پیپلزپارٹی کی باہمی چپقلش جاری

مبینہ دھاندلی کے خلاف دس جماعتی اتحاد کے مشترکہ لائحہ عمل کا عندیہ

سکھر سمیت سندھ میں پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ نے اپنی سابقہ حیثیت برقرار رکھی۔ فوٹو : فائل

ملک میں جاری دہشتگردی، لاقانونیت، سیاسی جماعتوں کے دفاتر پر ہونے والے خود کُش حملوں اور عوامی خدشات کے باوجود عام انتخابات اپنے اختتام کو پہنچے۔

سکھر سمیت سندھ میں پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ نے اپنی سابقہ حیثیت برقرار رکھی۔ قوم پرستوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود کوئی بھی امیدوار سکھر سمیت بالائی سندھ سے نمایاں ووٹ حاصل نہ کر سکا۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ووٹر کا رجحان آج بھی سندھ کی تین بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ، ف لیگ کی جانب ہی ہے۔ سندھ کے تیسرے بڑے ضلع میں عام انتخابات سے قبل پیپلز پارٹی کے دو بڑے اور سینئر رہنما سابق وفاقی وزیر سید خورشید احمد شاہ، سینیٹر اسلام الدین شیخ کے درمیان جاری سرد جنگ اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔

انتخابات کے دوران ایک دوسرے کے امیدواروں کو شکست سے دوچار کرنے کے لیے بنائے جانے والے اتحاد، ریلیوں اور کارنر میٹنگوں کے باوجود سابق رکن قومی اسمبلی و سینیٹر اسلام الدین شیخ کے صاحبزادے نعمان اسلام شیخ واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کر گئے۔

عام انتخابات سے قبل سندھ میں پیپلز پارٹی، مخالف دس جماعتی اتحاد کی تمام تر کوششوں کے باوجود نتائج پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے حق میں گئے۔ انتخابی سیاست میں شامل ہونے والی قوم پرست جماعتیں بھی واضح اکثریت حاصل نہ کرسکیں۔ 2010 کے بدترین سیلاب، غربت، منہگائی، بے روزگاری، تعمیراتی کام میں مبینہ کرپشن کے باوجود لوگوں کی بڑی تعداد نے سابق حکمران جماعت کو ہی کام یاب کرایا۔

سکھر شہر میں انتخابات سے پہلے دس جماعتی اتحاد کی انتخابی مہم سے محسوس ہو رہا تھا کہ شاید اس بار انتخابات میں نتائج مختلف ہوں گے، مگر ایسا نہ ہوسکا، سینیٹر اسلام الدین شیخ، سابق وفاقی وزیر سید خورشید احمد شاہ کے درمیان جاری سرد جنگ کے بعد سید خورشید شاہ اور ان کے قریبی حلقوں کی جانب سے نعمان اسلام شیخ، حاجی انور خان مہر کو شکست سے دوچار کرانے کے لیے بھرپور مہم چلائی گئی۔ شہری سطح پر ووٹوں کی تقسیم کے لیے پیپلز پارٹی کے ذمہ داران اور ہمدردوں کو حلقہ این اے 198، پی ایس ون پر کھڑا کیا گیا اور ان کی پوزیشن کو نیچے دکھانے کے لیے خورشید شاہ کی حمایت سے ایک اتحاد بھی تشکیل دیا گیا اور احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں، جلسے و جلوس کیے، اس کے باوجود نعمان اسلام شیخ 52ہزار سے زاید ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے، جب کہ پی ایس ون کے امیدوار حاجی انور خان مہر کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ جب پیپلز پارٹی میں اندرونی اختلافات پیدا ہوئے ہوں، ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے، مگر 2013 کے انتخابات میں خورشید شاہ اور سینیٹر اسلام الدین شیخ کے اختلافات اتنے شدت اختیار کرگئے کہ سینیٹر اسلام الدین شیخ نے پریس کانفرنس میں خورشید شاہ پر سنگین الزامات بھی عاید کیے کہ سابق وفاقی وزیر نے این اے 198 اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی ایس ون کے امیدواروں نعمان اسلام شیخ اور حاجی انور احمد مہر کو ہرانے کے لیے اپنے ساتھیوں پہلاج مل، سابق ایم پی اے، ڈاکٹر نصر اللہ بلوچ، یوسف جاگیرانی، شکیل میمن اور عبدالغنی کھوسو کے ذریعے پیپلز پارٹی کے کارکنوں، اقلیتی برادری اور شہریوں کو نعمان اسلام شیخ اور انور احمد مہر کو ووٹ دینے سے منع کیا۔


انہوں نے کہا کہ سید خورشید شاہ نے نعمان شیخ کو شکست سے دوچار کرنے کیلئے متعدد آزاد امیدواروں کو الیکشن میں کھڑا کیا تاکہ پیپلز پارٹی کے ووٹ تقسیم ہوں۔ اعلا قیادت اس معاملے کی تحقیقات کرے، اور حلفیہ بیان لے۔ اس کے باوجود این اے 198سے نعمان اسلام شیخ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگئے لیکن پی ایس ون کے امیدوار حاجی انور احمد مہر کو نقصان پہنچا اگر حاجی انور مہر الیکشن ہار گئے تو اس کے ذمہ دار سید خورشید احمد شاہ ہونگے، سینیٹر اسلام الدین شیخ نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی خاطر میری تمام جائیداد نیلام ہوگئی اور بینکوں کا مقروض بن گیا، جب کہ خورشید شاہ آج آدھے سکھر کے مالک بن گئے ہیں۔

میں ان کے اصل چہرے سے پارٹی کی اعلا قیادت اور عوام کو آگاہ کروں گا۔ میرا جینا مرنا پیپلز پارٹی کے ساتھ ہے، میرا بیٹا نعمان اسلام شیخ اکثریت سے ووٹ حاصل کر کے قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہوا ہے لیکن پی ایس ون کے امیدوار حاجی انور احمد مہر کی شکست کی وجہ سے ہماری خوشیاں ادھوری رہ گئیں ہیں۔

دوسری طرف ہارنے والے امیدواروں کی طرف سے دھاندلی کے الزامات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے حلقہ این اے 198سے امیدوار آغا سید محمد ایوب شاہ نے کہا ہے کہ سکھر سمیت بالائی سندھ میں بدترین دھاندلی کی گئی، جس کی وجہ سے سابق حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والوں نے من پسند نتائج حاصل کیے، پولنگ کے روز انتخابی عملے نے جانب داری کا مظاہرہ کیا۔ ہمارے مخالف امیدوار کے حمایتیوں نے 3روز قبل ہی کامیابی کا جشن منانا شروع کر دیا تھا، سابق حکمرانوں کی باقیات نے نگران حکومت نے من پسند نتائج کے حصول کیلئے ایسے افسران کو تعینات کیا جس کی وجہ سے الیکشن نتائج متاثر ہوئے۔

آرائیں، گوسڑ جی، آباد، بچل شاہ میانی، شہید گنج سمیت ایک درجن سے زائد پولنگ اسٹیشن پر پولیس اور الیکشن کمیشن کے اہلکاروں کی نگرانی میں دروازے بند کرکے رات 9بجے تک بیلٹ پیپر پر ٹھپے لگائے۔ بہت سے پولنگ اسٹیشنوں پر ہمارے ایجنٹوں کو نتائج نہیں دیے اور ہیرا پھیری کی گئی، انہوں نے کہا کہ دس جماعتی اتحاد اور جے یو آئی کی صوبائی قیادت سندھ میں ہونے والی دھاندلی پر مشترکہ لائحہ عمل کے لیے اجلاس طلب کررہی ہے۔ بیلٹ پیپر کے ریکارڈ کو سیل کرکے دوبارہ گنتی کرائی جائے، اگر ایسا نہ ہوا اور سرکاری طور پر اس حلقہ کے نتائج جاری کیے گئے تو ہم عدالت سے رجوع کریں گے۔

ہم نے الیکشن میں ہونے والی دھاندلی کے حوالے سے کمشنر، ڈپٹی کمشنر و دیگر افسران سے رابطہ کرکے کارروائی کا مطالبہ کیا تاہم انہوں نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ میں نے چیف جسٹس آف پاکستان، چیف الیکشن کمشنر، چیف جسٹس ہائی کورٹ سندھ، ریجنل الیکشن کمشنر ودیگر افسران کو تحریری طور پر آگاہ کرکے اپنا کردار ادا کرنے کی اپیل کی ہے۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ حلقہ این اے 198، 199، پی ایس ون، ٹو، تھری، فور پر امیدواروں کی نام زدگی کے دوران 2 بڑے ذمہ داران کے درمیان پیدا ہونے والی چپقلش پارٹی کو دھڑے بندی میں تقسیم کررہی ہے، ضلع سکھر میں ایک طویل عرصے سے پیپلز پارٹی کے امیدوار واضح اکثریت سے کام یاب ہوتے رہے ہیں۔

سینیٹر اسلام الدین شیخ کی پی پی میں شمولیت اور دو مرتبہ اپنے صاحبزادے نعمان شیخ کو ٹکٹ دلانے میں کام یابی سے گزشتہ تیس سال سے سیاست پارٹی میں مرکزی حیثیت رکھنے والے سید خورشید شاہ کو شدید دھچکا لگا۔ نعمان اسلام شیخ کی کام یابی کے بعد شہر بھر میں پیپلز پارٹی کے اندرونی اختلافات کے حوالے سے ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا ہے۔
Load Next Story