بجلی کا بحران عذابِ جان

گیہوں اور چاول کے بھوسے سے جو یوں ہی ضایع چلا جاتا ہے 3000 تا 4000...

S_afarooqi@yahoo.com

بے لگام مہنگائی اوربڑھتی ہوئی لوڈشیڈنگ دو ایسے سنگین قومی مسئلے ہیں جنھوں نے وطنِ عزیز کے مظلوم عوام کا ناطقہ بند کر رکھا ہے۔ مگر شاباش ہے ہماری عوامی حکومت کو کہ محض زبانی جمع خرچ کے علاوہ اس نے ان دونوں شعبوں میں اب تک کچھ بھی کرکے نہیں دِکھایا ہے۔ غیر معینہ اورغیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ نے ایک طرف عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے تو دوسری جانب صنعتوں کا پہیہ جام کردیا ہے، جس کے نتیجے میں نہ صرف بیرونی سرمایہ کاروں نے پاکستان کا رخ کرنا چھوڑ دیا ہے بلکہ خود پاکستانی سرمایہ کار اور صنعت کار بنگلہ دیش، سری لنکا، ملائیشیا، کینیڈا، مشرق وسطیٰ اور بعض دیگر ممالک کا رخ کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں بھارت کی طرف سے پاکستانی سرمایہ کاروں کو حال ہی میں دی جانے والی اجازت نے تو گویا تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے۔

یوں تو ملک بھر میں بجلی کی آنکھ مچولی کا کھیل جاری ہے لیکن گزشتہ 4 اگست کی شب کو تو گویا پورا عروس البلاد اپنی تاریخ کے بدترین اندھیروں میں ڈوب گیا۔ بس ایک قیامتِ صغریٰ کا سا سماں تھا۔ معصوم بچّے گرمی اور اندھیرے کے مارے بری طرح رو اور چلاّ رہے تھے جب کہ بزرگ اور مریض بے بسی کے عالم میں کراہ اور بلبلا رہے تھے۔ ہر کسی کی زبان پر یہی الفاظ تھے کہ اندھیر نگری چوپٹ راج۔ جس طرح چوروں اور ڈاکوئوں سمیت بڑے بڑے مجرموں کے پاس اپنے اپنے جرائم کے دفاع کا کوئی نہ کوئی لولا لنگڑا بہانہ یا جواز ہوتا ہے۔ اسی طرح بجلی کی فراہمی والے اداروں کے پاس بھی اپنی کوتاہی اور نااہلی کے دفاع کا کوئی نہ کوئی استدلال ہوتا ہے۔

لہٰذا کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ 6 اگست پیر کے اخبار میں کے ای ایس سی نامی بجلی کی فراہمی کے ادارے کی جانب سے ایک اشتہار ایک موقر انگریزی روزنامہ کے آخری صفحے پر ہماری نظر سے گزرا، جس کے ذریعے ادارے کی انتظامیہ نے نہایت خوبصورتی کے ساتھ اپنی ناقص کارکردگی کی پردہ پوشی کرتے ہوئے اپنے انجینئرز اور مینجمنٹ کی انتھک کوششوں کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ یہ معذرت نامہ کم و بیش اسی طرح کی حرکت ہے جو جارح امریکا نے اپنے ظالمانہ ڈرون حملوں کے دفاع میں ناٹو کی سپلائی بحال کرانے کے لیے ''سوری'' کہنے کی صورت میں کی ہے۔

یہ بھی کیا حسن اتفاق ہے کہ کے ای ایس سی کی مینجمنٹ کی جانب سے یہ معذرت نامہ ٹھیک اسی تاریخ کو شایع ہوا ہے جس روز آج سے 67 سال قبل ظالم و جابر امریکا نے ہیروشیما پر ایٹم بم گرایا تھا۔ اس ہولناک تباہی کے مناظر کی تصویریں اور باقیات جائے وقوعہ پر قائم عجائب گھر میں آج تک محفوظ ہیں جس کے ہم عینی شاہد ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ جس وقت یہ معذرت نامہ مذکورہ اخبار میں چھپ رہا ہوگا، لگ بھگ اسی وقت یا اس کے آس پاس یک بیک بجلی پھر غائب ہوگئی۔ یہ کالم سپردِ قلم کرتے وقت ہم سوچ رہے ہیں کہ کیا ایک اور معذرت نامہ اگلے روز شایع کرایا جائے گا اور اگر ایسا ہوگا تو اس کی زبان اور عبارت آرائی کی صورت کیا ہوگی کیونکہ 6 اگست کے معذرت نامے میں یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ 4 اگست کے بریک ڈائون کی مکمل چھان بین کرائی جائے گی تاکہ آیندہ ایسی صورت حال پیدا نہ ہو۔

کے ای ایس سی کی جانب سے شایع ہونے والے اس معذرت نامہ نے اس زمانے کی یاد تازہ کرالی ہے جب کسی اخبار میں کسی بھی محکمے کے خلاف معمولی سی شکایت کا چھپ جانا بھی اس محکمے کے ماتھے پر ایک کلنک کا ٹیکہ تصور کیا جاتا تھا۔ مگر اب تو عالم یہ ہے کہ بجلی کے محکمے کے ناکام اور رینٹل کے نام سے بدنام وزیر بے تدبیر کو ترقی دے کر وزیراعظم بنادیا گیا ہے۔ نوبت بہ ایں جا رسید کہ


ہم نے سوچا تھا کہ حاکم سے کریں گے فریاد
وہ بھی کم بخت ترا چاہنے والا نکلا

سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت جو اپنے وجود کا اخلاقی جواز اور عوام کی نظروں میں اپنا اعتبار اور وقار (اگر کوئی تھا) کھوچکی ہے آیندہ انتخابات میں وہ بھلا کس منہ سے حصہ لے گی اور ملک کے عوام سے اپنے کن کارناموں کی بنیاد پر ووٹ مانگے گی؟ یکے بعد دیگرے اتوار 5 اگست کی شام بجلی کے شدید اور سنگین دوسرے بریک ڈائون کے نتیجے میں آدھا کراچی تاریکی میں ڈوب گیا اور پورا نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا۔ مساجد میں نماز تراویح گھپ اندھیرے اور ہوش اڑا دینے والی گھٹن اور گرمی میں ادا کی گئی جب کہ آیندہ روز روزہ رکھنے والے عام شہریوں کو (جو یو پی ایس اور جنریٹر کی سہولت کے متحمل نہیں ہوسکتے) سحری کے وقت ناقابل بیان اذیت اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔

انتہا تو یہ ہے کہ نمازِ فجر بھی تاریکی اور حبس کی فضا میں ادا کرنا پڑی۔ بجلی کے اس زبردست بریک ڈائون سے ہوائی اڈے، بندرگاہ، اسپتال اور دیگر حسّاس مقامات بری طرح متاثر ہوئے۔ بجلی کے اس ناگہانی بریک ڈائون نے گلیوں، بازاروں اور مارکیٹوں کی رونقوں کو بحرِ ظلمات میں ڈبو دیا اور شہر کے متاثرہ علاقوں بالخصوص اولڈ سٹی ایریا میں پانی کی شدید قلت کا سنگین مسئلہ پیدا ہوگیا۔ اس کے علاوہ ٹریفک کا نظام بھی درہم برہم ہوا اور بے بسی کے عالم میں بے شمار شہری اپنے گھر بھی نہ پہنچ سکے۔ ایک طرف بجلی کی لوڈشیڈنگ اور بار بار بریک ڈائون کا مسئلہ ہے تو دوسری جانب حکومتِ وقت بجلی کے نرخوں میں وقفے وقفے سے اتنا ظالمانہ اضافہ کررہی ہے کہ لوگوں کی قوتِ برداشت سے باہر ہے۔

توانائی کے شعبے میں حکومت کی مایوس کن کارکردگی کے حوالے سے ایک اور بری خبر یہ ہے کہ تھر میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والی 4 ملٹی نیشنل کمپنیوں نے کام روک دیا ہے۔ اس کارروائی کا بنیادی سبب گردشی قرضوں میں مزید اضافہ ہے۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے 100 میگاواٹ کے منصوبے پر کام مطلوبہ فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے پہلے ہی ٹھپ پڑا ہوا ہے۔ پارلیمانی کمیٹی کو دی گئی ایک بریفنگ میں بتایا گیا ہے کہ ہمارے انتہائی دوست ملک چین نے بھی حکومتی پالیسیوں کے باعث تھرکول منصوبے میں دلچسپی لینی چھوڑ دی ہے۔ اس بات کا شدید خدشہ موجود ہے کہ اگر اصلاحِ احوال کی کوئی صورت نہ نکلی تو آنے والے وقتوں میں پاکستان کا بجلی کا بحران کئی گنا بڑھ جائے گا کیونکہ 2030 تک پاکستان کو 50 ہزار میگاواٹ بجلی درکار ہوگی جو کہ موجودہ پیداوار سے تین گنا زیادہ ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان گنے، گیہوں اور چاول کے بھوسے سے جو یوں ہی ضایع چلا جاتا ہے 3000 تا 4000 میگاواٹ بجلی پیدا کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ جانوروں کے گوبر سے بھی 500 تا 1000 میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے، جس طرح پڑوسی ملک بھارت میں ہورہا ہے۔ اس کے علاوہ ہم سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے ذریعے گھریلو کچرے سے بھی بجلی پیدا کرسکتے ہیں۔ ہمارا ایک اور المیہ یہ ہے کہ ہم نے ہوا کی طاقت سے بجلی پیدا کرنے کے ایک اور اہم ذریعے کو بھی اب تک نظرانداز کر رکھا ہے اور اسے خاطر خواہ اہمیت نہیں دی جارہی ہے۔

الحمدﷲ شمسی توانائی ہمارے یہاں وافر مقدار میں موجود ہے اور ہم مغربی ممالک کے مقابلے میں اس معاملے میں انتہائی خوش قسمت ہیں۔ توانائی کا یہ بہترین ذریعہ بالکل مفت بھی ہے اور ہمہ وقت دستیاب بھی ہے۔ بس یوں سمجھیے کہ یہ قدرت کا ایک بے مول تحفہ ہے جس سے خاطر خواہ فائدہ اٹھا کر ہم توانائی کے بحران کو بڑی حد تک ختم کرسکتے ہیں۔ بجلی کے بحران کے خاتمے کے حوالے سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت انھیں فری ہینڈ دے تو وہ یہ بحران ایک ماہ کے اندر ختم کرسکتے ہیں مگر سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ اگر بجلی کا بحران ختم ہوگیا تو وزیروں کو کمیشن کہاں سے ملے گا؟
Load Next Story