ایم ایم اے اور جی ڈی اے کے مظاہرے
ملک جن حالات سے گزر رہا ہے ایسے میں ایک ایک قدم پھونک کر رکھنے کی ضرورت ہے۔
انتخابات کے بعد ہارنے والی جماعتوں کی جانب سے دھاندلی کے چرچے اور احتجاج کی روایت ملک میں نئی نہیں لیکن 2018 کے انتخابات اس حوالے سے مختلف ہیں کہ نتائج کے پہلے ہی دن سے بیشتر سیاسی جماعتیں مبینہ دھاندلی اور تحفظات کا اظہار کرتی آرہی ہیں۔ اس سلسلے میں گزشتہ روز متحدہ مجلس عمل، گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس، پشتونخوامیپ و دیگر جماعتوں کی جانب سے الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے خلاف پشاور، کراچی اور اندرون سندھ سمیت ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔
متحدہ مجلس عمل ضلع پشاور کے زیر اہتمام احتجاجی مظاہرہ نشترآباد چوک پشاور میں کیا گیا جبکہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے تحت کراچی سمیت سندھ بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے، جی ڈی اے نے الیکشن کے نتائج مسترد، چیف الیکشن کمشنر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے صوبے میں دوبارہ الیکشن کرانے کا مطالبہ کردیا۔
پشتونخوامیپ کے زیر اہتمام کوئٹہ سمیت صوبے کے مختلف علاقوں میں ریلیاں نکالی گئیں اور احتجاجی مظاہرے منعقد کیے گئے، احتجاج اور دھرنے جمہوری روایات کا حصہ ہیں، گزشتہ دور حکومت میں آج اکثریت حاصل کرنے والی بڑی جماعت طویل ترین دھرنوں کا مظاہرہ کرچکی ہے لیکن سیاسی جماعتوں کے مدنظر یہ بات رہنی چاہیے کہ احتجاج اور دھرنوں کی سیاست ملکی معیشت کے لیے سم قاتل کی حیثیت رکھتی ہے، نیز اقتدار رکھنے والی جماعت کو یہ بہانہ بھی مل جاتا ہے کہ احتجاج کی آڑ میں اسے کام کرنے کا موقع ہی نہیں دیا جارہا۔
حالیہ انتخابات میں ملک کی تمام ہی بڑی سیاسی جماعتوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ جماعتیں نہ صرف حلف برداری میں شمولیت بلکہ جمہوری دھارے میں شمولیت کا اظہار بھی کررہی ہیں جو کہ مستحسن اقدام ہے۔ ملک جن حالات سے گزر رہا ہے ایسے میں ایک ایک قدم پھونک کر رکھنے کی ضرورت ہے، کسی بھی بیرونی دشمن کو ان حالات سے فائدہ نہ اٹھانے دیا جائے۔ صائب یہی ہوگا کہ جمہوری عمل کو جاری رہنے دیا جائے اور تمام تر معاملات قانونی طریقے سے نمٹائے جائیں۔
متحدہ مجلس عمل ضلع پشاور کے زیر اہتمام احتجاجی مظاہرہ نشترآباد چوک پشاور میں کیا گیا جبکہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے تحت کراچی سمیت سندھ بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے، جی ڈی اے نے الیکشن کے نتائج مسترد، چیف الیکشن کمشنر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے صوبے میں دوبارہ الیکشن کرانے کا مطالبہ کردیا۔
پشتونخوامیپ کے زیر اہتمام کوئٹہ سمیت صوبے کے مختلف علاقوں میں ریلیاں نکالی گئیں اور احتجاجی مظاہرے منعقد کیے گئے، احتجاج اور دھرنے جمہوری روایات کا حصہ ہیں، گزشتہ دور حکومت میں آج اکثریت حاصل کرنے والی بڑی جماعت طویل ترین دھرنوں کا مظاہرہ کرچکی ہے لیکن سیاسی جماعتوں کے مدنظر یہ بات رہنی چاہیے کہ احتجاج اور دھرنوں کی سیاست ملکی معیشت کے لیے سم قاتل کی حیثیت رکھتی ہے، نیز اقتدار رکھنے والی جماعت کو یہ بہانہ بھی مل جاتا ہے کہ احتجاج کی آڑ میں اسے کام کرنے کا موقع ہی نہیں دیا جارہا۔
حالیہ انتخابات میں ملک کی تمام ہی بڑی سیاسی جماعتوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ جماعتیں نہ صرف حلف برداری میں شمولیت بلکہ جمہوری دھارے میں شمولیت کا اظہار بھی کررہی ہیں جو کہ مستحسن اقدام ہے۔ ملک جن حالات سے گزر رہا ہے ایسے میں ایک ایک قدم پھونک کر رکھنے کی ضرورت ہے، کسی بھی بیرونی دشمن کو ان حالات سے فائدہ نہ اٹھانے دیا جائے۔ صائب یہی ہوگا کہ جمہوری عمل کو جاری رہنے دیا جائے اور تمام تر معاملات قانونی طریقے سے نمٹائے جائیں۔