عام انتخابات میں بد انتظامی پردہ کون چاک کرے گا
انتخابی عمل میں ’’پر اسرار‘‘ تاخیر کے جوابات ملنا باقی ہیں...
ISLAMABAD:
انتخابی مہم کے ساتھ ہی شروع ہونے والے خدشات نے یوم انتخابات پر بھی شکوک وشبہات کا پیچھا نہ چھوڑا۔
ایک طرف بم دھماکوں اور فائرنگ کے واقعات میں مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنان اور امیدواراوں کو نشانہ بنایا جا رہا تھا تو دوسری طرف سیاسی راہ نما بھی ایک دوسرے کو سخت الزامات کی نوک پر رکھے ہوئے تھے۔ صرف جماعت اسلامی ہی اس شہر میں کوئی بڑا جلسہ کرنے میں کام یاب ہوئی۔ تحریک انصاف کی جانب سے یکم مئی کو مزار قائد پر ہونے والا جلسہ منسوخ کر دیا گیا، جس کی وجہ امن وامان کی صورت حال بتائی گئی، یہی نہیں جب وہ مختصر دورے پر کراچی آئے تو مزار قائد پر بھی انہیں کارکنوں سے خطاب کی اجازت نہ ملی۔
دوسری طرف متحدہ کی جانب سے ہر انتخابی موسم میں نشتر پارک میں منعقد ہونے والا انتخابی جلسہ بھی نہ ہو سکا، بلکہ عزیز آباد میں طے شدہ خواتین کا جلسہ بھی دہشت گردی کے خدشات کی نذر ہوگیا۔ عمران خان کی طرح نواز شریف بھی کچھ وقت نکال کر کراچی آئے ضرور لیکن صرف ٹھٹھہ میں جلسہ کر کے چلے گئے۔ اس کے علاوہ انتخابی سرگرمیاں چند ایک ریلیوں اور چھوٹی بیٹھکوں تک ہی محدود رہیں۔ اس میں بھی دہشت گردی کے خدشے کے پیش نظر نہایت کڑے انتظامات کیے گئے تھے۔یوں شہر قائد نے ایک نہایت پھیکی انتخابی مہم کے ساتھ انتخابات میں حصہ لیا۔
اس تمام صورت حال کے بعد جب 11 مئی کو پولنگ کے لیے لوگ قطار میں جمع ہونے شروع ہوئے تو یہ مژدہ کھلا کہ عملہ ہی غائب ہے! کہیں عملہ تھا تو انتخابی پرچیاں غائب تو کہیں مہر اور ان مٹ سیاہی ندارد۔۔۔ الغرض پرجوش ووٹر صبح8 بجے سے چار، چار بجے تک پولنگ شروع ہونے کا انتظار کرتے رہے۔ مشتعل لوگ پولنگ اسٹیشن کے باہر الیکشن کمیشن کے خلاف شدید نعرے بازی بھی کرتے رہے۔۔۔ بہت سے لوگ مایوس ہوکر واپس لوٹ گئے۔
اس کے باوجود پولنگ اسٹیشنوں پر کئی کئی میٹر طویل قطاریں لگی تھیں اور بعض حلقوں میں رات 8بجے تک پولنگ جاری رکھنے کے باوجود صورت حال تبدیل نہ ہوسکی اور بہت سے لوگوں کو بغیر ووٹ دیے واپس لوٹنا پڑا۔ بہت سی جگہوں پر عملے کی غیر موجودگی کا حل نکالنے کے لیے مختلف جماعتوں نے اتفاق رائے سے کچھ افراد کا تقرر کیا جو عملے کی معاونت کے لیے موجود رہے۔ پولنگ میں تاخیر کے سبب متحدہ کی جانب سے بھی شدید ردعمل سامنے آرہا تھا اور مختلف پولنگ اسٹیشنوں کے باہر مشتعل افراد الیکشن کمیشن کے خلاف زبردست نعرے بازی بھی کرتے رہے۔
اس دوران سب سے ڈرامائی موڑ اس وقت آیا جب دوپہر ڈیڑھ بجے کے قریب جماعت اسلامی کی جانب سے کراچی اور حیدرآباد میں دھاندلی کے الزامات لگا کر انتخابی عمل کا بائیکاٹ کردیا گیا۔ جس میں جمعیت علمائے پاکستان، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ساتھ مہاجر قومی موومنٹ بھی شامل ہوگئی۔ جماعت اسلامی چوں کہ دس جماعتی اتحاد کا حصہ تھی اور بہت سے حلقوں میں اس نے مشترکہ امیدوار میدان میں اتارے تھے، لہٰذا بائیکاٹ کے اعلان کے ساتھ ہی اچانک صورت حال ڈرامائی طور پر تبدیل ہوگئی اور متوقع طور پر پہلے اور دوسرے نمبر کی دوڑ سے باہر سمجھے جانے والے امیدواروں کی حیثیت مستحکم ہوگئی۔
نواز لیگ، جماعت اسلامی کے بائیکاٹ سے اظہار لاتعلقی کرتے ہوئے آخری وقت تک انتخابی عمل کا حصہ بنی رہی۔ تاہم جماعت اسلامی کے باہر آنے کے بعد ان کے امیدواران کی حیثیت خاصی کم زور ہوگئی۔ اس کے علاوہ متحدہ نے بھی لیاری سے قومی اسمبلی کے حلقے 249 اور صوبائی حلقوں 108 اور 109 میں دھاندلی کا الزام لگاکر انتخابی عمل کا بائیکاٹ کیا۔
انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف تحریک انصاف کی جانب سے قومی اسمبلی کے حلقہ 250 کے علاقے تین تلوار پر دھرنا دیا ، جس میں کراچی بھر میں ازسرنو انتخابات کا مطالبہ کیا گیا، بعد ازاں اس مظاہرے میں جماعت اسلامی اور دیگر جماعتیں بھی شامل ہوگئیں۔
واضح رہے کہ انتخابی عمل میں غیر معمولی تاخیر اور دیگر شکایات کے پیش نظر الیکشن کمیشن کی جانب سے حلقہ 250 اور اس میں آنے والے صوبائی حلقے112 اور113 کے 42پولنگ اسٹیشنوں پر دوبارہ پولنگ کا اعلان کیا گیا جہاں 19 مئی کو پولنگ ہوگی، جب کہ 250 سے متحدہ کی امیدوار خوش بخت شجاعت نے پورے حلقے میں ازسرنو انتخابی عمل کا مطالبہ کیا، اس سے پہلے فاروق ستار کی جانب سے بھی ان حلقوں سمیت لیاری کے حلقوں میں بھی دوبارہ پولنگ کا مطالبہ کیا جا چکا۔
جماعت اسلامی اگر بہ دستور اس حلقے میں اپنے امیدوار کو غیر فعال رکھتی ہے تو شہر بھر کی طرح یہاں بھی تحریک انصاف، متحدہ کے لیے سخت حریف بن سکتی ہے۔ یوں اس حلقے میں متحدہ کی خوش بخت شجاعت اور تحریک انصاف کے ڈاکٹر عارف علوی کے درمیان گھمسان کا رن پڑنے کا امکان ہے۔
غیر متوقع انتخابی نتائج کے حوالے سے کراچی کے حلقہ 239 اور 258 سر فہرست ہے، جہاں پیپلزپارٹی اپنی نشستوں کا دفاع کرنے میں ناکام ہوئی۔ غیر حتمی نتائج کے مطابق 239 میں پیپلز پارٹی کے عبدالقادر پٹیل پہلے اور دوسرے نمبر کی دوڑ سے ہی باہر ہیں اور متحدہ کے سلمان مجاہد پہلے اور تحریک انصاف کے سبحان علی دوسرے نمبر پر ہیں، جب کہ 258 میں نواز لیگ کی طرف سے پہلی بار عبدالحکیم بلوچ کام یاب قرار پائے۔
شہر کے سیاسی منظر نامے کا سب سے پر اسرار پہلو انتخابی عمل میں غیر معمولی بد انتظامی ہے، جس پر الیکشن کمیشن کی جانب سے بھی کوئی واضح موقف نہیں آسکا۔ آخر کیوں بروقت پولنگ کا آغاز نہ ہوسکا؟ عملے کی غیر موجودگی اور دیگر ضروری سامان کے نہ ہونے کا ذمہ دار کون تھا؟ یہ مسئلہ تو جمہوریت پر یقین رکھنے والی ہر جماعت سے براہ راست متعلق ہے، جب کہ سیاسی جماعتیں اس سے قطعہ نظر دیگر الزام تراشیوں پر الجھی ہوئی نظر آتی ہیں۔ الیکشن کمیشن کو اس حوالے سے کوئی واضح موقف لینا چاہیے تھا مگر اب تک ایسا نہیں ہو سکا۔
البتہ الیکشن کمیشن کی طرف سے یہ عندیہ ضرور دیا گیا ہے کہ شکایات کا جائزہ لے کر کراچی اور اور حیدرآباد میں از سرنو انتخابات کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف انتخابات کے روز بھی شہر میں فوج کی موجودگی کے باوجود شدید خوف وہراس کا راج رہا اور مختلف علاقوں میں دھماکوں اور فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا۔
انتخابی مہم کے ساتھ ہی شروع ہونے والے خدشات نے یوم انتخابات پر بھی شکوک وشبہات کا پیچھا نہ چھوڑا۔
ایک طرف بم دھماکوں اور فائرنگ کے واقعات میں مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنان اور امیدواراوں کو نشانہ بنایا جا رہا تھا تو دوسری طرف سیاسی راہ نما بھی ایک دوسرے کو سخت الزامات کی نوک پر رکھے ہوئے تھے۔ صرف جماعت اسلامی ہی اس شہر میں کوئی بڑا جلسہ کرنے میں کام یاب ہوئی۔ تحریک انصاف کی جانب سے یکم مئی کو مزار قائد پر ہونے والا جلسہ منسوخ کر دیا گیا، جس کی وجہ امن وامان کی صورت حال بتائی گئی، یہی نہیں جب وہ مختصر دورے پر کراچی آئے تو مزار قائد پر بھی انہیں کارکنوں سے خطاب کی اجازت نہ ملی۔
دوسری طرف متحدہ کی جانب سے ہر انتخابی موسم میں نشتر پارک میں منعقد ہونے والا انتخابی جلسہ بھی نہ ہو سکا، بلکہ عزیز آباد میں طے شدہ خواتین کا جلسہ بھی دہشت گردی کے خدشات کی نذر ہوگیا۔ عمران خان کی طرح نواز شریف بھی کچھ وقت نکال کر کراچی آئے ضرور لیکن صرف ٹھٹھہ میں جلسہ کر کے چلے گئے۔ اس کے علاوہ انتخابی سرگرمیاں چند ایک ریلیوں اور چھوٹی بیٹھکوں تک ہی محدود رہیں۔ اس میں بھی دہشت گردی کے خدشے کے پیش نظر نہایت کڑے انتظامات کیے گئے تھے۔یوں شہر قائد نے ایک نہایت پھیکی انتخابی مہم کے ساتھ انتخابات میں حصہ لیا۔
اس تمام صورت حال کے بعد جب 11 مئی کو پولنگ کے لیے لوگ قطار میں جمع ہونے شروع ہوئے تو یہ مژدہ کھلا کہ عملہ ہی غائب ہے! کہیں عملہ تھا تو انتخابی پرچیاں غائب تو کہیں مہر اور ان مٹ سیاہی ندارد۔۔۔ الغرض پرجوش ووٹر صبح8 بجے سے چار، چار بجے تک پولنگ شروع ہونے کا انتظار کرتے رہے۔ مشتعل لوگ پولنگ اسٹیشن کے باہر الیکشن کمیشن کے خلاف شدید نعرے بازی بھی کرتے رہے۔۔۔ بہت سے لوگ مایوس ہوکر واپس لوٹ گئے۔
اس کے باوجود پولنگ اسٹیشنوں پر کئی کئی میٹر طویل قطاریں لگی تھیں اور بعض حلقوں میں رات 8بجے تک پولنگ جاری رکھنے کے باوجود صورت حال تبدیل نہ ہوسکی اور بہت سے لوگوں کو بغیر ووٹ دیے واپس لوٹنا پڑا۔ بہت سی جگہوں پر عملے کی غیر موجودگی کا حل نکالنے کے لیے مختلف جماعتوں نے اتفاق رائے سے کچھ افراد کا تقرر کیا جو عملے کی معاونت کے لیے موجود رہے۔ پولنگ میں تاخیر کے سبب متحدہ کی جانب سے بھی شدید ردعمل سامنے آرہا تھا اور مختلف پولنگ اسٹیشنوں کے باہر مشتعل افراد الیکشن کمیشن کے خلاف زبردست نعرے بازی بھی کرتے رہے۔
اس دوران سب سے ڈرامائی موڑ اس وقت آیا جب دوپہر ڈیڑھ بجے کے قریب جماعت اسلامی کی جانب سے کراچی اور حیدرآباد میں دھاندلی کے الزامات لگا کر انتخابی عمل کا بائیکاٹ کردیا گیا۔ جس میں جمعیت علمائے پاکستان، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ساتھ مہاجر قومی موومنٹ بھی شامل ہوگئی۔ جماعت اسلامی چوں کہ دس جماعتی اتحاد کا حصہ تھی اور بہت سے حلقوں میں اس نے مشترکہ امیدوار میدان میں اتارے تھے، لہٰذا بائیکاٹ کے اعلان کے ساتھ ہی اچانک صورت حال ڈرامائی طور پر تبدیل ہوگئی اور متوقع طور پر پہلے اور دوسرے نمبر کی دوڑ سے باہر سمجھے جانے والے امیدواروں کی حیثیت مستحکم ہوگئی۔
نواز لیگ، جماعت اسلامی کے بائیکاٹ سے اظہار لاتعلقی کرتے ہوئے آخری وقت تک انتخابی عمل کا حصہ بنی رہی۔ تاہم جماعت اسلامی کے باہر آنے کے بعد ان کے امیدواران کی حیثیت خاصی کم زور ہوگئی۔ اس کے علاوہ متحدہ نے بھی لیاری سے قومی اسمبلی کے حلقے 249 اور صوبائی حلقوں 108 اور 109 میں دھاندلی کا الزام لگاکر انتخابی عمل کا بائیکاٹ کیا۔
انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف تحریک انصاف کی جانب سے قومی اسمبلی کے حلقہ 250 کے علاقے تین تلوار پر دھرنا دیا ، جس میں کراچی بھر میں ازسرنو انتخابات کا مطالبہ کیا گیا، بعد ازاں اس مظاہرے میں جماعت اسلامی اور دیگر جماعتیں بھی شامل ہوگئیں۔
واضح رہے کہ انتخابی عمل میں غیر معمولی تاخیر اور دیگر شکایات کے پیش نظر الیکشن کمیشن کی جانب سے حلقہ 250 اور اس میں آنے والے صوبائی حلقے112 اور113 کے 42پولنگ اسٹیشنوں پر دوبارہ پولنگ کا اعلان کیا گیا جہاں 19 مئی کو پولنگ ہوگی، جب کہ 250 سے متحدہ کی امیدوار خوش بخت شجاعت نے پورے حلقے میں ازسرنو انتخابی عمل کا مطالبہ کیا، اس سے پہلے فاروق ستار کی جانب سے بھی ان حلقوں سمیت لیاری کے حلقوں میں بھی دوبارہ پولنگ کا مطالبہ کیا جا چکا۔
جماعت اسلامی اگر بہ دستور اس حلقے میں اپنے امیدوار کو غیر فعال رکھتی ہے تو شہر بھر کی طرح یہاں بھی تحریک انصاف، متحدہ کے لیے سخت حریف بن سکتی ہے۔ یوں اس حلقے میں متحدہ کی خوش بخت شجاعت اور تحریک انصاف کے ڈاکٹر عارف علوی کے درمیان گھمسان کا رن پڑنے کا امکان ہے۔
غیر متوقع انتخابی نتائج کے حوالے سے کراچی کے حلقہ 239 اور 258 سر فہرست ہے، جہاں پیپلزپارٹی اپنی نشستوں کا دفاع کرنے میں ناکام ہوئی۔ غیر حتمی نتائج کے مطابق 239 میں پیپلز پارٹی کے عبدالقادر پٹیل پہلے اور دوسرے نمبر کی دوڑ سے ہی باہر ہیں اور متحدہ کے سلمان مجاہد پہلے اور تحریک انصاف کے سبحان علی دوسرے نمبر پر ہیں، جب کہ 258 میں نواز لیگ کی طرف سے پہلی بار عبدالحکیم بلوچ کام یاب قرار پائے۔
شہر کے سیاسی منظر نامے کا سب سے پر اسرار پہلو انتخابی عمل میں غیر معمولی بد انتظامی ہے، جس پر الیکشن کمیشن کی جانب سے بھی کوئی واضح موقف نہیں آسکا۔ آخر کیوں بروقت پولنگ کا آغاز نہ ہوسکا؟ عملے کی غیر موجودگی اور دیگر ضروری سامان کے نہ ہونے کا ذمہ دار کون تھا؟ یہ مسئلہ تو جمہوریت پر یقین رکھنے والی ہر جماعت سے براہ راست متعلق ہے، جب کہ سیاسی جماعتیں اس سے قطعہ نظر دیگر الزام تراشیوں پر الجھی ہوئی نظر آتی ہیں۔ الیکشن کمیشن کو اس حوالے سے کوئی واضح موقف لینا چاہیے تھا مگر اب تک ایسا نہیں ہو سکا۔
البتہ الیکشن کمیشن کی طرف سے یہ عندیہ ضرور دیا گیا ہے کہ شکایات کا جائزہ لے کر کراچی اور اور حیدرآباد میں از سرنو انتخابات کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف انتخابات کے روز بھی شہر میں فوج کی موجودگی کے باوجود شدید خوف وہراس کا راج رہا اور مختلف علاقوں میں دھماکوں اور فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا۔