مضبوط حزب اختلاف معقول فیصلہ

انتخابی نتائج کے اعلان میں التواء شروع ہوا اور یہ التواء 24 گھنٹے سے 48 گھنٹوں تک پہنچ گیا

tauceeph@gmail.com

انتخابات کے بعد حالات نے سیاسی فضاء کو ایک دفعہ پھر مکدر کردیا۔ ملک کے کچھ حصوںمیں ووٹروں کو ووٹ ڈالنے سے روکنے ، ووٹنگ دیر سے شروع ہونے اور انتخابی اور سیکیورٹی عملے کے درشت رویے کی اکا دکا شکایت ٹی وی چینلز پر چلنے والے ٹیکرز کے ذریعے لوگوں تک پہنچ رہی تھی، رات 10:00 بجے کے بعد مختلف علاقوں سے شکایتیں آنے لگیں ۔ بعض سیاسی جماعتوں نے الزام لگایا کہ ان کے پولنگ ایجنٹوں کو پولنگ اسٹیشنوں سے نکال دیا گیا ہے۔

انتخابی نتائج کے اعلان میں التواء شروع ہوا اور یہ التواء 24 گھنٹے سے 48 گھنٹوں تک پہنچ گیا۔ محمود خان اچکزئی نے الزام لگایا کہ قلعہ عبداﷲ میں ان کے حلقہ انتخاب میں پولنگ ختم ہوتے ہی اعلان کردیا گیا کہ ان کا مخالف امیدوار جیت رہا ہے۔ محمود اچکزئی نے تحریک انصاف کے قائد عمران خان کی پیشکش قبول کرتے ہوئے کہا کہ قلعہ عبداﷲ کے حلقے میں ان کی طرف 10 سے 12 پولنگ بوتھ کے ووٹوں کی گنتی دوبارہ کرائی جائے تو بہت سے حقائق واضح ہوجائیں گے۔

ان انتخابات میں بعض حلقوں میں جیتنے والے امیدواروں کی کامیابی تو چند سو ووٹوں سے تھی مگر مسترد ہونے والے ووٹوں کی تعداد 10ہزار تک تھی، اتنی بھاری تعداد میں ووٹ مسترد ہوئے جن کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی۔ پاکستان ا نسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (Pakistan Institue of Legislative Development and Transparency) کے صدر احمد بلال محبوب نے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا ہے کہ 25 جولائی کو انتخابی عمل 5 مراحل پر مشتمل تھا۔ اس میں سے کئی مراحل میں نظام معطل ہوا۔ اس بارے میں مکمل تحقیقات کی ضرورت ہے۔

دوسری جانب الیکشن کمیشن کسی طور پر اپنے نظام میں کسی غلطی کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ کمیشن کے نتائج کی فوری ترسیل کے نظام R.T.S کی ناکامی کی ذمے داری نادرا پر عائد کی تھی مگر نادرا کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان کا نظام موثر طور پرکارآمد تھا مگر انتخابی دھاندلیوں والے اس جمہوری نظام کے مستقبل کے حوالے سے گہری سوچ و بچارکی ضرورت ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کی کانفرنس میں پیپلزپارٹی شریک نہیں ہوئی، عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی نے اس کانفرنس میں سخت رویہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ منتخب اراکین کو حلف نہیں اٹھانا چاہیے ۔ مولانا فضل الرحمن نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ اسمبلیوں کے بائیکاٹ کے ساتھ ایک تحریک سب قائدین کی منتظر ہیں ۔ شہباز شریف اسمبلیوں کے بائیکاٹ کے حق میں نہیں ہیں ۔

بلاول نے اپنی پریس کانفرنس میں سیاسی جماعتوں کو مشورہ دیا کہ وہ خود سیاسی عمل کو علیحدہ نہ کریں اور پارلیمنٹ میں ضرور جائیں۔ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں 1986ء کے انتخابات اس لحاظ سے مسترد تھے کہ جنرل ضیاء الحق نے ریفرنڈم کے ذریعے خود کو صدر کے عہدے پر منتخب کرانے کے بعد غیر جماعتی انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب تحریک بحالی جمہوریت (MRD) کی قیادت 1983ء کی عوامی تحریک چلا کر جیلوں میں بند تھی۔


1983ء کی تحریک میں سندھ کے عوام نے جوش و خروش سے حصہ لیا تھا، سندھ کے مختلف شہروں میں بہت سے افراد ہلاک ہوئے تھے، پنجاب، خیبر پختون خواہ اور آزاد کشمیر میں مختلف سیاسی جماعتوں نے ہزاروں کارکنوں نے رضاکارانہ گرفتاریاں دی تھیں، پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بیگم نصرت بھٹو اور شریک چیئرپرسن بے نظیر بھٹو تھیں، پیپلز پارٹی کی قیادت غلام مصطفی جتوئی کر رہے تھے، غلام مصطفی جتوئی کے صاحبزادے اور تمام ساتھی جیلوں میں بند تھے۔

ان کے ایک صاحبزادے کے خلاف قتل کے مقدمات قائم کیے گئے تھے ۔ اچانک جنرل ضیاء الحق نے غلام مصطفی جتوئی کو رہا کردیا تھا، یوں جیل سے باہر موجود ایم آر ڈی کی قیادت سے انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔ بے نظیر بھٹو نے لکھا ہے کہ ان کی مسلسل کوشش تھی کہ غلام مصطفی جتوئی سے رابطہ قائم ہوجائے اور انھیں ہدایت کی جائے کہ انتخابات میں حصہ لیا جائے مگر یہ رابطہ نہ ہوسکا۔ ایم آر ڈی نے انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔ جنرل ضیاء الحق حکومت ایسا ہی چاہتی تھی۔

جنرل ضیاء الحق کی حکومت کے اہلکاروں نے برادری اور فرقہ واریت کے ہتھیار کو استعمال کیا۔ بہت سے نو دولتیے اور اسمگلر امیدوار بن گئے۔ یوں الیکٹیبل (Electable) کا ایک نیا طبقہ وجود میں آیا اور یہ طبقہ اب تک موجود ہے۔ حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں انتخابی دھاندلیوں پر احتجاج کریں۔ یہ ان کا حق ہے مگر منتخب اراکین کو پارلیمنٹ کا حصہ بننا چاہیے۔ پارلیمنٹ میں انتخابی دھاندلیوں کے خاتمے کے لیے طریقہ کار طے کرنا چاہیے۔

بعض مبصرین اس صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 25 جولائی کے انتخابات میں پاپولر ازم اور پولیٹیکل انجنیئرنگ کے اشتراک کا نیا ماڈل ظہور پذیر ہوا ہے۔ اس ماڈل میں تحریک انصاف کو عوام کے ایک حصے کی حمایت حاصل ہے اور پھر پولیٹیکل انجنیئرنگ کے ذریعے مجموعی نتائج پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی گئی ہے۔ کئی صحافی اور تجزیہ نگار ٹی وی پر 25 جولائی والے دن جمہوری نظام اور سیاسی جماعتوں کی خامیوں پر روشنی ڈالتے رہے۔ ان میں سے کچھ نے آمرانہ نظام کو جمہوری نظام کے ہم پلہ قرار دیا۔ کئی سیاستدان بھی ایسے ہی خیالات رکھتے ہیں۔

عوام کو انتخابی دھاندلیوں کے خلاف 1977ء کی پاکستان قومی اتحاد تحریک یاد ہے۔ اس تحریک کا سارا فائدہ جنرل ضیاء الحق کو ہوا تھا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے صحیح سمت میں حکمت عملی اختیار کی۔ دونوں جماعتیں پارلیمنٹ میں مضبوط حزب اختلاف کا کردار ادا کریں گی اور عوام میں بھی احتجاج کریں گی۔ امید ہے کہ باقی سیاسی جماعتیں بھی ان جماعتوں کی پیروی کریں گی۔ تمام جماعتوں کے انتخابی دھاندلیوں کے تمام واقعات کو ایک جامع رپورٹ میں جمع کرنا چاہیے۔ اس رپورٹ کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر شایع ہونا چاہیے۔ حزب اختلاف کو پارلیمنٹ میں اور عوام میں اس دھاندلی کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے تاکہ عوام کے حقیقی امیدواروں کے پارلیمنٹ میں جانے کے راستے میں رکاوٹیں دور ہوں اور پارلیمنٹ کی تمام اداروں پر بالادستی یقینی ہوسکے۔
Load Next Story