خان بہادر ایوب کھوڑو

بھائی جان کو پائلٹ بننے کے لیے بہرا ہونا منظور نہیں تھا سو گھر واپس آگئے

خان بہادر محمد ایوب کھوڑو سندھ کی افسانوی شہرت کی حامل شخصیات میں سے ایک تھے۔ قیام پاکستان سے قبل بھی جب سندھ ابھی بمبئی سے الگ نہیں ہوا تھا، سیاست میں سرگرمی سے حصہ لیا کرتے تھے۔ان کے دیگر ہم عصر سندھی سیاستدانوں میں سر شاہنواز بھٹو، قاضی فضل اللہ، جی ایم سید، میر بندہ علی خان تالپور، پیرزادہ عبدالستار، آغا غلام نبی پٹھان، اللہ بخش سومرو، خان بہادر غلام محمد وسان، پیر الٰہی بخش، سید میراں محمد شاہ، قاضی اکبر، خان بہادر غلام رسول کیہراور میر غلام علی تالپور وغیرہ نمایاں تھے ۔ مرکزی وزیر اور سندھ کے وزیر اعلیٰ جیسے اہم عہدوں پر فائز رہنے کے باوجود ان کی حیثیت ہمیشہ متنازع ہی رہی۔

ون یونٹ بنوانے اور سندھ اسمبلی سے منظورکرانے میں اپنے کلیدی کردار کے باعث اقتدار سے محروم ہو جانے کے بعد بھی مرتے دم تک صوبے کے عوام کے بالعموم اور جی ایم سید کی پیروکار سندھو دیش کا خواب دیکھنے والی نوجوان نسل کی بالخصوص نفرت کا نشانہ بنے رہے ۔ مطلق العنان سوچ کے نہایت سخت گیر اور رعونت پسند حکمران مشہور تھے، مخالفین کو دبا کر رکھنے اور سختی سے کچل دینے کے قائل تھے ۔ ان کے حکم پر ون یونٹ کی مخالفت کرنے والے رکن اسمبلی میر غلام علی تالپورکو اونٹنی کی ننگی پیٹھ پر بٹھا کر صحرائے تھرکے دور افتادہ مقام مٹھی بھیجنے اور وہاں کی پولیس چوکی میں لاک اپ کرنے کا واقعہ بہت مشہور ہوا تھا۔ ویسے خان بہادر محمد ایوب کھوڑو لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے خاندانی رئیس آدمی تھے۔ ذوالفقار علی بھٹوکے سیاسی منظرنامے پر نمودار ہونے سے پہلے سندھ میں انھی کا طوطی بولتا تھا۔

مرد آہن کہلانے کا جنون سر پر اس قدر سوار تھا کہ بطور وزیر اعلیٰ سندھ ایک مرحلے پر انھوں نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے دست راست اور ملک کے پہلے وزیر اعظم نواب زادہ لیاقت علی خان کو ان کے دورے میں پروٹوکول دینے سے انکارکردیا تھا جب کہ اس وقت پاکستان کا دارالحکومت بھی کراچی ہی تھا۔ پھر جب مرکزی حکومت نے اپنے اختیارات کی جھلک دکھائی تو موصوف کے سارے کس بل نکل گئے۔ قبل ازیں جب وہ مرکزی حکومت میں وزیر دفاع تھے،انھوں نے ملاقات کے لیے آنے والے فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کو ایک ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کروایا تھا جب کہ اس وقت وہ اپنے دفتر میں بالکل فارغ بیٹھے تھے اور ان کے پاس ایسا کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان اور بعد میں ایوبی آمریت کے دور میں ایبڈو اور پروڈا جیسے سخت اور بے رحمانہ قوانین کہتے ہیں خاص طور پر انھیں سیدھا کرنے کے لیے متعارف کرائے گئے تھے۔

کھوڑو صاحب پر ان گنت مقدمات بنائے گئے،گرفتار کر کے عدالتوں میں گھسیٹا گیا اورکرپشن وبے قاعدگیوں کے علاوہ اخلاق سوز حرکتوں میں ملوث پائے جانے جیسے بیہودہ الزامات بھی عائد کیے گئے ۔ بیچاروں کو ایسا کر کے چھوڑا گیا کہ منہ چھپاتے پھرتے تھے، قوم پرست سندھی نوجوانوں کے ہاتھوں توہین آمیز سلوک اور بے عزتی سے بچنے کے لیے تقریبات میں شرکت کرنے سے بھی گریز کرتے تھے ۔ ذاتی طور پر مجھے کھوڑو صاحب کے وزیر دفاع ہونے کے زمانے کا ایک واقعہ اچھی طرح یاد ہے اگرچہ تب میں چھٹی کلاس میں پڑھتا تھا۔

میرے بڑے بھائی سعید جان قریشی نے میٹرک کا امتحان پاس کیا تو انھیں ایئر فورس میں جی ڈی پائلٹ بننے کا شوق چرایا، والد صاحب کی درخواست پر میر بندہ علی خان نے، جو خود بھی سندھ کے وزیر اعلیٰ رہ چکے تھے، انھیں ایوب کھوڑو کے نام بھائی جان کے لیے سفارشی خط لکھ کردیا تھا۔ بھائی جان وہ خط لے کرکراچی آئے، ایوب کھوڑو سے ملے جو اس وقت وزیر دفاع تھے۔ ان کے حکم پر ٹیسٹ اورانٹرویو لینے کا خصوصی انتظام کیا گیا، ان میں تو بھائی جان پاس ہوگئے لیکن طبی معائنہ کرنے والے میڈیکل بورڈ نے انھیں اس بنیاد پر لینے سے انکارکردیا کہ ان کے کان کے کمزور پردے ہوا اور شورکا غیر معمولی دباؤ برداشت نہیں کرسکتے۔


بھائی جان کو پائلٹ بننے کے لیے بہرا ہونا منظور نہیں تھا سو گھر واپس آگئے۔ ہمارے پرائمری اسکول کے زمانے کے ایک ٹیچر بھی ایوب کھوڑو کے حوالے سے ایک دلچسپ قصہ سنایا کرتے تھے جو کچھ یوں تھا کہ ہماری طرف کے وزیر اعلیٰ کے حمایت یافتہ نظامانی زمیندار اپنے جس نوجوان کو سندھ اسمبلی کے ایک حلقے سے الیکشن لڑانا چاہتے تھے، اس کی عمر مطلوبہ معیار سے ایک سال کم تھی۔ اسکول کے ہیڈ ماسٹر سے سرٹیفکیٹ بنوانے کی کوشش کی گئی جو ان کے انکارکی وجہ سے ناکام ہوگئی۔ نظامانیوں کے کہنے پر وزیر اعلیٰ ایوب کھوڑو نے خود ہیڈ ماسٹر کو بلواکر بات کی اور دباؤ ڈال کر اس سے مطلوبہ سرٹیفکیٹ بنوا لیا۔ ہیڈ ماسٹر نے سرٹیفکیٹ تو بنا دیا لیکن جنرل رجسٹر میں تاریخ پیدائش تبدیل کرنا بھول گیا۔ نظامانیوں کا لڑکا الیکشن تو جیت گیا لیکن اس کے مخالف امیدوار کوکہیں سے سرٹیفکیٹ کے جعلی ہونے کی بھنک پڑگئی اور اس نے انتخاب کو چیلنج کردیا۔

ہیڈ ماسٹر کی نوکری گئی، انتخاب کالعدم قرار پایا اور جعلسازی کا مقدمہ الگ درج ہوا۔ کیس کی سماعت کرنے والی ماتلی کے ہندو سول جج کی کورٹ فیصلہ سنانے والی تھی کہ نظامانیوں کو اپنے خلاف فیصلہ آنے کا پتہ چل گیا، ان کے اپروچ کرنے پر کھوڑو صاحب نے اقتدار کے نشے اور گھمنڈ میں انھیں سول جج کے نام سفارشی رقعہ لکھ دیا۔ دیوان کو (سندھ میں ہندوؤں کو دیوان کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے) کو خط پہنچایا گیا تو اس نے بجائے حکم بجا لانے کے اسے بھی ریکارڈ کا حصہ بنا دیا۔ مرد آہن کو لینے کے دینے پڑگئے، انھوں نے دیوان کی بڑی ہی منت سماجت کی لیکن وہ نہ مانا، اصل بات تو رہی ایک طرف، اب ان کی اپنی عزت داؤ پر لگی ہوئی تھی۔

بالآخر ہائی کورٹ کے ایک جج، جو ان کے دوست بھی تھے کھوڑو صاحب کی مدد کو آئے جن کے کہنے سے دیوان نے وہ سفارشی خط لوٹا دیا۔ہالہ کے رہائشی پولیس کے ایک ریٹائرڈ ہیڈ کانسٹیبل ہاشم میمن بتاتے تھے کہ وہ اس کورٹ میں سیکیورٹی ڈیوٹی پر موجود ہوا کرتے تھے جو کھوڑو کے خلاف ایبڈو یا پروڈا کے تحت مقدمات کی سماعت کر رہی تھی۔ جونہی جج کی آمد کا اعلان ہوتا یہ اس کے احترام میں اٹھ کر کھڑا ہونے کے بجائے کوٹ کی جیب سے اخبار نکال کر پڑھنے بیٹھ جاتے، رعونت کا یہ عالم تھا کہ اسے اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے۔ قاضی فضل اللہ اور ان کی جوڑی مشہور تھی، دونوں میں کئی قدریں مشترک تھیں، دونوں کا تعلق لاڑکانہ سے تھا، یکساں سیاسی سوچ کے مالک ہونے کی وجہ سے دونوں کے حامی اور مخالف ایک ہی ہوتے تھے۔ برسر اقتدار آنے کے لیے دونوں نے اپنی باریاں مقرر کر رکھی تھیں، کبھی ایک وزیر اعلیٰ بنتا تو کبھی دوسرا۔

انگریزوں کے خطاب یافتہ تھے اور سب جانتے ہیں کہ وہ سر یا خان بہادر کے خطابات اور جاگیروں سے اپنے گماشتوں اور پٹھوؤں ہی کو نوازا کرتے تھے۔ عوامی سطح پر ان پریہ الزام بھی لگایا جاتا تھا کہ تقسیم کے وقت انھوں نے کروڑوں روپے رشوت لے کر یہاں سے براستہ کھوکھرا پار ہندوستان جانے والے ہندوؤں کو سلامتی کے ساتھ نکالنے کی ضمانت دی تھی۔ حیدرآباد کے پکا قلعہ سے نکلنے والا سندھی اخبار روزنامہ نوائے سندھ دو خان بہادروں کا اخبار کہلاتا تھا جو ایوب کھوڑو اور غلام محمد وسان تھے۔ میں نے بھی 60ء کے عشرے کے شروع میں اپنا صحافتی کیریئر اسی اخبار سے شروع کیا تھا۔

اگرچہ عملی تربیت عبرت میں لے چکا تھا جس کے مالک قاضی اکبر اعلانیہ کہا کرتے تھے کہ جس نے تنخواہ پر نوکری کرنی ہو وہ نوائے سندھ چلا جائے، باقی جو کھانے کمانے کا ہنر جانتا ہو وہ ان کے اخبار میں تحفظ کی مکمل ضمانت کے ساتھ کام کر سکتا ہے۔ ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو، جو کچھ عرصہ سندھ کی وزیر تعلیم بھی رہیں، ایوب کھوڑو کی صاحبزادی تھیں۔ ان کے لئی مشہور ہے کہ بنگلہ دیش بن جانے کے بعد انھوں نے جی ایم سید کی ایلچی کی حیثیت سے بھارت جاکر وزیر اعظم اندرا گاندھی سے سندھو دیش بنوانے کے لیے مدد مانگی تھی، اگر یہ صحیح ہے تو وہ گویا باپ سے بھی دو ہاتھ آگے تھیں۔ انگریز ہوتے تو انھیں بھی خان بہادرنی کے خطاب سے ضرور نوازتے۔
Load Next Story