موسیقار جی۔اے چشتی کامیاب شاعر بھی
جی۔اے چشتی نے ابتدا میں جن پنجابی فلموں میں موسیقی دی ان میں ’’چمبے دی کلی‘‘ اور ’’پردیسی ڈھولا‘‘ قابل ذکر تھیں۔
موسیقار جی اے چشتی برصغیر کے ایک ایسے ہی نامور موسیقار اور شاعر تھے جنھوں نے بے شمار فلموں میں سحر انگیز دھنیں بھی مرتب کیں اور دلوں کو موہ لینے والے گیت بھی لکھے۔ ان کا پورا نام غلام احمد چشتی تھا۔
1901ء میں ضلع جالندھر کے ایک چھوٹے سے قصبے گوناچور کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے، بچپن ہی سے نعتیں پڑھنے کا شوق تھا۔ ان کی آواز بھی سریلی تھی اور انھیں بچپن میں پاس پڑوس کے گھروں میں میلاد کی محفلوں میں نعتیں پڑھنے کے لیے بلایا جاتا تھا، پھر ان کا نعتوں کا شوق انھیں موسیقی کی طرف لے گیا اورکچھ شعور آیا تو یہ موسیقار سیتارام کے شاگرد ہو گئے۔
اسی دوران پھر ان کی ملاقات موسیقار عاشق علی خان سے لاہور میں ہوئی اور یہ ان کی معاونت میں رہتے ہوئے آغا حشرکاشمیری کے ڈراموں میں موسیقی دینے والے گروپ میں شامل ہو گئے اور ان کی روٹی روزی کا لاہور میں اچھا خاصا بندوبست ہو گیا تھا۔ یہ ذہین اور باصلاحیت تھے بہت جلد موسیقی کے شعبے میں دسترس حاصل ہوتی چلی گئی پھر یہ لاہور کی گراموفون کمپنی میں مشہور موسیقار استاد جھنڈے خان کے اسسٹنٹ ہو گئے اسی دوران ہدایت کار ایل کے شوری نے لاہور میں پنجابی فلم ''سوہنی مہینوال'' کا آغاز کیا تو موسیقار کے لیے جی اے چشتی کا انتخاب کیا۔ یہ 1937ء کا زمانہ تھا، کلکتہ، بمبئی کی طرح لاہور بھی فلم انڈسٹری کا مرکز تھا۔
سوہنی مہینوال کا جو پہلا گیت ریکارڈ کیا گیا جو پنجابی زبان کے مشہور شاعر استاد ہمدم نے لکھا تھا، یہ وہی استاد ہمدم تھے جن کے ایک شاگرد استاد دامن کو بھی بڑی شہرت حاصل ہوئی تھی۔ استاد ہمدم کے لکھے ہوئے گیت کے بول تھے:
چھبی دیا چنیاں میں مَل مَل دھونی آں
ماہی گیا پردیس تے میں چھم چھم رونی آں
اس گیت کو اس وقت کی گلوکارہ زینت بیگم نے گایا تھا اور پھر فلم سوہنی مہینوال کی موسیقی دینے کے بعد ہی کلکتہ کی فلم انڈسٹری سے موسیقار جی اے چشتی کو بلوایا گیا تھا اور یہ سیٹھ جگت نرائن کے ساتھ لاہور سے کلکتہ چلے گئے تھے۔ کلکتہ کی فلم انڈسٹری ان کو کافی راس آگئی تھی وہاں بنگالی زبان کی فلموں کے علاوہ اردو اور پنجابی زبان میں بھی فلمیں بنتی تھیں۔
جی۔اے چشتی نے ابتدا میں جن پنجابی فلموں میں موسیقی دی ان میں ''چمبے دی کلی'' اور ''پردیسی ڈھولا'' قابل ذکر تھیں پھر انھوں نے کئی اردو فلموں کے لیے بھی دھنیں کمپوز کیں اور ان کے کچھ گیت بھی لکھے ان فلموں میں البیلی، ضدی، یہ ہے زندگی، دو باتیں، نئی بھابھی، جھوٹی قسمیں تھیں۔ ان فلموں میں گیت لکھنے والوں میں یہ خود بھی تھے اور ان کے ساتھ دیگر شاعروں میں ولی صاحب شانتی سروپ اور پنڈت مدھر وغیرہ شامل تھے۔ کلکتہ کی ایک کامیاب ترین فلم ''شکریہ'' تھی جس کی موسیقی اور گیتوں نے جو جی اے چشتی ہی کے لکھے ہوئے تھے ان گیتوں نے سارے ہندوستان میں بڑی دھوم مچائی تھی ان میں ایک ڈوئیٹ تھا جس کے بول تھے:
ہماری گلی آنا اچھا جی
ہمیں نہ بھلانا اچھا جی
اس گیت کو گلوکارہ نسیم اختر اور امر نے گایا تھا اسی فلم کا ایک اور گیت جس کے بول تھے:
ساجن کبھی آؤ کبھی آؤ کبھی آؤ
اجڑی ہوئی دنیا کو مری آکے بساؤ
یہ گیت گلوکارہ زینت بیگم کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا اب میں فلم ''شکریہ'' کے اس مقبول ترین گیت کی طرف آتا ہوں جسے لکھا بھی جی اے چشتی نے تھا اور اس کے دلچسپ بول تھے:
اک شہر کی لونڈی
نینوں کے تیر چلا گئی
یہ گیت ان دنوں گلی گلی میں گایا جاتا تھا اور زیادہ لونڈے لپاڑے بہت جھوم جھوم کر گاتے تھے۔ اس کی شہرت سے پریشان ہوکر آل انڈیا ریڈیو نے اس گیت پر پابندی لگا دی تھی اس گیت کو اس دور کے مشہور اداکار و گلوکار سریندر نے گایا تھا۔ ایچ ایس راول کی دو فلمیں ''جھوٹی قسمیں'' اور ''دو باتیں'' جو 1947ء میں ریلیز ہوئی تھیں بطور موسیقار جی اے چشتی کی یہ ہندوستان میں آخری فلمیں تھیں کیونکہ ان فلموں کی ریلیز کے بعد پاکستان کا قیام عمل میں آ گیا تھا اور ہندوستان میں بڑے پیمانے پر ہندو مسلم فسادات شروع ہوگئے تھے اور ان فسادات کی زد میں ممبئی کی فلم انڈسٹری بھی آگئی تھی۔ مسلمان فنکاروں کا مستقبل تقریباً تاریک ہو چکا تھا۔ حالات ایسے ہوتے جا رہے تھے کہ روزگار تو بعد کی بات تھی وہاں زندگی کے لالے پڑ گئے تھے۔
ایسی صورتحال سے گھبرا کر جی اے چشتی نے بھی ہندوستان چھوڑنے میں ہی عافیت سمجھی تھی۔ لاہور آنے کے بعد ان کی پہلی ملاقات ہدایت کار لقمان اور اداکار و فلمساز نذیر سے ہوئی جو اپنی بیوی سورن لتا کو لے کر بہت پہلے ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آگئے تھے۔ لاہور میں جی اے چشتی کو ایک ایسی فلم میں چند گیتوں کی موسیقی دینے کا موقعہ میسر آیا جو فلم ''شاہدہ'' تھی اور اس کے موسیقار ماسٹر غلام حیدر کچھ گیت مرتب کرچکے تھے۔
ہدایت کار لقمان کی فلم ''شاہدہ'' کے بعد جی اے چشتی کو ہدایت کار نذیر کی فلم ''سچائی'' ملی جس کے تمام تر گیتوں کی موسیقی جی اے چشتی نے دی تھی۔ ان دو فلموں کے بعد جس فلم کی موسیقی نے جی اے چشتی کے دن پھیر دیے تھے وہ پنجابی فلم ''پھیرے'' تھی۔ فلم ''پھیرے'' کے تمام گیت سپرہٹ تھے، اس فلم کے گیت بابا عالم سیاہ پوش اور جی اے چشتی نے لکھے تھے۔ فلم ''پھیرے'' پاکستان کی پہلی سلور جوبلی فلم تھی۔ اس کے گیتوں کی شہرت گلی گلی، گاؤں گاؤں اور شہر شہر تھی۔ چند ہٹ گیتوں کے مکھڑے ملاحظہ ہوں:
سوں رب دی اے ترے نال پیار ہوگیا
وے چناں سچی مچی' وے چناں سچی مچی
٭
وے اکھیاں لائیں نہ
تے فیر پچھتائیں نہ
٭
نی کی کیتا تقدیرے
تو رول سُٹے دو ہیرے
٭
جے نئی سی پیار نبھانا
ساہنوں دس جا کوئی ٹھکانہ
اور ان گیتوں کوگلوکارہ منور سلطانہ اور عنایت حسین بھٹی نے گایا تھا اور عنایت حسین بھٹی کو بطور گلوکار جی اے چشتی نے ہی روشناس کرایا تھا۔ فلم ''پھیرے'' کے بعد فلم ''لارے'' بھی اچھی گئی تھی اور جی اے چشتی بطور موسیقار بڑی تیزی سے آگے کی طرف بڑھتے چلے گئے تھے اور اس زمانے میں جس پنجابی فلم کے موسیقار جی اے چشتی ہوتے تھے وہ فلم موسیقی اور گیتوں کی وجہ سے کامیابی سے ہمکنار ہوتی تھی پھر توکچھ یوں ہوا کہ فلموں کی ایک قطار تھی جو جوکم نہ ہوتی تھی بڑھتی ہی چلی جاتی تھی۔ اس زمانے مین فلم دلا بھٹی، ڈاچی، گڈی گڈا، یکے والی، کے گیتوں نے فلم بینوں کو دیوانہ کر دیا تھا جیسے مندرجہ ذیل چند گیتوں کے مکھڑے ہیں :
٭واسطہ ای رب دا توں جاویں وے کبوترا
٭چوڑی والی باہنہ نہ مروڑ مہندی والے ہتھ جوڑ دی
٭ تیرے در تے آ کے سجنا وے اسی جھولی خالی لے چلے
٭ٹانگہ لاہور دا ہووے کہ بھاویں جھنگ دا' ٹانگے والا خیر منگدا
ان کے علاوہ ان گنت مشہور گیت اور بے شمار کامیاب فلمیں جی اے چشتی کے کریڈٹ پر تھیں جن میں خاص طور پر پتن، پینگاں، موج میلہ، زلفاں، جند جان، شیرا جانی، بھریا میلہ، چن تارا، میرا ماہی، چن مکھناں، چن ورگا، راوی پار، سجن پیارا، یار مار اور جٹی جیسی مشہور فلمیں شامل تھیں۔
اور اپنے دور کی چند اردو فلمیں جن میں خاص طور پر ''لخت جگر'' اور ''نوکر'' جیسی کامیاب ترین جس کی ایک لوری جو قتیل شفائی کی لکھی ہوئی تھی اور جس کے بول تھے: ''راج دلارے توہے دل میں بساؤں'' جسے میڈم نور جہاں نے گایا تھا اور آج تک اس لوری کے مقابلے پر کوئی اور لوری اتنی کامیاب نہ ہوسکی اور اپنی موسیقی کے اعتبار سے یہ آج بھی پہلے ہی کی طرح اپنا اثر رکھتی ہے اور ایک بات یہ بھی بتاتا چلوں کہ آج کا متوقع وزیر اعظم پاکستان عمران خان جب وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کا کپتان تھا اور اپنی قیادت میں پہلی بار ورلڈ کپ جیت کر لایا تھا تو موسیقار جی اے چشتی نے بھی ایک گیت کو اپنی دلکش موسیقی سے سنوارا تھا جس گیت کے بول تھے:
دیکھو دیکھو لے کے کپ عالمی
عمران آگیا' عمران آگیا
اور عمران کو خراج تحسین پیش کیا تھا۔موسیقار و شاعر جی اے چشتی کو ان کی گراں قدر خدمات پر پاکستان کا سب سے بڑا فلمی ایوارڈ نگار پبلک فلم ایوارڈ بھی 1982ء میں دیا گیا تھا۔ پھر 1987ء میں جی۔اے چشتی کو پرائیڈ آف پرفارمنس بھی دیا گیا۔ موسیقار جی اے چشتی کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ ان کے دو شاگردوں موسیقار رحمن ورما اور موسیقار خیام نے بھی فلمی دنیا میں اپنا بڑا نام پیدا کیا تھا۔ موسیقار جی اے چشتی نے ایک طویل عمر پائی تھی وہ 25 دسمبر 1994ء میں لاہور میں انتقال کرگئے تھے اور وہ ایسے بے شمار گیتوں کے خالق تھے جن کی موسیقی اور شاعری ان کی ہمیشہ یاد دلاتی رہے گی اللہ ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے (آمین۔)
1901ء میں ضلع جالندھر کے ایک چھوٹے سے قصبے گوناچور کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے، بچپن ہی سے نعتیں پڑھنے کا شوق تھا۔ ان کی آواز بھی سریلی تھی اور انھیں بچپن میں پاس پڑوس کے گھروں میں میلاد کی محفلوں میں نعتیں پڑھنے کے لیے بلایا جاتا تھا، پھر ان کا نعتوں کا شوق انھیں موسیقی کی طرف لے گیا اورکچھ شعور آیا تو یہ موسیقار سیتارام کے شاگرد ہو گئے۔
اسی دوران پھر ان کی ملاقات موسیقار عاشق علی خان سے لاہور میں ہوئی اور یہ ان کی معاونت میں رہتے ہوئے آغا حشرکاشمیری کے ڈراموں میں موسیقی دینے والے گروپ میں شامل ہو گئے اور ان کی روٹی روزی کا لاہور میں اچھا خاصا بندوبست ہو گیا تھا۔ یہ ذہین اور باصلاحیت تھے بہت جلد موسیقی کے شعبے میں دسترس حاصل ہوتی چلی گئی پھر یہ لاہور کی گراموفون کمپنی میں مشہور موسیقار استاد جھنڈے خان کے اسسٹنٹ ہو گئے اسی دوران ہدایت کار ایل کے شوری نے لاہور میں پنجابی فلم ''سوہنی مہینوال'' کا آغاز کیا تو موسیقار کے لیے جی اے چشتی کا انتخاب کیا۔ یہ 1937ء کا زمانہ تھا، کلکتہ، بمبئی کی طرح لاہور بھی فلم انڈسٹری کا مرکز تھا۔
سوہنی مہینوال کا جو پہلا گیت ریکارڈ کیا گیا جو پنجابی زبان کے مشہور شاعر استاد ہمدم نے لکھا تھا، یہ وہی استاد ہمدم تھے جن کے ایک شاگرد استاد دامن کو بھی بڑی شہرت حاصل ہوئی تھی۔ استاد ہمدم کے لکھے ہوئے گیت کے بول تھے:
چھبی دیا چنیاں میں مَل مَل دھونی آں
ماہی گیا پردیس تے میں چھم چھم رونی آں
اس گیت کو اس وقت کی گلوکارہ زینت بیگم نے گایا تھا اور پھر فلم سوہنی مہینوال کی موسیقی دینے کے بعد ہی کلکتہ کی فلم انڈسٹری سے موسیقار جی اے چشتی کو بلوایا گیا تھا اور یہ سیٹھ جگت نرائن کے ساتھ لاہور سے کلکتہ چلے گئے تھے۔ کلکتہ کی فلم انڈسٹری ان کو کافی راس آگئی تھی وہاں بنگالی زبان کی فلموں کے علاوہ اردو اور پنجابی زبان میں بھی فلمیں بنتی تھیں۔
جی۔اے چشتی نے ابتدا میں جن پنجابی فلموں میں موسیقی دی ان میں ''چمبے دی کلی'' اور ''پردیسی ڈھولا'' قابل ذکر تھیں پھر انھوں نے کئی اردو فلموں کے لیے بھی دھنیں کمپوز کیں اور ان کے کچھ گیت بھی لکھے ان فلموں میں البیلی، ضدی، یہ ہے زندگی، دو باتیں، نئی بھابھی، جھوٹی قسمیں تھیں۔ ان فلموں میں گیت لکھنے والوں میں یہ خود بھی تھے اور ان کے ساتھ دیگر شاعروں میں ولی صاحب شانتی سروپ اور پنڈت مدھر وغیرہ شامل تھے۔ کلکتہ کی ایک کامیاب ترین فلم ''شکریہ'' تھی جس کی موسیقی اور گیتوں نے جو جی اے چشتی ہی کے لکھے ہوئے تھے ان گیتوں نے سارے ہندوستان میں بڑی دھوم مچائی تھی ان میں ایک ڈوئیٹ تھا جس کے بول تھے:
ہماری گلی آنا اچھا جی
ہمیں نہ بھلانا اچھا جی
اس گیت کو گلوکارہ نسیم اختر اور امر نے گایا تھا اسی فلم کا ایک اور گیت جس کے بول تھے:
ساجن کبھی آؤ کبھی آؤ کبھی آؤ
اجڑی ہوئی دنیا کو مری آکے بساؤ
یہ گیت گلوکارہ زینت بیگم کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا اب میں فلم ''شکریہ'' کے اس مقبول ترین گیت کی طرف آتا ہوں جسے لکھا بھی جی اے چشتی نے تھا اور اس کے دلچسپ بول تھے:
اک شہر کی لونڈی
نینوں کے تیر چلا گئی
یہ گیت ان دنوں گلی گلی میں گایا جاتا تھا اور زیادہ لونڈے لپاڑے بہت جھوم جھوم کر گاتے تھے۔ اس کی شہرت سے پریشان ہوکر آل انڈیا ریڈیو نے اس گیت پر پابندی لگا دی تھی اس گیت کو اس دور کے مشہور اداکار و گلوکار سریندر نے گایا تھا۔ ایچ ایس راول کی دو فلمیں ''جھوٹی قسمیں'' اور ''دو باتیں'' جو 1947ء میں ریلیز ہوئی تھیں بطور موسیقار جی اے چشتی کی یہ ہندوستان میں آخری فلمیں تھیں کیونکہ ان فلموں کی ریلیز کے بعد پاکستان کا قیام عمل میں آ گیا تھا اور ہندوستان میں بڑے پیمانے پر ہندو مسلم فسادات شروع ہوگئے تھے اور ان فسادات کی زد میں ممبئی کی فلم انڈسٹری بھی آگئی تھی۔ مسلمان فنکاروں کا مستقبل تقریباً تاریک ہو چکا تھا۔ حالات ایسے ہوتے جا رہے تھے کہ روزگار تو بعد کی بات تھی وہاں زندگی کے لالے پڑ گئے تھے۔
ایسی صورتحال سے گھبرا کر جی اے چشتی نے بھی ہندوستان چھوڑنے میں ہی عافیت سمجھی تھی۔ لاہور آنے کے بعد ان کی پہلی ملاقات ہدایت کار لقمان اور اداکار و فلمساز نذیر سے ہوئی جو اپنی بیوی سورن لتا کو لے کر بہت پہلے ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آگئے تھے۔ لاہور میں جی اے چشتی کو ایک ایسی فلم میں چند گیتوں کی موسیقی دینے کا موقعہ میسر آیا جو فلم ''شاہدہ'' تھی اور اس کے موسیقار ماسٹر غلام حیدر کچھ گیت مرتب کرچکے تھے۔
ہدایت کار لقمان کی فلم ''شاہدہ'' کے بعد جی اے چشتی کو ہدایت کار نذیر کی فلم ''سچائی'' ملی جس کے تمام تر گیتوں کی موسیقی جی اے چشتی نے دی تھی۔ ان دو فلموں کے بعد جس فلم کی موسیقی نے جی اے چشتی کے دن پھیر دیے تھے وہ پنجابی فلم ''پھیرے'' تھی۔ فلم ''پھیرے'' کے تمام گیت سپرہٹ تھے، اس فلم کے گیت بابا عالم سیاہ پوش اور جی اے چشتی نے لکھے تھے۔ فلم ''پھیرے'' پاکستان کی پہلی سلور جوبلی فلم تھی۔ اس کے گیتوں کی شہرت گلی گلی، گاؤں گاؤں اور شہر شہر تھی۔ چند ہٹ گیتوں کے مکھڑے ملاحظہ ہوں:
سوں رب دی اے ترے نال پیار ہوگیا
وے چناں سچی مچی' وے چناں سچی مچی
٭
وے اکھیاں لائیں نہ
تے فیر پچھتائیں نہ
٭
نی کی کیتا تقدیرے
تو رول سُٹے دو ہیرے
٭
جے نئی سی پیار نبھانا
ساہنوں دس جا کوئی ٹھکانہ
اور ان گیتوں کوگلوکارہ منور سلطانہ اور عنایت حسین بھٹی نے گایا تھا اور عنایت حسین بھٹی کو بطور گلوکار جی اے چشتی نے ہی روشناس کرایا تھا۔ فلم ''پھیرے'' کے بعد فلم ''لارے'' بھی اچھی گئی تھی اور جی اے چشتی بطور موسیقار بڑی تیزی سے آگے کی طرف بڑھتے چلے گئے تھے اور اس زمانے میں جس پنجابی فلم کے موسیقار جی اے چشتی ہوتے تھے وہ فلم موسیقی اور گیتوں کی وجہ سے کامیابی سے ہمکنار ہوتی تھی پھر توکچھ یوں ہوا کہ فلموں کی ایک قطار تھی جو جوکم نہ ہوتی تھی بڑھتی ہی چلی جاتی تھی۔ اس زمانے مین فلم دلا بھٹی، ڈاچی، گڈی گڈا، یکے والی، کے گیتوں نے فلم بینوں کو دیوانہ کر دیا تھا جیسے مندرجہ ذیل چند گیتوں کے مکھڑے ہیں :
٭واسطہ ای رب دا توں جاویں وے کبوترا
٭چوڑی والی باہنہ نہ مروڑ مہندی والے ہتھ جوڑ دی
٭ تیرے در تے آ کے سجنا وے اسی جھولی خالی لے چلے
٭ٹانگہ لاہور دا ہووے کہ بھاویں جھنگ دا' ٹانگے والا خیر منگدا
ان کے علاوہ ان گنت مشہور گیت اور بے شمار کامیاب فلمیں جی اے چشتی کے کریڈٹ پر تھیں جن میں خاص طور پر پتن، پینگاں، موج میلہ، زلفاں، جند جان، شیرا جانی، بھریا میلہ، چن تارا، میرا ماہی، چن مکھناں، چن ورگا، راوی پار، سجن پیارا، یار مار اور جٹی جیسی مشہور فلمیں شامل تھیں۔
اور اپنے دور کی چند اردو فلمیں جن میں خاص طور پر ''لخت جگر'' اور ''نوکر'' جیسی کامیاب ترین جس کی ایک لوری جو قتیل شفائی کی لکھی ہوئی تھی اور جس کے بول تھے: ''راج دلارے توہے دل میں بساؤں'' جسے میڈم نور جہاں نے گایا تھا اور آج تک اس لوری کے مقابلے پر کوئی اور لوری اتنی کامیاب نہ ہوسکی اور اپنی موسیقی کے اعتبار سے یہ آج بھی پہلے ہی کی طرح اپنا اثر رکھتی ہے اور ایک بات یہ بھی بتاتا چلوں کہ آج کا متوقع وزیر اعظم پاکستان عمران خان جب وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کا کپتان تھا اور اپنی قیادت میں پہلی بار ورلڈ کپ جیت کر لایا تھا تو موسیقار جی اے چشتی نے بھی ایک گیت کو اپنی دلکش موسیقی سے سنوارا تھا جس گیت کے بول تھے:
دیکھو دیکھو لے کے کپ عالمی
عمران آگیا' عمران آگیا
اور عمران کو خراج تحسین پیش کیا تھا۔موسیقار و شاعر جی اے چشتی کو ان کی گراں قدر خدمات پر پاکستان کا سب سے بڑا فلمی ایوارڈ نگار پبلک فلم ایوارڈ بھی 1982ء میں دیا گیا تھا۔ پھر 1987ء میں جی۔اے چشتی کو پرائیڈ آف پرفارمنس بھی دیا گیا۔ موسیقار جی اے چشتی کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ ان کے دو شاگردوں موسیقار رحمن ورما اور موسیقار خیام نے بھی فلمی دنیا میں اپنا بڑا نام پیدا کیا تھا۔ موسیقار جی اے چشتی نے ایک طویل عمر پائی تھی وہ 25 دسمبر 1994ء میں لاہور میں انتقال کرگئے تھے اور وہ ایسے بے شمار گیتوں کے خالق تھے جن کی موسیقی اور شاعری ان کی ہمیشہ یاد دلاتی رہے گی اللہ ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے (آمین۔)