اقتدار پھولوں کی سیج نہیں ہوتا
ایک کمزور معیشت کے ساتھ ساتھ ملکی اور غیرملکی محاذوں پر انھیں کئی بڑے اور مشکل چیلنجزکا سامنا بھی ہوگا
ہم چاہیں حالیہ انتخابات کو جھرلو الیکشن کہیں، انجینئرڈ الیکشن کہیں یا پھر اور نام دیں لیکن عمران خان نے بہرحال2018ء کے انتخابات کا معرکا سرکر لیا ہے اور عددی اعتبار سے اپنی پارٹی کو سنگل لارجر پارٹی بنا کر دکھا دیا ہے۔جس وزارت عظمیٰ کے حصول کی خواہش میں وہ گزشتہ 22برسوں سے جدوجہد کر رہے تھے بالآخر وہ انھوں پالیا ہے۔ اُن کی اِس کامیابی کے پیچھے اُن کی اپنی کوششوں کے ساتھ ساتھ درپردہ ہماری اُن قوتوں کا بھی ہاتھ رہا ے جن کی مدد کے بغیر یہ مقصد یوںحاصل نہیں ہوسکتا تھا۔
خان صاحب کو عوام کے ساتھ ساتھ یقینا اِن قوتوں کا بھی ممنون ومشکور ہونا ہوگا۔ مہربانوں نے ایک مہربانی اور بھی کر دی ہے کہ انھیں اِس ملک کے سب سے بڑے صوبے میں بھی اتنی سہولت فراہم کردی ہے کہ وہ تھوڑ ی سی کوشش سے یہاں بھی اپنی حکومت قائم کرسکتے ہیں۔ وہ کوشش کس قسم کی ہوسکتی ہے اِس کا اندازہ تو ہم جہانگیر ترین اور علیم خان کی اِس ضمن میں کی جانے والی پھرتیوںسے بخوبی لگا سکتے ہیں۔اب وہ دن کچھ زیادہ دور نہیں جب یہاں وفاق کے ساتھ ساتھ ملک کے تین اہم صوبوں میں بھی تحریک انصاف کی حکومتیں ہوں گی۔اِس قدر بھاری مینڈیٹ تو ہمارے یہاں اب تک کسی بھی سیاسی پارٹی کو نہیں ملا۔ یہ خان صاحب کی خوش قسمتی ہے کہ وہ کراچی سمیت سارے ملک کے واحد طاقتور حکمراں ہونگے۔ اُن کے پاس کام نہ کرنے کو اب کوئی معقول عذر یابہانہ نہیں ہوگا۔نادیدہ قوتوں کی مکمل تائیدوحمایت کے ساتھ ساتھ انھیں اِس وقت عوام کے اکثریت کی بھی حمایت حاصل ہے۔
اُن کے پاس صرف چھ ماہ کا عرصہ ہنی مون پیریڈ کے طور پر ہوگاجس کے بعد اگرانھوں نے کارکردگی نہیں دکھائی تو انھیںبہت سی مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔ اُن کے سامنے ایک مضبوط اپوزیشن مہلک ہتھیاروں سے لیس سر بکفن کھڑی ہے جوکوئی موقعہ جانے نہیں دے گی۔ ویسے بھی جو جارحانہ اپوزیشن وہ گزشتہ پانچ برسوں سے کرتے آئے ہیں کچھ ایسی ہی مخالفت کی توقع انھیں اپنے حریفوں سے بھی کرنا ہوگی۔ مسلسل تصادم اور محاذآرائی کی جن حکمت عملیوں کو وہ حقیقی اپوزیشن سمجھ کر مضبوط حزب اختلاف کا کردار ادا کرنے کا کریڈٹ خود اپنے نام لیتے رہے ہیں، اب ایسی ہی منہ زور اپوزیشن کا انھیں بھی سامنا ہو سکتا ہے۔
ایک کمزور معیشت کے ساتھ ساتھ ملکی اور غیرملکی محاذوں پر انھیں کئی بڑے اور مشکل چیلنجزکا سامنا بھی ہوگا۔ گزشتہ دو برسوں میں سیاسی عدم استحکام اور بے چینی کے باعث ملک کے معیشت کا گراف اوپر جانے کی بجائے پستی کی جانب جاتا رہا ہے۔ خاص کر پچھلے چھ سات مہینوں میں توبہت ہی خطرناک صورتحال ابھرکر سامنے آئی ہے۔ پاکستانی روپیہ تیزی کے ساتھ اپنی قدروقیمت کھوتا رہا ہے۔عالمی منڈی میں وہ اپنی ساکھ بھی برقرار نہیں رکھ پایا ہے اور آس پاس کے کئی چھوٹے ممالک کی کرنسیوں کے مقابلے میں بھی اپنی حیثیت گنواتا رہا ہے۔ ذرمبادلہ کے ذخائر انتہائی نچلی سطحوں کو چھو رہے ہیں۔ ملک پر غیر ملکی قرضوں کا بوجھ اور اُن کی قسطوں کی ادائیگی آیندہ آنے والے دنوں میں ہمارے دیوالیہ ہو جانے کی خبریں دے رہے ہیں۔آئی ایم ایف ہمیں اپنے شکنجے میں کسنے کے لیے ایک بار پھر انتظار کر رہا ہے۔دوسری جانب دنیا ہمیں دہشتگردوں کی مدد اورمالی معاونت کے الزام میں گرے لسٹ میں شامل کرچکی ہے۔ہمیں اُس سے بھی باہر نکلنا ہوگا۔
یہ تو اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہمارے سروں پر آج دہشتگردی کا وہ عفریت سوار نہیں ہے جو 2013ء میں ہمارے اعصاب پر سوار تھا۔اکا دکا واقعات بہرحال پھر بھی ہوجاتے ہیںجنہیں اولین ترجیح دیکر فوراً روکنا ہوگا۔ورنہ ذرا سی غفلت اور لاپرواہی سارے ملک کو ایک بار پھر اِس دہشتگردی کی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔خدا کاشکر ہے کہ اِ س وقت ملک میں بجلی اور توانائی کو وہ بحران بھی نہیں ہے جو 2013ء میں نئی آنے والی حکومت کو ورثے میںملاتھا۔ تمام مخالفت کے باوجود ہمیں سابقہ حکومت کواِس بات کا کریڈٹ ضرور دینا چاہیے کہ اُس نے انتھک محنت اور نیک نیتی سے یہ مسئلہ بڑی حد تک حل کردیا ہے۔نئی حکومت کو بس اب تھوڑی سے کاوش کے ساتھ پائپ لائن میں موجود بجلی کے نئے منصوبوں کوتکمیل کے مراحل سے گزار کرانھیں فعال بنانا ہوگا۔
سی پیک منصوبے کے حوالے سے ایک بات ہمیں تشویش میں مبتلاکررہی ہے کہ میاں صاحب کے جانے کے بعد اِس کی رفتار میںقدرے کمی اورسرد مہری دیکھی جارہی ہے۔ نئے حکمرانوں سے قوم توقع رکھتی ہے کہ وہ اس جانب بھر پور توجہ دینگے اور ہمارے روشن مستقبل کے ضامن اِس عظیم منصوبے کو بہت جلد مکمل کریں گے۔آنے والے دنوں میں اِس قوم کو پانی کے سخت بحران کاسامنا ہوسکتاہے۔ اِس جانب بھی فوری توجہ کی ضرورت ہے۔چیف جسٹس پہلے ہی اِس مسئلے پر سخت پریشان اور فکر مند ہیں۔ ہمیں اُن کی مدد کرتے ہوئے دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیم کے منصوبوں کا قابل عمل بناکر فوراً مکمل کرنا ہوگا۔
اِس کے علاوہ بھی خان صاحب اگرکالا باغ ڈیم پر سارے ملک کے لوگوں کواکٹھا اور رضامندکرسکیں تو اُن کا یہ ایک بہت بڑا کارنامہ ہوگا۔انھوں نے گرچہ ابھی تک اِس پر اپنی کوئی رائے عوام کے سامنے نہیں رکھی ہے لیکن اب وہ چاروں صوبوں میں مقبول ہونے کے دعوے کے ساتھ ساتھ اِس ملک کے مضبوط حکمراں بھی ہونگے۔ قوم توقع کرتی ہے کہ اِس بارے میں خاموشی اورمصلحت پسندی اختیارکرنے کی بجائے وہ کھل کر اپنا نکتہ نظر عوام کے سامنے رکھیں گے اور اِس پرکام بھی کریں گے۔پاکستان اسٹیل ملز، پی آئی اے اورریلوے جیسے کئی ادارے مسلسل خسارے میں چل رہے ہیں۔اسٹیل ملز تو تقریبا بند ہوچکی ہے۔ وہاں اب کوئی کام نہیں ہو رہا ہے۔
بس سیاسی مجبوریوں کے تحت اُسے گھسیٹا جارہا ہے۔ سابقہ حکومت کوتو انھوں نے پیپلز پارٹی کی ساتھ مل کر اُسے نجی اداروں کے حوالے کرنے نہیں دیا تھا لیکن اب اُن کا اپنا امتحان ہے کہ وہ کس طرح اِن اداروں کو فعال اور منافع بخش بناتے ہیں۔اپوزیشن میں بیٹھ کر حکومت پر تنقید کرنا اوراُسے کام نہ کرنے دینا بہت آسان ہواکرتا ہے۔خان صاحب گزشتہ 22سالوں سے یہ فریضہ بڑی جانفشانی سے اداکرتے رہے ہیں، لیکن اب خود اُن کی اپنی باری ہے۔قوم دیکھنا چاہتی ہے کہ وہ اپنے دعوؤں اور وعدوں کی ادائیگی اور انجام دہی میں کتنے پرعزم ہیں۔اُن کی اہلیت و قابلیت کااندازہ تب ہوگا۔
خارجی اور بیرونی محاذوں پر بھی ملکی سالمیت اور وحدانیت کو جو خطرات لاحق ہیں، خان صاحب اُن سے کس طرح نبرد آزما ہوتے ہیں یہ اُن کی قائدانہ صلاحیتوں اور بصیرتوں کاکڑا امتحان ہوگا۔ سی پیک کے منصوبے اور دہشتگردوں کی معاونت اورمدد کے حوالے سے ہم پر براہ راست غیر ملکی دباؤ ہے۔وہ کس طرح اِس دباؤ سے نکل کرسرخرو ہوتے ہیں۔ ہماری خارجہ پالیسی کو جسے وہ ہمیشہ ایک ناکام پالیسی گردانتے رہے ہیں، وہ اب کس طرح اِسے ایک کامیاب پالیسی میں تبدیل کرتے ہیں قوم یہ ضرور دیکھنا چاہے گی۔ہندوستان، افغانستان اوردیگر پڑوسی ممالک کے ساتھ وہ کیسے تعلقات استوار کرتے ہیں یہ بہت جلد آنے والے دنوں میں سب کوپتہ چل جائے گا۔اِن ممالک سے تعلقات بہتر بنانے میں بہت سے ملکی اور غیر ملکی عوامل روڑے اٹکاتے رہے ہیں۔
وہ اِن عوامل سے کیسے نمٹتے ہیں۔کرکٹ یاکسی اور کھیل میںاپنی قابلیت اورصلاحیتوں کا لوہا منوانا کوئی اتنا مشکل کام نہیں ہوتا،لیکن بے شمار مسائل ومصائب میں گھرے ہوئے کسی کمزور اورلاچار ملک کو ملکی اور غیر ملکی سازشوں کے بیچ کامیابی سے چلانا ہی اصل امتحان ہوتا ہے۔ اسلام آباد کے خوبصورت ایوانوں میں اقتدارواختیار کی نعمتوں سے بھری یہ حسین اور دلکش سیج کوئی اتنی آرام دہ اورپرآسائش نہیں ہوتی بلکہ یہ کانٹوں سے بھری ایک ایسی تکلیف دہ سیج ہے جس پر سونے والے ہمارے کسی بھی حکمراں کو آج تک چین کی نیند نہیں آ پائی۔
خان صاحب کو عوام کے ساتھ ساتھ یقینا اِن قوتوں کا بھی ممنون ومشکور ہونا ہوگا۔ مہربانوں نے ایک مہربانی اور بھی کر دی ہے کہ انھیں اِس ملک کے سب سے بڑے صوبے میں بھی اتنی سہولت فراہم کردی ہے کہ وہ تھوڑ ی سی کوشش سے یہاں بھی اپنی حکومت قائم کرسکتے ہیں۔ وہ کوشش کس قسم کی ہوسکتی ہے اِس کا اندازہ تو ہم جہانگیر ترین اور علیم خان کی اِس ضمن میں کی جانے والی پھرتیوںسے بخوبی لگا سکتے ہیں۔اب وہ دن کچھ زیادہ دور نہیں جب یہاں وفاق کے ساتھ ساتھ ملک کے تین اہم صوبوں میں بھی تحریک انصاف کی حکومتیں ہوں گی۔اِس قدر بھاری مینڈیٹ تو ہمارے یہاں اب تک کسی بھی سیاسی پارٹی کو نہیں ملا۔ یہ خان صاحب کی خوش قسمتی ہے کہ وہ کراچی سمیت سارے ملک کے واحد طاقتور حکمراں ہونگے۔ اُن کے پاس کام نہ کرنے کو اب کوئی معقول عذر یابہانہ نہیں ہوگا۔نادیدہ قوتوں کی مکمل تائیدوحمایت کے ساتھ ساتھ انھیں اِس وقت عوام کے اکثریت کی بھی حمایت حاصل ہے۔
اُن کے پاس صرف چھ ماہ کا عرصہ ہنی مون پیریڈ کے طور پر ہوگاجس کے بعد اگرانھوں نے کارکردگی نہیں دکھائی تو انھیںبہت سی مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔ اُن کے سامنے ایک مضبوط اپوزیشن مہلک ہتھیاروں سے لیس سر بکفن کھڑی ہے جوکوئی موقعہ جانے نہیں دے گی۔ ویسے بھی جو جارحانہ اپوزیشن وہ گزشتہ پانچ برسوں سے کرتے آئے ہیں کچھ ایسی ہی مخالفت کی توقع انھیں اپنے حریفوں سے بھی کرنا ہوگی۔ مسلسل تصادم اور محاذآرائی کی جن حکمت عملیوں کو وہ حقیقی اپوزیشن سمجھ کر مضبوط حزب اختلاف کا کردار ادا کرنے کا کریڈٹ خود اپنے نام لیتے رہے ہیں، اب ایسی ہی منہ زور اپوزیشن کا انھیں بھی سامنا ہو سکتا ہے۔
ایک کمزور معیشت کے ساتھ ساتھ ملکی اور غیرملکی محاذوں پر انھیں کئی بڑے اور مشکل چیلنجزکا سامنا بھی ہوگا۔ گزشتہ دو برسوں میں سیاسی عدم استحکام اور بے چینی کے باعث ملک کے معیشت کا گراف اوپر جانے کی بجائے پستی کی جانب جاتا رہا ہے۔ خاص کر پچھلے چھ سات مہینوں میں توبہت ہی خطرناک صورتحال ابھرکر سامنے آئی ہے۔ پاکستانی روپیہ تیزی کے ساتھ اپنی قدروقیمت کھوتا رہا ہے۔عالمی منڈی میں وہ اپنی ساکھ بھی برقرار نہیں رکھ پایا ہے اور آس پاس کے کئی چھوٹے ممالک کی کرنسیوں کے مقابلے میں بھی اپنی حیثیت گنواتا رہا ہے۔ ذرمبادلہ کے ذخائر انتہائی نچلی سطحوں کو چھو رہے ہیں۔ ملک پر غیر ملکی قرضوں کا بوجھ اور اُن کی قسطوں کی ادائیگی آیندہ آنے والے دنوں میں ہمارے دیوالیہ ہو جانے کی خبریں دے رہے ہیں۔آئی ایم ایف ہمیں اپنے شکنجے میں کسنے کے لیے ایک بار پھر انتظار کر رہا ہے۔دوسری جانب دنیا ہمیں دہشتگردوں کی مدد اورمالی معاونت کے الزام میں گرے لسٹ میں شامل کرچکی ہے۔ہمیں اُس سے بھی باہر نکلنا ہوگا۔
یہ تو اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہمارے سروں پر آج دہشتگردی کا وہ عفریت سوار نہیں ہے جو 2013ء میں ہمارے اعصاب پر سوار تھا۔اکا دکا واقعات بہرحال پھر بھی ہوجاتے ہیںجنہیں اولین ترجیح دیکر فوراً روکنا ہوگا۔ورنہ ذرا سی غفلت اور لاپرواہی سارے ملک کو ایک بار پھر اِس دہشتگردی کی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔خدا کاشکر ہے کہ اِ س وقت ملک میں بجلی اور توانائی کو وہ بحران بھی نہیں ہے جو 2013ء میں نئی آنے والی حکومت کو ورثے میںملاتھا۔ تمام مخالفت کے باوجود ہمیں سابقہ حکومت کواِس بات کا کریڈٹ ضرور دینا چاہیے کہ اُس نے انتھک محنت اور نیک نیتی سے یہ مسئلہ بڑی حد تک حل کردیا ہے۔نئی حکومت کو بس اب تھوڑی سے کاوش کے ساتھ پائپ لائن میں موجود بجلی کے نئے منصوبوں کوتکمیل کے مراحل سے گزار کرانھیں فعال بنانا ہوگا۔
سی پیک منصوبے کے حوالے سے ایک بات ہمیں تشویش میں مبتلاکررہی ہے کہ میاں صاحب کے جانے کے بعد اِس کی رفتار میںقدرے کمی اورسرد مہری دیکھی جارہی ہے۔ نئے حکمرانوں سے قوم توقع رکھتی ہے کہ وہ اس جانب بھر پور توجہ دینگے اور ہمارے روشن مستقبل کے ضامن اِس عظیم منصوبے کو بہت جلد مکمل کریں گے۔آنے والے دنوں میں اِس قوم کو پانی کے سخت بحران کاسامنا ہوسکتاہے۔ اِس جانب بھی فوری توجہ کی ضرورت ہے۔چیف جسٹس پہلے ہی اِس مسئلے پر سخت پریشان اور فکر مند ہیں۔ ہمیں اُن کی مدد کرتے ہوئے دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیم کے منصوبوں کا قابل عمل بناکر فوراً مکمل کرنا ہوگا۔
اِس کے علاوہ بھی خان صاحب اگرکالا باغ ڈیم پر سارے ملک کے لوگوں کواکٹھا اور رضامندکرسکیں تو اُن کا یہ ایک بہت بڑا کارنامہ ہوگا۔انھوں نے گرچہ ابھی تک اِس پر اپنی کوئی رائے عوام کے سامنے نہیں رکھی ہے لیکن اب وہ چاروں صوبوں میں مقبول ہونے کے دعوے کے ساتھ ساتھ اِس ملک کے مضبوط حکمراں بھی ہونگے۔ قوم توقع کرتی ہے کہ اِس بارے میں خاموشی اورمصلحت پسندی اختیارکرنے کی بجائے وہ کھل کر اپنا نکتہ نظر عوام کے سامنے رکھیں گے اور اِس پرکام بھی کریں گے۔پاکستان اسٹیل ملز، پی آئی اے اورریلوے جیسے کئی ادارے مسلسل خسارے میں چل رہے ہیں۔اسٹیل ملز تو تقریبا بند ہوچکی ہے۔ وہاں اب کوئی کام نہیں ہو رہا ہے۔
بس سیاسی مجبوریوں کے تحت اُسے گھسیٹا جارہا ہے۔ سابقہ حکومت کوتو انھوں نے پیپلز پارٹی کی ساتھ مل کر اُسے نجی اداروں کے حوالے کرنے نہیں دیا تھا لیکن اب اُن کا اپنا امتحان ہے کہ وہ کس طرح اِن اداروں کو فعال اور منافع بخش بناتے ہیں۔اپوزیشن میں بیٹھ کر حکومت پر تنقید کرنا اوراُسے کام نہ کرنے دینا بہت آسان ہواکرتا ہے۔خان صاحب گزشتہ 22سالوں سے یہ فریضہ بڑی جانفشانی سے اداکرتے رہے ہیں، لیکن اب خود اُن کی اپنی باری ہے۔قوم دیکھنا چاہتی ہے کہ وہ اپنے دعوؤں اور وعدوں کی ادائیگی اور انجام دہی میں کتنے پرعزم ہیں۔اُن کی اہلیت و قابلیت کااندازہ تب ہوگا۔
خارجی اور بیرونی محاذوں پر بھی ملکی سالمیت اور وحدانیت کو جو خطرات لاحق ہیں، خان صاحب اُن سے کس طرح نبرد آزما ہوتے ہیں یہ اُن کی قائدانہ صلاحیتوں اور بصیرتوں کاکڑا امتحان ہوگا۔ سی پیک کے منصوبے اور دہشتگردوں کی معاونت اورمدد کے حوالے سے ہم پر براہ راست غیر ملکی دباؤ ہے۔وہ کس طرح اِس دباؤ سے نکل کرسرخرو ہوتے ہیں۔ ہماری خارجہ پالیسی کو جسے وہ ہمیشہ ایک ناکام پالیسی گردانتے رہے ہیں، وہ اب کس طرح اِسے ایک کامیاب پالیسی میں تبدیل کرتے ہیں قوم یہ ضرور دیکھنا چاہے گی۔ہندوستان، افغانستان اوردیگر پڑوسی ممالک کے ساتھ وہ کیسے تعلقات استوار کرتے ہیں یہ بہت جلد آنے والے دنوں میں سب کوپتہ چل جائے گا۔اِن ممالک سے تعلقات بہتر بنانے میں بہت سے ملکی اور غیر ملکی عوامل روڑے اٹکاتے رہے ہیں۔
وہ اِن عوامل سے کیسے نمٹتے ہیں۔کرکٹ یاکسی اور کھیل میںاپنی قابلیت اورصلاحیتوں کا لوہا منوانا کوئی اتنا مشکل کام نہیں ہوتا،لیکن بے شمار مسائل ومصائب میں گھرے ہوئے کسی کمزور اورلاچار ملک کو ملکی اور غیر ملکی سازشوں کے بیچ کامیابی سے چلانا ہی اصل امتحان ہوتا ہے۔ اسلام آباد کے خوبصورت ایوانوں میں اقتدارواختیار کی نعمتوں سے بھری یہ حسین اور دلکش سیج کوئی اتنی آرام دہ اورپرآسائش نہیں ہوتی بلکہ یہ کانٹوں سے بھری ایک ایسی تکلیف دہ سیج ہے جس پر سونے والے ہمارے کسی بھی حکمراں کو آج تک چین کی نیند نہیں آ پائی۔