آٹھ گھنٹے کام آٹھ گھنٹے تفریح ایک طویل جدوجہد کی دلچسپ کہانی

مقصد پانے کے لیے برطانیہ میں ’’آٹھ گھنٹے کا دن‘‘ کے نام سے ایک تحریک چلائی گئی۔

مقصد پانے کے لیے برطانیہ میں ’’آٹھ گھنٹے کا دن‘‘ کے نام سے ایک تحریک چلائی گئی۔ فوٹو : فائل

آج کے دور میں دفاتر میں آٹھ گھنٹے کام کرنا کم و بیش ساری دنیا میں مروجہ اصول سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ملازمین کو یہ حق حاصل کرنے کے لیے بہت طویل جدوجہد کرنا پڑی جس کی طویل تاریخ ہے۔

یہ مقصد پانے کے لیے برطانیہ میں ''آٹھ گھنٹے کا دن'' کے نام سے ایک تحریک چلائی گئی جسے ''40 گھنٹے کا ہفتہ'' یا ''مختصر مدت تحریک'' بھی کہا جاتا ہے۔یہ ایک سماجی تحریک تھی جس کا مقصد کام کے اوقات کو کسی ضابطے میں لانا تھا تاکہ ملازمین کی حق تلفی اور استحصال کو روکا جاسکے۔

اس تحریک کا آغاز جیمز ڈیب نامی شخص نے کیا اور اس کی جڑیں برطانیہ کے صنعتی انقلاب میں تھیں، جہاں بڑے پیمانے پر صنعتی پیداوار نے ملازمین کی زندگی بدل کر رکھ دی ۔ اس دور کے برطانیہ میں بچوں سے مشقت لینا معمول کی بات تھی۔ مزدوروں کے کام کے اوقات روزانہ 10 سے 16 گھنٹوں پر مشتمل ہوتے تھے اور انہیں ہفتے میں بمشکل ایک چھٹی مل پاتی ۔


اس ضمن میں 1810ء میں رابرٹ اوون نے دس گھنٹے یومیہ کام کی تحریک شروع کی۔ سات سال کی تحریک کے بعد یہ مطالبہ 8 گھنٹے یومیہ تک پہنچ گیاجس کا نعرہ تھا: ''آٹھ گھنٹے کام، آٹھ گھنٹے تفریح اور آٹھ گھنٹے آرام۔'' سب سے پہلے برطانیہ میں خواتین اور بچوں کو دس گھنٹے یومیہ کام کرنے کا حق 1847ء میں ملا۔ اس کے بعد فرانسیسی مزدوروں کی زندگی میں آسانی اس وقت آئی جب ان کے کام کا دورانیہ بارہ گھنٹے یومیہ مقرر کیا گیا۔

مزدوروں کو ان کے حقوق دلوانے کے لیے عظیم فلسفی کارل مارکس کے نظریات نے بنیادی کردار ادا کیا۔ انہوں نے سرمایہ دارانہ معاشرے میں مزدوروں کے استحصال کو اپنی تحریروں او رنظریات کا موضوع بنایا اور پورے یورپ کے مزدوروں کو جگا دیا۔

متعدد ممالک میں مزدوروں کے اوقات کار طے کرنے کے لیے تحریک چلائی گئی جس کے نتیجے میں پہلے اوقات کار بارہ گھنٹے، پھر دس گھنٹے اور بالآخر یوراگوائے میں پہلی بار آٹھ گھنٹے یومیہ مقرر کیے گئے۔ تاریخی اہمیت کا یہ قانون 17 نومبر 1915ء کے روز نافذ العمل ہوا، جس کے اثرات رفتہ رفتہ باقی دنیا تک بھی پہنچ گئے اور آٹھ گھنٹے کی شفٹ ہر جگہ رواج پا گئی۔
Load Next Story