اقتصادی چیلنجز سنگین حکومت کو آئی ایم ایف سے جلد مزید قرض لینا پڑے گا
ماہرین معیشت اور صنعتی و کاروباری شخصیات کا ’’ایکسپریس ‘‘ فورم میں اظہار خیال
پاکستان میں جلد ہی نو منتخب حکومت عنان اقتدار سنبھال لے گی جسے ہر محاذ پر مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا جن میں اقتصادی مسائل سر فہرست ہیں۔
اقتصادی ماہرین کے مطابق پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کے لئے ملک میں میرٹ کو اولین ترجیح دینا ہوگی،کابینہ میرٹ پر بنانی چاہیے،اقرباء پروری نہیں ہونی چاہیے، وزراء کے لئے انفرادی سطح پر اہداف مقرر کیے جائیں، انرجی سسٹم میں شفافیت لانا ہوگی ، توانائی بحران کے خاتمے کے لئے انرجی سیکٹر کی نجکاری کردی جائے، خسارے میں چلنے والے اداروں کو نجی شعبے کے حوالے کردیا جائے تاکہ ان کی کارکردگی بہتر ہو۔
مختلف اداروں کو دی جانیوالی اربوں روپے کی سبسڈی ختم کی جائے اور یہ پیسہ صحت وتعلیم پر لگانا ہوگا،انڈسٹری کے مسائل ختم کرنا ہوں گے، تربیت یافتہ لیبرتیار کرنا ہوگی، ٹیکس چوری کا خاتمہ، ٹیکس کی شرح میں کمی اور ٹیکس استثنیٰ کا خاتمہ کرنا ہوگا، علاقائی تجارت کو فروغ دے کر اسے دس گنا بڑھانا ہوگا، ایف بی آر کا نظر ثانی شدہ ریونیوٹارگٹ بھی پورانہیں ہو گا۔
آنے والی حکومت کو اخراجات میں فوری طور پر کمی کرنا ہوگی، اس حوالے سے صنعتی و کاروباری شخصیات اور اقتصادی ماہرین نے '' نئی حکومت کو درپیش معاشی چیلنجز '' کے عنوان سے منعقد کئے گئے ایکسپریس فورم میں اظہار خیال کیا جس کی تفصیل نذر قارئین ہے۔
سید سلمان شاہ (سابق مشیرخزانہ)
''بزنس کمیونٹی سے تعلق میاں نواز شریف کی طاقت بھی ہے اور کمزوری بھی ۔انہیں حکومتی معاملات کو بزنس کے معاملات سے الگ رکھنا ہوگا۔
پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانا کم لفظوں میں بہترین وژن ہے۔ ایشیا میںکوریا، ملائیشیا، سنگا پور، انڈونیشیا تیزی سے ترقی کرنیوالے ممالک ہیں۔ پاکستان میں 11کروڑافرادکی عمریں 25 سال سے کم ہے، ان نوجوانوں کے لئے سالانہ روزگار کے 3کروڑ مواقع پیدا کرنے ہوں گے۔ معاشی ترقی کی رفتار10فیصد سالانہ رکھنا ہوگی تاکہ ملکی و غیر ملکی سرمایہ دار پورے اعتماد کے ساتھ یہاں سرمایہ کاری کریں۔ پاکستانی انویسٹرسرمایہ کاری کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر معیشت کا انجن آف گروتھ ہے۔ پاکستان وسائل سے مالا مال ہے۔
میاں نواز شریف نے پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کی بات کی ہے جس کے لئے ملک میں میرٹ کو اولین ترجیح دینا ہوگی۔کابینہ میرٹ پر بنانی چاہیے،اقربا پروری نہیں ہونی چاہیے۔ کابینہ میں نئے چہروں کو سامنے لایا جائے۔ وزراء کے لئے انفرادی سطح پر اہداف مقرر کیے جائیں اور سہ ماہی بنیادوں پر ان کی کارکردگی چیک کی جائے۔ انرجی سسٹم میں شفافیت لانا ہوگی ۔ اس کیلئے نیپرا اور اوگرا کے قوانین تبدیل کرنا ہوں گے۔ توانائی بحران کے خاتمے کیلئے انرجی سیکٹر کی نجکاری کردی جائے۔ خسارے میں چلنے والے اداروں کو نجی شعبے کے حوالے کردیا جائے تاکہ ان کی کارکردگی بہتر ہو۔
مختلف اداروں کو دی جانیوالی اربوں روپے کی سبسڈی ختم کی جائے اور یہ پیسہ صحت وتعلیم پر لگانا ہوگا۔ انڈسٹری کے مسائل ختم کرنا ہوں گے۔ تربیت یافتہ لیبرتیار کرنا ہوگی۔ ٹیکس چوری کا خاتمہ ، ٹیکس کی شرح کم اور ٹیکس استثنیٰ کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ علاقائی تجارت کو فروغ دے کر اسے دس گنا بڑھانا ہوگا۔ ہمسایہ ممالک کے ساتھ ٹریڈ کو اوپن کرنا ہوگا۔ مالیاتی منڈیاں چین اور امریکہ کے پاس ہیں ان ممالک کو اپنی ایکسپورٹ بڑھانا ہوگی۔ ایف بی آر کا نظر ثانی شدہ ریونیوٹارگٹ بھی پورا نہیں ہو گا۔
آنیوالی حکومت کو اخراجات میں فوری طور پر کمی کرنا ہوگی۔ حکومت کو بہت جلد آئی ایم ایف کے پاس جانا ہوگا لیکن اگر ماضی کی طرح کڑی شرائط پر آئی ایم ایف سے معاملات طے کیے گئے تو اس کے برے اثرات ہوں گے۔ معیشت کوری سٹرکچرکرکے اسے پرائیویٹ سیکٹر کی طرف لے جانا ہوگا۔ آنے والی حکومت کو ڈسپلن میں کام کرنا پڑے گا اورحکومت شفاف گورننس کے ساتھ کرنا ہوگی۔ آئی ایم ایف سے سوچ سمجھ کر معاملات طے کرنا ہوں گے۔''
میاں ابو ذر شاہ (نائب صدرلاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری)
''نااہل لوگوں کو فوری طور پر فارغ کیا جائے، اپنے عہدوں کاغلط استعمال کرنے والے عہدیداروں کو فوری نکال دیا جائے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری اور معیشت کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ ہنڈی سسٹم کی شدید حوصلہ شکنی کرکے اسے ختم کردیا جائے۔گزشتہ ادوار میں شرح سود بے شک زیادہ تھی لیکنلوڈ شیڈنگ کم تھی اب اگر مارک اپ 5فیصد ہو اور بجلی بالکل نہ ہو تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔
بینکوں میں جس کا 500 ملین سے زائد ڈیپازٹ ہے اس کا این ٹی این نمبر لگادیا جائے، جس کا بجلی کا بل 3لاکھ سے زیادہ ہے اسے ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔ پسند ناپسند کی بجائے بزنس کمیونٹی کے اہل افراد کوکابینہ میں شامل کیا جائے۔ زرعی ٹیکس نافذ کیا جائے، سیلز ٹیکس کی شرح کم کرکے اور اسے سنگل ڈیجٹ تک لایا جائے۔ افغان ٹریڈ کے نام پر فراڈ ختم کیا جائے۔گاڑیوں کی کسٹم ایمنسٹی سکیم کاآڈٹ کرنا چاہیے۔ ایس آر او کلچر کا خاتمہ کیا جائے۔
رورل ایریاز میں انڈسٹری لگائی جائے تو شہروں کی طرف نقل مکانی کا رجحان کم ہوجائے گا۔ بھارت سے تجارت کو فروغ دیا جائے۔ توانائی بحران کو ہنگامی بنیادوں پر حل کیا جائے۔ 25لاکھ نوجوان سالانہ گریجوایشن کر رہے ہیں،جنہیں روزگار نہیں مل رہا اس طرح بیروزگاروں کی ایک فوج تیار ہورہی ہے۔
بیوروکریسی نے سٹیل ملز اور ریلوے میں کوتباہ کردیا ہے۔ ان اداروں کو چلانے اور مکمل تباہی سے بچانے کیلئے ضروری ہے یہاں باصلاحیت اور ایماندار افسران تعینات کیے جائیں۔''
اظہر سعید بٹ (ریجنل چیئرمین فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسڑی)
''تناؤ اور افراتفری کے ماحول میں الیکشن ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوئے ہیں،دیگر صوبوں میں نئے سٹیک ہولڈرز ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ بلوچستان کے مسائل ہیں۔
میاں نوازشریف نے عمران خان کی عیادت کرکے اچھی مثال قائم کی ہے۔ چاروں صوبوں کو ساتھ لیے بغیر مسائل حل نہیں ہوسکیں گے۔ اگر بھاری مینڈیٹ ہے تو بھاری ذمہ داریاں بھی ہیں ۔ سرکاری اداروں کے سربراہان تبدیل کردیئے جائیں۔ بیرون ملک سے پیسہ واپس لانے والوں کو مراعات دے کر ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
کم از کم 15 سال کے لئے معاشی روڈ میپ بنایا جائے۔ تھرمل پاورپلانٹس میں 10 فیصدفرنس آئل استعمال ہونے سے پہلے ہی چوری ہوجاتا ہے جسے بجلی چوری کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ بجلی کی مانیٹرنگ اور ڈسٹری بیوشن سسٹم کو کمپیوٹرائزڈ کیا جائے۔ لاہور کی 40 فیصد بجلی 100 میٹروں پر چل رہی ہے۔کم از کم ان کی تو مانیٹر نگ کی جائے۔ میاں شہباز شریف بجلی بحران حل کرسکتے ہیں انہیں پانی و بجلی کی وزارت دی جائے۔ بجلی چوری کا خاتمہ کیا جائے، صوبوں سے واجبات وصول کیے جائیں۔ نومنتخب حکومت کو چھوٹے صوبوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا ۔
ہمیں اپنی ایکسپورٹ بڑھانا ہوں گی۔ بنگلہ دیش 15ارب ڈالر کی صرف ریڈی میڈ گارمنٹس ایکسپورٹ کررہا ہے جبکہ اس کی برآمدات کا کل حجم 46ارب ڈالر ہے۔ ہماری کل ایکسپورٹ ابھی تک صرف 25 ارب ڈالر ہیں۔ ہمیں امریکہ سے درخواست کرکے اپنی معشیت کی بحالی کے لئے پیکج لینا چاہیے،کیونکہ دہشتگردی کے نام پر طویل جنگ نے ہماری معیشت تباہ کر دی ہے۔ میاں نواز شریف کو عمران خان اور ان کی جماعت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے ملک کی بہتری کے لئے استعمال کریں۔ حکومت اور اعلیٰ عدلیہ کو حبکو پاورپلانٹ کے معاملا ت کا نوٹس لینا چاہیے۔
ریونیو اس وقت اکٹھا ہوگا جب صنعتیں چلیں گی اور وہ مصنوعات بنائے گی۔ انکم ٹیکس پر کوئی چھوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ سروسز سیکٹرکو ٹیکس نیٹ میں لایاجائے۔ ٹیکس ہرآدمی کو پورا دیناچاہیے۔ صوبوں اور وفاق میں تناؤ نہیں ہونا چاہیے۔ ایم کیو ایم کو منالینا چاہیے۔کراچی کو ہڑتال سے بچانا چاہیے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے جان چھڑوانی چاہیے، کالا باغ سمیت تمام ڈیم بنائے جائیں۔ توانائی بحران کے خاتمے کے لئے فوری طور پر ڈیمز کی تعمیر ممکن نہیں ، اس لیے تھر کو ل کے وسیع ذخائر کو بجلی پیدا کرنے کیلئے استعمال کیا جائے۔ پاور پلانٹس کو کوئلے پر چلایا جائے۔''
عبدالباسط (سابق چیئرمین پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن)
''میاں نواز شریف اور عمران خان دونوں مبارکباد کے مستحق ہیں ۔ معیشت کی بحالی کیلئے انہیں مل کر کام کرنا ہوگا اور قوم کی مایوسی ختم کرنا ہوگی۔ حکومت سب سے پہلے غریب آدمی کو روزگار کی فراہمی کے لئے انتظامات کرے۔ بند انڈسٹری کو آپریشنل کرنا ہوگا اور نئی صنعتیں لگانا ہوں گی۔ زراعت کے مسائل حل کرنے کے لئے زرعی ٹیوب ویل کو مسلسل بجلی دی جانی چاہیے۔
چاہے اسے 8 گھنٹے ہی بجلی کیوں نہ دی جائے لیکن اس میں تسلسل ہونا چاہیے کیونکہ کھیتوں کی آبپاشی کے لئے ٹیوب ویلز کا مسلسل چلنا ضروری ہے۔ ٹریکٹر زکے لئے گرین ڈیزل سکیم لائی جائے ۔ سستی بجلی کی فراہمی کے لئے ترجیحات کا تعین کیا جائے۔ اس میں سب سے پہلے100 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو بجلی فراہم کی جائے پھر زراعت کو اس کے بعد ٹرانسپورٹ کو دی جائے۔
مندرجہ بالاصارفین اور سیکٹرز کو بجلی جس نرخ پرپیدا ہورہی ہے اسی قیمت پر فروخت کی جائے۔ سرکلر ڈیبٹ کو کنٹرول کرنے کے لئے پری پیڈ میٹر شروع کرائے جائیں۔ واپڈا صوبوں کو، صوبے ڈویژن کو، ڈویژن ضلع اور وہاں سے آگے تحصیل کو بجلی سپلائی کریں ۔ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کی جائے کیونکہ معاہدوں کے مطابق انہیں بجلی پیدا کرنے کی بجائے بجلی پیدا نہ کرنے میں فائدہ ہے۔
8 ہزار ارب روپے کے اندرونی قرضے ہیں اورسرکلر ڈیبٹ 600 ارب ہے جس کی وجہ سے پوری معیشت تباہ ہو رہی ہے۔ حکومت چھ سو ارب روپے مزید قرض لے کر سرکلر ڈیبٹ کا خاتمہ کرے تاکہ معیشت پر طاری جمود ختم ہو۔ قوم کو بجلی بچانے کا سبق دینے کی بجائے حکومت بجلی کی پیداوار بڑھانے پر زور دے۔
مہنگے درآمدہ پیٹرول یا ڈیزل سے جنریٹر چلا کر بجلی پید اکرنا زرمبادلہ کو آگ میں جھونکنے کے مترادف ہے۔ اس لیے بجلی کی پیداوار بڑھا کر فائدہ اٹھایا جائے۔ کالا باغ ڈیم کو تکنیکی بنیادوں پر دیکھا جائے۔ ایک نجی محفل میں امریکی سرمایہ کار کالا باغ ڈیم میں 7ارب ڈالر سرمایہ کاری کی پیش کش کر چکا ہے جس سے اس کی افادیت کا اندازہ لگایاجائے۔ لیکن ہم اسے اپنے وسائل سے تعمیر کر سکتے ہیں،اگر سالانہ ایک ارب ڈالر لگائیںتو یہ ڈیم 6برس میں مکمل ہوسکتا ہے۔ سیلز ٹیکس کے سسٹم کو ریویو کرنے کی ضرورت ہے جتنا اکٹھا کرلیں اس سے زیا وہ ریفنڈ کرالیا جاتا ہے ۔
اس طرح یہ کرپشن کو فروغ دینے کا ذریعہ بن چکا ہے ۔ ریفنڈ سسٹم ختم کر کے سیلز ٹیکس کی شرح کو 1فیصد کیا جائے۔ ریجنل ٹریڈ پر ہمیں بھرپور توجہ دینی چاہیے۔ بھارت کے ساتھ تجارت میں پاکستانی انڈسٹڑی اور ٹریڈرز کے مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے پالیسی ساز ملکی انڈسٹری اور کسان کی بھلائی کو مدنظر رکھیں۔ دنیا کی 40فیصد آبادی ہمارے خطے میں ہے۔ اس کے ساتھ تجارت کو بڑھایا جائے۔ پاکستان کو قدرت نے وسائل سے مالا مال کیا ہے ،ہمیں اپنی زرعی میعشت سے فائدہ اٹھانا چاہیے ۔
1978ء میں چین کی آبادی 950ملین تھی اس وقت اس کی گوشت کی ضروریات 8 ملین ٹن تھی آج چین کی آبادی 1343 ملین ہے لیکن اس کی گوشت کی کھپت 72ملین ٹن پر آگئی ہے کیونکہ جب کوئی بھی قوم ترقی کرتی ہے تو اس کی کھانے پینے کی عادات بھی بدل جاتی ہیں۔ اس لئے حکومت زرعی مواقع سے فائدہ اٹھا کر فوڈ سکیورٹی کو یقینی بنائے ۔ حکومت غریب آدمی کو روزگار کی فراہمی یقینی بنائے اور اس کی ضروریات کے مطابق تنخواہ کا تعین کرنے کے لئے ویج ایوارڈ بنایا جائے۔ ''
انجینئرسہیل لاشاری (سابق چیئرمین (پیاف) پاکستان انڈسٹریل ایند ٹریڈرزایسوسی ایشنز فرنٹ)
''حکومت کوماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے۔ سنگل پارٹی مسائل حل نہیں کرسکتی ،تمام سیاسی پارٹیوں اور صوبوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ بین الصوبائی رابطے کی اہم ترین وزارت کو آج تک نظر انداز کیا جاتا رہا ہے لیکن اب یہ ذمہ داری کسی معروف شخصیت کو دی جائے جو چاروں صوبوں میں مقبول ہوں تاکہ بین الصوبائی رابطوں کو موثر بنا کر وفاق کو مضبوط بنایا جاسکے۔ اصل مسائل گورننس کے ہیں جب گورننس بہتر ہوئی تو معاملات خود بخود حل ہوجائیں گے۔ تمام وزراء اعلیٰ اکٹھے بیٹھ کر مسائل حل کریں۔
فوج ،عدلیہ اورمیڈیا کے ساتھ حکومت کو برد باری کے ساتھ چلنا ہوگا۔ انہیں ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ آپ کو خطے کے ممالک سے تعلقات کو بہتر بنانا ہوگا۔حکومت پالیسی سازی میں تمام سٹیک ہولڈرز کو شامل کرے۔ خارجہ پالیسی متوازن ہونی چاہیے ۔ منتخب نمائندوں کی تربیت کا بندوبست کیا جائے۔ ان کی کیپسٹی بلڈنگ کی جائے۔ انہیں لیڈر شپ کی صلاحیتوں اور ذمہ داریوں کے حوالے سے بتا یا جائے۔ سفارش کلچر کی جڑیں ہمارے ملک میں گہری ہیں۔ اس کی حوصلہ شکنی کی جائے۔
ٹیکس ریفارمز کے ذریعے مسائل کو حل کرنے کا آغاز کرنا چاہیے۔ درست سمت میں درست قدم اٹھائے جائیں۔قوم کو روشنی دکھائی جائے اور تسلی دی جائے، اس کا مورال بلند کیا جائے اور یہ لیڈر شپ کی ذمہ داری ہے، اس لئے لوگوں میں جینے کی امنگ پیدا کرنا ہے اور خوشیاں تقسیم کرنا ہوں گی۔ ملک وسائل سے مالامال ہے اور لوگ محنتی ہیں لیکن یہ لیڈر شپ کی زمہ داری ہے کہ وہ ملک کس مسائل سے نکالتی ہے۔''
اقتصادی ماہرین کے مطابق پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کے لئے ملک میں میرٹ کو اولین ترجیح دینا ہوگی،کابینہ میرٹ پر بنانی چاہیے،اقرباء پروری نہیں ہونی چاہیے، وزراء کے لئے انفرادی سطح پر اہداف مقرر کیے جائیں، انرجی سسٹم میں شفافیت لانا ہوگی ، توانائی بحران کے خاتمے کے لئے انرجی سیکٹر کی نجکاری کردی جائے، خسارے میں چلنے والے اداروں کو نجی شعبے کے حوالے کردیا جائے تاکہ ان کی کارکردگی بہتر ہو۔
مختلف اداروں کو دی جانیوالی اربوں روپے کی سبسڈی ختم کی جائے اور یہ پیسہ صحت وتعلیم پر لگانا ہوگا،انڈسٹری کے مسائل ختم کرنا ہوں گے، تربیت یافتہ لیبرتیار کرنا ہوگی، ٹیکس چوری کا خاتمہ، ٹیکس کی شرح میں کمی اور ٹیکس استثنیٰ کا خاتمہ کرنا ہوگا، علاقائی تجارت کو فروغ دے کر اسے دس گنا بڑھانا ہوگا، ایف بی آر کا نظر ثانی شدہ ریونیوٹارگٹ بھی پورانہیں ہو گا۔
آنے والی حکومت کو اخراجات میں فوری طور پر کمی کرنا ہوگی، اس حوالے سے صنعتی و کاروباری شخصیات اور اقتصادی ماہرین نے '' نئی حکومت کو درپیش معاشی چیلنجز '' کے عنوان سے منعقد کئے گئے ایکسپریس فورم میں اظہار خیال کیا جس کی تفصیل نذر قارئین ہے۔
سید سلمان شاہ (سابق مشیرخزانہ)
''بزنس کمیونٹی سے تعلق میاں نواز شریف کی طاقت بھی ہے اور کمزوری بھی ۔انہیں حکومتی معاملات کو بزنس کے معاملات سے الگ رکھنا ہوگا۔
پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانا کم لفظوں میں بہترین وژن ہے۔ ایشیا میںکوریا، ملائیشیا، سنگا پور، انڈونیشیا تیزی سے ترقی کرنیوالے ممالک ہیں۔ پاکستان میں 11کروڑافرادکی عمریں 25 سال سے کم ہے، ان نوجوانوں کے لئے سالانہ روزگار کے 3کروڑ مواقع پیدا کرنے ہوں گے۔ معاشی ترقی کی رفتار10فیصد سالانہ رکھنا ہوگی تاکہ ملکی و غیر ملکی سرمایہ دار پورے اعتماد کے ساتھ یہاں سرمایہ کاری کریں۔ پاکستانی انویسٹرسرمایہ کاری کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر معیشت کا انجن آف گروتھ ہے۔ پاکستان وسائل سے مالا مال ہے۔
میاں نواز شریف نے پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کی بات کی ہے جس کے لئے ملک میں میرٹ کو اولین ترجیح دینا ہوگی۔کابینہ میرٹ پر بنانی چاہیے،اقربا پروری نہیں ہونی چاہیے۔ کابینہ میں نئے چہروں کو سامنے لایا جائے۔ وزراء کے لئے انفرادی سطح پر اہداف مقرر کیے جائیں اور سہ ماہی بنیادوں پر ان کی کارکردگی چیک کی جائے۔ انرجی سسٹم میں شفافیت لانا ہوگی ۔ اس کیلئے نیپرا اور اوگرا کے قوانین تبدیل کرنا ہوں گے۔ توانائی بحران کے خاتمے کیلئے انرجی سیکٹر کی نجکاری کردی جائے۔ خسارے میں چلنے والے اداروں کو نجی شعبے کے حوالے کردیا جائے تاکہ ان کی کارکردگی بہتر ہو۔
مختلف اداروں کو دی جانیوالی اربوں روپے کی سبسڈی ختم کی جائے اور یہ پیسہ صحت وتعلیم پر لگانا ہوگا۔ انڈسٹری کے مسائل ختم کرنا ہوں گے۔ تربیت یافتہ لیبرتیار کرنا ہوگی۔ ٹیکس چوری کا خاتمہ ، ٹیکس کی شرح کم اور ٹیکس استثنیٰ کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ علاقائی تجارت کو فروغ دے کر اسے دس گنا بڑھانا ہوگا۔ ہمسایہ ممالک کے ساتھ ٹریڈ کو اوپن کرنا ہوگا۔ مالیاتی منڈیاں چین اور امریکہ کے پاس ہیں ان ممالک کو اپنی ایکسپورٹ بڑھانا ہوگی۔ ایف بی آر کا نظر ثانی شدہ ریونیوٹارگٹ بھی پورا نہیں ہو گا۔
آنیوالی حکومت کو اخراجات میں فوری طور پر کمی کرنا ہوگی۔ حکومت کو بہت جلد آئی ایم ایف کے پاس جانا ہوگا لیکن اگر ماضی کی طرح کڑی شرائط پر آئی ایم ایف سے معاملات طے کیے گئے تو اس کے برے اثرات ہوں گے۔ معیشت کوری سٹرکچرکرکے اسے پرائیویٹ سیکٹر کی طرف لے جانا ہوگا۔ آنے والی حکومت کو ڈسپلن میں کام کرنا پڑے گا اورحکومت شفاف گورننس کے ساتھ کرنا ہوگی۔ آئی ایم ایف سے سوچ سمجھ کر معاملات طے کرنا ہوں گے۔''
میاں ابو ذر شاہ (نائب صدرلاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری)
''نااہل لوگوں کو فوری طور پر فارغ کیا جائے، اپنے عہدوں کاغلط استعمال کرنے والے عہدیداروں کو فوری نکال دیا جائے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری اور معیشت کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ ہنڈی سسٹم کی شدید حوصلہ شکنی کرکے اسے ختم کردیا جائے۔گزشتہ ادوار میں شرح سود بے شک زیادہ تھی لیکنلوڈ شیڈنگ کم تھی اب اگر مارک اپ 5فیصد ہو اور بجلی بالکل نہ ہو تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔
بینکوں میں جس کا 500 ملین سے زائد ڈیپازٹ ہے اس کا این ٹی این نمبر لگادیا جائے، جس کا بجلی کا بل 3لاکھ سے زیادہ ہے اسے ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔ پسند ناپسند کی بجائے بزنس کمیونٹی کے اہل افراد کوکابینہ میں شامل کیا جائے۔ زرعی ٹیکس نافذ کیا جائے، سیلز ٹیکس کی شرح کم کرکے اور اسے سنگل ڈیجٹ تک لایا جائے۔ افغان ٹریڈ کے نام پر فراڈ ختم کیا جائے۔گاڑیوں کی کسٹم ایمنسٹی سکیم کاآڈٹ کرنا چاہیے۔ ایس آر او کلچر کا خاتمہ کیا جائے۔
رورل ایریاز میں انڈسٹری لگائی جائے تو شہروں کی طرف نقل مکانی کا رجحان کم ہوجائے گا۔ بھارت سے تجارت کو فروغ دیا جائے۔ توانائی بحران کو ہنگامی بنیادوں پر حل کیا جائے۔ 25لاکھ نوجوان سالانہ گریجوایشن کر رہے ہیں،جنہیں روزگار نہیں مل رہا اس طرح بیروزگاروں کی ایک فوج تیار ہورہی ہے۔
بیوروکریسی نے سٹیل ملز اور ریلوے میں کوتباہ کردیا ہے۔ ان اداروں کو چلانے اور مکمل تباہی سے بچانے کیلئے ضروری ہے یہاں باصلاحیت اور ایماندار افسران تعینات کیے جائیں۔''
اظہر سعید بٹ (ریجنل چیئرمین فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسڑی)
''تناؤ اور افراتفری کے ماحول میں الیکشن ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوئے ہیں،دیگر صوبوں میں نئے سٹیک ہولڈرز ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ بلوچستان کے مسائل ہیں۔
میاں نوازشریف نے عمران خان کی عیادت کرکے اچھی مثال قائم کی ہے۔ چاروں صوبوں کو ساتھ لیے بغیر مسائل حل نہیں ہوسکیں گے۔ اگر بھاری مینڈیٹ ہے تو بھاری ذمہ داریاں بھی ہیں ۔ سرکاری اداروں کے سربراہان تبدیل کردیئے جائیں۔ بیرون ملک سے پیسہ واپس لانے والوں کو مراعات دے کر ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
کم از کم 15 سال کے لئے معاشی روڈ میپ بنایا جائے۔ تھرمل پاورپلانٹس میں 10 فیصدفرنس آئل استعمال ہونے سے پہلے ہی چوری ہوجاتا ہے جسے بجلی چوری کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ بجلی کی مانیٹرنگ اور ڈسٹری بیوشن سسٹم کو کمپیوٹرائزڈ کیا جائے۔ لاہور کی 40 فیصد بجلی 100 میٹروں پر چل رہی ہے۔کم از کم ان کی تو مانیٹر نگ کی جائے۔ میاں شہباز شریف بجلی بحران حل کرسکتے ہیں انہیں پانی و بجلی کی وزارت دی جائے۔ بجلی چوری کا خاتمہ کیا جائے، صوبوں سے واجبات وصول کیے جائیں۔ نومنتخب حکومت کو چھوٹے صوبوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا ۔
ہمیں اپنی ایکسپورٹ بڑھانا ہوں گی۔ بنگلہ دیش 15ارب ڈالر کی صرف ریڈی میڈ گارمنٹس ایکسپورٹ کررہا ہے جبکہ اس کی برآمدات کا کل حجم 46ارب ڈالر ہے۔ ہماری کل ایکسپورٹ ابھی تک صرف 25 ارب ڈالر ہیں۔ ہمیں امریکہ سے درخواست کرکے اپنی معشیت کی بحالی کے لئے پیکج لینا چاہیے،کیونکہ دہشتگردی کے نام پر طویل جنگ نے ہماری معیشت تباہ کر دی ہے۔ میاں نواز شریف کو عمران خان اور ان کی جماعت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے ملک کی بہتری کے لئے استعمال کریں۔ حکومت اور اعلیٰ عدلیہ کو حبکو پاورپلانٹ کے معاملا ت کا نوٹس لینا چاہیے۔
ریونیو اس وقت اکٹھا ہوگا جب صنعتیں چلیں گی اور وہ مصنوعات بنائے گی۔ انکم ٹیکس پر کوئی چھوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ سروسز سیکٹرکو ٹیکس نیٹ میں لایاجائے۔ ٹیکس ہرآدمی کو پورا دیناچاہیے۔ صوبوں اور وفاق میں تناؤ نہیں ہونا چاہیے۔ ایم کیو ایم کو منالینا چاہیے۔کراچی کو ہڑتال سے بچانا چاہیے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے جان چھڑوانی چاہیے، کالا باغ سمیت تمام ڈیم بنائے جائیں۔ توانائی بحران کے خاتمے کے لئے فوری طور پر ڈیمز کی تعمیر ممکن نہیں ، اس لیے تھر کو ل کے وسیع ذخائر کو بجلی پیدا کرنے کیلئے استعمال کیا جائے۔ پاور پلانٹس کو کوئلے پر چلایا جائے۔''
عبدالباسط (سابق چیئرمین پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن)
''میاں نواز شریف اور عمران خان دونوں مبارکباد کے مستحق ہیں ۔ معیشت کی بحالی کیلئے انہیں مل کر کام کرنا ہوگا اور قوم کی مایوسی ختم کرنا ہوگی۔ حکومت سب سے پہلے غریب آدمی کو روزگار کی فراہمی کے لئے انتظامات کرے۔ بند انڈسٹری کو آپریشنل کرنا ہوگا اور نئی صنعتیں لگانا ہوں گی۔ زراعت کے مسائل حل کرنے کے لئے زرعی ٹیوب ویل کو مسلسل بجلی دی جانی چاہیے۔
چاہے اسے 8 گھنٹے ہی بجلی کیوں نہ دی جائے لیکن اس میں تسلسل ہونا چاہیے کیونکہ کھیتوں کی آبپاشی کے لئے ٹیوب ویلز کا مسلسل چلنا ضروری ہے۔ ٹریکٹر زکے لئے گرین ڈیزل سکیم لائی جائے ۔ سستی بجلی کی فراہمی کے لئے ترجیحات کا تعین کیا جائے۔ اس میں سب سے پہلے100 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو بجلی فراہم کی جائے پھر زراعت کو اس کے بعد ٹرانسپورٹ کو دی جائے۔
مندرجہ بالاصارفین اور سیکٹرز کو بجلی جس نرخ پرپیدا ہورہی ہے اسی قیمت پر فروخت کی جائے۔ سرکلر ڈیبٹ کو کنٹرول کرنے کے لئے پری پیڈ میٹر شروع کرائے جائیں۔ واپڈا صوبوں کو، صوبے ڈویژن کو، ڈویژن ضلع اور وہاں سے آگے تحصیل کو بجلی سپلائی کریں ۔ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کی جائے کیونکہ معاہدوں کے مطابق انہیں بجلی پیدا کرنے کی بجائے بجلی پیدا نہ کرنے میں فائدہ ہے۔
8 ہزار ارب روپے کے اندرونی قرضے ہیں اورسرکلر ڈیبٹ 600 ارب ہے جس کی وجہ سے پوری معیشت تباہ ہو رہی ہے۔ حکومت چھ سو ارب روپے مزید قرض لے کر سرکلر ڈیبٹ کا خاتمہ کرے تاکہ معیشت پر طاری جمود ختم ہو۔ قوم کو بجلی بچانے کا سبق دینے کی بجائے حکومت بجلی کی پیداوار بڑھانے پر زور دے۔
مہنگے درآمدہ پیٹرول یا ڈیزل سے جنریٹر چلا کر بجلی پید اکرنا زرمبادلہ کو آگ میں جھونکنے کے مترادف ہے۔ اس لیے بجلی کی پیداوار بڑھا کر فائدہ اٹھایا جائے۔ کالا باغ ڈیم کو تکنیکی بنیادوں پر دیکھا جائے۔ ایک نجی محفل میں امریکی سرمایہ کار کالا باغ ڈیم میں 7ارب ڈالر سرمایہ کاری کی پیش کش کر چکا ہے جس سے اس کی افادیت کا اندازہ لگایاجائے۔ لیکن ہم اسے اپنے وسائل سے تعمیر کر سکتے ہیں،اگر سالانہ ایک ارب ڈالر لگائیںتو یہ ڈیم 6برس میں مکمل ہوسکتا ہے۔ سیلز ٹیکس کے سسٹم کو ریویو کرنے کی ضرورت ہے جتنا اکٹھا کرلیں اس سے زیا وہ ریفنڈ کرالیا جاتا ہے ۔
اس طرح یہ کرپشن کو فروغ دینے کا ذریعہ بن چکا ہے ۔ ریفنڈ سسٹم ختم کر کے سیلز ٹیکس کی شرح کو 1فیصد کیا جائے۔ ریجنل ٹریڈ پر ہمیں بھرپور توجہ دینی چاہیے۔ بھارت کے ساتھ تجارت میں پاکستانی انڈسٹڑی اور ٹریڈرز کے مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے پالیسی ساز ملکی انڈسٹری اور کسان کی بھلائی کو مدنظر رکھیں۔ دنیا کی 40فیصد آبادی ہمارے خطے میں ہے۔ اس کے ساتھ تجارت کو بڑھایا جائے۔ پاکستان کو قدرت نے وسائل سے مالا مال کیا ہے ،ہمیں اپنی زرعی میعشت سے فائدہ اٹھانا چاہیے ۔
1978ء میں چین کی آبادی 950ملین تھی اس وقت اس کی گوشت کی ضروریات 8 ملین ٹن تھی آج چین کی آبادی 1343 ملین ہے لیکن اس کی گوشت کی کھپت 72ملین ٹن پر آگئی ہے کیونکہ جب کوئی بھی قوم ترقی کرتی ہے تو اس کی کھانے پینے کی عادات بھی بدل جاتی ہیں۔ اس لئے حکومت زرعی مواقع سے فائدہ اٹھا کر فوڈ سکیورٹی کو یقینی بنائے ۔ حکومت غریب آدمی کو روزگار کی فراہمی یقینی بنائے اور اس کی ضروریات کے مطابق تنخواہ کا تعین کرنے کے لئے ویج ایوارڈ بنایا جائے۔ ''
انجینئرسہیل لاشاری (سابق چیئرمین (پیاف) پاکستان انڈسٹریل ایند ٹریڈرزایسوسی ایشنز فرنٹ)
''حکومت کوماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے۔ سنگل پارٹی مسائل حل نہیں کرسکتی ،تمام سیاسی پارٹیوں اور صوبوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ بین الصوبائی رابطے کی اہم ترین وزارت کو آج تک نظر انداز کیا جاتا رہا ہے لیکن اب یہ ذمہ داری کسی معروف شخصیت کو دی جائے جو چاروں صوبوں میں مقبول ہوں تاکہ بین الصوبائی رابطوں کو موثر بنا کر وفاق کو مضبوط بنایا جاسکے۔ اصل مسائل گورننس کے ہیں جب گورننس بہتر ہوئی تو معاملات خود بخود حل ہوجائیں گے۔ تمام وزراء اعلیٰ اکٹھے بیٹھ کر مسائل حل کریں۔
فوج ،عدلیہ اورمیڈیا کے ساتھ حکومت کو برد باری کے ساتھ چلنا ہوگا۔ انہیں ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ آپ کو خطے کے ممالک سے تعلقات کو بہتر بنانا ہوگا۔حکومت پالیسی سازی میں تمام سٹیک ہولڈرز کو شامل کرے۔ خارجہ پالیسی متوازن ہونی چاہیے ۔ منتخب نمائندوں کی تربیت کا بندوبست کیا جائے۔ ان کی کیپسٹی بلڈنگ کی جائے۔ انہیں لیڈر شپ کی صلاحیتوں اور ذمہ داریوں کے حوالے سے بتا یا جائے۔ سفارش کلچر کی جڑیں ہمارے ملک میں گہری ہیں۔ اس کی حوصلہ شکنی کی جائے۔
ٹیکس ریفارمز کے ذریعے مسائل کو حل کرنے کا آغاز کرنا چاہیے۔ درست سمت میں درست قدم اٹھائے جائیں۔قوم کو روشنی دکھائی جائے اور تسلی دی جائے، اس کا مورال بلند کیا جائے اور یہ لیڈر شپ کی ذمہ داری ہے، اس لئے لوگوں میں جینے کی امنگ پیدا کرنا ہے اور خوشیاں تقسیم کرنا ہوں گی۔ ملک وسائل سے مالامال ہے اور لوگ محنتی ہیں لیکن یہ لیڈر شپ کی زمہ داری ہے کہ وہ ملک کس مسائل سے نکالتی ہے۔''