو پچھلی دو بتیاں مل گئی ۔فضل الرحمان کو بس گئیر ہی مل پایا۔نثار علی خان کبھی خود کو تو کبھی جیپ کی تصویر کو دیکھ رہے ہیں اور پرسوز مصطفی کمال رندھے سر میں پاک سرزمین شاد باد گا رہے ہیں۔
اب کہتے ہیں تحریک چلاویں گے مگر جس جس کے ہاتھ جو آیا اسے بھی پھینکنے کو تیار نہیں۔جس کا جہاں بس چلا حکومت بھی بنائیں گے یا شامل ہوں گے مگر چرائے ہوئے الیکشن پر سینہ کوبی بھی جاری رہے گی۔ایسے نتائج اور ایسی اپوزیشن کسی بھی انجینیر کے لیے من و سلویٰ سے کم نہیں۔اگلے پانچ برس کے لیے ہڈی جھپٹ سیاست کا ایک اور دور مبارک ہو۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)