ٹیک اوور اتنی جلدی
حکومت چاہے تو ڈیموں کی تعمیر کےلیے قائم فنڈ کو ٹیک اوور کرلے کیوں کہ ججوں کا کام نہیں کہ فنڈز اکٹھے کریں، چیف جسٹس
ارے قدم تو جمالینے دیتے! آپ نے تو فوراً ہی ہاتھ اٹھا لیے۔ حکومتی اُونٹ کسی کروٹ بیٹھ جاتا، کوئی نئے پرانے گھوڑے تیار ہوجاتے، وزارتیں مل جاتیں اور حلف برداری بھی ہوجاتی۔ فائلوں سے نکل کر اختیارات حقیقی روپ دھارلیتے، پھرذرا ان وزیروں اور مشیروں کا چال چلن کچھ عرصہ دیکھتے، پھر آئندہ دو ماہ میں ٹیک اوور کی باتیں کرتے۔
جب ایک ماہ میں 50 کروڑ تک بات پہنچ سکتی ہے تو دو ماہ اور انتظار کرنے میں کیا حرج تھا؟ حکومت کو بھی وقت مل جاتا، عوام بھی خوش دلی سے عطیہ دیتی اور ملک کا بھی بھلا ہوجاتا۔ نگرانی کا ذمہ اپنے پاس رکھتے تاکہ ٹیم بھی بن جاتی، کام بھی شروع ہوجاتا، اور عوام کا پیسہ بھی ضائع نہ ہوتا۔ آپ کےنام کی آس لگی ہے، عوام کے دلوں میں امید کا دیا جلتا رہتا۔
اصل میں ڈر یہ ہے کہ اقتدار اور پیسہ دیکھ کر اچھے اچھوں کی نیت بدل جاتی ہے، ویسے بھی وہ کھلاڑی سے لیڈر اور پھر سیاستدان بنے ہیں، تھوڑا سا اور وقت لگ سکتا ہے۔
پچھلے منجھے ہوئے سیاسی کھلاڑی اتنی آسانی سے انہیں کوئی کام کرنے نہیں دیں گے۔ جن کے منہ کو مفت کی لگی ہو، مشکل ہی چھوٹتی ہے۔
کم از کم چیک اینڈ بیلنس تو آپ رکھیے اکاؤنٹ پر، انتخابات ہوئے ابھی صرف چند دن ہی تو ہوئے ہیں اور آپ نے کہہ دیا اپنا کام خود کرو! یہ عدلیہ کے کرنے کے کام نہیں، یہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔
'حکومت چاہے تو ڈیموں کی تعمیر کےلیے قائم فنڈ کو ٹیک اوور کرلے کیوں کہ ججوں کا کام نہیں کہ فنڈز اکٹھے کریں۔'
چیف جسٹس نے ڈیمز سے متعلق کیس کی سماعت میں ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ 'ٹھیکے دینے کے معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی، نہ ہی دونوں ڈیمز (دیامربھاشا اور مہمند) کے تعمیری منصوبے اور ڈیزائن کے معاملے میں دخل دے گی، تاہم یہ بات یقینی بنائی جائے گی کہ منصوبے کےلیے مختص فنڈ میں کوئی گڑبڑ نہ کی جائے نہ اس رقم سے غیر قانونی طور پر کمیشن بنایا جائے۔ چیف جسٹس نے بتایا کہ ایک درگاہ کے دورے کے دوران فنڈز میں جمع کرانے کےلیے کسی نے انہیں 5 لاکھ روپے کا چیک بھی دیا۔'
سماعت کے دوران بیرسٹر اعتزاز احسن نے تجویز پیش کی کہ عدالت ڈیم کی تعمیر کا معاملہ حکومت کے سپرد کرنے کےلیے خود مشاورتی کردار ادا کرے۔
خیر! آپ عمر، عہدے، سمجھ بوجھ میں بڑے ہیں، یقیناً کوئی اچھا فیصلہ ہی کیا ہوگا۔ ہم عوام بہت بھولے ہیں؛ سیاست اور ریاست کے معاملات کو نہیں سمجھتے۔ حکمرانوں کی آپس کی دوستیاں اور دشمنیاں، مفاداتِ ملکی و غیرملکی بھی سمجھ نہیں پاتے۔ ہم صرف اپنا اور اپنے جیسے دوسرے غریب عوام کا غم جانتے ہیں، ان کاساتھ دینا جانتے ہیں، ایک آواز پر لبیک کہنا جانتے ہیں۔ کوئی ہمارے لیے اچھا کرے تو جان دینا بھی جانتے ہیں، 65 کی جنگ کی طرح۔
باقی اللہ آپ کا اور ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ 70 سال گزر گئے ہیں، اور دیکھ لیتے ہیں، زندگی پڑی ہے۔ بقول فیض احمد فیضؔ:
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
جب ایک ماہ میں 50 کروڑ تک بات پہنچ سکتی ہے تو دو ماہ اور انتظار کرنے میں کیا حرج تھا؟ حکومت کو بھی وقت مل جاتا، عوام بھی خوش دلی سے عطیہ دیتی اور ملک کا بھی بھلا ہوجاتا۔ نگرانی کا ذمہ اپنے پاس رکھتے تاکہ ٹیم بھی بن جاتی، کام بھی شروع ہوجاتا، اور عوام کا پیسہ بھی ضائع نہ ہوتا۔ آپ کےنام کی آس لگی ہے، عوام کے دلوں میں امید کا دیا جلتا رہتا۔
اصل میں ڈر یہ ہے کہ اقتدار اور پیسہ دیکھ کر اچھے اچھوں کی نیت بدل جاتی ہے، ویسے بھی وہ کھلاڑی سے لیڈر اور پھر سیاستدان بنے ہیں، تھوڑا سا اور وقت لگ سکتا ہے۔
پچھلے منجھے ہوئے سیاسی کھلاڑی اتنی آسانی سے انہیں کوئی کام کرنے نہیں دیں گے۔ جن کے منہ کو مفت کی لگی ہو، مشکل ہی چھوٹتی ہے۔
کم از کم چیک اینڈ بیلنس تو آپ رکھیے اکاؤنٹ پر، انتخابات ہوئے ابھی صرف چند دن ہی تو ہوئے ہیں اور آپ نے کہہ دیا اپنا کام خود کرو! یہ عدلیہ کے کرنے کے کام نہیں، یہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔
'حکومت چاہے تو ڈیموں کی تعمیر کےلیے قائم فنڈ کو ٹیک اوور کرلے کیوں کہ ججوں کا کام نہیں کہ فنڈز اکٹھے کریں۔'
چیف جسٹس نے ڈیمز سے متعلق کیس کی سماعت میں ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ 'ٹھیکے دینے کے معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی، نہ ہی دونوں ڈیمز (دیامربھاشا اور مہمند) کے تعمیری منصوبے اور ڈیزائن کے معاملے میں دخل دے گی، تاہم یہ بات یقینی بنائی جائے گی کہ منصوبے کےلیے مختص فنڈ میں کوئی گڑبڑ نہ کی جائے نہ اس رقم سے غیر قانونی طور پر کمیشن بنایا جائے۔ چیف جسٹس نے بتایا کہ ایک درگاہ کے دورے کے دوران فنڈز میں جمع کرانے کےلیے کسی نے انہیں 5 لاکھ روپے کا چیک بھی دیا۔'
سماعت کے دوران بیرسٹر اعتزاز احسن نے تجویز پیش کی کہ عدالت ڈیم کی تعمیر کا معاملہ حکومت کے سپرد کرنے کےلیے خود مشاورتی کردار ادا کرے۔
خیر! آپ عمر، عہدے، سمجھ بوجھ میں بڑے ہیں، یقیناً کوئی اچھا فیصلہ ہی کیا ہوگا۔ ہم عوام بہت بھولے ہیں؛ سیاست اور ریاست کے معاملات کو نہیں سمجھتے۔ حکمرانوں کی آپس کی دوستیاں اور دشمنیاں، مفاداتِ ملکی و غیرملکی بھی سمجھ نہیں پاتے۔ ہم صرف اپنا اور اپنے جیسے دوسرے غریب عوام کا غم جانتے ہیں، ان کاساتھ دینا جانتے ہیں، ایک آواز پر لبیک کہنا جانتے ہیں۔ کوئی ہمارے لیے اچھا کرے تو جان دینا بھی جانتے ہیں، 65 کی جنگ کی طرح۔
باقی اللہ آپ کا اور ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ 70 سال گزر گئے ہیں، اور دیکھ لیتے ہیں، زندگی پڑی ہے۔ بقول فیض احمد فیضؔ:
دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
دستِ فلک میں گردشِ تقدیر تو نہیں
دستِ فلک میں گردشِ ایام ہی تو ہے
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔