تحریک انصاف دوتہائی اکثریت سے کیوں کامیاب ہوئی
عام انتخابات کا انعقاد ہوچکا جن میں خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کو دوتہائی اکثریت حاصل ہوگئی ہے
عام انتخابات کا انعقاد ہوچکا جن میں خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کو دوتہائی اکثریت حاصل ہوگئی ہے جو اس سے پہلے کسی بھی سیاسی پارٹی کو حاصل نہیں ہوئی اور یہ معاملہ صرف دو تہائی اکثریت تک ہی محدود نہیں بلکہ تحریک انصاف صوبہ کا گزشتہ تیس سالہ ریکارڈ توڑنے میں بھی کامیابی ٹھہری ہے۔
1988ء کے عام انتخابات کے بعد اب تک کوئی بھی سیاسی جماعت صوبہ میں حکومت کرنے کے بعد دوبارہ اقتدار میں نہ آسکی اور اسے دوبارہ حکومت لینے کے لیے انتظار کرنا پڑا لیکن تحریک انصاف جسے گزشتہ عام انتخابات میں ایک تہائی اکثریت حاصل ہوئی تھی وہ اب دوتہائی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے جس کا کریڈٹ یقینی طور پر تحریک انصاف کو تو جاتا ہے تاہم اس کی ایک بڑی وجہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اپنی حکمت عملی درست طریقے سے ترتیب نہ دینا بھی ہے کیونکہ عام انتخابات سے قبل اپوزیشن میں بیٹھی تمام سیاسی جماعتیں ہوا میں قلعے تعمیر کرنے میں مصروف تھیں اور ہر ایک سیاسی پارٹی الیکشن سے پہلے ہی صوبہ میں حکومت بنا کر بیٹھ گئی تھی جس کا نقصان انھیں الیکشن میں اٹھانا پڑا۔
تحریک انصاف نے بغیر کسی اتحاد یا ایڈجسٹمنٹ کے میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا اوراس کی یہ حکمت عملی بھی کامیاب رہی کیونکہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا خیال تھا کہ اگر تحریک انصاف نے کسی بھی دوسری سیاسی جماعت کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کی تو اس صورت میں پی ٹی آئی کا ووٹ بنک متاثر ہو سکتا ہے اور اسی سوچ کے تحت تحریک انصاف اکیلے میدان میں اتری اور میدان مار لیا جبکہ دیگر سیاسی جماعتیں جو گزشتہ دور میں اپوزیشن میں تھیں وہ غلط فہمیوں اور خوش فہمیوں کا شکار ہوتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کی راہ نہ اپنا سکیں جس کی وجہ سے انھیں ایک مرتبہ پھر تحریک انصاف کے ہاتھوں وہ زخم لگے ہیں کہ وہ پانچ سالوں تک یہ زخم سہلاتی رہیں گی، مذکورہ جماعتوں میں متحدہ مجلس عمل کو تحریک انصاف کے قریب ترین حریف کے طور پر دیکھاجا رہا تھا اور توقع کی جا رہی تھی کہ ایم ایم اے، پی ٹی آئی کو ٹف ٹائم دے گی لیکن ایسا نہیں ہو سکا اور عوام نے انتخابات میں مذہبی جماعتوں کے اکٹھ کو مسترد کردیا ہے جس کی بنیادی وجہ ان کا آخری وقت تک گزشتہ حکومتوں میں رہنا ہے۔
جمعیت علماء اسلام (ف)آخری وقت تک مسلم لیگ(ن)کے پہلو میں بیٹھی اقتدارکا مزہ لیتی رہی جبکہ دوسری جانب جماعت اسلامی صوبہ میں حکومت کی آئینی مدت ختم ہونے سے صرف پچیس دن پہلے حکومت سے باہر آئی، دونوں جماعتوں میں عام انتخابات کے انعقاد سے کافی پہلے سے یہ ڈسکشن جاری تھی کہ انھیں انتخابات کی تیاری کے لیے حکومتوں سے الگ ہوتے ہوئے باہر آجانا چاہیے تاہم ایسا نہ ہوسکا جس کا خمیازہ ان دونوں پارٹیوں کو عام انتخابات میں بھگتنا پڑا، پارلیمانی اعتبار سے گو کہ سب سے زیادہ خسارے میں اگر کوئی پارٹی رہی ہے تووہ قومی وطن پارٹی ہے جو قومی یا صوبائی اسمبلی کی کوئی ایک نشست نہیں جیت سکی، پارٹی کے مرکزی چیئرمین آفتاب احمد خان شیرپاؤ اور صوبائی صدر سکندر شیر پاؤ بھی اسمبلیوں سے باہر ہوگئے ہیں، قومی وطن پارٹی کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے وہ غیرمتوقع نہیں کیونکہ انتخابات کے انعقاد سے پہلے ہی کیوڈبلیوپی کمزور ترین پوزیشن میں نظر آرہی تھی تاہم الیکشن میں اس کا مکمل طور پر صفایا ہی ہوگیا ہے اور کیوڈبلیو پی پارلیمان میں نمائندگی ہی سے محروم ہوگئی ہے۔
جماعت اسلامی کی صورت حال یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ اس کے مرکزی امیر سراج الحق خود شکست سے دوچار ہوئے ہیں بلکہ جماعت اسلامی کی جانب سے نامزد امیدوار ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لیتے ہوئے صرف ایک قومی اور ایک صوبائی نشست پر ہی کامیابی حاصل کر پائے ہیں۔ جماعت اسلامی اپنے گڑھ دیر جسے عرف عام میں جماعت اسلامی کا لاڑکانہ کہا جاتا ہے، وہاں سے بھی شکست سے دوچار ہوئی ہے اور صرف سابق سینئر وزیر عنایت اللہ خان وہاں سے جیت پائے ہیں،دوسری جانب جے یوآئی اگرچہ قومی اسمبلی کی 7 اور صوبائی اسمبلی کی9 نشستیں حاصل کرنے میں تو کامیاب ٹھہری تاہم جے یوآئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن جو ایم ایم اے کے بھی مرکزی صدر ہیں،خوددونشستوں پرشکست سے دوچار ہوئے، اکرم خان درانی کوپی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے ہاتھوں شکست کھانی پڑی جبکہ جے یوآئی کے صوبائی امیر مولانا گل نصیب خان سینٹ کے بعد عام انتخابات میں بھی شکست کا داغ اپنے دامن پر لیے انتخابی میدان سے باہر آئے ہیں جس سے ثابت ہوتاہے کہ عوام نے ایم ایم اے کو مسترد کردیا ہے۔
یہ بات پہلے ہی سے نظر آرہی تھی کہ ایم ایم اے وہ کارکردگی نہیں دکھا پائے گی جو اس نے2002ء میں دکھائی تھی کیونکہ اس وقت مذہبی جماعتیں اکٹھی تھیں اور اس وقت کے ایم ایم اے میں مولانا سمیع الحق بھی شامل تھے جبکہ ساتھ ہی مولانا شاہ احمد نورانی کی جمعیت علماء پاکستان بھی یکجا تھی لیکن اب ایک جانب تو مولانا سمیع الحق اس اتحادکاحصہ نہیں تھے تودوسری جانب جے یوپی بھی منقسم حالت میں ایم ایم اے میں شامل تھی یہی وجہ ہے کہ عوام نے اس مرتبہ ایم ایم اے کو قبول نہیں کیا ایم ایم اے خیبرپختونخوا میں اپوزیشن کا کردار ادا کرنے پر مجبور ہوگئی ہے،عوامی نیشنل پارٹی نے گوکہ گزشتہ عام انتخابات کی نسبت صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں زائد حاصل کیں تاہم جو خواب اے این پی کی قیادت اپنی آنکھوں میں سجائے بیٹھی تھی وہ سارے خواب چکنا چور ہوگئے ہیں،اے این پی کے سربراہ اسفندیارولی خان ایک مرتبہ پھر میدان ہارگئے لیکن اس مرتبہ انھیں شکست دینے والے مولانا گوہر شاہ نہیں کیونکہ وہ خود بھی اس مرتبہ شکست ہی سے دوچار ہوئے ہیں اور میدان تحریک انصاف کے فضل محمد خان کے ہاتھ رہا۔
اے این پی کے سربراہ اسفندیارولی خان کے صاحبزادے ایمل ولی خان بھی ہار گئے تاہم پارٹی کے صوبائی صدر اور سابق وزیراعلیٰ امیرحیدر ہوتی نہ صرف یہ کہ صوبائی نشست جیت کر آئے بلکہ قومی اسمبلی کی نشست پر بھی کامیاب ٹھہرے جس کی وجہ سے اے این پی کو قومی اسمبلی میں نمائندگی حاصل رہے گی۔
انتخابات کے بعد اقتدارکاکھیل شروع ہو چکا ہے اور ان سطورکو سپرد قلم کرتے وقت تک کی صورت حال یہ ہے کہ سابق وزیراعلیٰ پرویزخٹک خیبرپختونخوا کی وزارت اعلیٰ چھوڑنے کے لیے تیار نہیںجبکہ عمران خان ان کی قومی اسمبلی کی نشست نہیں چھوڑسکتے اس لیے عاطف خان ہوں یاشوکت یوسفزئی دونوں میں سے کسی ایک کو تین ماہ کے لیے عبوری وزیراعلیٰ بنایاجائیگا ، مرکز اورصوبوں میں حکومتیں بن جانے کے بعد ضمنی انتخابات میں پرویزخٹک دوبارہ اپنی چھوڑی ہوئی صوبائی اسمبلی نشست پر الیکشن میں حصہ لیں گے اور کامیاب ہونے کی صورت میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے امیدوارکے طور پر میدان میں ہوں گے جس کے بعد خیبرپختونخوا میں وزارت اعلیٰ کے عہدے پر ایک مرتبہ پھر تبدیلی آئے گی اور پرویزخٹک دوبارہ صوبہ میں ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لیں گے کیونکہ یہ بات حقیقت ہے کہ پرویزخٹک ہی معاملات کو بہتر طور پر چلاسکتے ہیں وہ بھی اس صورت میں کہ آئندہ سال فاٹا میں صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر بھی انتخابات کا انعقاد ہونا ہے جن کے لیے جوڑ توڑکی جس مہارت کی ضرورت ہے وہ پرویزخٹک ہی رکھتے ہیں ۔
1988ء کے عام انتخابات کے بعد اب تک کوئی بھی سیاسی جماعت صوبہ میں حکومت کرنے کے بعد دوبارہ اقتدار میں نہ آسکی اور اسے دوبارہ حکومت لینے کے لیے انتظار کرنا پڑا لیکن تحریک انصاف جسے گزشتہ عام انتخابات میں ایک تہائی اکثریت حاصل ہوئی تھی وہ اب دوتہائی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے جس کا کریڈٹ یقینی طور پر تحریک انصاف کو تو جاتا ہے تاہم اس کی ایک بڑی وجہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اپنی حکمت عملی درست طریقے سے ترتیب نہ دینا بھی ہے کیونکہ عام انتخابات سے قبل اپوزیشن میں بیٹھی تمام سیاسی جماعتیں ہوا میں قلعے تعمیر کرنے میں مصروف تھیں اور ہر ایک سیاسی پارٹی الیکشن سے پہلے ہی صوبہ میں حکومت بنا کر بیٹھ گئی تھی جس کا نقصان انھیں الیکشن میں اٹھانا پڑا۔
تحریک انصاف نے بغیر کسی اتحاد یا ایڈجسٹمنٹ کے میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا اوراس کی یہ حکمت عملی بھی کامیاب رہی کیونکہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا خیال تھا کہ اگر تحریک انصاف نے کسی بھی دوسری سیاسی جماعت کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کی تو اس صورت میں پی ٹی آئی کا ووٹ بنک متاثر ہو سکتا ہے اور اسی سوچ کے تحت تحریک انصاف اکیلے میدان میں اتری اور میدان مار لیا جبکہ دیگر سیاسی جماعتیں جو گزشتہ دور میں اپوزیشن میں تھیں وہ غلط فہمیوں اور خوش فہمیوں کا شکار ہوتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کی راہ نہ اپنا سکیں جس کی وجہ سے انھیں ایک مرتبہ پھر تحریک انصاف کے ہاتھوں وہ زخم لگے ہیں کہ وہ پانچ سالوں تک یہ زخم سہلاتی رہیں گی، مذکورہ جماعتوں میں متحدہ مجلس عمل کو تحریک انصاف کے قریب ترین حریف کے طور پر دیکھاجا رہا تھا اور توقع کی جا رہی تھی کہ ایم ایم اے، پی ٹی آئی کو ٹف ٹائم دے گی لیکن ایسا نہیں ہو سکا اور عوام نے انتخابات میں مذہبی جماعتوں کے اکٹھ کو مسترد کردیا ہے جس کی بنیادی وجہ ان کا آخری وقت تک گزشتہ حکومتوں میں رہنا ہے۔
جمعیت علماء اسلام (ف)آخری وقت تک مسلم لیگ(ن)کے پہلو میں بیٹھی اقتدارکا مزہ لیتی رہی جبکہ دوسری جانب جماعت اسلامی صوبہ میں حکومت کی آئینی مدت ختم ہونے سے صرف پچیس دن پہلے حکومت سے باہر آئی، دونوں جماعتوں میں عام انتخابات کے انعقاد سے کافی پہلے سے یہ ڈسکشن جاری تھی کہ انھیں انتخابات کی تیاری کے لیے حکومتوں سے الگ ہوتے ہوئے باہر آجانا چاہیے تاہم ایسا نہ ہوسکا جس کا خمیازہ ان دونوں پارٹیوں کو عام انتخابات میں بھگتنا پڑا، پارلیمانی اعتبار سے گو کہ سب سے زیادہ خسارے میں اگر کوئی پارٹی رہی ہے تووہ قومی وطن پارٹی ہے جو قومی یا صوبائی اسمبلی کی کوئی ایک نشست نہیں جیت سکی، پارٹی کے مرکزی چیئرمین آفتاب احمد خان شیرپاؤ اور صوبائی صدر سکندر شیر پاؤ بھی اسمبلیوں سے باہر ہوگئے ہیں، قومی وطن پارٹی کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے وہ غیرمتوقع نہیں کیونکہ انتخابات کے انعقاد سے پہلے ہی کیوڈبلیوپی کمزور ترین پوزیشن میں نظر آرہی تھی تاہم الیکشن میں اس کا مکمل طور پر صفایا ہی ہوگیا ہے اور کیوڈبلیو پی پارلیمان میں نمائندگی ہی سے محروم ہوگئی ہے۔
جماعت اسلامی کی صورت حال یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ اس کے مرکزی امیر سراج الحق خود شکست سے دوچار ہوئے ہیں بلکہ جماعت اسلامی کی جانب سے نامزد امیدوار ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لیتے ہوئے صرف ایک قومی اور ایک صوبائی نشست پر ہی کامیابی حاصل کر پائے ہیں۔ جماعت اسلامی اپنے گڑھ دیر جسے عرف عام میں جماعت اسلامی کا لاڑکانہ کہا جاتا ہے، وہاں سے بھی شکست سے دوچار ہوئی ہے اور صرف سابق سینئر وزیر عنایت اللہ خان وہاں سے جیت پائے ہیں،دوسری جانب جے یوآئی اگرچہ قومی اسمبلی کی 7 اور صوبائی اسمبلی کی9 نشستیں حاصل کرنے میں تو کامیاب ٹھہری تاہم جے یوآئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن جو ایم ایم اے کے بھی مرکزی صدر ہیں،خوددونشستوں پرشکست سے دوچار ہوئے، اکرم خان درانی کوپی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے ہاتھوں شکست کھانی پڑی جبکہ جے یوآئی کے صوبائی امیر مولانا گل نصیب خان سینٹ کے بعد عام انتخابات میں بھی شکست کا داغ اپنے دامن پر لیے انتخابی میدان سے باہر آئے ہیں جس سے ثابت ہوتاہے کہ عوام نے ایم ایم اے کو مسترد کردیا ہے۔
یہ بات پہلے ہی سے نظر آرہی تھی کہ ایم ایم اے وہ کارکردگی نہیں دکھا پائے گی جو اس نے2002ء میں دکھائی تھی کیونکہ اس وقت مذہبی جماعتیں اکٹھی تھیں اور اس وقت کے ایم ایم اے میں مولانا سمیع الحق بھی شامل تھے جبکہ ساتھ ہی مولانا شاہ احمد نورانی کی جمعیت علماء پاکستان بھی یکجا تھی لیکن اب ایک جانب تو مولانا سمیع الحق اس اتحادکاحصہ نہیں تھے تودوسری جانب جے یوپی بھی منقسم حالت میں ایم ایم اے میں شامل تھی یہی وجہ ہے کہ عوام نے اس مرتبہ ایم ایم اے کو قبول نہیں کیا ایم ایم اے خیبرپختونخوا میں اپوزیشن کا کردار ادا کرنے پر مجبور ہوگئی ہے،عوامی نیشنل پارٹی نے گوکہ گزشتہ عام انتخابات کی نسبت صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں زائد حاصل کیں تاہم جو خواب اے این پی کی قیادت اپنی آنکھوں میں سجائے بیٹھی تھی وہ سارے خواب چکنا چور ہوگئے ہیں،اے این پی کے سربراہ اسفندیارولی خان ایک مرتبہ پھر میدان ہارگئے لیکن اس مرتبہ انھیں شکست دینے والے مولانا گوہر شاہ نہیں کیونکہ وہ خود بھی اس مرتبہ شکست ہی سے دوچار ہوئے ہیں اور میدان تحریک انصاف کے فضل محمد خان کے ہاتھ رہا۔
اے این پی کے سربراہ اسفندیارولی خان کے صاحبزادے ایمل ولی خان بھی ہار گئے تاہم پارٹی کے صوبائی صدر اور سابق وزیراعلیٰ امیرحیدر ہوتی نہ صرف یہ کہ صوبائی نشست جیت کر آئے بلکہ قومی اسمبلی کی نشست پر بھی کامیاب ٹھہرے جس کی وجہ سے اے این پی کو قومی اسمبلی میں نمائندگی حاصل رہے گی۔
انتخابات کے بعد اقتدارکاکھیل شروع ہو چکا ہے اور ان سطورکو سپرد قلم کرتے وقت تک کی صورت حال یہ ہے کہ سابق وزیراعلیٰ پرویزخٹک خیبرپختونخوا کی وزارت اعلیٰ چھوڑنے کے لیے تیار نہیںجبکہ عمران خان ان کی قومی اسمبلی کی نشست نہیں چھوڑسکتے اس لیے عاطف خان ہوں یاشوکت یوسفزئی دونوں میں سے کسی ایک کو تین ماہ کے لیے عبوری وزیراعلیٰ بنایاجائیگا ، مرکز اورصوبوں میں حکومتیں بن جانے کے بعد ضمنی انتخابات میں پرویزخٹک دوبارہ اپنی چھوڑی ہوئی صوبائی اسمبلی نشست پر الیکشن میں حصہ لیں گے اور کامیاب ہونے کی صورت میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے امیدوارکے طور پر میدان میں ہوں گے جس کے بعد خیبرپختونخوا میں وزارت اعلیٰ کے عہدے پر ایک مرتبہ پھر تبدیلی آئے گی اور پرویزخٹک دوبارہ صوبہ میں ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لیں گے کیونکہ یہ بات حقیقت ہے کہ پرویزخٹک ہی معاملات کو بہتر طور پر چلاسکتے ہیں وہ بھی اس صورت میں کہ آئندہ سال فاٹا میں صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر بھی انتخابات کا انعقاد ہونا ہے جن کے لیے جوڑ توڑکی جس مہارت کی ضرورت ہے وہ پرویزخٹک ہی رکھتے ہیں ۔