جمہور کا انتقام…
حالیہ انتخابات میں بڑے بڑے برج جس طرح الٹے اس پر ہر جانب سے تبصرے اور حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے ...
حالیہ انتخابات میں بڑے بڑے برج جس طرح الٹے اس پر ہر جانب سے تبصرے اور حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے لیکن عوامی رائے کے مطابق اس صورت حال پر گزشتہ حکومت کا ہی ایک جملہ کافی ہے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے، کل تک پاکستان میں اس جملے کے خالق اور مبلغ آج خود اس جملے کی عملی تفسیر بن چکے ہیں۔ گزشتہ حکومت کی لاکھ تاویلیں اور دیگر جماعتوں کی مظلومیت کے ڈھول انتخابات کی دُھول کی نذر ہو چکے، گویا سب اندازے اور دعوے عوامی غیظ و غضب کے آگے رائیگاں گئے، جس طرح سے پانچ سال تک پی پی نے عوام کے ساتھ شان بے نیازی والا سلوک اپنائے رکھا عوام نے پی پی اور دیگر جماعتوں کے ساتھ گیارہ مئی کے دن حساب اسی بے رحمی کے ساتھ بے باک کر دیا۔
کیا عوام بھیڑ بکریاں ہیں، کیا عوام کو ٹی وی ٹاک شوز اور اخباری بیانات سے بہلایا جا سکتا ہے؟ ان تمام سوالات کا جواب عوام نے ووٹ سے دے دیا ہے۔ گیارہ مئی نے ثابت کر دیا کہ عوام کے مسائل سے نظریں چرائو گے تو عوام حکومتی ایوانوں سے سیاسی زندانوں میں بٹھانے پر قادر ہیں۔ عوام کو تنگ کرو گے تو عوام آپ سے ''تنگ'' آ سکتے ہیں۔ صرف نام کے ریلیف سے عوام کو برابر پانچ سال تک محروم رکھنا اور خود بادشاہت کے نمونے کی سطح پر حکومت کرنا؟ پھر گیارہ مئی کو گھر جانا ہی تھا۔
سیاسی پستی کی حد کہاں تک پہنچی کہ وفاق کی مصدقہ پی پی اور قوم پرستی کا پرچار کرنے والی اے این پی کے رہبر تک عوامی مکافات عمل کا شکار ہو گئے۔ قصہ پارینہ بننے میں دن ہی کتنے لگتے ہیں؟ شاید اب پی پی اور اے این پی کو اس کا سلیقہ سمجھ آ جائے کہ پی پی پنجاب اور اے این پی خیبر پختونخوا سے آئوٹ ہو چکی ہے۔ حکومتی گیند پی پی اور اے این پی کے کورٹ سے نکال کر عوام نے ن لیگ کے کورٹ میں ڈال دی۔ عوام میں مقبولیت کے لحاظ سے دوسرا نمبر تحریک انصاف کا ہے جس پر عوام نے اعتماد کیا اور اسے فیصلہ سازی کے ایوانوں میں پہنچا دیا ہے۔
گیارہ مئی کے انتخابی نتائج میں صرف پی پی اور اے این پی کے لیے ہی عبرت کا ساماں پنہاں نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ایک سبق ہے کہ عوام کے مسائل اور عوامی امنگو ں سے غفلت برتنے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے جو عوام نے گیارہ مئی کو صادر کیا ہے۔ جس طرح گزشتہ الیکشن میں عوام نے ق لیگ اور ایم ایم اے کو سیاسی نظرو ں سے گرایا تھا اور پی پی، ن لیگ اور اے این پی کو سر آنکھوں پر بٹھایا تھا، تازہ تازہ ہونے والے الیکشن میں عوام نے وہی کہانی پی پی اور اے این پی کے ساتھ دہرائی ہے اور کچھ زیادہ شدت سے دہرائی ہے۔
مگر؟ پی پی اور اے این پی نے ق لیگ اور ایم ایم اے کے ساتھ ہونے والے عوامی انتقام سے سبق حاصل نہیں کیا، سو آج پی پی اور اے این پی خود عوام کے احتساب کا شکار ہو کر کسی کو منہ دکھا نے کی قابل نہیں۔ لیکن ن لیگ اور تحریک انصاف کو ابتدا ئی ایام سے پی پی اور اے این پی کے ساتھ عوامی مکافات عمل کے نام سے جنم لینے والی کہانی سے بہت کچھ سیکھنا ہو گا۔
سیاسی ہنی مون کے دنو ں میں ہی ن لیگ کو عوامی مفاد کو مدنظر رکھ کر فیصلے کرنے ہوں گے۔ تبدیلی کا نعرہ تحریک انصاف اگر بلند کر رہی تھی تو دوسری جانب ن لیگ کا بھی یہی نعرہ مستانہ تھا۔ جب اختیار اور اقتدار ہاتھ میں ہوں تو تبدیلی لانے کے لیے سال نہیں دن ہی کافی ہوا کرتے ہیں۔ اب ن لیگ پاکستانی عوام کے دروازوں پر کتنے دنوں میں تبدیلی کا ''خط'' بھیجتی ہے؟ میاں برادران کو چند دنوں میں زبانی کلامی نہیں بلکہ عملی طور پر بتانا ہو گا۔ عوام میں شعور کی خوشگوار پیداوار کے بعد اب حکومتی وکٹ پر ن لیگ اور تحریک انصاف کو عوامی امنگوں کے عین مطابق کھیلنا ہو گا اور بہت سنبھل کر کھیلنا ہو گا، خاص طور پر ن لیگ کو کہ جس کے پاس مرکز کی کمان ہے اور پوری طاقت کے ساتھ ہے۔
تبدیلی کی دعوے دار تحریک انصاف کے کل تک زبانی وعدوں اور دعووں کو اب عوام عمل کے جامہ میں دیکھنے کے لیے بے چین ہیں۔ موجودہ حکومت جہاں مرکز کی سطح پر ن لیگ سے عوام کو سکھ ملنے کی قوی امیدیں وابستہ کیے بیٹھی ہے، وہیں عمران سے مثبت اپو زیشن اور ایشوز پر سیاست کی توقع بھی کر رہی ہے، عوام کی ایک بہت بڑی تعداد مرکز میں عمران کو اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کا داعی سمجھنے لگی ہے، سو مرکز میں عمران کے کندھوں پر بھاری ذمے داری آن پڑی ہے کہ وہ اپوزیشن میں رہ کر کس طرح سے عوام کے حقوق کا تحفظ یقینی بناتے ہیں؟ پی پی کو ڈبونے میں پارٹی کی عوامی مسائل سے بے زاری اور صرف اپنی ذات کی دلچسپیوں نے اہم کردار ادا کیا۔ آج پی پی اور اے این پی کے دامن میں سو، سو چھید ہیں۔
مصلحتوں کی شکار پی پی کو عوام نے جس طرح سے ناک آئوٹ کیا اس میں اقتدار سے رخصت ہونے والی جماعتوں کے لیے تو پورا پورا عبرت کا سامان ہے ہی، ساتھ ساتھ ن لیگ اور تحریک انصاف کو بھی پی پی اور اے این پی کی شکست سے عبرت حاصل کرنا ہو گی۔ عوام میں شعور کی بیداری کی لہر نے اب عوام کو ''جمہوریت بہترین انتقام ہے'' کا راستہ دکھا دیا ہے، سو ہر قدم پر حکمران ن لیگ اور تبدیلی کے لیے سیاسی میدان میں ''اِن'' ہونے والی تحریک انصاف کو عوامی امنگوں کا خیال رکھنا ہو گا۔ ورنہ؟ اگلے الیکشن میں جہاں آج پی پی اور اے این پی کھڑی ہے کل اس مقام عبرت پر مقتدر جماعتیں بھی آ سکتی ہیں۔
کیا عوام بھیڑ بکریاں ہیں، کیا عوام کو ٹی وی ٹاک شوز اور اخباری بیانات سے بہلایا جا سکتا ہے؟ ان تمام سوالات کا جواب عوام نے ووٹ سے دے دیا ہے۔ گیارہ مئی نے ثابت کر دیا کہ عوام کے مسائل سے نظریں چرائو گے تو عوام حکومتی ایوانوں سے سیاسی زندانوں میں بٹھانے پر قادر ہیں۔ عوام کو تنگ کرو گے تو عوام آپ سے ''تنگ'' آ سکتے ہیں۔ صرف نام کے ریلیف سے عوام کو برابر پانچ سال تک محروم رکھنا اور خود بادشاہت کے نمونے کی سطح پر حکومت کرنا؟ پھر گیارہ مئی کو گھر جانا ہی تھا۔
سیاسی پستی کی حد کہاں تک پہنچی کہ وفاق کی مصدقہ پی پی اور قوم پرستی کا پرچار کرنے والی اے این پی کے رہبر تک عوامی مکافات عمل کا شکار ہو گئے۔ قصہ پارینہ بننے میں دن ہی کتنے لگتے ہیں؟ شاید اب پی پی اور اے این پی کو اس کا سلیقہ سمجھ آ جائے کہ پی پی پنجاب اور اے این پی خیبر پختونخوا سے آئوٹ ہو چکی ہے۔ حکومتی گیند پی پی اور اے این پی کے کورٹ سے نکال کر عوام نے ن لیگ کے کورٹ میں ڈال دی۔ عوام میں مقبولیت کے لحاظ سے دوسرا نمبر تحریک انصاف کا ہے جس پر عوام نے اعتماد کیا اور اسے فیصلہ سازی کے ایوانوں میں پہنچا دیا ہے۔
گیارہ مئی کے انتخابی نتائج میں صرف پی پی اور اے این پی کے لیے ہی عبرت کا ساماں پنہاں نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ایک سبق ہے کہ عوام کے مسائل اور عوامی امنگو ں سے غفلت برتنے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے جو عوام نے گیارہ مئی کو صادر کیا ہے۔ جس طرح گزشتہ الیکشن میں عوام نے ق لیگ اور ایم ایم اے کو سیاسی نظرو ں سے گرایا تھا اور پی پی، ن لیگ اور اے این پی کو سر آنکھوں پر بٹھایا تھا، تازہ تازہ ہونے والے الیکشن میں عوام نے وہی کہانی پی پی اور اے این پی کے ساتھ دہرائی ہے اور کچھ زیادہ شدت سے دہرائی ہے۔
مگر؟ پی پی اور اے این پی نے ق لیگ اور ایم ایم اے کے ساتھ ہونے والے عوامی انتقام سے سبق حاصل نہیں کیا، سو آج پی پی اور اے این پی خود عوام کے احتساب کا شکار ہو کر کسی کو منہ دکھا نے کی قابل نہیں۔ لیکن ن لیگ اور تحریک انصاف کو ابتدا ئی ایام سے پی پی اور اے این پی کے ساتھ عوامی مکافات عمل کے نام سے جنم لینے والی کہانی سے بہت کچھ سیکھنا ہو گا۔
سیاسی ہنی مون کے دنو ں میں ہی ن لیگ کو عوامی مفاد کو مدنظر رکھ کر فیصلے کرنے ہوں گے۔ تبدیلی کا نعرہ تحریک انصاف اگر بلند کر رہی تھی تو دوسری جانب ن لیگ کا بھی یہی نعرہ مستانہ تھا۔ جب اختیار اور اقتدار ہاتھ میں ہوں تو تبدیلی لانے کے لیے سال نہیں دن ہی کافی ہوا کرتے ہیں۔ اب ن لیگ پاکستانی عوام کے دروازوں پر کتنے دنوں میں تبدیلی کا ''خط'' بھیجتی ہے؟ میاں برادران کو چند دنوں میں زبانی کلامی نہیں بلکہ عملی طور پر بتانا ہو گا۔ عوام میں شعور کی خوشگوار پیداوار کے بعد اب حکومتی وکٹ پر ن لیگ اور تحریک انصاف کو عوامی امنگوں کے عین مطابق کھیلنا ہو گا اور بہت سنبھل کر کھیلنا ہو گا، خاص طور پر ن لیگ کو کہ جس کے پاس مرکز کی کمان ہے اور پوری طاقت کے ساتھ ہے۔
تبدیلی کی دعوے دار تحریک انصاف کے کل تک زبانی وعدوں اور دعووں کو اب عوام عمل کے جامہ میں دیکھنے کے لیے بے چین ہیں۔ موجودہ حکومت جہاں مرکز کی سطح پر ن لیگ سے عوام کو سکھ ملنے کی قوی امیدیں وابستہ کیے بیٹھی ہے، وہیں عمران سے مثبت اپو زیشن اور ایشوز پر سیاست کی توقع بھی کر رہی ہے، عوام کی ایک بہت بڑی تعداد مرکز میں عمران کو اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کا داعی سمجھنے لگی ہے، سو مرکز میں عمران کے کندھوں پر بھاری ذمے داری آن پڑی ہے کہ وہ اپوزیشن میں رہ کر کس طرح سے عوام کے حقوق کا تحفظ یقینی بناتے ہیں؟ پی پی کو ڈبونے میں پارٹی کی عوامی مسائل سے بے زاری اور صرف اپنی ذات کی دلچسپیوں نے اہم کردار ادا کیا۔ آج پی پی اور اے این پی کے دامن میں سو، سو چھید ہیں۔
مصلحتوں کی شکار پی پی کو عوام نے جس طرح سے ناک آئوٹ کیا اس میں اقتدار سے رخصت ہونے والی جماعتوں کے لیے تو پورا پورا عبرت کا سامان ہے ہی، ساتھ ساتھ ن لیگ اور تحریک انصاف کو بھی پی پی اور اے این پی کی شکست سے عبرت حاصل کرنا ہو گی۔ عوام میں شعور کی بیداری کی لہر نے اب عوام کو ''جمہوریت بہترین انتقام ہے'' کا راستہ دکھا دیا ہے، سو ہر قدم پر حکمران ن لیگ اور تبدیلی کے لیے سیاسی میدان میں ''اِن'' ہونے والی تحریک انصاف کو عوامی امنگوں کا خیال رکھنا ہو گا۔ ورنہ؟ اگلے الیکشن میں جہاں آج پی پی اور اے این پی کھڑی ہے کل اس مقام عبرت پر مقتدر جماعتیں بھی آ سکتی ہیں۔