امید کی کرن
عرصہ تین سال تک دیکھے، سنے، دعوے، بلند و بانگ دعوے اس عوام نے سنے اور سب پر بھروسہ کیا۔
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے ہمارے ملک میں پرامن انتخابات عمل پذیر ہوئے۔ اس ضمن میں، میں ان تمام کا شکرگزار ہوں جن لوگوں نے بغیر کسی معاوضے کے شب و روز محنت و جانفشانی کی۔ جیتنے والوں کو تہہ دل سے مبارک باد پیش کر رہا ہوں۔ خصوصی طور پر وہ اکثریتی لوگ جن کو عوام نے اعتماد و امید کے سہارے منتخب کیا۔
اکثریت ووٹ حاصل کرنے والا سربراہ جس کو ملک کی عوام نے نیک مخلص، بااصول، باہمت، ہمدرد، ایماندار پایا بلاشبہ اس بات کی قوی امید ہے یہ شخص اپنے ملک کی عوام کو مایوس نہیں کریں گے۔ یاد رہے پاکستانی قوم کوئی بڑے مطالبے نہیں کرتی وہ تو چھوٹی چھوٹی اشیا سے محروم ہیں جو ان کے بنیادی حقوق میں شامل ہیں۔
عرصہ تین سال تک دیکھے، سنے، دعوے، بلند و بانگ دعوے اس عوام نے سنے اور سب پر بھروسہ کیا۔ وہ جھوٹے، مکار، عیار نکلے الگ لیکن ان میں ایسے لوگ معزز اشخاص تھے جنھوں نے اپنی ضروریات، اہل و عیال کی، دوست احباب، عزیز و اقارب کی خوب پوری کیں حتیٰ کہ اس قدر زر خزانے سے چوری کیا، ٹیکس کی رقومات جو اس ملک کے غریب و متوسط لوگوں کی تھیں وہ بیرونی ممالک لے جاکر اس قدر جائیداد بنائیں۔
جس کی مثال دنیا میں کسی بھی عوامی لیڈر سے نہیں ملتیں۔ ملک کے بارے میں سوچا نہ عوام کی غربت پر ترس کھایا بلکہ ان معزز لوگوں نے مزید بدحال کیا۔ معیشت کو تہہ و بالا کردیا اس وقت ہمارا ملک اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ بمشکل ایک ماہ مزید گزارا جاسکتا ہے،اس کے بعد سرکاری خزانہ صفر ہوجائے گا۔ سمجھنے والے معیشت دان سمجھ رہے ہیں بلکہ وہ تو سابقہ کئی ماہ سے چیخ رہے ہیں۔ صحافی حضرات لکھ رہے ہیں ٹاک شو میں بڑی صاف گوئی سے حالات کا جائزہ لے رہے ہیں جس سے ان سب نے ملک کی عوام کو باخبر رکھا یہ ان تمام کی مہربانی ہے بلکہ یہ عوام ان کی شکرگزار ہے۔
اس وقت یہ کہنے کی ضرورت نہیں سب کو معلوم ہے سابقہ حکومتوں نے کیا کچھ کیا، کس طرح مال و زر سمیٹا بلکہ ہمارے دشمنوں اور دشمن ممالک کے کہنے پر چلتے رہے ان کو باہر سے جو ہدایات ملتیں ان پر عمل کرتے یہ نہ سوچا کہ ان باتوں سے ہمارے ملک و قوم پر کیا گزرے گی۔ بیرونی ممالک میں ہمارے ملک و قوم کی عزت کس نہج پر پہنچے گی۔ وہ سب کچھ کرتے رہے لوٹ مار، چوری، ڈاکا ، بداعمالی کا بازار گرم رہا ، ایسا لگا جیسے اب ان کے لیے مزید کوئی موقعہ میسر نہ ہوگا۔ یہ بات صحیح ہے شاید اب ان کو وہ مواقعے میسر نہ آئیں لیکن عوام کا ایک اہم سوال ہے کہ سب کچھ اپنی جگہ قانون کی بالادستی مقدم ہے لیکن لوٹا ہوا پیسہ وصول کرنا بہت ضروری ہے جب عدالت عظمیٰ مجرم قرار دے دے تو لوٹی ہوئی دولت حاصل کرنا ملک کا حق اور ذمے داری ہے۔
چونکہ ابھی تازہ بات ہے کہتے ہیں جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے، نئے آنے والے سربراہ اس ملک سے محبت رکھتے ہیں ان کو عوام کا بھی احساس ہے۔ امید ہے وہ مایوس نہیں کریں گے۔ میں ایک بات جانتا ہوں اگر کوئی شخص خود ایماندار، دیانتدار، مخلص، ملک کا چاہنے والا، عوام کا ہمدرد ہے تو وہ ضرور کچھ نہ کچھ اس ملک و قوم کے لیے کرے گا۔ جس میں جذبہ ہوتا ہے وہ یقینا کچھ کر گزرتا ہے جذبہ وہ جو ملک و قوم کے استحکام کے لیے قوم کو ایسے ہی انسان کی ضرورت ہے۔
تعلیم، صحت، صاف پانی، ملازمت، زراعت، ملکی معدنیات، زرمبادلہ میں اضافہ، معیشت کا استحکام یہ کام اس قدر الجھے ہوئے ہیں جن کو سلجھایا بھی نہیں یہ ہے آگے کام کیا۔ کرنے والے کے لیے مشکل نہیں یہ تمام کام دنوں، مہینوں میں ہوسکتے ہیں بشرطیکہ جذبہ ہو۔ میرے قریبی دوست کہہ رہے ہیں یقینا اب ملک آگے بڑھے گا عوام ترقی کریں گے بھوک، افلاس، ننگ، بے گھری، جاہلیت،بیماری، بیروزگاری یہ سب ختم ہونا شروع ہوجائیں گے۔
جس طرح عوام نے جوش و ولولہ دکھایا ہے یہ قطعی رائیگاں نہیں جائے گا اب منزل قریب ہے مصیبت، پریشانیوں، لاقانونیت، ناانصافیوں کے ادوار ختم ہوجائیں گے۔ پہلی بات ہر شخص کو عزت ملے گی کسی کو کم تر نہیں سمجھا جائے گا یقینا ہر شخص کو اس کے بنیادی حقوق ملنا چاہئیں ۔ امید ہے اب ان پر عمل ہوگا خاص بات یہ ہے ان الیکشن کے بعد عوام افسردہ نہیں بلکہ خوش ہے، جوش ہے اس میں جس سے معلوم کریں وہ کہتا ہے ہمیں یقین ہو چلا ہے ہمارے ملک میں تبدیلی آئے گی سارے چور، ڈاکو، ملک کو لوٹنے والے پابند سلاسل ہوں گے۔
اگر اس ملک میں ایسا ہو گیا تو ملک کو لوٹنے والوں سے جان چھوٹ جائے گی۔ زیادہ نہیں چند سو یا چند ہزار لوگ ایسے ہیں ان کو سزا دینا مشکل نہیں۔ ہمارے سامنے ایسے ممالک ہیں جہاں انھوں نے لاکھوں لوگوں کو گولی سے اڑا دیا تھا اپنے ملک کو صدیوں کے لیے صاف کرلیا۔ ہم یہ نہیں کہتے ان کو گولیوں سے اڑائیں بلکہ قانون جو کہتا ہے وہ پابندی کے ساتھ سزا دی جائے۔ اس میں معمولی رعایت بھی توہین عدالت شمار کی جائے گی۔ اگر سخت سے سخت سزا ہے تو پھر ایسی ہونی چاہیے تاکہ قوم کو معلوم ہو ہمارا زر لوٹنے ملک کو کھوکھلا کرنے والے کو بخشا نہیں گیا۔
ساتھ ہی ان لوگوں سے لوٹی ہوئی رقم وصول کرنا بہت ضروری ہے تاکہ مزید قرضوں سے بچیں کیونکہ لوٹی ہوئی رقم اس قدر ہے کہ ملک اس رقم سے سو سال باآسانی چل سکتا ہے کارخانے، فیکٹریاں، تعلیمی ادارے، شفاخانہ، غریبوں کے لیے رہائشی مکان، ملازمتیں بلکہ بیرون ملک سے لوگ یہاں ملازمت کرنے اور تعلیم حاصل کرنے آئیں گے۔ یہ ایسا ملک چند سالوں میں بن سکتا ہے زیادہ مدت کی ضرورت نہیں جدید دور ہے دنوں کا کام گھنٹوں میں، مہینوں کا کام دنوں میں ہوجاتا ہے۔
ملک میں ہر قسم کے لوگ موجود ہیں باہر دیکھنے کی ضرورت نہیں اعلیٰ معیشت دان، تعلیمی شعبے میں قابل ترین اساتذہ، کالج و یونیورسٹی میں بلند پایہ کے پروفیسر، لیکچرار، شفا خانوں میں نہایت قابل ڈاکٹر، حکیم، ہومیو پیتھک ڈاکٹر، قابل جراح، معدنیات میں بڑے بڑے قابل معدنیات کے ماہر ، ٹیکسٹائل میں اچھے کاریگر و انجینئر، تعمیرات میں قابل معمار الغرض ہر شعبے میں ان کا نام ہے افسوس کہ ان لوگوں کو آگے نہیں لایا گیا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اگر ان کو آگے لائیں گے تو چاپلوس، ناکارہ لوگ پیچھے رہ جائیں گے نہ چوری ہوسکے گی نہ بے ایمانی۔ اس لیے ایماندار کو پس پشت ڈال دیا گیا۔
اب امید کی کرنیں نظر آرہی ہیں ایسے تمام ہنرمند لوگ آگے آئیں گے اور ملک کو آگے لے جائیں گے۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں اس ملک کو ایماندار، دیانتدار، مخلص لوگوں کی ضرورت ہے اور وہ سب ہیں کہیں سے لانے کی ضرورت نہیں یہ عوام کا فیصلہ ہے جو پورا ہوا اور ہوگا۔
اکثریت ووٹ حاصل کرنے والا سربراہ جس کو ملک کی عوام نے نیک مخلص، بااصول، باہمت، ہمدرد، ایماندار پایا بلاشبہ اس بات کی قوی امید ہے یہ شخص اپنے ملک کی عوام کو مایوس نہیں کریں گے۔ یاد رہے پاکستانی قوم کوئی بڑے مطالبے نہیں کرتی وہ تو چھوٹی چھوٹی اشیا سے محروم ہیں جو ان کے بنیادی حقوق میں شامل ہیں۔
عرصہ تین سال تک دیکھے، سنے، دعوے، بلند و بانگ دعوے اس عوام نے سنے اور سب پر بھروسہ کیا۔ وہ جھوٹے، مکار، عیار نکلے الگ لیکن ان میں ایسے لوگ معزز اشخاص تھے جنھوں نے اپنی ضروریات، اہل و عیال کی، دوست احباب، عزیز و اقارب کی خوب پوری کیں حتیٰ کہ اس قدر زر خزانے سے چوری کیا، ٹیکس کی رقومات جو اس ملک کے غریب و متوسط لوگوں کی تھیں وہ بیرونی ممالک لے جاکر اس قدر جائیداد بنائیں۔
جس کی مثال دنیا میں کسی بھی عوامی لیڈر سے نہیں ملتیں۔ ملک کے بارے میں سوچا نہ عوام کی غربت پر ترس کھایا بلکہ ان معزز لوگوں نے مزید بدحال کیا۔ معیشت کو تہہ و بالا کردیا اس وقت ہمارا ملک اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ بمشکل ایک ماہ مزید گزارا جاسکتا ہے،اس کے بعد سرکاری خزانہ صفر ہوجائے گا۔ سمجھنے والے معیشت دان سمجھ رہے ہیں بلکہ وہ تو سابقہ کئی ماہ سے چیخ رہے ہیں۔ صحافی حضرات لکھ رہے ہیں ٹاک شو میں بڑی صاف گوئی سے حالات کا جائزہ لے رہے ہیں جس سے ان سب نے ملک کی عوام کو باخبر رکھا یہ ان تمام کی مہربانی ہے بلکہ یہ عوام ان کی شکرگزار ہے۔
اس وقت یہ کہنے کی ضرورت نہیں سب کو معلوم ہے سابقہ حکومتوں نے کیا کچھ کیا، کس طرح مال و زر سمیٹا بلکہ ہمارے دشمنوں اور دشمن ممالک کے کہنے پر چلتے رہے ان کو باہر سے جو ہدایات ملتیں ان پر عمل کرتے یہ نہ سوچا کہ ان باتوں سے ہمارے ملک و قوم پر کیا گزرے گی۔ بیرونی ممالک میں ہمارے ملک و قوم کی عزت کس نہج پر پہنچے گی۔ وہ سب کچھ کرتے رہے لوٹ مار، چوری، ڈاکا ، بداعمالی کا بازار گرم رہا ، ایسا لگا جیسے اب ان کے لیے مزید کوئی موقعہ میسر نہ ہوگا۔ یہ بات صحیح ہے شاید اب ان کو وہ مواقعے میسر نہ آئیں لیکن عوام کا ایک اہم سوال ہے کہ سب کچھ اپنی جگہ قانون کی بالادستی مقدم ہے لیکن لوٹا ہوا پیسہ وصول کرنا بہت ضروری ہے جب عدالت عظمیٰ مجرم قرار دے دے تو لوٹی ہوئی دولت حاصل کرنا ملک کا حق اور ذمے داری ہے۔
چونکہ ابھی تازہ بات ہے کہتے ہیں جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے، نئے آنے والے سربراہ اس ملک سے محبت رکھتے ہیں ان کو عوام کا بھی احساس ہے۔ امید ہے وہ مایوس نہیں کریں گے۔ میں ایک بات جانتا ہوں اگر کوئی شخص خود ایماندار، دیانتدار، مخلص، ملک کا چاہنے والا، عوام کا ہمدرد ہے تو وہ ضرور کچھ نہ کچھ اس ملک و قوم کے لیے کرے گا۔ جس میں جذبہ ہوتا ہے وہ یقینا کچھ کر گزرتا ہے جذبہ وہ جو ملک و قوم کے استحکام کے لیے قوم کو ایسے ہی انسان کی ضرورت ہے۔
تعلیم، صحت، صاف پانی، ملازمت، زراعت، ملکی معدنیات، زرمبادلہ میں اضافہ، معیشت کا استحکام یہ کام اس قدر الجھے ہوئے ہیں جن کو سلجھایا بھی نہیں یہ ہے آگے کام کیا۔ کرنے والے کے لیے مشکل نہیں یہ تمام کام دنوں، مہینوں میں ہوسکتے ہیں بشرطیکہ جذبہ ہو۔ میرے قریبی دوست کہہ رہے ہیں یقینا اب ملک آگے بڑھے گا عوام ترقی کریں گے بھوک، افلاس، ننگ، بے گھری، جاہلیت،بیماری، بیروزگاری یہ سب ختم ہونا شروع ہوجائیں گے۔
جس طرح عوام نے جوش و ولولہ دکھایا ہے یہ قطعی رائیگاں نہیں جائے گا اب منزل قریب ہے مصیبت، پریشانیوں، لاقانونیت، ناانصافیوں کے ادوار ختم ہوجائیں گے۔ پہلی بات ہر شخص کو عزت ملے گی کسی کو کم تر نہیں سمجھا جائے گا یقینا ہر شخص کو اس کے بنیادی حقوق ملنا چاہئیں ۔ امید ہے اب ان پر عمل ہوگا خاص بات یہ ہے ان الیکشن کے بعد عوام افسردہ نہیں بلکہ خوش ہے، جوش ہے اس میں جس سے معلوم کریں وہ کہتا ہے ہمیں یقین ہو چلا ہے ہمارے ملک میں تبدیلی آئے گی سارے چور، ڈاکو، ملک کو لوٹنے والے پابند سلاسل ہوں گے۔
اگر اس ملک میں ایسا ہو گیا تو ملک کو لوٹنے والوں سے جان چھوٹ جائے گی۔ زیادہ نہیں چند سو یا چند ہزار لوگ ایسے ہیں ان کو سزا دینا مشکل نہیں۔ ہمارے سامنے ایسے ممالک ہیں جہاں انھوں نے لاکھوں لوگوں کو گولی سے اڑا دیا تھا اپنے ملک کو صدیوں کے لیے صاف کرلیا۔ ہم یہ نہیں کہتے ان کو گولیوں سے اڑائیں بلکہ قانون جو کہتا ہے وہ پابندی کے ساتھ سزا دی جائے۔ اس میں معمولی رعایت بھی توہین عدالت شمار کی جائے گی۔ اگر سخت سے سخت سزا ہے تو پھر ایسی ہونی چاہیے تاکہ قوم کو معلوم ہو ہمارا زر لوٹنے ملک کو کھوکھلا کرنے والے کو بخشا نہیں گیا۔
ساتھ ہی ان لوگوں سے لوٹی ہوئی رقم وصول کرنا بہت ضروری ہے تاکہ مزید قرضوں سے بچیں کیونکہ لوٹی ہوئی رقم اس قدر ہے کہ ملک اس رقم سے سو سال باآسانی چل سکتا ہے کارخانے، فیکٹریاں، تعلیمی ادارے، شفاخانہ، غریبوں کے لیے رہائشی مکان، ملازمتیں بلکہ بیرون ملک سے لوگ یہاں ملازمت کرنے اور تعلیم حاصل کرنے آئیں گے۔ یہ ایسا ملک چند سالوں میں بن سکتا ہے زیادہ مدت کی ضرورت نہیں جدید دور ہے دنوں کا کام گھنٹوں میں، مہینوں کا کام دنوں میں ہوجاتا ہے۔
ملک میں ہر قسم کے لوگ موجود ہیں باہر دیکھنے کی ضرورت نہیں اعلیٰ معیشت دان، تعلیمی شعبے میں قابل ترین اساتذہ، کالج و یونیورسٹی میں بلند پایہ کے پروفیسر، لیکچرار، شفا خانوں میں نہایت قابل ڈاکٹر، حکیم، ہومیو پیتھک ڈاکٹر، قابل جراح، معدنیات میں بڑے بڑے قابل معدنیات کے ماہر ، ٹیکسٹائل میں اچھے کاریگر و انجینئر، تعمیرات میں قابل معمار الغرض ہر شعبے میں ان کا نام ہے افسوس کہ ان لوگوں کو آگے نہیں لایا گیا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اگر ان کو آگے لائیں گے تو چاپلوس، ناکارہ لوگ پیچھے رہ جائیں گے نہ چوری ہوسکے گی نہ بے ایمانی۔ اس لیے ایماندار کو پس پشت ڈال دیا گیا۔
اب امید کی کرنیں نظر آرہی ہیں ایسے تمام ہنرمند لوگ آگے آئیں گے اور ملک کو آگے لے جائیں گے۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں اس ملک کو ایماندار، دیانتدار، مخلص لوگوں کی ضرورت ہے اور وہ سب ہیں کہیں سے لانے کی ضرورت نہیں یہ عوام کا فیصلہ ہے جو پورا ہوا اور ہوگا۔