الیکشن 2018ء پانچ کروڑ ووٹرز کی سماجی اور سیاسی بصیرت کی عکاسی
کیا عمران خان اردوان،لی کون اور پوٹن کی طرح انقلابی اقدمات کر پائیں گے؟
2018ء کے عام انتخابات پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت کے اعتبار سے گیارہویں انتخابات ہیں۔
پہلے انتخابات جو1970ء میں ہوئے تھے اس وقت ہمارے ملک میں کوئی آئین نہیں تھا،1956ء کے آئین کو اکتوبر1958ء کے مارشل لا کے بعد صدر جنرل ایوب خان نے منسوخ کردیا، اور اس کے چار سال بعد اپنا 1962 کا بنیادی جمہوریت کا صدارتی آئین دیا تھا۔
اس آئین کو یحییٰ خان نے مارشل لاء نافذ کر کے منسوخ کردیا تھا کیونکہ پورے ملک کی سیاسی جماعتوں کا یہ مطالبہ تھا کہ ملک میں پارلیمانی نظام حکومت بحال کیا جائے۔ یوں صدر جنرل یحییٰ خان نے انتخابات سے قبل اپنا ایل، ایف او نافذ العمل کیا تھا، اس لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت الیکشن1970ء ہوئے تھے جس میں ایک نکتہ یہ رکھا گیا تھا۔ انتخابات کے بعد جب اراکین اسمبلی قومی اسمبلی میں جائیں گے تو یہ پارلیمنٹ اس دن کے بعد چار ماہ کے اندر اندر پاکستان کا آئین بنا لے، دوسری صورت میں اسمبلی تحلیل کردی جائے گی اور دوبارہ انتخابات ہونگے۔
ان انتخا بات کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس نہ ہو سکا اور16 دسمبر1971 کے سانحے کے بعد پاکستان میں حکو مت بنی اور پھر ذوالفقا علی بھٹو کی حکومت نے 1973 کا زبردست پارلیمانی آئین دیا۔ اس آئین کے تحت ہونے والے 1977 کے پہلے عام انتخابات ہی متنازعہ ہوگئے اور پھر ملک میں جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء نافذ ہوا۔ اس مرتبہ یہ ہوا کہ 1973 کے آئین کی کچھ دفعات کو معطل کر دیا گیا لیکن آئین منسوخ نہیں ہوا۔ البتہ 1985 ء میں صدر جنرل ضیا الحق نے غیر جماعتی بنیادوں پر عام انتخابات کروا کر اس آئین میں وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی پارلیمنٹ سے 11 نومبر1985 میں 8 ویں ترمیم کروائی جو 1935 کے اس انڈیا ایکٹ کی شق کے متبادل تھی ۔
جس کے ذریعے گورنر جنرل غلام محمد اور اسکندر مرزا، حکومتوں کا تختہ الٹ کر وزراء اعظم کو گھر بھیجتے رہے۔ اس آٹھویں ترمیم کو 1997 میں 13 ویں ترمیم کرکے ختم کردیا گیا۔ 2003 کی اسمبلی نے پھر17 ویںترمیم کرکے صدر کو تقریباً وہی اختیارات دے دیئے جو اسے پہلے آٹھویں ترمیم کے تحت حاصل تھے۔ 8 اپریل 2010 کی 18ویں ترمیم نے نہ صرف صدر کے اسمبلی تحلیل کرنے کے اختیارات واپس لے لیے بلکہ صوبائی خود مختاری کا دائرہ بھی وسیع کردیا۔
یہ حقیقت ہے کہ 1985ء میں جب ہمارے ہاں غیر جماعتی بنیادوں پر عام انتخابات کرائے جا رہے تھے، سابق سوویت یونین اصولی طور پر جنیوا مذاکرات میں افغانستان سے واپسی کے لیے اقرار کر رہا تھا اور بات اتنی تھی کہ وہ اس پسپائی کے لیے مناسب راستہ چاہتا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے اختتام 1945ء کے ٹھیک 40 سال بعد یہ دنیا میں تبدیلیوں کا ایک نیا اور اہم ترین دور تھا۔
جنگ عظیم دوئم کے بعد دنیا سے سیاسی نوآبادیاتی نظام کا خاتمہ شروع ہوا تھا اور ایک جانب سابق سوویت یونین اشتراکی نظام معاشیات اور دوسری جانب امریکہ اور خصوصاً مغربی یورپ سرمایہ دارانہ نظام ِ معاشیات دنیا پر نافذ کرنا چاہتا تھا ۔ 1985 ء میں پاکستان کی سرحد سے لڑی جانے والی جنگ میں اشتراکیت کو عالمی سطح پر شکست ہو گئی جس کا واضح اعلان 1990 میں سرد جنگ کے خاتمے پر ہوا۔
آج 28 برس گزرنے کے بعد دنیا بہت تبدیل ہو چکی ہے اور بد قسمتی یہ ہے کہ ہم نہ صرف ان عالمی تبد یلیوں کو درست تناظر میں سمجھتے ہوئے پاکستان کو ان سے ہم آہنگ اور متوازن نہ کر سکے بلکہ اپنی تیزی سی بڑھتی ہو ئی آبادی کے مسائل کے حل کی جا نب بھی توجہ نہیں دے سکے ۔ 1977 ء کے بعد ہماری قومی سیاست پر علاقا ئی رنگ اس لیے بھی غالب ہونے لگا کہ مسائل کے حل کی بجائے ان مسائل کو علاقائی سیاست کے فروغ پر ترجیح دی گئی اور 2006 کے فوراً بعد کے واقعات کے بعد تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ صورتحال بقو ل استاد رشید انجم مرحوم یوں ہو گئی
لوگ نفرت کے بیج بَو تے ہیں
جب یہ اُ گنے لگیں تو روتے ہیں
2018 ء کے عام انتخابات پر بہت سے پہلووں سے تجزیئے بلکہ پوسٹمارٹم بھی کئے جا رہے ہیں۔ راقم الحروف چونکہ سماجی تحقیق کا ادنیٰ سا طالب علم ہے اس لیے ان انتخابات کو پانچ کروڑ ووٹرز کی اکثریت کی جانب سے سماجی عکاسی کادرجہ دیتا ہوں۔ 1970ء میں جب پاکستان کے پہلے عام انتخابات ہوئے تھے تو اس وقت کے مغربی پاکستان اور آج کے پاکستان کی آبادی کو انتخابات کے فورا بعد ہونے والی 1972 کی مردم شماری میں 6 کروڑ 53 لاکھ بتایا گیا تھا جب کہ 1970 میںکل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 56941500 تھی جن میں سے مشرق پاکستان کے ووٹوں کی تعداد 31211220 تھی اور مغربی پاکستان کے ووٹوں کی تعداد25730280 تھی۔ ٹرن آئوٹ 63% تھا۔ ملک کے دونوں حصوں میں کل ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد 33004065 تھی۔
مشرقی پاکستان میں ہندو آبادی کا تناسب تقریباً 20% تھا۔ یہ عام انتخابات بھارت سے دو جنگوں کے بعد ہوئے اور انتخابات کے ایک سال بعد تیسری جنگ ہوئی۔ دوسری اور تیسری جنگ کے درمیان صرف چھ سال کا فرق تھا۔ مشرقی پاکستان کا سماج شرح خواندگی کے اعتبار سے مغربی پاکستان سے آگے تھا۔ یہاں شرح خواندگی16.9% تھی اور مشرقی پاکستان میں18.4% تھی۔ مشرقی پاکستان میں جاگیردارانہ نظام بھی ہمارے مقابلے میں کمزور تھا اور متوسط طبقے کا سائز بھی مغربی پاکستان کے مقابلے میں زیادہ تھا۔
اردو کے مقابلے میں بنگالی کو قومی زبان بنانے کا مطالبہ ملک کے پہلے گورنر جنرل قائد اعظم کے سامنے ہی کیا گیا تھا اور اس مطالبے میں وقت کے ساتھ شدت آتی گئی۔ لیکن مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن نے یہ بنیاد رکھی تھی کہ مشرقی پاکستان کی اکثریت کے باوجود مغربی پاکستان کے پاس اقتدار کی اصل قوت ہے جس کی وجہ سے معاشی طور پر مشرقی پاکستان کا استحصا ل کیا جا رہا ہے ۔
اگرچہ ایسے ہی تاثرات مغربی پاکستان میں تین صوبوں کے پنجاب کے لیے تھے، جہاں ون یونٹ کی وجہ سے چاروں صوبوں کو شامل کرکے ایک یو نٹ مغربی پاکستان بنا دیا گیا، لیکن سقوط ڈھاکہ اور اس عظیم المیے کی بنیاد ی وجہ یہ تھی کہ ہمارا پہلاآئین بھی تاخیر سے 1956ء میں بنا اور پہلے انتخابات جن کو1950-51 میں ہو جانا چاہئے تھا وہ آزادی کے 23 سال بعد ہوئے۔ یوں عوامی آواز سے قومی اسمبلی محروم رہی اور یہ آواز گھٹن، ابہام، سختیوں اور پروپیگنڈے کے ساتھ ان وجوہات میں شدت اور اضافہ کرتی رہی جن کی بنیاد پر مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ آج 2017 کی مردم شماری کے مطابق ہماری آبادی 207700000 جس کو اب بائیس کروڑ کہا جا رہا ہے، اس میں شرح خواندگی 58% ہے، یوں کل پڑھے لکھے افراد کی مجموعی تعداد 120060000 اور ان پڑھ لوگوں کی کل تعداد 87640000 ہے۔
لیکن یہ حقیقت ہے کہ 1988 سے ہمارے ہاں جمہوریت کا سفر بہت سی رکاوٹوں کو عبور کرتا جاری رہا ہے اور خصوصاً 2008 ء سے2018 جون تک تو ملک میں پہلی بار دومنتخب جمہوری حکومتوں نے اپنی مقررہ آئینی مدت پوری کی ہے اور اس دوران صوبائی خود مختاری پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے 18 ویں آئینی ترمیم سمیت قانون سازی کی گئی ہے، اور یہ سابق وزیر اعظم کی سیاسی غلطی رہی کہ اگر وہ اپوزیشن لیڈ سید خورشید شاہ کی بات مان کر پانامہ کے مسئلے کو پارلیمنٹ ہی میں لاتے اور اسی کے حوالے کرتے تو شائد یہ صورتحال نہ ہوتی، لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ان دس برسوں میں جب دنیا کے بیشتر ممالک دہشت گردی سے نبرد آزما ہونے کے ساتھ ساتھ اقتصادی، معاشی طور پر خود کو مضبوط کرتے ہوئے ماحولیات،گلوبل وارمنگ،کلائمیٹ چینج اور قلتِ آب کے مسائل کو حل کرنے کی کامیاب کو ششیں کر رہے ہیں تو ہماری دونوں گزشتہ حکومتوں کی ترجیحات کچھ اور رہیں۔
ہمارے سامنے ترکی اور ایران نے مسائل کا مقابلہ بھی کیا اور ترقی بھی کی لیکن پاکستان نے جنگ کا سامنا کرتے ہو ئے اگرچہ کافی کا میابیاں بھی حاصل کیں اور ساتھ ہی غضب کا جانی ومالی نقصان بھی برداشت کیا، مگر اس کے مسائل بڑھتے گئے اور اس کی معاشی و اقتصادی منصوبہ بندی بہت ہی ناقص رہی۔ یہ سب کچھ اناڑی پن، بے خبری یا جان بوجھ کرکیا گیا؟
اسے ہمارے ذرائع ابلاغ نے مبہم اور پیچیدہ انداز میں عوام کے سامنے پیش کیا ۔ اس عوام کے سامنے جس میں 87640000 کی تعداد ان پڑھ ہے اور جو پڑھے لکھے ہیں ان میں بھی با شعور افراد کا تناسب پانچ چھ فیصد سے زیادہ نہیں، لیکن ایک مثبت صورت جو جمہوریت کے تسلسل کی وجہ سے فطری طور پر ہوتی ہے وہ واضح انداز میں ہو ئی، وہ یوں کہ 2007 میں محترمہ بینظر بھٹو شہید کی شہادت کے بعد اگرچہ مسلم لیگ ن نے یہ واضح کیا تھا کہ وہ میثاق جمہوریت پر عملدرآمد کرتے ہوئے جمہوریت کو نقصان پہنچانے کی ہر کوشش کو ناکام بنائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ جب صدر آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کے دیگر بڑے اور اہم لیڈروں پر کرپشن کے الزمات عائد کئے گئے تو اس پر مسلم لیگ ن نے پیپلز پارٹی کے خلاف بھرپور مہم چلائی اور عوامی جلسوں میں ان کے پیٹ پھاڑ کر بیرون ملک سے قومی دولت واپس لانے کے بلند وبانگ دعو یٰ کئے جاتے رہے۔
جس سے ان کو یہ فائدہ تو ہوا ان کا ووٹ بنک کچھ بڑھا اور 2013 ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن نے پنجاب سے پی پی پی کو بالکل آئوٹ کر دیا مگر اس کی جگہ تحریک انصاف نے نہ صرف پُر کی، بلکہ مسلم لیگ ن پر انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کر کے بھرپور تحریک چلائی تو پیپلز پارٹی سمیت تقریباً تمام بڑی جماعتوں نے احتجاجی دھرنے کے انداز سے تو کافی حد تک اختلا ف کیا مگر دھاندلی کے الزامات کی حمایت یا تصدیق کی۔ اس تمام تر صورتحال کے اثرات سماج میں ووٹ کے استعمال سے یوں واضح ہوئے، مثلا 1979 میں ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت نے محترمہ بینظیر بھٹو کو 1988 سے 1997 تک دومر تبہ اقتدار دلوایا حالانکہ انہوں نے اس دوران بہت سی سیاسی غلطیاں کیں۔
2007 میں محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد جس طرح کا شدید عوامی ردعمل آیا تھا اور جس کی شدت کو آصف علی زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ دیکر جمہوریت کے حق میں موڑ دیا تھا، اس کا اثر بھی قائم رہنا چاہیے تھا جس کو نہ صرف صوبائی سطح پر اس وقت نواز شریف اور شہباز شریف نے 2008 میں زائل کردیا تھا جب 2008 کے عام انتخابات میں پی پی پی نے قومی اسمبلی کی 271 جنرل نشستوں میں سے91 جنرل نشستیں لیں۔ مسلم لیگ ن نے 69 نشستیں اور مسلم لیگ ق نے38 نشستیں لی تھیں۔
مگر پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں 2008 میں مسلم لیگ ن کی 171 نشستیں، پی پی پی کی 107 نشستیں اور مسلم لیگ ق کی 84 نشستیں تھیں لیکن 371 کی پنجاب اسمبلی سے ووٹ کی بنیاد پر حکومت مسلم لیگ ن نے بنائی اور شہبا ز شریف وزیر اعلیٰ ہو ئے۔ اس کے بعد مسلم لیگ ن نے متواتر پی پی پی حکومت اور آصف علی زرداری کو ہدف تنقید بنائے رکھا اور یہاں تک کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو گھر جانا پڑا۔ یوں 2013 کے عام انتخابات سے پہلے تک پاکستان پیپلز پارٹی پر کرپشن کے الزامات اور اس پر ملک کی اس وقت کی سب سے بڑی جماعت ن لیگ کی شدید تنقید کی وجہ سے پی پی پی خصوصاً پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپنی مقبولیت کھو گئی اور مسلم لیگ ن نے بلا شبہ اس کے مقابلے میں کامیابی حاصل کی۔
پیپلز پارٹی کا ووٹر چونکہ نظریاتی طور پر مسلم لیگ ن کے خلاف تھا اس لیے وہ مسلم لیگ ن کی طرف جانے کی بجائے نئی سیاسی قوت پی ٹی آئی جو ویسے ہی نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی اسی جانب گیا ۔ اگرچہ 2008 میں عمران خان اور پی ٹی آئی کے بارے میں یہ خیال کسی کو نہیں تھا کہ یہ جماعت طویل عرصے بعد بھٹو کی پیپلز پارٹی کی طرح مقبولیت اختیار کرے گی لیکن یہ پی ٹی آئی کے تبدیلی کے نعرے کی بجائے حقیقت میں معاشرقی تبدیلی تھی جس نے رونما ہونا تھا اور اگر عمران خان نہیں ہوتے تو کچھ دیر سے سہی مگر کوئی شخصیت قومی سطح کے رہنما اور نئی سیاسی جماعت کے ساتھ معاشرتی مسائل کے اعتبار سے معاشرے کی عکاسی کرتی اور اب بھی اس کا امکان ہے کہ اگر عمران خان ناکام ہوئے توان کی جگہ دوبارہ پرانے کھلاڑی نہیں بلکہ کوئی اور نئی قیادت لے گی۔
جہاں تک تعلق 2013 کے عام انتخابات کا تھا جس کے نتائج کے مطابق کل ڈالے گئے 45388404 ووٹوں میں سے مسلم لیگ ن نے 14874104 ووٹ لئے اور قومی اسمبلی کی 126 جنرل نشستیں حاصل کیں، پی پی پی نے کل6911218 ووٹ لے کر قومی اسمبلی کی 33 نشستیں حاصل کیں اور پاکستان تحریک انصاف نے کل 7679954ووٹ حاصل کئے جو پی پی پی سے 768736 ووٹ زیادہ تھے مگر قومی اسمبلی کی 28 جنرل نشستیں لیں جو پی پی پی سے پانچ نشستیں کم تھیں جب کہ مسلم لیگ ن سے پی ٹی آئی کے مجموعی ووٹ نصف سے زیادہ تھے مگر نشستیں تقریباً 75% کم تھیں۔ جب کہ 2013 کے پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے نتائج یوں تھے کہ کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 48534383 تھی جن میں سے کل 27875857 ووٹ ڈالے گئے۔
مسلم لیگ ن نے کل ڈالے گئے ووٹوں میں سے11365363 ووٹ یعنی 40.77% ووٹ لے کر پنجا ب کی صوبائی اسمبلی کی248 جنرل نشستیں حاصل کیں۔ تحریک انصاف نے کل 4951217 ووٹ یعنی 17.76% ووٹ لے کر صرف 24 صوبائی نشستیں حاصل کیں اور پاکستان پیپلز پارٹی نے کل 2464812 ووٹ یعنی8.84% ووٹ لے کر7 نشستیں حاصل کیں اور مسلم لیگ ق نے کل ووٹ 1377130 یعنی4.94% ووٹ لے کر 7 نشستیں حاصل کیں، مسلم لیگ ن نے قومی اسمبلی اور ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بھاری اکثریت لے کرمضبوط صوبائی اور وفاقی حکومت بنا لی جب کہ نئی سیاسی قوت پاکستان تحریک انصاف نے خیبر پختونخوا میں اکثریت حاصل کر کے مخلوط حکومت بنائی، یہ ایک نئی سیاسی تبدیلی تھی اس پر تحریک انصاف نے ن لیگ پر دھاند لی کے الزمات عائد کر کے تاریخ کا شدید احتجاج کیا، مگر عدلیہ نے یہ فیصلہ دیا کہ الیکشن2013 میں منظم دھاندلی کے ثبوت نہیں ملے، یہ احتجاج جو ملک کا طویل ترین دھرنا تھا بظاہر نا کامیابی پر ختم ہو گیا مگر یہ حقیقت ہے کہ اس سے نوجوانوں میں قومی یکجہتی اور قوت کے ساتھ ظالمانہ قوتو ں کے خلا ف جدوجہد کا عزم ملا۔
پھر نواز شریف خاندان کی بد قسمتی کہ پانامہ لیک سامنے آئی تو یہ کریشن، منی لانڈرنگ کے ایسے الزامات تھے جن کے ثبوت عالمی سطح کے اداروں نے فراہم کئے تھے اور اس پر نوازشریف کے بیٹوں اور بیٹی مریم نواز کے ٹی وی انٹرویو بطور وزیر اعظم قومی اسمبلی اور قوم سے خطاب میںخود جن باتوں کو تسلیم کیا تھا ان سے دوران مقدمات انکار، پارٹی کا احتجاج یہ تمام ان کی ناکامیاں رہیں۔ اس احتجاج میں نوازشریف اپنے خلا ف اس کو اسٹیبلشمنٹ کی سازشیں قرار دیتے رہے، ان کی یہ کوشش بھی رہی کہ کسی طرح عام انتخا بات نہ ہو سکیں اور حالات اتنے خراب ہو جائیں کہ فوج کو مجبوراً مداخلت کرنا پڑے مگر ایسا نہ ہو سکا اور بیٹی اور داماد سمیت ان کو الیکشن سے قبل سزا ہو گئی اور کوئی قابل ذکر احتجاج بھی نہ ہو سکا۔
انتخابات سے ایک دو دن قبل جب پنجاب اور خیبر پختوا کے گورنروں نے ان سے اڈیالہ جیل میں خفیہ ملا قاتیں کیں جو خفیہ نہ رہ سکیں اور یہ افواہیں پھیلیں کہ ان ملاقاتوں کا مقصد این آر او کرکے ہمیشہ کے لیے ملک سے با ہر منتقل ہونا تھا، اگرچہ اس کی تردید سابق وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب نے کی کہ نواز شریف کو ئی NRO نہیں کر رہے مگر اس کی تردید ان دونوں گورنروں کی جانب سے نہیں ہوئی بلکہ خاموشی رہی۔ پھر جہاں تک تعلق انتخابات کا تھا تو ماسوائے پی ٹی آئی، مسلم لیگ ن سمیت تمام بڑی جماعتوں کا انتخابات کے اعلان کے بعد پہلے پندرہ دنوں تک غالباً یہ خیال تھا کہ یہ انتخا بات پانچ چھ ماہ کی تاخیر سے ہونگے اور اس کو غیر آئینی قرار دے کر بھی احتجا ج کیا جائے اور یوں پی ٹی آئی کے پی پی پی اور مسلم لیگ ن پر کرپشن کے الزامات اور مقد مات میں قانونی پیچیدیاں پیدا کر کے اس پورے معاملے کو برسوں کی طوالت دے کر ہمیشہ کے لیے ٹھنڈا کردیا جائے گا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔
پی ٹی آئی کے عمران خان پہلے دن سے پر عزم تھے اور الیکشن سے پہلے 30 دنوں میں تو انہوں نے اپنی انتخابی مہم کی انتہاکر دی کہ ایک مہینے میں120عوامی جلسے کئے جن میں سے بعض بہت بڑے جلسہ عام تھے اور پھر جب 25 جو لائی کو عام انتخابات ہوئے تو ان کو تاریخی کامیابی حاصل ہوئی چونکہ یہ سطور میگزین کے لیے 26 کی رات کو مکمل کی جا رہی ہیں اس لیے اس وقت کی اطلاعات کے مطابق انتخا بات 2018 میں کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد تقربیاً 10 کروڑ 70 لاکھ تھی اور تاریخی ٹرن آئوٹ تقریبا 55% رہا اور محتاط اندازوں کے مطابق کل ڈالے گئے ووٹوں میںسے نصف سے کچھ کم صرف پی ٹی آئی نے حاصل کئے ہیں جن کی بنیاد پر قوم ی اسمبلی میں پی ٹی آئی نے 272 میں سے270 نشستوں پر ہونے والے عام انتخابات میں 115 نشستیں حاصل کی ہیں، مسلم لیگ ن 64 اور پی پی پی 43 نشستیں لے گئی ہے، چونکہ یہ اعداد وشمار انتخا بات کے 28 گھنٹوں کے بعد کے ہیں اس لیے ان میں ایک آدھ کی کمی بیشی ہو سکتی ہے لیکن اس کی بنیادی طور پر صورت یہ ہے کہ پی ٹی آئی آسانی سے وفاق میں حکومت بنا لے گی۔
خیبر پختو نخوا میں اس پارٹی کو دو تہائی اکثریت حاصل ہوئی ہے، پنجاب صوبائی اسمبلی میں اس کی نشستیں ن لیگ سے تقریباً چھ کم ہیں ، یوں پی ٹی آئی آزاد میدواروں اور ق سے مل کر پنجاب میں بھی حکو مت بنا سکتی ہے۔ سندھ صوبائی اسمبلی میں پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی کے بعد دوسری بڑی جماعت ہے جب کہ بلوچستان اسمبلی کی 51 جنرل نشستوں میں سے پی ٹی آئی کو چار نشستیں ملی ہیں مگر یہاں نئی سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پار ٹی، بلو چستان نیشنل پارٹی مینگل آزاد ممبران کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت کا اہم حصہ بن سکتی ہے، 26 جولائی کو عمران خان نے انتخابات میں کا میابی کے بعد اپنے مختصر مگر اہم خطاب میں اپنی خارجہ، داخلہ اور اقتصادی پالیسی کے اہم نکات بیان کئے۔
یہ تقریر اردو میں تھی اور صرف چند نکات غالباً لکھے ہوئے تھے مگر تقریر متاثر کن تھی جس کی تعریف دشمنوں اور مخالفین نے بھی کی اور اس تقریر کو بی بی سی، سی این این، الجزیرا،بھارتی ٹی وی چینلز سمیت بہت سے انٹر نیشنل چینلز نے بر اہ راست نشر کیا۔ انتخابات میں پی ٹی آئی کی فتح تاریخی ہے، میا نوالی سے عمران نے ایک لاکھ 67 ہزار ووٹ لیے جب کہ وہ قومی کی پانچ نشستوں سے کھڑے ہوئے تھے اور تمام پر کامیاب ہوکر یہ ثابت کر دیا کہ واقعی وہ وفاق اور اتحاد کی علامت ہیں۔ ان انتخابات میں تقریباً ہر جگہ ہر حلقے میں مقابلہ پی ٹی آئی کا ہی تھا۔ بیشتر حلقوں میں پی ٹی آئی کے امیدوار کامیاب ہوئے اور جہاں کامیاب نہیں ہوئے وہاں دوسرے نمبر پر رہے۔ اسی طرح ان انتخابات میں اسفندیار ولی، مو لانا فضل الرحمٰن، اکرم خان درانی، ڈاکٹر فاروق ستار، محمود خان اچکزئی اور چوہدری نثار قومی اسمبلی میں جانے سے رہ گئے۔
اس کا شدید ردعمل سامنے آیا ہے مولانا فضل الرحمن کی جانب سے احتجاج کا کہا گیا ہے میاں شہباز شریف اور پی پی پی نے انتخابات کو دھاندلی زدہ کہا ہے اور شہباز شریف نے الیکشن کو مسترد کرتے ہوئے آل پا رٹی کانفرنس بلانے کا کہا ہے جب عمران خان نے اپنی تقر یر میں یہ کہا ہے کہ یہ الیکشن تاریخ کے شفاف ترین الیکشن تھے اور جب میں نے دھاندلی پر کہا تھا کہ ووٹوں کے ڈبے کھولے جائیں جن کو تسلیم نہیں کیا گیا تھا مگر اب میں کہتا ہوں کہ جس کو دھاندلی کا شبہہ ہو ہم اس کے ساتھ تحقیقا ت میں پوری مدد کریں گے اور جہاں کہیں جس حلقے کو کھلوانا چاہیں گے اس کے لیے حاضر ہوںگے۔ بہر حال عمران خان کو انتخابات کے فورا بعد آل پاکستان پارٹیز مخالفت اور احتجاج کا سامنا ہے، اگر خدانخوستہ کو ئی بڑا حادثہ یا المیہ رونما نہ ہو تو اپوزیشن کا احتجاج یوں بے معنی ہو گا کہ ان کے مطالبے سے پہلے ہی وہ ہر انتخابی حلقہ کھولنے کے لیے تیار ہیں جب کہ گزشتہ حکومت میں نواز شریف نے ایسا نہیں کیا تھا۔
عمران خان کے انقلابی انداز میں انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی بنیادی وجہ ملک کی نوجوان آباد ی ہے، 2 مئی 2014 کے یو این ڈی پی کے مطابق پاکستان میں 15 سا ل سے29 سال کی عمروں کے گروپ کی آبادی کا تناسب 64 فیصد تھا اور ان کی کل تعداد 10 کروڑ تیس لاکھ تھی۔ ہمارے ہاں ووٹر کی عمر اب اٹھارہ سال مقرر کی گئی ہے۔ یہ وہ دور ہے جب عمران 2013 کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے احتجاج کر رہے تھے، چار برسوں بعد یہ صورتحال مزید آگے بڑھی، پوری دنیا کی طرح ہمارے ہاں بھی شہری آبادی کے تناسب میں اضافہ ہوا ہے اور اب شہری آبادی کل آبادی کا 39.7% ہے جس میں سالانہ 2.77% کا اضافہ ہوا ہے جب کہ اورسیز پاکستانیوں کی تعداد اب بھی 70 لاکھ سے زیادہ ہے اور شہری آبادی میں اندراج کے بغیر محنت مزدوری کے لئے عارضی طور پر شہروں میں رہائش رکھنے والوں کا تناسب کل شہری آبادی کا تقریباً 8 فیصد ہے۔
عمران خان نے کرپشن،اقربا پروری، میرٹ کی خلاف ورزی، سفارش اور سیاسی جماعتوں پر خاندانوں کا غلبہ اور موروثی سیاست جسے انہوں نے بادشاہت کہا، کے خلاف نعرہ لگایا اور تمام سماجی، سیاسی خامیوں، برائیوں کا شکار یہی سا ت آٹھ کروڑ نوجوان لڑکے، لڑکیاں ہیں جو کل 10 کروڑ70 لاکھ رجسٹرڈ ووٹروں میں اہم اور متحرک ہیں۔ تحریک انصاف کی نظریاتی اساس نوجوان اور شہری آبادی ہے جہاں تک دیہی آبادی کا تعلق ہے جو کل آبادی کا ساٹھ فیصد سے زیادہ ہے، اس میں شخصیات جاگیردارانہ نظام کے اعتبار سے بہت اہم ہیں۔
یو ں دیہی اور نیم شہری علاقوں میں کامیابی کے لیے عمران خان نے کچھ مفاہمت سے کام لیا اور دوسری جماعتوں سے آنے والے الیکٹ ایبلز کو پارٹی میں شامل کر کے ٹکٹ بھی دئیے لیکن شہری آبادی میں ایسا کم ہوا۔ پی ٹی آئی کی نظر یاتی انقلا بی سیاست کے لحاظ سے دیکھیں تو پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے ہمارے ٹا پ ٹن شہر اہم رہے،آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایم کیو ایم کے الطاف حسین کی غیر جمہوری طاقت کے ٹو ٹنے کے بعد ان انتخا بات میں پی ٹی آئی نے ایم کیو ایم سے زیادہ نشستیں لیں اور جو چھ نشستیں ایم کیو ایم نے حاصل کیں وہ اس کی جمہوری اور قوم پرست نظریات کی وجہ سے حاصل ہوئیں جب کہ ایم کیو ایم کے دوسرے دھڑے پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے سامنے سیاسی لحاظ سے ناکام رہے چاہے۔
ان کو کسی بھی جانب سے کتنی ہی سپورٹ حاصل رہی، اس صورتحال کو ایم کیو ایم کے کامیاب ممبران نے تجزیاتی طور پر تسلیم کرلیا ہے اور ان کا تھنک ٹینک اسی صورت کو مدِ نظر رکھ کر اپنی آئندہ کی حکمت عملی ترتیب دے گا اور اندازہ ہے کہ ایم کیو ایم، مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتوں کے ساتھ بھرپور انداز میں پی ٹی آئی کے خلا ف احتجاج میںحصہ نہیں لیں گی بلکہ آنے والے دنوں میں سندھ صوبائی اسمبلی میں بیٹھ کر پی ٹی آئی کے ساتھ پی پی پی کی صوبائی حکومت کے خلاف مضبوط حزب اختلا ف کا حصہ بنے گی اور مر کز میں پی ٹی آئی سے مفاہمت اور اختلاف دونوں کو متوازن انداز سے استعمال کرے گی اور آنے والے انتخابات میں طاقت اور تشدد کی بجائے جمہوری اور قوم پرست سیاست کی بنیاد پر اپنی قدرے کھوئی ہوئی سیاسی قوت کو پارلیمنٹ میں عددی برتری سے حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔
آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا شہر لاہور جو اب بھی مسلم لیگ ن کا بنیادی قلعہ سمجھاجاتا ہے یہاں سے پی ٹی آئی نے صرف22% نشستیں اس لیے حاصل کیں کہ وہ ا ن قومی اسمبلی کے صرف ان چار حلقوں میں نوجوانوں کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوئے کہ مجموعی قومی ترقی ہی کی وجہ سے مجموعی قومی خوشحالی اور ترقی ہو گی، لاہور کے مقابلے میں فیصل آباد جو ملک کا بڑا صنعتی شہر ہے یہاں پی ٹی آئی کا نظریاتی پیغام پوری طرح اثر کر گیا اور قومی اور صوبائی دونوں سطحوں پر انتخابات میں پی ٹی آئی نے اہم کامیابی حاصل کی، اس کے بعدبالترتیب آبادی کے لحاظ سے شہروں کی صورت یوں ہے نمبر4 راولپنڈی نمبر5 ۔گوجرانوالہ نمبر6 ۔ پشاور نمبر7 ۔ملتان نمبر8 ۔حیدر آباد نمبر9 ۔اسلام آباد نمبر10 ۔کوئٹہ ۔ راولپنڈی،اسلام آباد، ملتان اور پشاور میں بھی پی ٹی آئی کی کامیابی شاندار رہی ہے جب کہ گوجرانوالہ، حیدر آباد اور کوئٹہ سے بھی پی ٹی آئی کا میاب ہو ئی ہے۔
اب جہاں تک تعلق احتجاج کا ہے تو یہ شہری آبادی ہی کی پُر جوش شرکت و شمولیت سے کامیاب ہو تا ہے اس لیے سرِ دست جب عمران خان نے اپوزیشن کی جانب سے دھاندلی کے الزامات پر کھلی آفر دے دی تو دیکھنا یہ ہے کہ احتجاج کی صورت کیا ہوگی؟ اور یہ کہ ا پوزیشن اپنی سوچ کے مطابق کہ وہ 1977ء کی طرح کا کا میاب احتجاج کر پائے گی کہ جس کے نتیجے میں بھٹو کی حکومت چلی گئی تھی تو آج ایسی صورتحال نہیں ہے ۔ دوسری جانب عمران خان نے پانچ برسوں میں ایک کروڑ روزگارکے مواقع اور پچاس لاکھ مکانات کی فراہمی کاجو وعدہ کیا ہے یہ اگرچہ ناممکن نہیں مگر فی الحال مشکل نظر آرہا ہے اس تناظر میں اگر ہم ماضی قریب کی تاریخ میں لیڈروں کی انقلابی اصلاحات کا جائزہ لیں تو وہ حیران کن دکھائی دیتا ہے، مثلًا پہلی جنگ عظیم میں شکست کے بعد جر منی نے جب وارسائی محل کے ذلت آمیز معاہد ے پر مجبوراً دستخط کئے تھے تواس پر نہایت بھاری تعاون جنگ کے ساتھ بہت سی اقتصادی صنعتی اور عسکری نوعیت کی پابندیاں عائد کردی تھیں اور 1923 میں جرمنی کی معیشت کا یہ حال ہوا تھا اس کی کرنسی ردی کاغذ کہلاتی تھی۔
جنگ عظیم اول 1914-18 تک جرمن کرنسی کی قیمت 14.29مارکس کا ایک امریکی ڈالر تھا اور پھر1923 تک ہزاروں جرمن مارک کا ایک ڈالر ہو گیا یہاں تک کہ جرمنی نے 5 کروڑ مارک کا کرنسی نوٹ اور 50 لاکھ مارک کا سکہ جاری کیا تھا لیکن جب ہٹلر بر سر اقتدار آیا تو صرف دو سال بعد جرمنی کی معیشت دنیا کی طاقتور معیشت تھی اسی طرح جنگ عظیم دوئم کے فوراً بعد جب ملائیشیا،انڈونیشیاجیسے بڑ ی آبادیوں اور بڑے رقبوں کے ملکوں کے ساتھ ہی ملائیشیا کے ساتھ سنگا پور کو بھی آزادی ملی اور 1965 میں سنگاپور کو ملائیشیا سے مکمل طور پر الگ کر کے ایک آزاد ملک بنادیا گیا۔
اس جزیرے کا رقبہ صرف 716 مربع کلومیٹر ہے اور آج اس کی آبادی 5469700 ہے یعنی یہاں فی مربع کلو میٹر 7615افرادآباد ہیں اس وقت ملائیشیا نے اسے بوجھ سمجھ کر چھوڑا تھا پھر اسے ( لی کو آن یو ) جیسا لیڈر ملا آج سنگا پور کی فی کس سالانہ آمدنی 78762 ڈالر سالانہ ہے اور اس چھوٹے ملک کا جی ڈی پی سالانہ 312434 ڈالر ہے۔ 1990 میں جب سابق سوویت یونین بکھر کر15 ریاستوں میں تقسیم ہوگئی۔ مشرقی یورپی ملکوں سے اشتراکی معیشت کا خاتمہ ہوا تو سابق سو ویت یونین جس کی کرنسی روبل کی قمیت ڈالر کے تقریباً برابر تھی، 1990 کے بعد صدر بورس یلسن کے دور میں450 روبل کا ایک ڈالر ہوا، روس جو دنیا کے کل خشکی کے رقبے کا 1/8 ہے اور اس کا مجموعی رقبہ 17125200 مربع کلو میٹر ہے اور آبادی کے لحاظ سے 9 واں ملک ہے اس کے صدر پوٹن نے اسے دوبار ہ مستحکم کیا اور اب روس دنیا کی 12 ویں بڑی معیشت اور قوت خرید کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا ملک ہے اور فوجی اور جدید اسلحہ سازی کے اعتبار سے امریکہ کے بعد دوسرا بڑا ملک ہے۔
اسی طرح چیکو سلواکیہ جو اب دو ملکوں میں تقسیم ہے یہاں افراط زر 1990 کی دہائی میں64% ہوا اور یہی صورت مشرقی یورپ کے دیگر ملکوں کی تھی جو اب خوشحال ہیں، ہمارا دوست ملک ترکی جہاں اس کی کرنسی لیرا 1946 میں ڈالر کے برابر تھا 1960 میں 9 لیرا کا ایک ڈالر ہوا 1980 میں ترکی کی کرنسی مزید گر ی 90 لیرا کا ایک ڈالر ہوا 1995 میں ساڑھے چار ہزار لیرے کا ایک امریکی ڈالر ہوا 2001 میں تو ترکی کی کرنسی کا براحال ہوا کہ 165000 لیرا کا ایک ڈالر ہوا۔
2005 سے معاشی اقتصادی ترقی کی جانب توجہ دی گئی آج 4.90 ترکی لیر ا کا ایک ڈالر ہے، پاکستان میں 1954 میں امریکی ڈالر کی قیمت تین روپے تھی 1970 میں ڈالر 5 روپے، 1972 میں ڈالر10 روپے، 1988 میں ڈالر 20 روپے،1997 میں ڈالر40 روپے، 2001 میں ڈالر60 روپے، 2008 میں ڈالر80 روپے، 2013 میں ڈالر100روپے، 2018 کے آغاز میں ڈالر 104روپے اور 25 جولائی2018 کو اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 130 روپے تھی۔ الیکشن کے فوراً بعد اس میں چھ روپے کی کمی ہوئی ہے، اسی طرح اسٹاک ایکسچینج مندی کی صورتحال سے نکلا ہے۔ ماضی کی حکومتوں کے مقابلے میں عمران خان کو اپنی حکومت کے پہلے 100 دنوں ہی میں اپنی کارکردگی دکھانا ہو گی کہ اس کے ووٹرز کی تعداد ایک کروڑ 67 لاکھ ہے جو نوجوان اور جذ باتی ہیں اور فوری یا کرشماتی تبدیلیوں کا تقاضا کریں گے۔
ا س وقت جب یہ سطور 26 جولائی کی رات کو تحریر کی جا رہی ہیں تو پی ٹی آئی کے نوجوانوں کی اکثریت فتح کا جشن منا رہی ہے۔ عمران خان کو کرکٹ کے کھلاڑی ،اداکار اور دنیا کی اہم شخصیات مبارکباد کے پیغامات دی رہی ہیں جو ان کے ڈھائی کروڑ ووٹروں کی خوشی کا سبب ہے لیکن پالیسی سازوں، دانشوروں کو اس کا انتظار ہے کہ عمران خان کے حلف اٹھاتے ہی کن کن سربراہانِ حکومت اور مملکت کے پیغامات آتے ہیں اور ان کا متن کیا ہو تا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے بعد عمران خان وہ شخصیت ہیں جنہو ں نے گزشتہ چالیس برسوں سے طاری سیاسی جمود کو توڑا ہے اور ملک میں نوجوانوں کی اکثریت کی نمائندگی کرتے ہوئے علامہ اقبال کے ان اشعار کو حقیقت کا روپ دینے کی کو شش کی ہے۔
پرانی سیاست گری خوار ہے
زمیں مِیر و سلطاں سے بیزار ہے
گیا دورِ سرمایہ داری گیا
تماشہ دکھا کر مداری گیا
خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانو ں کو پیروں کا استاد کر
جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے
مرا عشق میری نظر بخش دے
یہی کچھ ہے ساقی متاعِ فقیر
اسی سے فقیری میں ،میں ہوں امیر
مر ے قافلے میں لُٹا دے اسے
لُٹا دے ٹھکانے لگا دے اسے
پہلے انتخابات جو1970ء میں ہوئے تھے اس وقت ہمارے ملک میں کوئی آئین نہیں تھا،1956ء کے آئین کو اکتوبر1958ء کے مارشل لا کے بعد صدر جنرل ایوب خان نے منسوخ کردیا، اور اس کے چار سال بعد اپنا 1962 کا بنیادی جمہوریت کا صدارتی آئین دیا تھا۔
اس آئین کو یحییٰ خان نے مارشل لاء نافذ کر کے منسوخ کردیا تھا کیونکہ پورے ملک کی سیاسی جماعتوں کا یہ مطالبہ تھا کہ ملک میں پارلیمانی نظام حکومت بحال کیا جائے۔ یوں صدر جنرل یحییٰ خان نے انتخابات سے قبل اپنا ایل، ایف او نافذ العمل کیا تھا، اس لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت الیکشن1970ء ہوئے تھے جس میں ایک نکتہ یہ رکھا گیا تھا۔ انتخابات کے بعد جب اراکین اسمبلی قومی اسمبلی میں جائیں گے تو یہ پارلیمنٹ اس دن کے بعد چار ماہ کے اندر اندر پاکستان کا آئین بنا لے، دوسری صورت میں اسمبلی تحلیل کردی جائے گی اور دوبارہ انتخابات ہونگے۔
ان انتخا بات کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس نہ ہو سکا اور16 دسمبر1971 کے سانحے کے بعد پاکستان میں حکو مت بنی اور پھر ذوالفقا علی بھٹو کی حکومت نے 1973 کا زبردست پارلیمانی آئین دیا۔ اس آئین کے تحت ہونے والے 1977 کے پہلے عام انتخابات ہی متنازعہ ہوگئے اور پھر ملک میں جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء نافذ ہوا۔ اس مرتبہ یہ ہوا کہ 1973 کے آئین کی کچھ دفعات کو معطل کر دیا گیا لیکن آئین منسوخ نہیں ہوا۔ البتہ 1985 ء میں صدر جنرل ضیا الحق نے غیر جماعتی بنیادوں پر عام انتخابات کروا کر اس آئین میں وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی پارلیمنٹ سے 11 نومبر1985 میں 8 ویں ترمیم کروائی جو 1935 کے اس انڈیا ایکٹ کی شق کے متبادل تھی ۔
جس کے ذریعے گورنر جنرل غلام محمد اور اسکندر مرزا، حکومتوں کا تختہ الٹ کر وزراء اعظم کو گھر بھیجتے رہے۔ اس آٹھویں ترمیم کو 1997 میں 13 ویں ترمیم کرکے ختم کردیا گیا۔ 2003 کی اسمبلی نے پھر17 ویںترمیم کرکے صدر کو تقریباً وہی اختیارات دے دیئے جو اسے پہلے آٹھویں ترمیم کے تحت حاصل تھے۔ 8 اپریل 2010 کی 18ویں ترمیم نے نہ صرف صدر کے اسمبلی تحلیل کرنے کے اختیارات واپس لے لیے بلکہ صوبائی خود مختاری کا دائرہ بھی وسیع کردیا۔
یہ حقیقت ہے کہ 1985ء میں جب ہمارے ہاں غیر جماعتی بنیادوں پر عام انتخابات کرائے جا رہے تھے، سابق سوویت یونین اصولی طور پر جنیوا مذاکرات میں افغانستان سے واپسی کے لیے اقرار کر رہا تھا اور بات اتنی تھی کہ وہ اس پسپائی کے لیے مناسب راستہ چاہتا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے اختتام 1945ء کے ٹھیک 40 سال بعد یہ دنیا میں تبدیلیوں کا ایک نیا اور اہم ترین دور تھا۔
جنگ عظیم دوئم کے بعد دنیا سے سیاسی نوآبادیاتی نظام کا خاتمہ شروع ہوا تھا اور ایک جانب سابق سوویت یونین اشتراکی نظام معاشیات اور دوسری جانب امریکہ اور خصوصاً مغربی یورپ سرمایہ دارانہ نظام ِ معاشیات دنیا پر نافذ کرنا چاہتا تھا ۔ 1985 ء میں پاکستان کی سرحد سے لڑی جانے والی جنگ میں اشتراکیت کو عالمی سطح پر شکست ہو گئی جس کا واضح اعلان 1990 میں سرد جنگ کے خاتمے پر ہوا۔
آج 28 برس گزرنے کے بعد دنیا بہت تبدیل ہو چکی ہے اور بد قسمتی یہ ہے کہ ہم نہ صرف ان عالمی تبد یلیوں کو درست تناظر میں سمجھتے ہوئے پاکستان کو ان سے ہم آہنگ اور متوازن نہ کر سکے بلکہ اپنی تیزی سی بڑھتی ہو ئی آبادی کے مسائل کے حل کی جا نب بھی توجہ نہیں دے سکے ۔ 1977 ء کے بعد ہماری قومی سیاست پر علاقا ئی رنگ اس لیے بھی غالب ہونے لگا کہ مسائل کے حل کی بجائے ان مسائل کو علاقائی سیاست کے فروغ پر ترجیح دی گئی اور 2006 کے فوراً بعد کے واقعات کے بعد تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ صورتحال بقو ل استاد رشید انجم مرحوم یوں ہو گئی
لوگ نفرت کے بیج بَو تے ہیں
جب یہ اُ گنے لگیں تو روتے ہیں
2018 ء کے عام انتخابات پر بہت سے پہلووں سے تجزیئے بلکہ پوسٹمارٹم بھی کئے جا رہے ہیں۔ راقم الحروف چونکہ سماجی تحقیق کا ادنیٰ سا طالب علم ہے اس لیے ان انتخابات کو پانچ کروڑ ووٹرز کی اکثریت کی جانب سے سماجی عکاسی کادرجہ دیتا ہوں۔ 1970ء میں جب پاکستان کے پہلے عام انتخابات ہوئے تھے تو اس وقت کے مغربی پاکستان اور آج کے پاکستان کی آبادی کو انتخابات کے فورا بعد ہونے والی 1972 کی مردم شماری میں 6 کروڑ 53 لاکھ بتایا گیا تھا جب کہ 1970 میںکل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 56941500 تھی جن میں سے مشرق پاکستان کے ووٹوں کی تعداد 31211220 تھی اور مغربی پاکستان کے ووٹوں کی تعداد25730280 تھی۔ ٹرن آئوٹ 63% تھا۔ ملک کے دونوں حصوں میں کل ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد 33004065 تھی۔
مشرقی پاکستان میں ہندو آبادی کا تناسب تقریباً 20% تھا۔ یہ عام انتخابات بھارت سے دو جنگوں کے بعد ہوئے اور انتخابات کے ایک سال بعد تیسری جنگ ہوئی۔ دوسری اور تیسری جنگ کے درمیان صرف چھ سال کا فرق تھا۔ مشرقی پاکستان کا سماج شرح خواندگی کے اعتبار سے مغربی پاکستان سے آگے تھا۔ یہاں شرح خواندگی16.9% تھی اور مشرقی پاکستان میں18.4% تھی۔ مشرقی پاکستان میں جاگیردارانہ نظام بھی ہمارے مقابلے میں کمزور تھا اور متوسط طبقے کا سائز بھی مغربی پاکستان کے مقابلے میں زیادہ تھا۔
اردو کے مقابلے میں بنگالی کو قومی زبان بنانے کا مطالبہ ملک کے پہلے گورنر جنرل قائد اعظم کے سامنے ہی کیا گیا تھا اور اس مطالبے میں وقت کے ساتھ شدت آتی گئی۔ لیکن مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن نے یہ بنیاد رکھی تھی کہ مشرقی پاکستان کی اکثریت کے باوجود مغربی پاکستان کے پاس اقتدار کی اصل قوت ہے جس کی وجہ سے معاشی طور پر مشرقی پاکستان کا استحصا ل کیا جا رہا ہے ۔
اگرچہ ایسے ہی تاثرات مغربی پاکستان میں تین صوبوں کے پنجاب کے لیے تھے، جہاں ون یونٹ کی وجہ سے چاروں صوبوں کو شامل کرکے ایک یو نٹ مغربی پاکستان بنا دیا گیا، لیکن سقوط ڈھاکہ اور اس عظیم المیے کی بنیاد ی وجہ یہ تھی کہ ہمارا پہلاآئین بھی تاخیر سے 1956ء میں بنا اور پہلے انتخابات جن کو1950-51 میں ہو جانا چاہئے تھا وہ آزادی کے 23 سال بعد ہوئے۔ یوں عوامی آواز سے قومی اسمبلی محروم رہی اور یہ آواز گھٹن، ابہام، سختیوں اور پروپیگنڈے کے ساتھ ان وجوہات میں شدت اور اضافہ کرتی رہی جن کی بنیاد پر مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ آج 2017 کی مردم شماری کے مطابق ہماری آبادی 207700000 جس کو اب بائیس کروڑ کہا جا رہا ہے، اس میں شرح خواندگی 58% ہے، یوں کل پڑھے لکھے افراد کی مجموعی تعداد 120060000 اور ان پڑھ لوگوں کی کل تعداد 87640000 ہے۔
لیکن یہ حقیقت ہے کہ 1988 سے ہمارے ہاں جمہوریت کا سفر بہت سی رکاوٹوں کو عبور کرتا جاری رہا ہے اور خصوصاً 2008 ء سے2018 جون تک تو ملک میں پہلی بار دومنتخب جمہوری حکومتوں نے اپنی مقررہ آئینی مدت پوری کی ہے اور اس دوران صوبائی خود مختاری پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے 18 ویں آئینی ترمیم سمیت قانون سازی کی گئی ہے، اور یہ سابق وزیر اعظم کی سیاسی غلطی رہی کہ اگر وہ اپوزیشن لیڈ سید خورشید شاہ کی بات مان کر پانامہ کے مسئلے کو پارلیمنٹ ہی میں لاتے اور اسی کے حوالے کرتے تو شائد یہ صورتحال نہ ہوتی، لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ان دس برسوں میں جب دنیا کے بیشتر ممالک دہشت گردی سے نبرد آزما ہونے کے ساتھ ساتھ اقتصادی، معاشی طور پر خود کو مضبوط کرتے ہوئے ماحولیات،گلوبل وارمنگ،کلائمیٹ چینج اور قلتِ آب کے مسائل کو حل کرنے کی کامیاب کو ششیں کر رہے ہیں تو ہماری دونوں گزشتہ حکومتوں کی ترجیحات کچھ اور رہیں۔
ہمارے سامنے ترکی اور ایران نے مسائل کا مقابلہ بھی کیا اور ترقی بھی کی لیکن پاکستان نے جنگ کا سامنا کرتے ہو ئے اگرچہ کافی کا میابیاں بھی حاصل کیں اور ساتھ ہی غضب کا جانی ومالی نقصان بھی برداشت کیا، مگر اس کے مسائل بڑھتے گئے اور اس کی معاشی و اقتصادی منصوبہ بندی بہت ہی ناقص رہی۔ یہ سب کچھ اناڑی پن، بے خبری یا جان بوجھ کرکیا گیا؟
اسے ہمارے ذرائع ابلاغ نے مبہم اور پیچیدہ انداز میں عوام کے سامنے پیش کیا ۔ اس عوام کے سامنے جس میں 87640000 کی تعداد ان پڑھ ہے اور جو پڑھے لکھے ہیں ان میں بھی با شعور افراد کا تناسب پانچ چھ فیصد سے زیادہ نہیں، لیکن ایک مثبت صورت جو جمہوریت کے تسلسل کی وجہ سے فطری طور پر ہوتی ہے وہ واضح انداز میں ہو ئی، وہ یوں کہ 2007 میں محترمہ بینظر بھٹو شہید کی شہادت کے بعد اگرچہ مسلم لیگ ن نے یہ واضح کیا تھا کہ وہ میثاق جمہوریت پر عملدرآمد کرتے ہوئے جمہوریت کو نقصان پہنچانے کی ہر کوشش کو ناکام بنائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ جب صدر آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کے دیگر بڑے اور اہم لیڈروں پر کرپشن کے الزمات عائد کئے گئے تو اس پر مسلم لیگ ن نے پیپلز پارٹی کے خلاف بھرپور مہم چلائی اور عوامی جلسوں میں ان کے پیٹ پھاڑ کر بیرون ملک سے قومی دولت واپس لانے کے بلند وبانگ دعو یٰ کئے جاتے رہے۔
جس سے ان کو یہ فائدہ تو ہوا ان کا ووٹ بنک کچھ بڑھا اور 2013 ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن نے پنجاب سے پی پی پی کو بالکل آئوٹ کر دیا مگر اس کی جگہ تحریک انصاف نے نہ صرف پُر کی، بلکہ مسلم لیگ ن پر انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کر کے بھرپور تحریک چلائی تو پیپلز پارٹی سمیت تقریباً تمام بڑی جماعتوں نے احتجاجی دھرنے کے انداز سے تو کافی حد تک اختلا ف کیا مگر دھاندلی کے الزامات کی حمایت یا تصدیق کی۔ اس تمام تر صورتحال کے اثرات سماج میں ووٹ کے استعمال سے یوں واضح ہوئے، مثلا 1979 میں ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت نے محترمہ بینظیر بھٹو کو 1988 سے 1997 تک دومر تبہ اقتدار دلوایا حالانکہ انہوں نے اس دوران بہت سی سیاسی غلطیاں کیں۔
2007 میں محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد جس طرح کا شدید عوامی ردعمل آیا تھا اور جس کی شدت کو آصف علی زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ دیکر جمہوریت کے حق میں موڑ دیا تھا، اس کا اثر بھی قائم رہنا چاہیے تھا جس کو نہ صرف صوبائی سطح پر اس وقت نواز شریف اور شہباز شریف نے 2008 میں زائل کردیا تھا جب 2008 کے عام انتخابات میں پی پی پی نے قومی اسمبلی کی 271 جنرل نشستوں میں سے91 جنرل نشستیں لیں۔ مسلم لیگ ن نے 69 نشستیں اور مسلم لیگ ق نے38 نشستیں لی تھیں۔
مگر پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں 2008 میں مسلم لیگ ن کی 171 نشستیں، پی پی پی کی 107 نشستیں اور مسلم لیگ ق کی 84 نشستیں تھیں لیکن 371 کی پنجاب اسمبلی سے ووٹ کی بنیاد پر حکومت مسلم لیگ ن نے بنائی اور شہبا ز شریف وزیر اعلیٰ ہو ئے۔ اس کے بعد مسلم لیگ ن نے متواتر پی پی پی حکومت اور آصف علی زرداری کو ہدف تنقید بنائے رکھا اور یہاں تک کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو گھر جانا پڑا۔ یوں 2013 کے عام انتخابات سے پہلے تک پاکستان پیپلز پارٹی پر کرپشن کے الزامات اور اس پر ملک کی اس وقت کی سب سے بڑی جماعت ن لیگ کی شدید تنقید کی وجہ سے پی پی پی خصوصاً پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپنی مقبولیت کھو گئی اور مسلم لیگ ن نے بلا شبہ اس کے مقابلے میں کامیابی حاصل کی۔
پیپلز پارٹی کا ووٹر چونکہ نظریاتی طور پر مسلم لیگ ن کے خلاف تھا اس لیے وہ مسلم لیگ ن کی طرف جانے کی بجائے نئی سیاسی قوت پی ٹی آئی جو ویسے ہی نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی اسی جانب گیا ۔ اگرچہ 2008 میں عمران خان اور پی ٹی آئی کے بارے میں یہ خیال کسی کو نہیں تھا کہ یہ جماعت طویل عرصے بعد بھٹو کی پیپلز پارٹی کی طرح مقبولیت اختیار کرے گی لیکن یہ پی ٹی آئی کے تبدیلی کے نعرے کی بجائے حقیقت میں معاشرقی تبدیلی تھی جس نے رونما ہونا تھا اور اگر عمران خان نہیں ہوتے تو کچھ دیر سے سہی مگر کوئی شخصیت قومی سطح کے رہنما اور نئی سیاسی جماعت کے ساتھ معاشرتی مسائل کے اعتبار سے معاشرے کی عکاسی کرتی اور اب بھی اس کا امکان ہے کہ اگر عمران خان ناکام ہوئے توان کی جگہ دوبارہ پرانے کھلاڑی نہیں بلکہ کوئی اور نئی قیادت لے گی۔
جہاں تک تعلق 2013 کے عام انتخابات کا تھا جس کے نتائج کے مطابق کل ڈالے گئے 45388404 ووٹوں میں سے مسلم لیگ ن نے 14874104 ووٹ لئے اور قومی اسمبلی کی 126 جنرل نشستیں حاصل کیں، پی پی پی نے کل6911218 ووٹ لے کر قومی اسمبلی کی 33 نشستیں حاصل کیں اور پاکستان تحریک انصاف نے کل 7679954ووٹ حاصل کئے جو پی پی پی سے 768736 ووٹ زیادہ تھے مگر قومی اسمبلی کی 28 جنرل نشستیں لیں جو پی پی پی سے پانچ نشستیں کم تھیں جب کہ مسلم لیگ ن سے پی ٹی آئی کے مجموعی ووٹ نصف سے زیادہ تھے مگر نشستیں تقریباً 75% کم تھیں۔ جب کہ 2013 کے پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے نتائج یوں تھے کہ کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 48534383 تھی جن میں سے کل 27875857 ووٹ ڈالے گئے۔
مسلم لیگ ن نے کل ڈالے گئے ووٹوں میں سے11365363 ووٹ یعنی 40.77% ووٹ لے کر پنجا ب کی صوبائی اسمبلی کی248 جنرل نشستیں حاصل کیں۔ تحریک انصاف نے کل 4951217 ووٹ یعنی 17.76% ووٹ لے کر صرف 24 صوبائی نشستیں حاصل کیں اور پاکستان پیپلز پارٹی نے کل 2464812 ووٹ یعنی8.84% ووٹ لے کر7 نشستیں حاصل کیں اور مسلم لیگ ق نے کل ووٹ 1377130 یعنی4.94% ووٹ لے کر 7 نشستیں حاصل کیں، مسلم لیگ ن نے قومی اسمبلی اور ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بھاری اکثریت لے کرمضبوط صوبائی اور وفاقی حکومت بنا لی جب کہ نئی سیاسی قوت پاکستان تحریک انصاف نے خیبر پختونخوا میں اکثریت حاصل کر کے مخلوط حکومت بنائی، یہ ایک نئی سیاسی تبدیلی تھی اس پر تحریک انصاف نے ن لیگ پر دھاند لی کے الزمات عائد کر کے تاریخ کا شدید احتجاج کیا، مگر عدلیہ نے یہ فیصلہ دیا کہ الیکشن2013 میں منظم دھاندلی کے ثبوت نہیں ملے، یہ احتجاج جو ملک کا طویل ترین دھرنا تھا بظاہر نا کامیابی پر ختم ہو گیا مگر یہ حقیقت ہے کہ اس سے نوجوانوں میں قومی یکجہتی اور قوت کے ساتھ ظالمانہ قوتو ں کے خلا ف جدوجہد کا عزم ملا۔
پھر نواز شریف خاندان کی بد قسمتی کہ پانامہ لیک سامنے آئی تو یہ کریشن، منی لانڈرنگ کے ایسے الزامات تھے جن کے ثبوت عالمی سطح کے اداروں نے فراہم کئے تھے اور اس پر نوازشریف کے بیٹوں اور بیٹی مریم نواز کے ٹی وی انٹرویو بطور وزیر اعظم قومی اسمبلی اور قوم سے خطاب میںخود جن باتوں کو تسلیم کیا تھا ان سے دوران مقدمات انکار، پارٹی کا احتجاج یہ تمام ان کی ناکامیاں رہیں۔ اس احتجاج میں نوازشریف اپنے خلا ف اس کو اسٹیبلشمنٹ کی سازشیں قرار دیتے رہے، ان کی یہ کوشش بھی رہی کہ کسی طرح عام انتخا بات نہ ہو سکیں اور حالات اتنے خراب ہو جائیں کہ فوج کو مجبوراً مداخلت کرنا پڑے مگر ایسا نہ ہو سکا اور بیٹی اور داماد سمیت ان کو الیکشن سے قبل سزا ہو گئی اور کوئی قابل ذکر احتجاج بھی نہ ہو سکا۔
انتخابات سے ایک دو دن قبل جب پنجاب اور خیبر پختوا کے گورنروں نے ان سے اڈیالہ جیل میں خفیہ ملا قاتیں کیں جو خفیہ نہ رہ سکیں اور یہ افواہیں پھیلیں کہ ان ملاقاتوں کا مقصد این آر او کرکے ہمیشہ کے لیے ملک سے با ہر منتقل ہونا تھا، اگرچہ اس کی تردید سابق وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب نے کی کہ نواز شریف کو ئی NRO نہیں کر رہے مگر اس کی تردید ان دونوں گورنروں کی جانب سے نہیں ہوئی بلکہ خاموشی رہی۔ پھر جہاں تک تعلق انتخابات کا تھا تو ماسوائے پی ٹی آئی، مسلم لیگ ن سمیت تمام بڑی جماعتوں کا انتخابات کے اعلان کے بعد پہلے پندرہ دنوں تک غالباً یہ خیال تھا کہ یہ انتخا بات پانچ چھ ماہ کی تاخیر سے ہونگے اور اس کو غیر آئینی قرار دے کر بھی احتجا ج کیا جائے اور یوں پی ٹی آئی کے پی پی پی اور مسلم لیگ ن پر کرپشن کے الزامات اور مقد مات میں قانونی پیچیدیاں پیدا کر کے اس پورے معاملے کو برسوں کی طوالت دے کر ہمیشہ کے لیے ٹھنڈا کردیا جائے گا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔
پی ٹی آئی کے عمران خان پہلے دن سے پر عزم تھے اور الیکشن سے پہلے 30 دنوں میں تو انہوں نے اپنی انتخابی مہم کی انتہاکر دی کہ ایک مہینے میں120عوامی جلسے کئے جن میں سے بعض بہت بڑے جلسہ عام تھے اور پھر جب 25 جو لائی کو عام انتخابات ہوئے تو ان کو تاریخی کامیابی حاصل ہوئی چونکہ یہ سطور میگزین کے لیے 26 کی رات کو مکمل کی جا رہی ہیں اس لیے اس وقت کی اطلاعات کے مطابق انتخا بات 2018 میں کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد تقربیاً 10 کروڑ 70 لاکھ تھی اور تاریخی ٹرن آئوٹ تقریبا 55% رہا اور محتاط اندازوں کے مطابق کل ڈالے گئے ووٹوں میںسے نصف سے کچھ کم صرف پی ٹی آئی نے حاصل کئے ہیں جن کی بنیاد پر قوم ی اسمبلی میں پی ٹی آئی نے 272 میں سے270 نشستوں پر ہونے والے عام انتخابات میں 115 نشستیں حاصل کی ہیں، مسلم لیگ ن 64 اور پی پی پی 43 نشستیں لے گئی ہے، چونکہ یہ اعداد وشمار انتخا بات کے 28 گھنٹوں کے بعد کے ہیں اس لیے ان میں ایک آدھ کی کمی بیشی ہو سکتی ہے لیکن اس کی بنیادی طور پر صورت یہ ہے کہ پی ٹی آئی آسانی سے وفاق میں حکومت بنا لے گی۔
خیبر پختو نخوا میں اس پارٹی کو دو تہائی اکثریت حاصل ہوئی ہے، پنجاب صوبائی اسمبلی میں اس کی نشستیں ن لیگ سے تقریباً چھ کم ہیں ، یوں پی ٹی آئی آزاد میدواروں اور ق سے مل کر پنجاب میں بھی حکو مت بنا سکتی ہے۔ سندھ صوبائی اسمبلی میں پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی کے بعد دوسری بڑی جماعت ہے جب کہ بلوچستان اسمبلی کی 51 جنرل نشستوں میں سے پی ٹی آئی کو چار نشستیں ملی ہیں مگر یہاں نئی سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پار ٹی، بلو چستان نیشنل پارٹی مینگل آزاد ممبران کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت کا اہم حصہ بن سکتی ہے، 26 جولائی کو عمران خان نے انتخابات میں کا میابی کے بعد اپنے مختصر مگر اہم خطاب میں اپنی خارجہ، داخلہ اور اقتصادی پالیسی کے اہم نکات بیان کئے۔
یہ تقریر اردو میں تھی اور صرف چند نکات غالباً لکھے ہوئے تھے مگر تقریر متاثر کن تھی جس کی تعریف دشمنوں اور مخالفین نے بھی کی اور اس تقریر کو بی بی سی، سی این این، الجزیرا،بھارتی ٹی وی چینلز سمیت بہت سے انٹر نیشنل چینلز نے بر اہ راست نشر کیا۔ انتخابات میں پی ٹی آئی کی فتح تاریخی ہے، میا نوالی سے عمران نے ایک لاکھ 67 ہزار ووٹ لیے جب کہ وہ قومی کی پانچ نشستوں سے کھڑے ہوئے تھے اور تمام پر کامیاب ہوکر یہ ثابت کر دیا کہ واقعی وہ وفاق اور اتحاد کی علامت ہیں۔ ان انتخابات میں تقریباً ہر جگہ ہر حلقے میں مقابلہ پی ٹی آئی کا ہی تھا۔ بیشتر حلقوں میں پی ٹی آئی کے امیدوار کامیاب ہوئے اور جہاں کامیاب نہیں ہوئے وہاں دوسرے نمبر پر رہے۔ اسی طرح ان انتخابات میں اسفندیار ولی، مو لانا فضل الرحمٰن، اکرم خان درانی، ڈاکٹر فاروق ستار، محمود خان اچکزئی اور چوہدری نثار قومی اسمبلی میں جانے سے رہ گئے۔
اس کا شدید ردعمل سامنے آیا ہے مولانا فضل الرحمن کی جانب سے احتجاج کا کہا گیا ہے میاں شہباز شریف اور پی پی پی نے انتخابات کو دھاندلی زدہ کہا ہے اور شہباز شریف نے الیکشن کو مسترد کرتے ہوئے آل پا رٹی کانفرنس بلانے کا کہا ہے جب عمران خان نے اپنی تقر یر میں یہ کہا ہے کہ یہ الیکشن تاریخ کے شفاف ترین الیکشن تھے اور جب میں نے دھاندلی پر کہا تھا کہ ووٹوں کے ڈبے کھولے جائیں جن کو تسلیم نہیں کیا گیا تھا مگر اب میں کہتا ہوں کہ جس کو دھاندلی کا شبہہ ہو ہم اس کے ساتھ تحقیقا ت میں پوری مدد کریں گے اور جہاں کہیں جس حلقے کو کھلوانا چاہیں گے اس کے لیے حاضر ہوںگے۔ بہر حال عمران خان کو انتخابات کے فورا بعد آل پاکستان پارٹیز مخالفت اور احتجاج کا سامنا ہے، اگر خدانخوستہ کو ئی بڑا حادثہ یا المیہ رونما نہ ہو تو اپوزیشن کا احتجاج یوں بے معنی ہو گا کہ ان کے مطالبے سے پہلے ہی وہ ہر انتخابی حلقہ کھولنے کے لیے تیار ہیں جب کہ گزشتہ حکومت میں نواز شریف نے ایسا نہیں کیا تھا۔
عمران خان کے انقلابی انداز میں انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی بنیادی وجہ ملک کی نوجوان آباد ی ہے، 2 مئی 2014 کے یو این ڈی پی کے مطابق پاکستان میں 15 سا ل سے29 سال کی عمروں کے گروپ کی آبادی کا تناسب 64 فیصد تھا اور ان کی کل تعداد 10 کروڑ تیس لاکھ تھی۔ ہمارے ہاں ووٹر کی عمر اب اٹھارہ سال مقرر کی گئی ہے۔ یہ وہ دور ہے جب عمران 2013 کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے احتجاج کر رہے تھے، چار برسوں بعد یہ صورتحال مزید آگے بڑھی، پوری دنیا کی طرح ہمارے ہاں بھی شہری آبادی کے تناسب میں اضافہ ہوا ہے اور اب شہری آبادی کل آبادی کا 39.7% ہے جس میں سالانہ 2.77% کا اضافہ ہوا ہے جب کہ اورسیز پاکستانیوں کی تعداد اب بھی 70 لاکھ سے زیادہ ہے اور شہری آبادی میں اندراج کے بغیر محنت مزدوری کے لئے عارضی طور پر شہروں میں رہائش رکھنے والوں کا تناسب کل شہری آبادی کا تقریباً 8 فیصد ہے۔
عمران خان نے کرپشن،اقربا پروری، میرٹ کی خلاف ورزی، سفارش اور سیاسی جماعتوں پر خاندانوں کا غلبہ اور موروثی سیاست جسے انہوں نے بادشاہت کہا، کے خلاف نعرہ لگایا اور تمام سماجی، سیاسی خامیوں، برائیوں کا شکار یہی سا ت آٹھ کروڑ نوجوان لڑکے، لڑکیاں ہیں جو کل 10 کروڑ70 لاکھ رجسٹرڈ ووٹروں میں اہم اور متحرک ہیں۔ تحریک انصاف کی نظریاتی اساس نوجوان اور شہری آبادی ہے جہاں تک دیہی آبادی کا تعلق ہے جو کل آبادی کا ساٹھ فیصد سے زیادہ ہے، اس میں شخصیات جاگیردارانہ نظام کے اعتبار سے بہت اہم ہیں۔
یو ں دیہی اور نیم شہری علاقوں میں کامیابی کے لیے عمران خان نے کچھ مفاہمت سے کام لیا اور دوسری جماعتوں سے آنے والے الیکٹ ایبلز کو پارٹی میں شامل کر کے ٹکٹ بھی دئیے لیکن شہری آبادی میں ایسا کم ہوا۔ پی ٹی آئی کی نظر یاتی انقلا بی سیاست کے لحاظ سے دیکھیں تو پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے ہمارے ٹا پ ٹن شہر اہم رہے،آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایم کیو ایم کے الطاف حسین کی غیر جمہوری طاقت کے ٹو ٹنے کے بعد ان انتخا بات میں پی ٹی آئی نے ایم کیو ایم سے زیادہ نشستیں لیں اور جو چھ نشستیں ایم کیو ایم نے حاصل کیں وہ اس کی جمہوری اور قوم پرست نظریات کی وجہ سے حاصل ہوئیں جب کہ ایم کیو ایم کے دوسرے دھڑے پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے سامنے سیاسی لحاظ سے ناکام رہے چاہے۔
ان کو کسی بھی جانب سے کتنی ہی سپورٹ حاصل رہی، اس صورتحال کو ایم کیو ایم کے کامیاب ممبران نے تجزیاتی طور پر تسلیم کرلیا ہے اور ان کا تھنک ٹینک اسی صورت کو مدِ نظر رکھ کر اپنی آئندہ کی حکمت عملی ترتیب دے گا اور اندازہ ہے کہ ایم کیو ایم، مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتوں کے ساتھ بھرپور انداز میں پی ٹی آئی کے خلا ف احتجاج میںحصہ نہیں لیں گی بلکہ آنے والے دنوں میں سندھ صوبائی اسمبلی میں بیٹھ کر پی ٹی آئی کے ساتھ پی پی پی کی صوبائی حکومت کے خلاف مضبوط حزب اختلا ف کا حصہ بنے گی اور مر کز میں پی ٹی آئی سے مفاہمت اور اختلاف دونوں کو متوازن انداز سے استعمال کرے گی اور آنے والے انتخابات میں طاقت اور تشدد کی بجائے جمہوری اور قوم پرست سیاست کی بنیاد پر اپنی قدرے کھوئی ہوئی سیاسی قوت کو پارلیمنٹ میں عددی برتری سے حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔
آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا شہر لاہور جو اب بھی مسلم لیگ ن کا بنیادی قلعہ سمجھاجاتا ہے یہاں سے پی ٹی آئی نے صرف22% نشستیں اس لیے حاصل کیں کہ وہ ا ن قومی اسمبلی کے صرف ان چار حلقوں میں نوجوانوں کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوئے کہ مجموعی قومی ترقی ہی کی وجہ سے مجموعی قومی خوشحالی اور ترقی ہو گی، لاہور کے مقابلے میں فیصل آباد جو ملک کا بڑا صنعتی شہر ہے یہاں پی ٹی آئی کا نظریاتی پیغام پوری طرح اثر کر گیا اور قومی اور صوبائی دونوں سطحوں پر انتخابات میں پی ٹی آئی نے اہم کامیابی حاصل کی، اس کے بعدبالترتیب آبادی کے لحاظ سے شہروں کی صورت یوں ہے نمبر4 راولپنڈی نمبر5 ۔گوجرانوالہ نمبر6 ۔ پشاور نمبر7 ۔ملتان نمبر8 ۔حیدر آباد نمبر9 ۔اسلام آباد نمبر10 ۔کوئٹہ ۔ راولپنڈی،اسلام آباد، ملتان اور پشاور میں بھی پی ٹی آئی کی کامیابی شاندار رہی ہے جب کہ گوجرانوالہ، حیدر آباد اور کوئٹہ سے بھی پی ٹی آئی کا میاب ہو ئی ہے۔
اب جہاں تک تعلق احتجاج کا ہے تو یہ شہری آبادی ہی کی پُر جوش شرکت و شمولیت سے کامیاب ہو تا ہے اس لیے سرِ دست جب عمران خان نے اپوزیشن کی جانب سے دھاندلی کے الزامات پر کھلی آفر دے دی تو دیکھنا یہ ہے کہ احتجاج کی صورت کیا ہوگی؟ اور یہ کہ ا پوزیشن اپنی سوچ کے مطابق کہ وہ 1977ء کی طرح کا کا میاب احتجاج کر پائے گی کہ جس کے نتیجے میں بھٹو کی حکومت چلی گئی تھی تو آج ایسی صورتحال نہیں ہے ۔ دوسری جانب عمران خان نے پانچ برسوں میں ایک کروڑ روزگارکے مواقع اور پچاس لاکھ مکانات کی فراہمی کاجو وعدہ کیا ہے یہ اگرچہ ناممکن نہیں مگر فی الحال مشکل نظر آرہا ہے اس تناظر میں اگر ہم ماضی قریب کی تاریخ میں لیڈروں کی انقلابی اصلاحات کا جائزہ لیں تو وہ حیران کن دکھائی دیتا ہے، مثلًا پہلی جنگ عظیم میں شکست کے بعد جر منی نے جب وارسائی محل کے ذلت آمیز معاہد ے پر مجبوراً دستخط کئے تھے تواس پر نہایت بھاری تعاون جنگ کے ساتھ بہت سی اقتصادی صنعتی اور عسکری نوعیت کی پابندیاں عائد کردی تھیں اور 1923 میں جرمنی کی معیشت کا یہ حال ہوا تھا اس کی کرنسی ردی کاغذ کہلاتی تھی۔
جنگ عظیم اول 1914-18 تک جرمن کرنسی کی قیمت 14.29مارکس کا ایک امریکی ڈالر تھا اور پھر1923 تک ہزاروں جرمن مارک کا ایک ڈالر ہو گیا یہاں تک کہ جرمنی نے 5 کروڑ مارک کا کرنسی نوٹ اور 50 لاکھ مارک کا سکہ جاری کیا تھا لیکن جب ہٹلر بر سر اقتدار آیا تو صرف دو سال بعد جرمنی کی معیشت دنیا کی طاقتور معیشت تھی اسی طرح جنگ عظیم دوئم کے فوراً بعد جب ملائیشیا،انڈونیشیاجیسے بڑ ی آبادیوں اور بڑے رقبوں کے ملکوں کے ساتھ ہی ملائیشیا کے ساتھ سنگا پور کو بھی آزادی ملی اور 1965 میں سنگاپور کو ملائیشیا سے مکمل طور پر الگ کر کے ایک آزاد ملک بنادیا گیا۔
اس جزیرے کا رقبہ صرف 716 مربع کلومیٹر ہے اور آج اس کی آبادی 5469700 ہے یعنی یہاں فی مربع کلو میٹر 7615افرادآباد ہیں اس وقت ملائیشیا نے اسے بوجھ سمجھ کر چھوڑا تھا پھر اسے ( لی کو آن یو ) جیسا لیڈر ملا آج سنگا پور کی فی کس سالانہ آمدنی 78762 ڈالر سالانہ ہے اور اس چھوٹے ملک کا جی ڈی پی سالانہ 312434 ڈالر ہے۔ 1990 میں جب سابق سوویت یونین بکھر کر15 ریاستوں میں تقسیم ہوگئی۔ مشرقی یورپی ملکوں سے اشتراکی معیشت کا خاتمہ ہوا تو سابق سو ویت یونین جس کی کرنسی روبل کی قمیت ڈالر کے تقریباً برابر تھی، 1990 کے بعد صدر بورس یلسن کے دور میں450 روبل کا ایک ڈالر ہوا، روس جو دنیا کے کل خشکی کے رقبے کا 1/8 ہے اور اس کا مجموعی رقبہ 17125200 مربع کلو میٹر ہے اور آبادی کے لحاظ سے 9 واں ملک ہے اس کے صدر پوٹن نے اسے دوبار ہ مستحکم کیا اور اب روس دنیا کی 12 ویں بڑی معیشت اور قوت خرید کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا ملک ہے اور فوجی اور جدید اسلحہ سازی کے اعتبار سے امریکہ کے بعد دوسرا بڑا ملک ہے۔
اسی طرح چیکو سلواکیہ جو اب دو ملکوں میں تقسیم ہے یہاں افراط زر 1990 کی دہائی میں64% ہوا اور یہی صورت مشرقی یورپ کے دیگر ملکوں کی تھی جو اب خوشحال ہیں، ہمارا دوست ملک ترکی جہاں اس کی کرنسی لیرا 1946 میں ڈالر کے برابر تھا 1960 میں 9 لیرا کا ایک ڈالر ہوا 1980 میں ترکی کی کرنسی مزید گر ی 90 لیرا کا ایک ڈالر ہوا 1995 میں ساڑھے چار ہزار لیرے کا ایک امریکی ڈالر ہوا 2001 میں تو ترکی کی کرنسی کا براحال ہوا کہ 165000 لیرا کا ایک ڈالر ہوا۔
2005 سے معاشی اقتصادی ترقی کی جانب توجہ دی گئی آج 4.90 ترکی لیر ا کا ایک ڈالر ہے، پاکستان میں 1954 میں امریکی ڈالر کی قیمت تین روپے تھی 1970 میں ڈالر 5 روپے، 1972 میں ڈالر10 روپے، 1988 میں ڈالر 20 روپے،1997 میں ڈالر40 روپے، 2001 میں ڈالر60 روپے، 2008 میں ڈالر80 روپے، 2013 میں ڈالر100روپے، 2018 کے آغاز میں ڈالر 104روپے اور 25 جولائی2018 کو اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 130 روپے تھی۔ الیکشن کے فوراً بعد اس میں چھ روپے کی کمی ہوئی ہے، اسی طرح اسٹاک ایکسچینج مندی کی صورتحال سے نکلا ہے۔ ماضی کی حکومتوں کے مقابلے میں عمران خان کو اپنی حکومت کے پہلے 100 دنوں ہی میں اپنی کارکردگی دکھانا ہو گی کہ اس کے ووٹرز کی تعداد ایک کروڑ 67 لاکھ ہے جو نوجوان اور جذ باتی ہیں اور فوری یا کرشماتی تبدیلیوں کا تقاضا کریں گے۔
ا س وقت جب یہ سطور 26 جولائی کی رات کو تحریر کی جا رہی ہیں تو پی ٹی آئی کے نوجوانوں کی اکثریت فتح کا جشن منا رہی ہے۔ عمران خان کو کرکٹ کے کھلاڑی ،اداکار اور دنیا کی اہم شخصیات مبارکباد کے پیغامات دی رہی ہیں جو ان کے ڈھائی کروڑ ووٹروں کی خوشی کا سبب ہے لیکن پالیسی سازوں، دانشوروں کو اس کا انتظار ہے کہ عمران خان کے حلف اٹھاتے ہی کن کن سربراہانِ حکومت اور مملکت کے پیغامات آتے ہیں اور ان کا متن کیا ہو تا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے بعد عمران خان وہ شخصیت ہیں جنہو ں نے گزشتہ چالیس برسوں سے طاری سیاسی جمود کو توڑا ہے اور ملک میں نوجوانوں کی اکثریت کی نمائندگی کرتے ہوئے علامہ اقبال کے ان اشعار کو حقیقت کا روپ دینے کی کو شش کی ہے۔
پرانی سیاست گری خوار ہے
زمیں مِیر و سلطاں سے بیزار ہے
گیا دورِ سرمایہ داری گیا
تماشہ دکھا کر مداری گیا
خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانو ں کو پیروں کا استاد کر
جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے
مرا عشق میری نظر بخش دے
یہی کچھ ہے ساقی متاعِ فقیر
اسی سے فقیری میں ،میں ہوں امیر
مر ے قافلے میں لُٹا دے اسے
لُٹا دے ٹھکانے لگا دے اسے