خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے کے لئے تحریک انصاف کے پارٹیوں سے رابطے
خیبرپختونخوا کی عوام نے 1990 ء کے عشرے میں ہر الیکشن میں مینڈیٹ تبدیل کرتے ہوئے نئی پارٹی ۔۔۔
خیبرپختونخوا کی عوام نے 1990 ء کے عشرے میں ہر الیکشن میں مینڈیٹ تبدیل کرتے ہوئے نئی پارٹی اور قیادت کو حکومت بنانے کا موقع دینے کی جو روایت قائم کی تھی وہ روایت بدستور جاری ہے اور رواں صدی کے تیسرے عام انتخابات میں ایم ایم اے اور عوامی نیشنل پارٹی وپیپلزپارٹی کے بعد اب صوبہ کی عوام نے پاکستان تحریک انصاف کو مینڈیٹ دیتے ہوئے صوبہ میں حکومت بنانے کا موقع دیا ہے۔
مذکورہ نتائج کئی پارٹیوں اور خصوصی طور پر عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلزپارٹی کے لیے انتہائی غیر متوقع ہیں کیونکہ صوبائی اسمبلی میں اے این پی سمٹ کر 6 جبکہ پیپلزپارٹی دو نشستوں تک محدود ہوگئی ہے جبکہ پیپلزپارٹی کو تو قومی اسمبلی کی بھی کوئی نشست حاصل نہیں ہوئی اور اے این پی جو صوبہ سے قومی اسمبلی کی دس سے زائد نشستیں حاصل کرنے کی توقع کررہی تھی اسے صرف ایک ہی نشست مل پائی ہے ،اے این پی اور پیپلزپارٹی کا یہ حشر کیوں ہوا؟اور اس میں ان پارٹیوں کی پالیسیوں ،ان کے اعلانیہ اور غیر اعلانیہ مشیروں اور ٹکٹوں کی تقسیم کے موقع پر غلط فیصلوں کا کس قدر کردار ہے۔
ان پر دونوں پارٹیوں میں غور ہورہا ہے اور پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر کے مستعفی ہونے کے بعد توقع کی جارہی ہے کہ اے این پی بھی اسی قسم کا فیصلہ کرے گی کیونکہ عوام نے ان دونوں پارٹیوں کو بہرکیف مسترد کردیا ہے جس کے بعد اصولی طور پر ان کی لیڈر شپ کو بھی ایک سائیڈ پر ہوتے ہوئے نئی قیادت کو آگے آنے کا موقع دینا چاہیے ۔
تحریک انصاف جو پورے ملک میں تبدیلی لانے کی بات کررہی تھی اسے سب سے زیادہ پذیرائی خیبرپختونخوا میں حاصل ہوئی ہے جہاں تحریک انصاف کے ٹکٹوں پر پہلی مرتبہ الیکشن کے لیے میدان میں اترنے والے درجنوں امیدوار قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کامیاب ہوئے ہیں،تحریک انصاف کو خیبرپختونخوا اسمبلی کی دیگر پارٹیوں کی نسبت سب سے زیادہ نشستیں حاصل ہونے کے بعد اگرچہ مولانا فضل الرحمٰن اور میاں نواز شریف کے درمیان ہونے والے رابطہ نے ہلچل مچادی تھی۔
کیونکہ اس رابطہ کے بعد صوبہ میں جے یو آئی کے قائدین متحرک ہوگئے اور انہوں نے صوبہ میں حکومت سازی کے لیے دیگر پارٹیوں کے ساتھ رابطوں کا سلسلہ بھی شروع کردیا تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے باعث تحریک انصاف کا یہ پہلا حق ہے کہ وہ صوبہ میں دیگرپارٹیوں کو ساتھ ملا کر اپنی حکومت بنائے اور تحریک انصاف نے اس سلسلے میں کھل کر کام شروع کردیا ہے جس کے ساتھ جماعت اسلامی بھی آکر کھڑی ہوگئی ہے اور ممکنہ طور پر قومی وطن پارٹی بھی تحریک انصاف ہی کا ساتھ دے گی۔
کیونکہ اگر یہ تینوں پارٹیاں اکھٹی ہوتی ہیں تو حکومت سازی کے لیے تحریک انصاف کے پاس نمبرز پورے ہوجاتے ہیں اور اس صورت میں آزاد امیدوار اور دیگر ارکان بھی اس سہ جماعتی اتحاد ہی کا ساتھ دیں گے جس سے ان کی حکومت سہولت کے ساتھ بن جائے گی تاہم مسلہ یہ ہوگا کہ اگر زیادہ آزاد ارکان اس سہ جماعتی اتحاد کے ساتھ شامل ہوئے تو اس صورت میں مشکلات ہوں گی کیونکہ اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبائی کابینہ اب پندرہ ارکان سے زائد پر مشتمل نہیں ہوسکتی جبکہ آزاد ارکان وزارتوں کے حصول ہی کے لیے حکومتوں کا رخ کرتے ہیں۔
تحریک انصاف کی کامیابی کے بعد سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ اگر تحریک انصا ف صوبہ میں حکومت بناتی ہے تو وزارت اعلیٰ کا امیدوار کون ہوگا ؟حالانکہ حالات پر نظر رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں اور وہ اس بات کا اظہار بھی کررہے تھے کہ وزارت اعلیٰ کے لیے پی ٹی آئی کی جانب سے اصل ا میدوار پرویز خٹک ہی ہیں کیونکہ وہ مختلف انتخابات میں اسمبلی رکن کے طور پر منتخب بھی ہوتے رہے ہیں اور صوبائی وزیر کے طورپر بھی دو سے تین مرتبہ کام کرچکے ہیں تاہم کچھ حلقے بوجہ پی ٹی آئی کے صوبائی صدر اسد قیصر ،جنرل سیکرٹری شوکت یوسفزئی اور بعض دیگر نام لے رہے تھے ۔
جبکہ کچھ حلقے تو یوسف ایوب اور سردار ادریس کے ناموں کی مالا بھی جپ رہے تھے تاہم پارٹی کے چیئرمین عمران خان نے وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کے عہدہ کے لیے پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری پرویز خٹک کو نامزد کرتے ہوئے یہ کنفیوژن دور کردی ہے جو انتہائی مناسب فیصلہ ہے اور اس نامزدگی کے بعد پرویز خٹک نے بھی کھل کر کھیلنا شروع کردیا ہے، انہوں نے نہ صرف جماعت اسلامی کے سراج الحق کے ساتھ باقاعدہ نشست کرتے ہوئے معاملات کو حتمی شکل دی ہے بلکہ قومی وطن پارٹی کے ساتھ بھی ان کے رابطے نتیجہ خیز ہونے کا امکان ہے۔
کیونکہ پرویز خٹک اس وقت بھی آفتاب شیر پاؤ کے ساتھی تھے جب آفتاب شیر پاؤ صوبہ میں پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر اور دو مرتبہ وزیر اعلیٰ رہے اور اس وقت بھی پرویز خٹک، آفتاب شیر پاؤ کے ساتھ ہی تھے جب وہ پیپلزپارٹی سے الگ ہوئے اور انہوں نے پیپلزپارٹی شیر پاؤ کے نام سے اپنی الگ پارٹی قائم کی جس میں پرویز خٹک صوبائی صدر تھے تاہم گزشتہ دور میں حکومت میں شامل ہونے کے معاملہ پر ان میں اختلافات پیدا ہوئے اور پرویز خٹک نے اپنی راہیں آفتاب شیر پاؤ سے جداکرلیں ، اب اسی پرویز خٹک کے ساتھ آفتاب شیر پاؤ کے صاحبزادے سکندر شیر پاؤ ممکنہ طور پر سینئر وزیر کے طور پر کام کریں گے اور جماعت اسلامی کے سراج الحق کو بھی سینئر وزیر ہی کا عہدہ ملنے کا امکان ہے ۔
تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کے دوران جو گروپنگ ہوئی اور پارٹی کے اندر جن اختلافات نے جنم لیا تھا وہ بدستور موجود ہیں اور اب جبکہ پی ٹی آئی اقتدار سنبھالنے جارہی ہے اس وقت بھی یہ اختلافات ختم نہیں ہوئے بلکہ اب صوبائی کابینہ کی تشکیل اور دیگر امور کے حوالے سے یہ اختلافات مزید شدت اختیار کریں گے جس کا نقصان کسی او رکو نہیں بلکہ پارٹی ہی کو ہوگا جس میں اس وقت اتفاق اور مل کر چلنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے کیونکہ چند ایک کے علاوہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر سب ہی پہلی مرتبہ اسمبلی پہنچے ہیں اور نومشقی کا یہ عالم اختلافات کی وجہ سے کئی مسائل کو جنم دے گا۔
یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے اندر ہی کچھ رہنما اس معاملہ میں براہ راست پارٹی چیئرمین عمران خان کی مداخلت چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ عمران خان این اے ون ن کی نشست اپنے پاس رکھتے ہوئے اب اگر پشاور منتقل ہوجائیں تو یہ زیادہ بہتر رہے گا تاکہ وہ براہ راست پارٹی کی رہنمائی بھی کرسکیں اور تمام معاملات پر نظر اور گرفت بھی رکھ سکیں ،تاہم عمران خان آنے والے دنوں میں کیا کرتے ہیں اس کا پتا تو آنے والے دنوں ہی میں چلے گا۔
جہاں تک شکست کھانے والی سابقہ حکمران پارٹی اے این پی کا تعلق ہے تو اس کی مشاورتی کمیٹی(تھنک ٹینک)کے اجلاس میں پارٹی قیادت پر جس کھلے انداز میں تنقید ہوئی اور جس طریقہ سے ان کے فیصلوں کے حوالے سے انھیں آڑے ہاتھوں لیا گیا اس کے بعد یہ لازمی ہوگیا ہے کہ اے این پی کے مرکزی صدر اسفندیارولی خان اگر اپنے عہدہ سے مستعفی نہیں بھی ہوتے تو کم ازکم پارٹی کے صوبائی صدر افراسیاب خٹک کو اپنی ٹیم کے ہمراہ مستعفی ہوجانا چاہیے کیونکہ صوبہ کی عوام نے ان کی جانب سے کیے گئے فیصلوں پر عدم اعتماد کا اظہار بھی کیا ہے اور ان کے نامزد کردہ امیدواروں کو ووٹ نہ دے کر یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ ''وہ انھیں مزید نہیں چاہتے''،اور اس عوامی رائے کا احترام اے این پی کی قیادت کو اسی طرح کرنا چاہیے جس طرح 2002 ء میں بیگم نسیم ولی خان اور اسفندیارولی خان نے کیا تھا ۔
بیگم نسیم ولی خان نے انھیں پارٹی کے اندر ''بغاوت''کے ذریعے صوبائی صدارت سے ہٹاکر گوشہ نشینی کی زندگی گزارنے پر مجبور کرنے سے لے کر اے این پی کا عرصہ اقتدار کے خاتمے تک کا عرصہ بوجہ خاموشی کے ساتھ گزارا تاہم اب اے این پی کی صوبہ میں شکست کے بعد وہ بھی خم ٹھونک کر میدان میں آگئی ہیں، جنہوں نے نہ صرف اے این پی کے مرکزی صدر اسفندیارولی خان اور صوبائی صدر افراسیاب خٹک پر تنقید کرتے ہوئے دل کی بھڑاس نہیں نکالی بلکہ ساتھ ہی پارٹی کارکنوں کو ان کے پاس واپس آنے کا کہہ کر یہ پیغام بھی دے دیا ہے کہ ابھی ان میں دم خم باقی ہے اور وہ اپنے سسر اور شوہر کی پارٹی کو چلاسکتی ہیں۔
جو زخم خوردہ اے این پی کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے اور اے این پی کی قیادت کو اگر ایک جانب پارٹی کے دوسرے اور تیسرے درجے کے رہنماؤں کے تیز وتند سوالات اور تنقید کو برداشت کرنا پڑے گا تو دوسری جانب انھیں بیگم نسیم کے ساتھ بھی نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی کرنا پڑے گی کیونکہ بیگم نسیم ولی خان ضیف العمری کے باوجود اتنی بھی کمزور نہیں ہیں جتنا کہ انھیں سمجھ لیا گیا ہے۔
مذکورہ نتائج کئی پارٹیوں اور خصوصی طور پر عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلزپارٹی کے لیے انتہائی غیر متوقع ہیں کیونکہ صوبائی اسمبلی میں اے این پی سمٹ کر 6 جبکہ پیپلزپارٹی دو نشستوں تک محدود ہوگئی ہے جبکہ پیپلزپارٹی کو تو قومی اسمبلی کی بھی کوئی نشست حاصل نہیں ہوئی اور اے این پی جو صوبہ سے قومی اسمبلی کی دس سے زائد نشستیں حاصل کرنے کی توقع کررہی تھی اسے صرف ایک ہی نشست مل پائی ہے ،اے این پی اور پیپلزپارٹی کا یہ حشر کیوں ہوا؟اور اس میں ان پارٹیوں کی پالیسیوں ،ان کے اعلانیہ اور غیر اعلانیہ مشیروں اور ٹکٹوں کی تقسیم کے موقع پر غلط فیصلوں کا کس قدر کردار ہے۔
ان پر دونوں پارٹیوں میں غور ہورہا ہے اور پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر کے مستعفی ہونے کے بعد توقع کی جارہی ہے کہ اے این پی بھی اسی قسم کا فیصلہ کرے گی کیونکہ عوام نے ان دونوں پارٹیوں کو بہرکیف مسترد کردیا ہے جس کے بعد اصولی طور پر ان کی لیڈر شپ کو بھی ایک سائیڈ پر ہوتے ہوئے نئی قیادت کو آگے آنے کا موقع دینا چاہیے ۔
تحریک انصاف جو پورے ملک میں تبدیلی لانے کی بات کررہی تھی اسے سب سے زیادہ پذیرائی خیبرپختونخوا میں حاصل ہوئی ہے جہاں تحریک انصاف کے ٹکٹوں پر پہلی مرتبہ الیکشن کے لیے میدان میں اترنے والے درجنوں امیدوار قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کامیاب ہوئے ہیں،تحریک انصاف کو خیبرپختونخوا اسمبلی کی دیگر پارٹیوں کی نسبت سب سے زیادہ نشستیں حاصل ہونے کے بعد اگرچہ مولانا فضل الرحمٰن اور میاں نواز شریف کے درمیان ہونے والے رابطہ نے ہلچل مچادی تھی۔
کیونکہ اس رابطہ کے بعد صوبہ میں جے یو آئی کے قائدین متحرک ہوگئے اور انہوں نے صوبہ میں حکومت سازی کے لیے دیگر پارٹیوں کے ساتھ رابطوں کا سلسلہ بھی شروع کردیا تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے باعث تحریک انصاف کا یہ پہلا حق ہے کہ وہ صوبہ میں دیگرپارٹیوں کو ساتھ ملا کر اپنی حکومت بنائے اور تحریک انصاف نے اس سلسلے میں کھل کر کام شروع کردیا ہے جس کے ساتھ جماعت اسلامی بھی آکر کھڑی ہوگئی ہے اور ممکنہ طور پر قومی وطن پارٹی بھی تحریک انصاف ہی کا ساتھ دے گی۔
کیونکہ اگر یہ تینوں پارٹیاں اکھٹی ہوتی ہیں تو حکومت سازی کے لیے تحریک انصاف کے پاس نمبرز پورے ہوجاتے ہیں اور اس صورت میں آزاد امیدوار اور دیگر ارکان بھی اس سہ جماعتی اتحاد ہی کا ساتھ دیں گے جس سے ان کی حکومت سہولت کے ساتھ بن جائے گی تاہم مسلہ یہ ہوگا کہ اگر زیادہ آزاد ارکان اس سہ جماعتی اتحاد کے ساتھ شامل ہوئے تو اس صورت میں مشکلات ہوں گی کیونکہ اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبائی کابینہ اب پندرہ ارکان سے زائد پر مشتمل نہیں ہوسکتی جبکہ آزاد ارکان وزارتوں کے حصول ہی کے لیے حکومتوں کا رخ کرتے ہیں۔
تحریک انصاف کی کامیابی کے بعد سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ اگر تحریک انصا ف صوبہ میں حکومت بناتی ہے تو وزارت اعلیٰ کا امیدوار کون ہوگا ؟حالانکہ حالات پر نظر رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں اور وہ اس بات کا اظہار بھی کررہے تھے کہ وزارت اعلیٰ کے لیے پی ٹی آئی کی جانب سے اصل ا میدوار پرویز خٹک ہی ہیں کیونکہ وہ مختلف انتخابات میں اسمبلی رکن کے طور پر منتخب بھی ہوتے رہے ہیں اور صوبائی وزیر کے طورپر بھی دو سے تین مرتبہ کام کرچکے ہیں تاہم کچھ حلقے بوجہ پی ٹی آئی کے صوبائی صدر اسد قیصر ،جنرل سیکرٹری شوکت یوسفزئی اور بعض دیگر نام لے رہے تھے ۔
جبکہ کچھ حلقے تو یوسف ایوب اور سردار ادریس کے ناموں کی مالا بھی جپ رہے تھے تاہم پارٹی کے چیئرمین عمران خان نے وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کے عہدہ کے لیے پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری پرویز خٹک کو نامزد کرتے ہوئے یہ کنفیوژن دور کردی ہے جو انتہائی مناسب فیصلہ ہے اور اس نامزدگی کے بعد پرویز خٹک نے بھی کھل کر کھیلنا شروع کردیا ہے، انہوں نے نہ صرف جماعت اسلامی کے سراج الحق کے ساتھ باقاعدہ نشست کرتے ہوئے معاملات کو حتمی شکل دی ہے بلکہ قومی وطن پارٹی کے ساتھ بھی ان کے رابطے نتیجہ خیز ہونے کا امکان ہے۔
کیونکہ پرویز خٹک اس وقت بھی آفتاب شیر پاؤ کے ساتھی تھے جب آفتاب شیر پاؤ صوبہ میں پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر اور دو مرتبہ وزیر اعلیٰ رہے اور اس وقت بھی پرویز خٹک، آفتاب شیر پاؤ کے ساتھ ہی تھے جب وہ پیپلزپارٹی سے الگ ہوئے اور انہوں نے پیپلزپارٹی شیر پاؤ کے نام سے اپنی الگ پارٹی قائم کی جس میں پرویز خٹک صوبائی صدر تھے تاہم گزشتہ دور میں حکومت میں شامل ہونے کے معاملہ پر ان میں اختلافات پیدا ہوئے اور پرویز خٹک نے اپنی راہیں آفتاب شیر پاؤ سے جداکرلیں ، اب اسی پرویز خٹک کے ساتھ آفتاب شیر پاؤ کے صاحبزادے سکندر شیر پاؤ ممکنہ طور پر سینئر وزیر کے طور پر کام کریں گے اور جماعت اسلامی کے سراج الحق کو بھی سینئر وزیر ہی کا عہدہ ملنے کا امکان ہے ۔
تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کے دوران جو گروپنگ ہوئی اور پارٹی کے اندر جن اختلافات نے جنم لیا تھا وہ بدستور موجود ہیں اور اب جبکہ پی ٹی آئی اقتدار سنبھالنے جارہی ہے اس وقت بھی یہ اختلافات ختم نہیں ہوئے بلکہ اب صوبائی کابینہ کی تشکیل اور دیگر امور کے حوالے سے یہ اختلافات مزید شدت اختیار کریں گے جس کا نقصان کسی او رکو نہیں بلکہ پارٹی ہی کو ہوگا جس میں اس وقت اتفاق اور مل کر چلنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے کیونکہ چند ایک کے علاوہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر سب ہی پہلی مرتبہ اسمبلی پہنچے ہیں اور نومشقی کا یہ عالم اختلافات کی وجہ سے کئی مسائل کو جنم دے گا۔
یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے اندر ہی کچھ رہنما اس معاملہ میں براہ راست پارٹی چیئرمین عمران خان کی مداخلت چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ عمران خان این اے ون ن کی نشست اپنے پاس رکھتے ہوئے اب اگر پشاور منتقل ہوجائیں تو یہ زیادہ بہتر رہے گا تاکہ وہ براہ راست پارٹی کی رہنمائی بھی کرسکیں اور تمام معاملات پر نظر اور گرفت بھی رکھ سکیں ،تاہم عمران خان آنے والے دنوں میں کیا کرتے ہیں اس کا پتا تو آنے والے دنوں ہی میں چلے گا۔
جہاں تک شکست کھانے والی سابقہ حکمران پارٹی اے این پی کا تعلق ہے تو اس کی مشاورتی کمیٹی(تھنک ٹینک)کے اجلاس میں پارٹی قیادت پر جس کھلے انداز میں تنقید ہوئی اور جس طریقہ سے ان کے فیصلوں کے حوالے سے انھیں آڑے ہاتھوں لیا گیا اس کے بعد یہ لازمی ہوگیا ہے کہ اے این پی کے مرکزی صدر اسفندیارولی خان اگر اپنے عہدہ سے مستعفی نہیں بھی ہوتے تو کم ازکم پارٹی کے صوبائی صدر افراسیاب خٹک کو اپنی ٹیم کے ہمراہ مستعفی ہوجانا چاہیے کیونکہ صوبہ کی عوام نے ان کی جانب سے کیے گئے فیصلوں پر عدم اعتماد کا اظہار بھی کیا ہے اور ان کے نامزد کردہ امیدواروں کو ووٹ نہ دے کر یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ ''وہ انھیں مزید نہیں چاہتے''،اور اس عوامی رائے کا احترام اے این پی کی قیادت کو اسی طرح کرنا چاہیے جس طرح 2002 ء میں بیگم نسیم ولی خان اور اسفندیارولی خان نے کیا تھا ۔
بیگم نسیم ولی خان نے انھیں پارٹی کے اندر ''بغاوت''کے ذریعے صوبائی صدارت سے ہٹاکر گوشہ نشینی کی زندگی گزارنے پر مجبور کرنے سے لے کر اے این پی کا عرصہ اقتدار کے خاتمے تک کا عرصہ بوجہ خاموشی کے ساتھ گزارا تاہم اب اے این پی کی صوبہ میں شکست کے بعد وہ بھی خم ٹھونک کر میدان میں آگئی ہیں، جنہوں نے نہ صرف اے این پی کے مرکزی صدر اسفندیارولی خان اور صوبائی صدر افراسیاب خٹک پر تنقید کرتے ہوئے دل کی بھڑاس نہیں نکالی بلکہ ساتھ ہی پارٹی کارکنوں کو ان کے پاس واپس آنے کا کہہ کر یہ پیغام بھی دے دیا ہے کہ ابھی ان میں دم خم باقی ہے اور وہ اپنے سسر اور شوہر کی پارٹی کو چلاسکتی ہیں۔
جو زخم خوردہ اے این پی کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے اور اے این پی کی قیادت کو اگر ایک جانب پارٹی کے دوسرے اور تیسرے درجے کے رہنماؤں کے تیز وتند سوالات اور تنقید کو برداشت کرنا پڑے گا تو دوسری جانب انھیں بیگم نسیم کے ساتھ بھی نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی کرنا پڑے گی کیونکہ بیگم نسیم ولی خان ضیف العمری کے باوجود اتنی بھی کمزور نہیں ہیں جتنا کہ انھیں سمجھ لیا گیا ہے۔