ایک پرانی بات جو پرانی ہی رہی
محترم میاں صاحب کی طرف سے ان کی وزارت عظمیٰ کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی زبانی کلامی دعوت واپس لینے یا۔۔۔
ایک بہت پرانی بات نئی ہونے سے بال بال بچ گئی۔ محترم میاں صاحب کی طرف سے ان کی وزارت عظمیٰ کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی زبانی کلامی دعوت واپس لینے یا اس کے جواب میں بھارتیوں کی طرف سے معذرت، جو بھی ہے اس سے ایک بہت پرانی بات زندہ ہونے سے رہ گئی ہے۔
اب اس سلسلے میں ایک یاد تازہ کرتے ہیں۔ جب میاں صاحب پہلی مرتبہ وزارت عظمیٰ کے عظیم منصب پر فائز ہونے والے تھے تو انھوں نے اپنے والد ماجد مرحوم و مغفور میاں محمد شریف صاحب سے عرض کیا کہ کیا آپ میری وزارت عظمیٰ کا حلف لینے کی تقریب میں شریک ہوں گے انھیں بوجوہ کچھ شک تھا ۔ جواب میں ان کے والد ماجد نے کہا کہ نہیں میں نہیں آؤں گا میں یہ سب برداشت نہیں کر پاؤں گا ہاں میری طرف سے محترم مجید نظامی نے شرکت کی دعوت قبول کر لی ہے وہ وہاں موجود ہوں گے تم ان کو دیکھ کر یہی سمجھنا کہ میں بیٹھا ہوں چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
پہلی بار وزیراعظم بننے والے میاں صاحب کی یہ تقریب خالصتاً پاکستانی تقریب تھی حلف لینے اور دینے والے سب پاکستانی تھے اور ایک جمہوری حکمران کی آمد بھی ایک پاکستانی خوشی تھی اس خوشی میں کوئی رخنہ نہیں تھا لیکن حالات بہت تیزی کے ساتھ بدلتے رہے اور ان کے ساتھ ساتھ غالباً میاں صاحب بھی۔ پاکستان مسلم لیگ کے سب سے بڑے گروہ کے صدر میاں نواز شریف رفتہ رفتہ کسی حد تک بھولتے گئے کہ وہ مسلم لیگ کے سربراہ ہیں اور ان کے مسلم لیگی بزرگوں نے جن کے خلاف جنگ لڑی تھی وہ ہمارے پڑوسی ہندو تھے۔
جی ہاں وہی ہندو جنہوں نے موقع ملتے ہی اپنے انتقام کی آگ بجھانے کے لیے پاکستان توڑ دیا اور بھی بہت کچھ کیا اب ہمارا پانی بند کر رہے ہیں۔ عوام کا حافظہ تو کمزور ہوتا ہی ہے معلوم ہوا ہمارے لیڈروں کا حافظہ بھی کچھ اتنا اچھا نہیں اور میاں صاحب حالات حاضرہ کی گھمن گھیریوں میں کچھ ایسے پاکستانیوں کے ہتھے چڑھ گئے جو انھیں ایک کمزور شکار سمجھ کر اپنی بھارت پسندی کی مہم کی سمت لے جانے کی کوشش کرنے لگے۔ یہ بھی ایک مستقل موضوع ہے اور بہت ضروری بھی۔
فی الحال اس تقریب کا ذکر کرتے ہیں جس میں شریف فیملی کے مہربان جناب مجید نظامی موجود تھے اور میاں برادران کے لیے ایک بڑی ہی محترم جگہ پر تشریف فرما تھے۔ اب جب ایسی کسی تقریب کے بارے میں یہ سنا کہ میاں صاحب نے بھارتی وزیراعظم کو بھی شرکت کی دعوت دی ہے تو میں ایک بے بس پاکستانی اپنی آگ میں جلنے لگا البتہ اس لمحے مجھے وہ شخصیت یاد آئی جو بھارتی وزیراعظم والی تقریب میں موجود ہوتی تو کیا یہ سب دیکھ کر زندہ سلامت واپس آ سکتی۔
مجھے بھی اس پاکستانی شخصیت کے ساتھ قربت کا یا نیاز مندی کا اعزاز حاصل ہے چنانچہ رات گئے ان کی صحت کی پروا نہ کرتے ہوئے میں نے اپنی طرف سے یہ گلہائے عقیدت پیش کرنے تھے کیونکہ انھوں نے یہ فرمایا تھا کہ اگر میاں صاحب نے اپنی اس تقریب میں بھارتی وزیراعظم کو بلوانا ہے تو پھر حلف بھی انھی سے لے لیں۔ یہ الفاظ مجید صاحب کی اس غیر معمولی صلاحیت کی نشاندہی کرتے ہیں جو خدا نے انھیں طنز کی صورت میں عطا کی ہے اور جس کا میں عمر بھر گواہ رہا ہوں کہ میرے کالم اس صلاحیت سے مرصع ہوتے تھے۔
زیادہ وقت گزرنے اور مجید صاحب کے آرام میں مخل ہونے کے باوجود انھوں نے مہربانی کی اور جب میں نے ایک پاکستانی کی طرف سے شکریہ ادا کیا تو انھوں نے فرمایا کہ میں تنگ آ کر یہ کہنے پر مجبور ہوا ہوں کیونکہ اس سے قبل وہ انھی دنوں یہاں تک بھی کہتے رہے ہیں کہ بھارت اور ہمارا کلچر ایک ہے وغیرہ وغیرہ ۔کئی پاکستانیوں نے تعجب کے ساتھ پوچھا کہ اگر سب ایک تھا تو ہم نے یہ ملک کیوں بنایا اور کسی کلچر اور تہذیب کے تحفظ کے لیے اتنی بڑی قربانی دی۔
میاں صاحب کی بھارت پسندی والی گفتگو ان کی اپنی نہیں تھی۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ باتیں ان کے منہ میں ڈالی گئی تھیں۔ میاں صاحب کچھ عرصہ سے ایک غیر ملک کی امداد پر چلنے والے بھارتی عشاق کے ایک مبینہ پاکستانی ادارے کے چالاک لوگوں کو سنا کرتے تھے۔
ان کے قرب و جوار میں بھی روشن خیال جمع ہو رہے تھے اور ہیں ، میاں صاحب کے سادہ مزاج کے لیے ان ہوشیار لوگوں کے پاس بہت کچھ ہے لیکن ہمارے پاس تو صرف ایک شخص باقی رہ گیا ہے جس کی بات پاکستان کی بات ہوا کرتی ہے اور ہمارے روشن خیال اس سے بہت جلتے ہیں۔ یہ شخص مجید نظامی ہے جو ایک دیوار بن کر روشن خیالوں کے سامنے کھڑا ہے اور راتوں کو انھیں آرام کی نیند سے جگا کر ہم اپنی سکھ کی نیند سو جاتے ہیں۔
جب کوئی پاکستان دشمنی کی بات ہوتی ہے اور اس کے جواب میں ذہن میں کوئی بات آتی ہے تو آپ یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ایک توانا خاموش نہ ہونے والی آواز بھی اس کے ساتھ گونج رہی ہے اور اس بلند آواز کی توانائی آپ کے ساتھ رواں دواں ہے۔
مجید صاحب تین بار دل کا آپریشن کرا چکے ہیں اور کہتے ہیں کہ ادھار کی زندگی گزار رہا ہوں لیکن انھیں معلوم ہے کہ زندگی دینے لینے والا اپنی حکمت رکھتا ہے۔ اسے میرے جیسے کمزور پاکستانیوں کے لیے مجید نظامی کی ضرورت ہے۔
محترم میاں صاحب کے ساتھ رہنے والے کچھ تو ان کے ملازمین ہیں جو اپنی تمام تر دانش ان پر نچھاور کرتے رہتے ہیں۔ ان میں کچھ تو پاکستانی ذہن کے لوگ ہیں لیکن خطرناک وہ ہیں جو دساور کا مال بیچتے ہیں۔ میاں نواز شریف کی شرم و حیا والی آنکھ اپنی جگہ لیکن وہ ان بھارت پرستوں کے سامنے اپنی آنکھ بند رکھا کریں میں یہاں ان کے بھائی میاں شہباز شریف سے خصوصی گزارش کروں گا وہ اپنی طوفانی سرگرمیوں میں سے کچھ وقت نکال کر اپنے بھائی کے قرب و جوار کے ان بھارت پرستوں پر بھی نظر رکھا کریں۔
پاکستان صرف ایک جغرافیائی ملک نہیں یہ ایک نظریاتی ملک ہے اور نظریہ ہی اس کی طاقت ہے اس کے نظرئیے اور ثقافت کے دشمن کون ہیں انھیں ہر پاکستانی جانتا ہے میاں شہباز اس پر خاص توجہ رکھیں۔ اس کام کے لیے ان سے بہتر اور کوئی نہیں۔
اب اس سلسلے میں ایک یاد تازہ کرتے ہیں۔ جب میاں صاحب پہلی مرتبہ وزارت عظمیٰ کے عظیم منصب پر فائز ہونے والے تھے تو انھوں نے اپنے والد ماجد مرحوم و مغفور میاں محمد شریف صاحب سے عرض کیا کہ کیا آپ میری وزارت عظمیٰ کا حلف لینے کی تقریب میں شریک ہوں گے انھیں بوجوہ کچھ شک تھا ۔ جواب میں ان کے والد ماجد نے کہا کہ نہیں میں نہیں آؤں گا میں یہ سب برداشت نہیں کر پاؤں گا ہاں میری طرف سے محترم مجید نظامی نے شرکت کی دعوت قبول کر لی ہے وہ وہاں موجود ہوں گے تم ان کو دیکھ کر یہی سمجھنا کہ میں بیٹھا ہوں چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
پہلی بار وزیراعظم بننے والے میاں صاحب کی یہ تقریب خالصتاً پاکستانی تقریب تھی حلف لینے اور دینے والے سب پاکستانی تھے اور ایک جمہوری حکمران کی آمد بھی ایک پاکستانی خوشی تھی اس خوشی میں کوئی رخنہ نہیں تھا لیکن حالات بہت تیزی کے ساتھ بدلتے رہے اور ان کے ساتھ ساتھ غالباً میاں صاحب بھی۔ پاکستان مسلم لیگ کے سب سے بڑے گروہ کے صدر میاں نواز شریف رفتہ رفتہ کسی حد تک بھولتے گئے کہ وہ مسلم لیگ کے سربراہ ہیں اور ان کے مسلم لیگی بزرگوں نے جن کے خلاف جنگ لڑی تھی وہ ہمارے پڑوسی ہندو تھے۔
جی ہاں وہی ہندو جنہوں نے موقع ملتے ہی اپنے انتقام کی آگ بجھانے کے لیے پاکستان توڑ دیا اور بھی بہت کچھ کیا اب ہمارا پانی بند کر رہے ہیں۔ عوام کا حافظہ تو کمزور ہوتا ہی ہے معلوم ہوا ہمارے لیڈروں کا حافظہ بھی کچھ اتنا اچھا نہیں اور میاں صاحب حالات حاضرہ کی گھمن گھیریوں میں کچھ ایسے پاکستانیوں کے ہتھے چڑھ گئے جو انھیں ایک کمزور شکار سمجھ کر اپنی بھارت پسندی کی مہم کی سمت لے جانے کی کوشش کرنے لگے۔ یہ بھی ایک مستقل موضوع ہے اور بہت ضروری بھی۔
فی الحال اس تقریب کا ذکر کرتے ہیں جس میں شریف فیملی کے مہربان جناب مجید نظامی موجود تھے اور میاں برادران کے لیے ایک بڑی ہی محترم جگہ پر تشریف فرما تھے۔ اب جب ایسی کسی تقریب کے بارے میں یہ سنا کہ میاں صاحب نے بھارتی وزیراعظم کو بھی شرکت کی دعوت دی ہے تو میں ایک بے بس پاکستانی اپنی آگ میں جلنے لگا البتہ اس لمحے مجھے وہ شخصیت یاد آئی جو بھارتی وزیراعظم والی تقریب میں موجود ہوتی تو کیا یہ سب دیکھ کر زندہ سلامت واپس آ سکتی۔
مجھے بھی اس پاکستانی شخصیت کے ساتھ قربت کا یا نیاز مندی کا اعزاز حاصل ہے چنانچہ رات گئے ان کی صحت کی پروا نہ کرتے ہوئے میں نے اپنی طرف سے یہ گلہائے عقیدت پیش کرنے تھے کیونکہ انھوں نے یہ فرمایا تھا کہ اگر میاں صاحب نے اپنی اس تقریب میں بھارتی وزیراعظم کو بلوانا ہے تو پھر حلف بھی انھی سے لے لیں۔ یہ الفاظ مجید صاحب کی اس غیر معمولی صلاحیت کی نشاندہی کرتے ہیں جو خدا نے انھیں طنز کی صورت میں عطا کی ہے اور جس کا میں عمر بھر گواہ رہا ہوں کہ میرے کالم اس صلاحیت سے مرصع ہوتے تھے۔
زیادہ وقت گزرنے اور مجید صاحب کے آرام میں مخل ہونے کے باوجود انھوں نے مہربانی کی اور جب میں نے ایک پاکستانی کی طرف سے شکریہ ادا کیا تو انھوں نے فرمایا کہ میں تنگ آ کر یہ کہنے پر مجبور ہوا ہوں کیونکہ اس سے قبل وہ انھی دنوں یہاں تک بھی کہتے رہے ہیں کہ بھارت اور ہمارا کلچر ایک ہے وغیرہ وغیرہ ۔کئی پاکستانیوں نے تعجب کے ساتھ پوچھا کہ اگر سب ایک تھا تو ہم نے یہ ملک کیوں بنایا اور کسی کلچر اور تہذیب کے تحفظ کے لیے اتنی بڑی قربانی دی۔
میاں صاحب کی بھارت پسندی والی گفتگو ان کی اپنی نہیں تھی۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ باتیں ان کے منہ میں ڈالی گئی تھیں۔ میاں صاحب کچھ عرصہ سے ایک غیر ملک کی امداد پر چلنے والے بھارتی عشاق کے ایک مبینہ پاکستانی ادارے کے چالاک لوگوں کو سنا کرتے تھے۔
ان کے قرب و جوار میں بھی روشن خیال جمع ہو رہے تھے اور ہیں ، میاں صاحب کے سادہ مزاج کے لیے ان ہوشیار لوگوں کے پاس بہت کچھ ہے لیکن ہمارے پاس تو صرف ایک شخص باقی رہ گیا ہے جس کی بات پاکستان کی بات ہوا کرتی ہے اور ہمارے روشن خیال اس سے بہت جلتے ہیں۔ یہ شخص مجید نظامی ہے جو ایک دیوار بن کر روشن خیالوں کے سامنے کھڑا ہے اور راتوں کو انھیں آرام کی نیند سے جگا کر ہم اپنی سکھ کی نیند سو جاتے ہیں۔
جب کوئی پاکستان دشمنی کی بات ہوتی ہے اور اس کے جواب میں ذہن میں کوئی بات آتی ہے تو آپ یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ایک توانا خاموش نہ ہونے والی آواز بھی اس کے ساتھ گونج رہی ہے اور اس بلند آواز کی توانائی آپ کے ساتھ رواں دواں ہے۔
مجید صاحب تین بار دل کا آپریشن کرا چکے ہیں اور کہتے ہیں کہ ادھار کی زندگی گزار رہا ہوں لیکن انھیں معلوم ہے کہ زندگی دینے لینے والا اپنی حکمت رکھتا ہے۔ اسے میرے جیسے کمزور پاکستانیوں کے لیے مجید نظامی کی ضرورت ہے۔
محترم میاں صاحب کے ساتھ رہنے والے کچھ تو ان کے ملازمین ہیں جو اپنی تمام تر دانش ان پر نچھاور کرتے رہتے ہیں۔ ان میں کچھ تو پاکستانی ذہن کے لوگ ہیں لیکن خطرناک وہ ہیں جو دساور کا مال بیچتے ہیں۔ میاں نواز شریف کی شرم و حیا والی آنکھ اپنی جگہ لیکن وہ ان بھارت پرستوں کے سامنے اپنی آنکھ بند رکھا کریں میں یہاں ان کے بھائی میاں شہباز شریف سے خصوصی گزارش کروں گا وہ اپنی طوفانی سرگرمیوں میں سے کچھ وقت نکال کر اپنے بھائی کے قرب و جوار کے ان بھارت پرستوں پر بھی نظر رکھا کریں۔
پاکستان صرف ایک جغرافیائی ملک نہیں یہ ایک نظریاتی ملک ہے اور نظریہ ہی اس کی طاقت ہے اس کے نظرئیے اور ثقافت کے دشمن کون ہیں انھیں ہر پاکستانی جانتا ہے میاں شہباز اس پر خاص توجہ رکھیں۔ اس کام کے لیے ان سے بہتر اور کوئی نہیں۔