امریکی دفاعی بجٹ اور پاکستانی امداد میں کٹوتی
امریکا کا یہ امتیازی سلوک خطے میں طاقت کے توازن کے بگاڑ اور بدامنی کی نئی لہر کو جنم دے گا۔
امریکی سینیٹ نے 716 ارب ڈالر مالیت کے دفاعی پالیسی بجٹ کی منظوری دے دی ہے جس میں پاکستان کے لیے امداد میں کٹوتی کر دی گئی ہے۔ دفاعی پالیسی بجٹ میں پاکستان کے لیے فوجی امداد کی مد میں 15 کروڑ ڈالر مختص کیے گئے ہیں، جو اطلاعات کے مطابق پاکستان کو اپنی سرحدوں کی سیکیورٹی بہتر بنانے کی مد میں دیے جائیں گے۔ یہ رقم ماضی میں امریکا کی جانب سے پاکستان کو سیکیورٹی اورکولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں دی جانے والی امداد سے کہیں کم ہے جو 75 کروڑ سے ایک ارب ڈالر تک ہوا کرتی تھی۔
ایک جانب پاکستان کے امدادی فنڈ میں کٹوتی کی جارہی ہے اور دوسری طرف پاکستان کے ازلی مخالف بھارت کے ساتھ امریکا کی پینگیں بڑھتی صاف نظر آرہی ہیں، امریکا نے بھارت کو جدید اسلحے کے لائسنس جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو سراسر امتیازی سلوک اور استثنیٰ پسندی کی پالیسیوں کا تسلسل ہے، اس فیصلے سے سٹرٹیجک استحکام پر سنجیدہ اثرات مرتب ہوں گے۔ امریکا کا یہ امتیازی سلوک خطے میں طاقت کے توازن کے بگاڑ اور بدامنی کی نئی لہر کو جنم دے گا۔
امریکی تھنک ٹینک کو اس بات کا ادراک کرنا چاہیے۔ امریکا اور پاکستان کے 70 سالہ تعلقات میں جب بھی زیادہ کشیدگی آتی ہے تو اس میں پہلی تلوار پاکستان کو ملنے والی عسکری امداد پر چلتی ہے۔ موجودہ امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے پہلی بار پاکستان کی عسکری امداد نہیں روکی گئی بلکہ ماضی میں ایسا متعدد بار ہوچکا ہے۔ بھارت کے ساتھ بڑھتے ہوئے امریکی روابط پاکستانی امداد پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔
پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو جانی و مالی نقصان اٹھایا ہے اس کے تناظر میں امریکی امداد اونٹ کے منہ میں زیرہ ہی ثابت ہوئی ہے لیکن اس امداد کے روکے جانے کا براہ راست اثر دہشت گردی کے خلاف اس جنگ پر پڑ سکتا ہے۔
امریکا کا تعاون کھونے سے برا اثر تو پڑے گا، لیکن کئی تجزیہ کار اس صورتحال کو پاکستان کے حق میں بہتر بھی قرار دے رہے ہیں۔ حالیہ بِل میں امریکی امداد کو پاکستان کی جانب سے افغان طالبان کے حقانی نیٹ ورک اور لشکرِ طیبہ کے خلاف کارروائی سے مشروط کرنے کی شق ختم کردی گئی ہے۔ بِل میں کوئی ایسی شق بھی شامل نہیں کہ امریکا پاکستان کو یہ امداد انسداد دہشتگردی کے لیے کی جانے والی اس کی کارروائیوں کے معاوضے کے طور پر ادا کریگا۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ امداد کی فراہمی کے لیے ماضی میں عائد کی جانے والی ان شرائط کے خاتمے سے امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگون) اپنی اس صلاحیت سے محروم ہوگیا ہے جس کے ذریعے وہ پاکستان پر حقانی نیٹ ورک اور اپنی سرزمین میں سرگرم دیگر دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کے لیے دباؤ ڈال سکتا تھا۔ اس پابندی سے کمزور اقتصادی صورتحال میں پاکستان پر دباؤ تو کافی ہوگا، لیکن یہ ایک اعتبار سے باعث رحمت بھی ہوسکتا ہے کیونکہ پاکستان خود انحصاری پر توجہ دے گا۔
ایک جانب پاکستان کے امدادی فنڈ میں کٹوتی کی جارہی ہے اور دوسری طرف پاکستان کے ازلی مخالف بھارت کے ساتھ امریکا کی پینگیں بڑھتی صاف نظر آرہی ہیں، امریکا نے بھارت کو جدید اسلحے کے لائسنس جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو سراسر امتیازی سلوک اور استثنیٰ پسندی کی پالیسیوں کا تسلسل ہے، اس فیصلے سے سٹرٹیجک استحکام پر سنجیدہ اثرات مرتب ہوں گے۔ امریکا کا یہ امتیازی سلوک خطے میں طاقت کے توازن کے بگاڑ اور بدامنی کی نئی لہر کو جنم دے گا۔
امریکی تھنک ٹینک کو اس بات کا ادراک کرنا چاہیے۔ امریکا اور پاکستان کے 70 سالہ تعلقات میں جب بھی زیادہ کشیدگی آتی ہے تو اس میں پہلی تلوار پاکستان کو ملنے والی عسکری امداد پر چلتی ہے۔ موجودہ امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے پہلی بار پاکستان کی عسکری امداد نہیں روکی گئی بلکہ ماضی میں ایسا متعدد بار ہوچکا ہے۔ بھارت کے ساتھ بڑھتے ہوئے امریکی روابط پاکستانی امداد پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔
پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو جانی و مالی نقصان اٹھایا ہے اس کے تناظر میں امریکی امداد اونٹ کے منہ میں زیرہ ہی ثابت ہوئی ہے لیکن اس امداد کے روکے جانے کا براہ راست اثر دہشت گردی کے خلاف اس جنگ پر پڑ سکتا ہے۔
امریکا کا تعاون کھونے سے برا اثر تو پڑے گا، لیکن کئی تجزیہ کار اس صورتحال کو پاکستان کے حق میں بہتر بھی قرار دے رہے ہیں۔ حالیہ بِل میں امریکی امداد کو پاکستان کی جانب سے افغان طالبان کے حقانی نیٹ ورک اور لشکرِ طیبہ کے خلاف کارروائی سے مشروط کرنے کی شق ختم کردی گئی ہے۔ بِل میں کوئی ایسی شق بھی شامل نہیں کہ امریکا پاکستان کو یہ امداد انسداد دہشتگردی کے لیے کی جانے والی اس کی کارروائیوں کے معاوضے کے طور پر ادا کریگا۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ امداد کی فراہمی کے لیے ماضی میں عائد کی جانے والی ان شرائط کے خاتمے سے امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگون) اپنی اس صلاحیت سے محروم ہوگیا ہے جس کے ذریعے وہ پاکستان پر حقانی نیٹ ورک اور اپنی سرزمین میں سرگرم دیگر دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کے لیے دباؤ ڈال سکتا تھا۔ اس پابندی سے کمزور اقتصادی صورتحال میں پاکستان پر دباؤ تو کافی ہوگا، لیکن یہ ایک اعتبار سے باعث رحمت بھی ہوسکتا ہے کیونکہ پاکستان خود انحصاری پر توجہ دے گا۔