انتخابی نتائج غیر متوقع کیوں
11 مئی کے انتخابات کے نتائج بہت سوں کی توقعات کے بالکل برعکس برآمد ہوئے اور صوبوں کے مختلف نتائج نے تو۔۔۔
11 مئی کے انتخابات کے نتائج بہت سوں کی توقعات کے بالکل برعکس برآمد ہوئے اور صوبوں کے مختلف نتائج نے تو اچھے بھلوں کو بھی حیران کر دیا اور سب سے زیادہ حیران کن نتائج اندرون سندھ کے رہے جہاں ایک بار پھر پیپلز پارٹی پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے۔ اندرون سندھ پیپلز پارٹی کی انتخابی کامیابی پر اندرون سندھ زبردست احتجاج بھی دیکھنے میں آیا اور مبینہ دھاندلیوں کے خلاف ہارنے والوں کے ہزاروں حامیوں نے سڑکوں پر آ کر احتجاج کیا ہے۔
ملک بھر کے اخبارات اور ٹی وی چینلز پر تحریک انصاف نے شریف برادران کے خلاف جو اشتہارات چلائے وہ پیپلز پارٹی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھے۔ پیپلز پارٹی ملک میں اپنی انتخابی مہم چلانے میں خود سنجیدہ نہیں تھی بلکہ خوفزدہ تھی۔ پی پی نے اربوں روپے خرچ کر کے اپنی انتخابی مہم میڈیا کے ذریعے چلائی جس کا ہدف میاں نواز شریف اور شہباز شریف تھے جنہوں نے پی پی کو اس کا کوئی موثر جواب دیا نہ پی پی کی 5 سالہ حکومت میں ہونے والی اربوں کھربوں روپے کی سنگین کرپشن کا حوالہ دیا۔
جھوٹ نہ بولنے کے دعویدار عمران خان اپنی بات پر پیپلز پارٹی کی طرح ڈٹے رہے کہ میٹرو بس سروس پر 70 ارب روپے پنجاب حکومت نے خرچ کیے ہیں جب کہ شہباز شریف 30 ارب روپے خرچ ہونے کا دعویٰ کرتے رہے اور انھوں نے پنجاب کے نگراں وزیر اعلیٰ سے بھی اس سلسلے میں تحقیقات کر کے حقائق منظر عام پر لانے کی درخواست کی تھی۔
تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کی میاں برادران کے خلاف یہ اشتہاری مہم الزام تراشی جب کہ میاں برادران کی اشتہاری مہم الزامات کے بجائے اپنی کارکردگی جتانے پر تھی جس نے صرف حلقوں کو متاثر کیا جہاں پرنٹ میڈیا پڑھا اور ٹی وی دیکھا جاتا تھا جس کا پی پی کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔
پیپلز پارٹی نے دہشت گردی کے خوف سے ملک بھر میں اپنا کوئی بھی بڑا انتخابی جلسہ نہیں کیا۔ پی پی کے دونوں سابق وزرائے اعظم اور پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہیں بھی جلسے سے خطاب نہیں کیا۔ الطاف حسین نے فون پر متحدہ کے بڑے جلسوں سے خطاب کیا مگر پی پی اپنے چیئرمین سے ملک تو کیا اندرون سندھ اور پی پی کا گڑھ کہلانے والے شہروں میں بھی فون یا ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب نہ کرا سکی۔ صدر آصف علی زرداری نے بھی حد کر دی اور انھوں نے ایوان صدر ہی میں رہنے پر اکتفا کیا اور ووٹ دینے کے لیے بھی باہر نہیں نکلے اور پوسٹل بیلٹ کے ذریعے اپنا ووٹ استعمال کیا۔
صدر زرداری جب محدود سیکیورٹی میں اپنی بیٹیوں کے ساتھ ڈنر کے لیے ریسٹورنٹ جا سکتے تھے تو وہ ووٹ دینے کے لیے اپنی فول پروف سیکیورٹی میں ووٹ دینے پولنگ اسٹیشن بھی جا سکتے تھے مگر نہیں گئے۔
پیپلز پارٹی پر اپنے قائدین کو بچانے کا اتنا خوف سوار تھا اور دہشت گردی کا کیا واقعی ایسا خطرہ تھا کہ اس نے اپنی انتخابی مہم ہی نہیں چلائی۔
میاں نواز شریف، شہباز شریف، عمران خان، مولانا فضل الرحمٰن، سید منور حسن و دیگر رہنما جلسوں سے خطاب کرتے رہے۔ جے یو آئی اور جماعت اسلامی کے جلسوں پر حملے بھی ہوئے جب کہ اسفند یار ولی اسلام آباد میں بیٹھے رہے اور ان کی اس عدم حاضری میں کے پی کے سے اے این پی کا صفایا ہو گیا۔
ان کی والدہ محترمہ بیگم نسیم ولی کا یہ بیان فکر انگیز تھا کہ اسفندیار کو سیاست کی الف ب کا بھی پتہ نہیں۔
پنجاب میں (ن) لیگ کا ووٹ بینک بری طرح متاثر ہونے کا خدشہ تھا مگر ووٹ انھیں ان کی توقعات سے بھی زیادہ ملے۔ عمران خان نے پنجاب اور کے پی کے میں جو محنت کی انھیں بھی عوام نے اس کا صلہ دیا۔ جے یو آئی کے فضل الرحمٰن بھی بلوچستان اور کے پی کے میں اپنی عزت بچانے میں کامیاب رہے جب کہ بلوچستان میں محدود انتخابی مہم اور عوام کے پولنگ اسٹیشن نہ آنے اور حملوں کے خوف کے سائے موجود تھے مگر عوام نے پھر بھی پولنگ میں حصہ لیا۔
اندرون سندھ کہیں بھی پیپلز پارٹی کی کارنر میٹنگز پر بھی کوئی حملہ نہیں ہوا۔ پی پی کو سندھ میں کہیں بھی انتخابی مہم سے نہیں روکا گیا۔ اندرون سندھ قوم پرست، (ن) لیگ، فنکشنل لیگ و دیگر جلسے کرتے رہے مگر شکار
پور ضلع میں این پی پی کے رہنما ڈاکٹر ابراہیم جتوئی کے قافلے کے علاوہ کہیں بھی حملہ نہ ہوا۔ بم پھٹے اور سب نے اپنی انتخابی مہم چلائی مگر اندرون سندھ انتخابی نتائج توقعات کے بالکل برعکس برآمد ہوئے جس پر
پیپلز پارٹی والے خود بھی حیران رہ گئے کیونکہ انھیں اتنی کامیابی کی توقع حقیقی طور پر نہیں تھی البتہ وہ دکھاوے کے لیے بڑے بڑے دعوے ضرور کر رہے تھے۔
پیپلز پارٹی نے اپنے 5 سال میں سندھ میں دودھ کی نہر بہائی نہ عوام کے مسائل حل کیے۔ ملازمتوں کی فروخت کی شکایات، پی پی کی اندرونی گروپ بندی، سیلاب اور بارشوں میں امدادی سامان متاثرین کے بجائے خورد برد ہو جانے، متاثرین کو بحال نہ کیے جانے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں ہونے والی ہزاروں شکایات، بدامنی، بیروزگاری کے باوجود اندرون سندھ سے جو انتخابی نتائج برآمد ہوئے وہ غیر متوقع ہی نہیں بلکہ حیران کن ثابت ہوئے ہیں جس سے پیپلز پارٹی ملک کے بجائے اندرون سندھ کی پارٹی بن کر سامنے آئی ہے۔
یہ پہلا موقع ہو گا کہ وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت نہیں ہو گی اور صرف سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہو گی، سندھ میں پیپلز پارٹی کا کوئی ایک بھی اہم رہنما شکست سے دوچار نہیں ہوا جب کہ پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان میں پی پی کے بڑے بڑے برج الٹ گئے۔ پیپلز پارٹی کے چار صوبائی صدور بھی اپنے حلقوں سے ہار گئے صرف سندھ کے صدر منتخب ہو سکے ہیں۔
ملک بھر میں (ن) لیگ اور تحریک انصاف کے اہم رہنما بھی شکست سے دوچار ہوئے مگر اربوں روپے ملتان پر خرچ کر کے گیلانی خاندان اپنی ایک بھی نشست نہ بچا سکا۔ بلا مقابلہ منتخب ہونے والے سابقہ وزیر اعظم گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کو جس شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا ایسی شکست ان کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھی۔
پیپلز پارٹی کے ساتھ انتخابی اتحاد کر کے انتخاب لڑنے والی مسلم لیگ (ق) قومی اسمبلی کی صرف دو نشستیں حاصل کر پائی۔
صوبہ کے پی کے میں اپنی عبرتناک شکست کا اے این پی نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ جس میں اس کا اپنے صوبے سے صفایا ہو گیا اور اسفند یار ولی واحد سیاسی سربراہ ہیں جو منتخب نہ ہو سکے۔ یہ غیر متوقع نتائج کیوں برآمد ہوئے اس پر ہارنے والوں ہی کو نہیں بلکہ سندھ میں غیر متوقع کامیابی حاصل کرنے والی پیپلز پارٹی کو بھی سوچنا چاہیے کہ ان کے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟
ملک بھر کے اخبارات اور ٹی وی چینلز پر تحریک انصاف نے شریف برادران کے خلاف جو اشتہارات چلائے وہ پیپلز پارٹی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھے۔ پیپلز پارٹی ملک میں اپنی انتخابی مہم چلانے میں خود سنجیدہ نہیں تھی بلکہ خوفزدہ تھی۔ پی پی نے اربوں روپے خرچ کر کے اپنی انتخابی مہم میڈیا کے ذریعے چلائی جس کا ہدف میاں نواز شریف اور شہباز شریف تھے جنہوں نے پی پی کو اس کا کوئی موثر جواب دیا نہ پی پی کی 5 سالہ حکومت میں ہونے والی اربوں کھربوں روپے کی سنگین کرپشن کا حوالہ دیا۔
جھوٹ نہ بولنے کے دعویدار عمران خان اپنی بات پر پیپلز پارٹی کی طرح ڈٹے رہے کہ میٹرو بس سروس پر 70 ارب روپے پنجاب حکومت نے خرچ کیے ہیں جب کہ شہباز شریف 30 ارب روپے خرچ ہونے کا دعویٰ کرتے رہے اور انھوں نے پنجاب کے نگراں وزیر اعلیٰ سے بھی اس سلسلے میں تحقیقات کر کے حقائق منظر عام پر لانے کی درخواست کی تھی۔
تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کی میاں برادران کے خلاف یہ اشتہاری مہم الزام تراشی جب کہ میاں برادران کی اشتہاری مہم الزامات کے بجائے اپنی کارکردگی جتانے پر تھی جس نے صرف حلقوں کو متاثر کیا جہاں پرنٹ میڈیا پڑھا اور ٹی وی دیکھا جاتا تھا جس کا پی پی کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔
پیپلز پارٹی نے دہشت گردی کے خوف سے ملک بھر میں اپنا کوئی بھی بڑا انتخابی جلسہ نہیں کیا۔ پی پی کے دونوں سابق وزرائے اعظم اور پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہیں بھی جلسے سے خطاب نہیں کیا۔ الطاف حسین نے فون پر متحدہ کے بڑے جلسوں سے خطاب کیا مگر پی پی اپنے چیئرمین سے ملک تو کیا اندرون سندھ اور پی پی کا گڑھ کہلانے والے شہروں میں بھی فون یا ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب نہ کرا سکی۔ صدر آصف علی زرداری نے بھی حد کر دی اور انھوں نے ایوان صدر ہی میں رہنے پر اکتفا کیا اور ووٹ دینے کے لیے بھی باہر نہیں نکلے اور پوسٹل بیلٹ کے ذریعے اپنا ووٹ استعمال کیا۔
صدر زرداری جب محدود سیکیورٹی میں اپنی بیٹیوں کے ساتھ ڈنر کے لیے ریسٹورنٹ جا سکتے تھے تو وہ ووٹ دینے کے لیے اپنی فول پروف سیکیورٹی میں ووٹ دینے پولنگ اسٹیشن بھی جا سکتے تھے مگر نہیں گئے۔
پیپلز پارٹی پر اپنے قائدین کو بچانے کا اتنا خوف سوار تھا اور دہشت گردی کا کیا واقعی ایسا خطرہ تھا کہ اس نے اپنی انتخابی مہم ہی نہیں چلائی۔
میاں نواز شریف، شہباز شریف، عمران خان، مولانا فضل الرحمٰن، سید منور حسن و دیگر رہنما جلسوں سے خطاب کرتے رہے۔ جے یو آئی اور جماعت اسلامی کے جلسوں پر حملے بھی ہوئے جب کہ اسفند یار ولی اسلام آباد میں بیٹھے رہے اور ان کی اس عدم حاضری میں کے پی کے سے اے این پی کا صفایا ہو گیا۔
ان کی والدہ محترمہ بیگم نسیم ولی کا یہ بیان فکر انگیز تھا کہ اسفندیار کو سیاست کی الف ب کا بھی پتہ نہیں۔
پنجاب میں (ن) لیگ کا ووٹ بینک بری طرح متاثر ہونے کا خدشہ تھا مگر ووٹ انھیں ان کی توقعات سے بھی زیادہ ملے۔ عمران خان نے پنجاب اور کے پی کے میں جو محنت کی انھیں بھی عوام نے اس کا صلہ دیا۔ جے یو آئی کے فضل الرحمٰن بھی بلوچستان اور کے پی کے میں اپنی عزت بچانے میں کامیاب رہے جب کہ بلوچستان میں محدود انتخابی مہم اور عوام کے پولنگ اسٹیشن نہ آنے اور حملوں کے خوف کے سائے موجود تھے مگر عوام نے پھر بھی پولنگ میں حصہ لیا۔
اندرون سندھ کہیں بھی پیپلز پارٹی کی کارنر میٹنگز پر بھی کوئی حملہ نہیں ہوا۔ پی پی کو سندھ میں کہیں بھی انتخابی مہم سے نہیں روکا گیا۔ اندرون سندھ قوم پرست، (ن) لیگ، فنکشنل لیگ و دیگر جلسے کرتے رہے مگر شکار
پور ضلع میں این پی پی کے رہنما ڈاکٹر ابراہیم جتوئی کے قافلے کے علاوہ کہیں بھی حملہ نہ ہوا۔ بم پھٹے اور سب نے اپنی انتخابی مہم چلائی مگر اندرون سندھ انتخابی نتائج توقعات کے بالکل برعکس برآمد ہوئے جس پر
پیپلز پارٹی والے خود بھی حیران رہ گئے کیونکہ انھیں اتنی کامیابی کی توقع حقیقی طور پر نہیں تھی البتہ وہ دکھاوے کے لیے بڑے بڑے دعوے ضرور کر رہے تھے۔
پیپلز پارٹی نے اپنے 5 سال میں سندھ میں دودھ کی نہر بہائی نہ عوام کے مسائل حل کیے۔ ملازمتوں کی فروخت کی شکایات، پی پی کی اندرونی گروپ بندی، سیلاب اور بارشوں میں امدادی سامان متاثرین کے بجائے خورد برد ہو جانے، متاثرین کو بحال نہ کیے جانے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں ہونے والی ہزاروں شکایات، بدامنی، بیروزگاری کے باوجود اندرون سندھ سے جو انتخابی نتائج برآمد ہوئے وہ غیر متوقع ہی نہیں بلکہ حیران کن ثابت ہوئے ہیں جس سے پیپلز پارٹی ملک کے بجائے اندرون سندھ کی پارٹی بن کر سامنے آئی ہے۔
یہ پہلا موقع ہو گا کہ وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت نہیں ہو گی اور صرف سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہو گی، سندھ میں پیپلز پارٹی کا کوئی ایک بھی اہم رہنما شکست سے دوچار نہیں ہوا جب کہ پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان میں پی پی کے بڑے بڑے برج الٹ گئے۔ پیپلز پارٹی کے چار صوبائی صدور بھی اپنے حلقوں سے ہار گئے صرف سندھ کے صدر منتخب ہو سکے ہیں۔
ملک بھر میں (ن) لیگ اور تحریک انصاف کے اہم رہنما بھی شکست سے دوچار ہوئے مگر اربوں روپے ملتان پر خرچ کر کے گیلانی خاندان اپنی ایک بھی نشست نہ بچا سکا۔ بلا مقابلہ منتخب ہونے والے سابقہ وزیر اعظم گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کو جس شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا ایسی شکست ان کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھی۔
پیپلز پارٹی کے ساتھ انتخابی اتحاد کر کے انتخاب لڑنے والی مسلم لیگ (ق) قومی اسمبلی کی صرف دو نشستیں حاصل کر پائی۔
صوبہ کے پی کے میں اپنی عبرتناک شکست کا اے این پی نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ جس میں اس کا اپنے صوبے سے صفایا ہو گیا اور اسفند یار ولی واحد سیاسی سربراہ ہیں جو منتخب نہ ہو سکے۔ یہ غیر متوقع نتائج کیوں برآمد ہوئے اس پر ہارنے والوں ہی کو نہیں بلکہ سندھ میں غیر متوقع کامیابی حاصل کرنے والی پیپلز پارٹی کو بھی سوچنا چاہیے کہ ان کے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟