صادق اور امین
ہمیں ایک زندہ جمہوری معاشرہ قائم کرنا ہے تو جمہوری روایات کے ساتھ کرنا ہوگا۔
اب جب کہ انتخابات کی ہما ہمی ختم ہورہی ہے۔ ووٹ ڈالے جا چکے ہیں اور نتائج اپنے آپ کو خود منوانے والے ہیں تو موقع ہے کہ چند امور پر ٹھنڈے دل سے غورکیا جاسکے۔
ہمارے انتخابی قوانین کی دفعات 62 اور 63 کے تحت امیدوار کو جانچا جاتا ہے کہ آیا وہ سچا اور ایمان دار ہے یا نہیں۔ ان دفعات کے تحت اگر ثابت ہوجائے کہ امیدوار سچا اور ایمان دار ہے تو اسے انتخاب لڑنے کا اہل قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے لیے قانون میں جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں وہ '' صادق '' اور '' امین'' ہیں۔ گویا 62، 63 کی شرائط پر پورا اترنے والا صادق اور امین قرار پاتا ہے اورانتخاب لڑنے کا اہل قرار دیا جاتا ہے۔
بلا شبہ صادق اور امین الفاظ کے لغوی معنی وہی ہیں جو ہم نے اوپر استعمال کیے ہیں مگر یہ دونوں الفاظ محض لفظ نہیں القاب ہیں۔ یہ وہ القاب ہیں جو زمانہ جاہلیت میں کفار مکہ رسول مقبولؐ کے لیے استعمال کرتے تھے۔گویا قبل نبوت بھی آپؐ سچے تھے اور اتنے سچے تھے کہ اس معاشرے میں کوئی اور شخص اتنا سچا نہ تھا ۔ نہ ہی اتنا امانت دارکوئی اور شخص تھا ۔ اس لیے آپ کو امین کہا جاتا تھا یہ وہ عوامی القاب تھے جو پندرہ سو سال سے آپؐ کے لیے استعمال ہوتے رہے ہیں اور آپؐ سے مخصوص ہیں۔ اس لیے لازم تھا کہ قوانین میں ان الفاظ کے بجائے ان کے مفہوم کو استعمال کیا جاتا۔ یہ احترام کا تقاضا تھا مگر شاید قانون سازوں نے ان کو الفاظ ہی قرار دیا اور ان کی القابی حیثیت ان کے پیش نظر نہیں رہی۔
زمانہ جاہلیت کے کفار مکہ آپؐ کو ان ہی معنی میں صادق و امین سمجھتے اور پکارتے تھے کہ آپؐ صداقت اور امانت کی انتہا کے مظہر تھے۔ آپؐ سے زیادہ سچا کوئی انسان ہوسکتا ہے نہ ہی آپؐ سے زیادہ امانت دار اس لیے زمانۂ اسلام میں بھی آپ صادق و امین کہے، سمجھے اور تسلیم کیے جاتے رہے اور یہ طے ہوگیا اور یہ تو عقیدے کا حصہ بن گیا۔
آپؐ کی طرح ''صادق'' اور ''امین'' کوئی اور انسان نہیں ہوسکتا۔ اس لیے ان الفاظ کو آپؐ کے لیے مخصوص کردیاگیا۔ ضروری ہے کہ قانون میں بھی ان القابی الفاظ کے بجائے ان کے مترادفات استعمال کیے جائیں۔ مثلاً سچا اور امانت دار۔ وغیرہ۔پھر سچائی اور امانت داری کی وہ حد بھی مقرر کردی جائے جس کے حصول کے بعد کسی شخص کو سچا اور امانت دار قرار دیا جاسکے۔ مثلاً ماضی میں وہ کسی جھوٹ کا مرتکب نہ ہوا ہو اور فی الوقت بھی کسی معاملے میں دروغ گوئی نہ کررہا ہو اس کا کوئی فعل امانت داری کے خلاف نہ رہا ہو وغیرہ۔
یہ اس لیے ضروری ہے کہ اب کوئی شخص صداقت اور امانت کے اس منصب جو معراج تک نہیں پہنچ سکتا جونبی کریمؐ کو حاصل ہے اور یہ کہ امت کا کوئی فرد صداقت اور امانت کی کس مقدار کا حامل ہوسکتا ہے۔مثال حالیہ انتخابات سے ہی لے لیجیے۔
عمران خان کے کسی مخالف امیدوار نے ان کے کاغذات نامزدگی داخل کرنے پر متعلقہ ریٹرننگ افسر سے ان کی سابقہ گرل فرینڈ اور مبینہ طور پر ان سے پیدا ہونیوالی لڑکی ٹیریان کا مسئلہ اٹھایا۔ مگر مخالف کا یہ اعتراض مسترد کردیاگیا۔ اس کے بعد جب ایک جرنلسٹ نے عمران خان سے پوچھا کہ آپ ٹیریان کے معاملے پر خاموشی اختیار کرجاتے ہیں یا اسے طرح دے جاتے ہیں آخرکیوں تو عمران خان نے جواب دیا یہ ''نان ایشو ہے'' نان ایشو سے ان کی مراد غیر متعلقہ بات تھی حالانکہ یہ قطعاً غیر متعلقہ بات نہیں جمہوری معاشروں میں ذاتی کردار کے بعض نقائص محض ذاتی نہیں رہتے قومی بن جاتے ہیں۔
امریکی معاشرے میں گرل فرینڈ رکھنا کوئی قابل اعتراض بات نہیں بلکہ یہ اس معاشرے کا عام رواج ہے مگر امریکی صدرکلنٹن نے اپنے دفترکی ایک کارکن مونیکا لیونسکی سے محبت کی پینگیں بڑھائیں تو اسے منصب صدارت کی توقیرکے خلاف قرار دیا گیا اور صدر کلنٹن نے اسے جس قدر چھپانا چاہا وہ معاملہ اتنا ہی کھلتا گیا اور بالآخر ان کو عہدۂ صدارت کو الوداع کہنا پڑا۔گویا وہی عمل جو ہر امریکی شہری کے لیے حلال ہے صدارت کے منصب اعلیٰ پر فائز شخص کے لیے حرام ہے اور اس کا ارتکاب اسے اس منصب سے محروم کردینے کا باعث بن سکتا ہے۔
یہ اصول صرف صدر تک محدود نہیں پبلک عہدے (اعلیٰ عہدے) پر فائز دیگر عہدیداران کے لیے بھی اس سلسلے میں احتیاط کے تقاضے ہیں اور ان کی قومی و عوامی مصلحتیں ہیں اس لیے ان امور میں بھی سچ بولنا ضروری ہے۔ اگر ہم جمہوریت کے دعویدار بنتے ہیں تو ہمیں دنیا کی بڑی جمہوریتوں کی جمہوری روایات کو اپنانا ہوگا ۔اس میں کہنے کو برطانیہ میں شاہی نظام ہے اور امریکا میں صدارتی مگر دونوں بڑی طاقتیں جمہوریت کے علمبردار ہیں تو دنیا کی دیگر جمہوریتوں کے لیے نمونہ تقلید ۔اس لیے ہمیں جمہوریتوں کی ان اچھی روایتوں کو بھی اپنا نا ہوگا۔
محض پانچ سال بعد انتخاب کرا لینے سے کوئی معاشرہ جمہوری معاشرہ کہلانے کا مستحق نہیں ہوجاتا جمہوری روایات کو اپنانا اور برتنا بھی لازم ہے۔ انتخابات تو مصنوعی طور پر بڑے بڑے آمر بھی کراتے رہے ہیں مگر ان کی جمہوریت صرف بدن ہی بدن تھی ۔ روح سے خالی یعنی مردہ۔ ہمیں ایک زندہ جمہوری معاشرہ قائم کرنا ہے تو جمہوری روایات کے ساتھ کرنا ہوگا۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی جمہوریت کو ناگزیر برائی خیال کرتا ہو۔
ہمارے انتخابی قوانین کی دفعات 62 اور 63 کے تحت امیدوار کو جانچا جاتا ہے کہ آیا وہ سچا اور ایمان دار ہے یا نہیں۔ ان دفعات کے تحت اگر ثابت ہوجائے کہ امیدوار سچا اور ایمان دار ہے تو اسے انتخاب لڑنے کا اہل قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے لیے قانون میں جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں وہ '' صادق '' اور '' امین'' ہیں۔ گویا 62، 63 کی شرائط پر پورا اترنے والا صادق اور امین قرار پاتا ہے اورانتخاب لڑنے کا اہل قرار دیا جاتا ہے۔
بلا شبہ صادق اور امین الفاظ کے لغوی معنی وہی ہیں جو ہم نے اوپر استعمال کیے ہیں مگر یہ دونوں الفاظ محض لفظ نہیں القاب ہیں۔ یہ وہ القاب ہیں جو زمانہ جاہلیت میں کفار مکہ رسول مقبولؐ کے لیے استعمال کرتے تھے۔گویا قبل نبوت بھی آپؐ سچے تھے اور اتنے سچے تھے کہ اس معاشرے میں کوئی اور شخص اتنا سچا نہ تھا ۔ نہ ہی اتنا امانت دارکوئی اور شخص تھا ۔ اس لیے آپ کو امین کہا جاتا تھا یہ وہ عوامی القاب تھے جو پندرہ سو سال سے آپؐ کے لیے استعمال ہوتے رہے ہیں اور آپؐ سے مخصوص ہیں۔ اس لیے لازم تھا کہ قوانین میں ان الفاظ کے بجائے ان کے مفہوم کو استعمال کیا جاتا۔ یہ احترام کا تقاضا تھا مگر شاید قانون سازوں نے ان کو الفاظ ہی قرار دیا اور ان کی القابی حیثیت ان کے پیش نظر نہیں رہی۔
زمانہ جاہلیت کے کفار مکہ آپؐ کو ان ہی معنی میں صادق و امین سمجھتے اور پکارتے تھے کہ آپؐ صداقت اور امانت کی انتہا کے مظہر تھے۔ آپؐ سے زیادہ سچا کوئی انسان ہوسکتا ہے نہ ہی آپؐ سے زیادہ امانت دار اس لیے زمانۂ اسلام میں بھی آپ صادق و امین کہے، سمجھے اور تسلیم کیے جاتے رہے اور یہ طے ہوگیا اور یہ تو عقیدے کا حصہ بن گیا۔
آپؐ کی طرح ''صادق'' اور ''امین'' کوئی اور انسان نہیں ہوسکتا۔ اس لیے ان الفاظ کو آپؐ کے لیے مخصوص کردیاگیا۔ ضروری ہے کہ قانون میں بھی ان القابی الفاظ کے بجائے ان کے مترادفات استعمال کیے جائیں۔ مثلاً سچا اور امانت دار۔ وغیرہ۔پھر سچائی اور امانت داری کی وہ حد بھی مقرر کردی جائے جس کے حصول کے بعد کسی شخص کو سچا اور امانت دار قرار دیا جاسکے۔ مثلاً ماضی میں وہ کسی جھوٹ کا مرتکب نہ ہوا ہو اور فی الوقت بھی کسی معاملے میں دروغ گوئی نہ کررہا ہو اس کا کوئی فعل امانت داری کے خلاف نہ رہا ہو وغیرہ۔
یہ اس لیے ضروری ہے کہ اب کوئی شخص صداقت اور امانت کے اس منصب جو معراج تک نہیں پہنچ سکتا جونبی کریمؐ کو حاصل ہے اور یہ کہ امت کا کوئی فرد صداقت اور امانت کی کس مقدار کا حامل ہوسکتا ہے۔مثال حالیہ انتخابات سے ہی لے لیجیے۔
عمران خان کے کسی مخالف امیدوار نے ان کے کاغذات نامزدگی داخل کرنے پر متعلقہ ریٹرننگ افسر سے ان کی سابقہ گرل فرینڈ اور مبینہ طور پر ان سے پیدا ہونیوالی لڑکی ٹیریان کا مسئلہ اٹھایا۔ مگر مخالف کا یہ اعتراض مسترد کردیاگیا۔ اس کے بعد جب ایک جرنلسٹ نے عمران خان سے پوچھا کہ آپ ٹیریان کے معاملے پر خاموشی اختیار کرجاتے ہیں یا اسے طرح دے جاتے ہیں آخرکیوں تو عمران خان نے جواب دیا یہ ''نان ایشو ہے'' نان ایشو سے ان کی مراد غیر متعلقہ بات تھی حالانکہ یہ قطعاً غیر متعلقہ بات نہیں جمہوری معاشروں میں ذاتی کردار کے بعض نقائص محض ذاتی نہیں رہتے قومی بن جاتے ہیں۔
امریکی معاشرے میں گرل فرینڈ رکھنا کوئی قابل اعتراض بات نہیں بلکہ یہ اس معاشرے کا عام رواج ہے مگر امریکی صدرکلنٹن نے اپنے دفترکی ایک کارکن مونیکا لیونسکی سے محبت کی پینگیں بڑھائیں تو اسے منصب صدارت کی توقیرکے خلاف قرار دیا گیا اور صدر کلنٹن نے اسے جس قدر چھپانا چاہا وہ معاملہ اتنا ہی کھلتا گیا اور بالآخر ان کو عہدۂ صدارت کو الوداع کہنا پڑا۔گویا وہی عمل جو ہر امریکی شہری کے لیے حلال ہے صدارت کے منصب اعلیٰ پر فائز شخص کے لیے حرام ہے اور اس کا ارتکاب اسے اس منصب سے محروم کردینے کا باعث بن سکتا ہے۔
یہ اصول صرف صدر تک محدود نہیں پبلک عہدے (اعلیٰ عہدے) پر فائز دیگر عہدیداران کے لیے بھی اس سلسلے میں احتیاط کے تقاضے ہیں اور ان کی قومی و عوامی مصلحتیں ہیں اس لیے ان امور میں بھی سچ بولنا ضروری ہے۔ اگر ہم جمہوریت کے دعویدار بنتے ہیں تو ہمیں دنیا کی بڑی جمہوریتوں کی جمہوری روایات کو اپنانا ہوگا ۔اس میں کہنے کو برطانیہ میں شاہی نظام ہے اور امریکا میں صدارتی مگر دونوں بڑی طاقتیں جمہوریت کے علمبردار ہیں تو دنیا کی دیگر جمہوریتوں کے لیے نمونہ تقلید ۔اس لیے ہمیں جمہوریتوں کی ان اچھی روایتوں کو بھی اپنا نا ہوگا۔
محض پانچ سال بعد انتخاب کرا لینے سے کوئی معاشرہ جمہوری معاشرہ کہلانے کا مستحق نہیں ہوجاتا جمہوری روایات کو اپنانا اور برتنا بھی لازم ہے۔ انتخابات تو مصنوعی طور پر بڑے بڑے آمر بھی کراتے رہے ہیں مگر ان کی جمہوریت صرف بدن ہی بدن تھی ۔ روح سے خالی یعنی مردہ۔ ہمیں ایک زندہ جمہوری معاشرہ قائم کرنا ہے تو جمہوری روایات کے ساتھ کرنا ہوگا۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی جمہوریت کو ناگزیر برائی خیال کرتا ہو۔