تاریکی اور روشنی
پاکستان کی یہ یقینا بدنصیبی ہی رہی ہے کہ اسے اچھے اورمخلص لیڈر میسرنہیں آئے اورجو ملے بھی تو ان کی زندگی نے وفا نہ کی۔
پاکستان کی بنیادوں کوکمزورکرنے اور اس کی بوٹیاں نوچنے میں مقتدر حضرات نے نمایاں کردار ادا کیا ہے اور پاکستان پر قرضوں کا بوجھ اس قدر لاد دیا ہے کہ اس کی کمر خمیدہ ہوگئی ہے۔ پاکستان نے 1950 میں پہلا قرضہ لیا تھا جوکہ 145 ملین ڈالرکا تھا اور پھر باقاعدگی کے ساتھ ہر بار 57 ملین ڈالر سالانہ غیر ملکی قرضے لیتا رہا ہے۔
اس طرح قرض لینے کی تاریخ طویل اور سیاہ ہوچکی ہے، پرویز مشرف کے دور حکومت میں 9 فیصد اضافے کے ساتھ قومی قرضہ 1500 بلین تک تھا لیکن اس کے بعد زرداری کی حکومت میں قومی قرضہ جات 840 فیصد اضافے کے ساتھ 14 ہزار ارب روپے ہوگیا اور جو قرضہ قیام پاکستان سے 2008 تک صرف 1500 ارب تھا، اسے حکمرانوں نے ذاتی دولت سمجھ کر اس میں مزید اضافہ کردیا ،گویا یہ وہ دولت تھی جو بڑی آسانی سے حاصل ہوجاتی تھی۔
ملک وملت کا غم تو تھا نہیں، ملک تنزلی کی حدوں کو پارکر بھی لے تو ان عیش و طرب کے مزے لوٹنے والوں پر ذرہ برابر اثر نہیں پڑتا تھا، اگر ملک اللہ نہ کرے قرض لیتے لیتے گروی بھی رکھ دیا گیا تو یہ بادشاہت سمیت دوسرے ملکوں کے لیے رخت سفر باندھ لیں گے کہ وہاں بھی لوٹی ہوئی دولت کے انبار ہیں۔ لیکن حالات کچھ اس طرح کے ہیں کہ سابق حکمرانوں نے اپنے تیسرے دور حکومت میں قرض کی دولت سے اپنی آنے والی پشتوں کے مستقبل کو محفوظ کردیا اور اپنا مستقبل تو تھا ہی سنہرا، انھوں نے بغیر سوچے سمجھے 19 ہزار 600 ارب روپے لے کر خود غرض اور ضمیر فروشی کا ببانگ دہل ثبوت پیش کردیا ہے۔
پھر کہتے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا؟
اب نیا پاکستان نئی امنگوں کے ساتھ بننے جا رہا ہے ۔اس کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے بھرپور کردار ادا کرے گا، پاکستان کو اس وقت ایسے ہی نڈر، بہادر، بے باک اور مخلص لیڈر کی ضرورت تھی بے شک یہ اللہ کی مدد ہے کہ چاروں طرف سے تعاون کی فضا کو ہموار کیا گیا ہے اور مزید حالات بہتر ہونے کی امید نمایاں ہوچکی ہے یہ وہی شخص ہے جو اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا ہے، اگر عمران خان ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس لے آئیں تو یقینا ملک قرضوں کی دلدل سے آسانی سے نکل سکتا ہے۔ اسی لیے عمران خان کی بڑی کامیابی کو ناکامی سے بدلنے کے لیے سارے لوگ ایک پیج پر آگئے ہیں جو ملک کی ترقی اور خوشحالی میں رکاوٹ بن رہے ہیں اپنا سب کچھ تو داؤ پر لگایا ہی ہے ساتھ میں وطن عزیز کو بھی نیلام کرنے کے لیے اقدامات کرتے رہے ہیں۔
انھیں محبت ہے بلکہ عشق ہے تو اقتدارکی کرسی سے معصوم اتنے ہیں جب بیٹھ جاتے ہیں تو سمجھتے یہ ہے کہ اب وہ ہمیشہ اسی طرح حکومت کرتے رہیں گے لیکن اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے مظلوموں کی فریاد عرش کو ہلا دیتی ہے اور پھر انھیں اپنا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھنا پڑتا ہے۔ اگر ذرا سا بھی پاکستان کے لیے اخلاص ہوتا تو عمران خان کو دعائیں دیتے کہ چلیں جو کام ہم نہ کرسکے تو وہ عمران خان کر دکھائیں گے مقصد تو ملک کو ترقی کی دوڑ میں آگے پہنچانا ہے اور خوشحال بنانا ہے لیکن حالات کو دیکھیں اور غور کریں کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان عمران خان کو فون کرتے ہیں۔
ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی فون کیا اور خیرسگالی کے جذبات کا اظہار کیا اور اس کے برعکس نواز حکومت کے ارکان جب بھی دوروں پر جاتے ہیں تو انھیں وہ بھی 2 نمبر آدمی قرار دیتے ہیں اور جامہ تلاشی ہوتی ہے جس طرح ایک عام انسان کی لی جاتی ہے۔ یہ فرق ہوتا ہے لیڈر اور عام آدمی میں۔
یہ بھی کیا اتفاق ہے کہ اللہ نے چاہا تو عمران خان 11 اگست سے 13 اگست تک وزیر اعظم بنیں گے، ہمارا پیارا پاکستان جس کی بنیادوں میں شہدا کا لہو شامل ہے وہ 14 اگست کو وجود میں آیا تھا۔بڑے زور و شور سے ہر سال کی طرح تیاریاں ہو رہی ہیں لیکن اس دفعہ کچھ سج دھج ذرا مختلف ہوگی، ویسے تو سابقہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ضرب عضب کے ذریعے تخریب کاروں کا قلع قمع کردیا تھا، جب سے پاکستان خصوصاً کراچی کی دھرتی پر امن کا سورج طلوع ہونے لگا ہے آزادی سے آزادی کا دن منایا جاتا ہے لیکن اس بار اسی ماہ اگست میں عمران خان وزیر اعظم ہوں گے انشا اللہ، جو اللہ کی بڑی مہربانی اور کرم کی بدولت ممکن ہوگا اور کسی معجزے سے کم نہیں۔
اس موقعے پر شیخ رشید نے ٹی وی اینکر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 9 سال عمران خان کے ساتھ شانے سے شانہ ملاکر چلا ہوں، اس دن کے لیے جدوجہد کی اور غالباً سات بار وزیر بنایا گیا ہوں اور اب اگر وزارت نہیں بھی ملتی ہے تو کوئی غم نہیں جس سے دوستی قائم رہنی چاہیے جو قائم ہے۔اسے کہتے ہیں وطن عزیز کے لیے قربانیاں دینا، بڑے لوگوں کی یہی شان ہوتی ہے وہ کرسی کے بھوکے نہیں ہوتے وہ اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ہر میدان میں سرخرو ہوتا ہے۔
شیخ رشید نے دھاندلی کے بارے میں کہا کہ ہارنے والے کبھی ہار نہیں مانتے بلکہ روتے ہی رہتے ہیں اور یہ تو ساری عمر روئیں گے۔ تحریک انصاف کے حوالے سے ایک نعرہ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ صاف چلی شفاف چلی، تحریک انصاف چلی، یہ نعرہ غلط تو نہیں تھا بے شک صاف و شفاف جماعت ہے ۔
عمران خان کی 22 سالہ جدوجہد اور صبح و شام کی محنت ہے اپنے ملک سے محبت اور اس کے تحفظ کے لیے بھرپور کوشش کی ہے۔ پاکستان کی یہ یقینا بدنصیبی ہی رہی ہے کہ اسے اچھے اور مخلص لیڈر میسر نہیں آئے اور جو ملے بھی تو ان کی زندگی نے وفا نہ کی جب کہ اس ملک پرحکومت کرنے اور باریاں لینے والوں نے عوام کے حقوق کو غصب کرنے میں کسر نہ چھوڑی دنیا کے پیچھے دوڑنے والے اپنی عاقبت کو یکسر بھول جاتے ہیں اپنوں کے دکھ بیماری اور اموات سے بھی سبق نہیں سیکھتے ہیں کہ ان کا بھی ایسا ہی انجام جلد یا کچھ دنوں بعد ہونے والا ہے۔
اللہ نے بارہا اپنے بندوں کو مخاطب کرتے ہوئے دنیا کی بے ثباتی کا ذکرکیا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ دولت کو گن گن کر رکھنے والے بھی ایک دن قبروں تک پہنچ جاتے ہیں اور خدائی کا دعویٰ کرنے والے بھی وقت آنے پر منہ کے بل اوندھے گر جاتے ہیں کوئی ان کا مددگار نہیں ہوتا، اللہ رب العزت نے ''سورۃ سبا'' میں عظیم الشان سلطنتوں کا ذکر کیا ہے ایک طرف حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کی زبردست سلطنت تھی جس کی کوئی نظیر دنیا میں نہیں ملتی لیکن ان برگزیدہ پیغمبروں نے تکبر کو اپنے قریب بھٹکنے نہ دیا بلکہ مخلوق خدا کو فیض پہنچانے کے لیے ہر لمحہ کمربستہ رہے اور اپنی حکومت کو اللہ کی طرف سے عطا کردہ انعام سمجھ کر دین کی ترویج اور فلاح کے امور انجام دیتے رہے، اس طرح انھوں نے دین و دنیا کی کامیابی حاصل کرلی۔
دوسری طرف قوم سبا تھی جو یمن میں آباد تھی اس قوم کو اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کی خوشحالی سے نوازا تھا لیکن انھوں نے ناشکری کی روش اختیار کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ کے بھیجے ہوئے عذاب میں گھر گئے اور ان کی کامیابی ناکامی میں بدل گئی اور وہ بدحال ہوگئے اور قوم سبا ایک قصہ پارینہ بن گئی قرآن کریم کے واقعات مثل راہ بن سکتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اگر پڑھا جائے تب یہ ممکن ہے۔
اقتدار میں آنیوالوں کو سورۂ اخلاص تک نہیں آتی ہے، سورہ الکوثر سے بھی ناواقف ہیں، ایسے لوگ حکومت کرنے کے حق دار ہرگز نہیں ہیں۔ دین سے معلومات نہ ہونے کی وجہ سے گمراہی کا اندھیرا بتدریج بڑھتا چلا جاتا ہے جیساکہ گزشتہ سالوں سے اندھیروں نے اپنا سفر جاری رکھا ہوا ہے لیکن اب انشا اللہ بہت جلد روشنی تاریکی پر غالب آجائے گی اللہ آس کو نہ ٹوٹنے دے ۔(آمین)
اس طرح قرض لینے کی تاریخ طویل اور سیاہ ہوچکی ہے، پرویز مشرف کے دور حکومت میں 9 فیصد اضافے کے ساتھ قومی قرضہ 1500 بلین تک تھا لیکن اس کے بعد زرداری کی حکومت میں قومی قرضہ جات 840 فیصد اضافے کے ساتھ 14 ہزار ارب روپے ہوگیا اور جو قرضہ قیام پاکستان سے 2008 تک صرف 1500 ارب تھا، اسے حکمرانوں نے ذاتی دولت سمجھ کر اس میں مزید اضافہ کردیا ،گویا یہ وہ دولت تھی جو بڑی آسانی سے حاصل ہوجاتی تھی۔
ملک وملت کا غم تو تھا نہیں، ملک تنزلی کی حدوں کو پارکر بھی لے تو ان عیش و طرب کے مزے لوٹنے والوں پر ذرہ برابر اثر نہیں پڑتا تھا، اگر ملک اللہ نہ کرے قرض لیتے لیتے گروی بھی رکھ دیا گیا تو یہ بادشاہت سمیت دوسرے ملکوں کے لیے رخت سفر باندھ لیں گے کہ وہاں بھی لوٹی ہوئی دولت کے انبار ہیں۔ لیکن حالات کچھ اس طرح کے ہیں کہ سابق حکمرانوں نے اپنے تیسرے دور حکومت میں قرض کی دولت سے اپنی آنے والی پشتوں کے مستقبل کو محفوظ کردیا اور اپنا مستقبل تو تھا ہی سنہرا، انھوں نے بغیر سوچے سمجھے 19 ہزار 600 ارب روپے لے کر خود غرض اور ضمیر فروشی کا ببانگ دہل ثبوت پیش کردیا ہے۔
پھر کہتے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا؟
اب نیا پاکستان نئی امنگوں کے ساتھ بننے جا رہا ہے ۔اس کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے بھرپور کردار ادا کرے گا، پاکستان کو اس وقت ایسے ہی نڈر، بہادر، بے باک اور مخلص لیڈر کی ضرورت تھی بے شک یہ اللہ کی مدد ہے کہ چاروں طرف سے تعاون کی فضا کو ہموار کیا گیا ہے اور مزید حالات بہتر ہونے کی امید نمایاں ہوچکی ہے یہ وہی شخص ہے جو اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا ہے، اگر عمران خان ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس لے آئیں تو یقینا ملک قرضوں کی دلدل سے آسانی سے نکل سکتا ہے۔ اسی لیے عمران خان کی بڑی کامیابی کو ناکامی سے بدلنے کے لیے سارے لوگ ایک پیج پر آگئے ہیں جو ملک کی ترقی اور خوشحالی میں رکاوٹ بن رہے ہیں اپنا سب کچھ تو داؤ پر لگایا ہی ہے ساتھ میں وطن عزیز کو بھی نیلام کرنے کے لیے اقدامات کرتے رہے ہیں۔
انھیں محبت ہے بلکہ عشق ہے تو اقتدارکی کرسی سے معصوم اتنے ہیں جب بیٹھ جاتے ہیں تو سمجھتے یہ ہے کہ اب وہ ہمیشہ اسی طرح حکومت کرتے رہیں گے لیکن اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے مظلوموں کی فریاد عرش کو ہلا دیتی ہے اور پھر انھیں اپنا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھنا پڑتا ہے۔ اگر ذرا سا بھی پاکستان کے لیے اخلاص ہوتا تو عمران خان کو دعائیں دیتے کہ چلیں جو کام ہم نہ کرسکے تو وہ عمران خان کر دکھائیں گے مقصد تو ملک کو ترقی کی دوڑ میں آگے پہنچانا ہے اور خوشحال بنانا ہے لیکن حالات کو دیکھیں اور غور کریں کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان عمران خان کو فون کرتے ہیں۔
ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی فون کیا اور خیرسگالی کے جذبات کا اظہار کیا اور اس کے برعکس نواز حکومت کے ارکان جب بھی دوروں پر جاتے ہیں تو انھیں وہ بھی 2 نمبر آدمی قرار دیتے ہیں اور جامہ تلاشی ہوتی ہے جس طرح ایک عام انسان کی لی جاتی ہے۔ یہ فرق ہوتا ہے لیڈر اور عام آدمی میں۔
یہ بھی کیا اتفاق ہے کہ اللہ نے چاہا تو عمران خان 11 اگست سے 13 اگست تک وزیر اعظم بنیں گے، ہمارا پیارا پاکستان جس کی بنیادوں میں شہدا کا لہو شامل ہے وہ 14 اگست کو وجود میں آیا تھا۔بڑے زور و شور سے ہر سال کی طرح تیاریاں ہو رہی ہیں لیکن اس دفعہ کچھ سج دھج ذرا مختلف ہوگی، ویسے تو سابقہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ضرب عضب کے ذریعے تخریب کاروں کا قلع قمع کردیا تھا، جب سے پاکستان خصوصاً کراچی کی دھرتی پر امن کا سورج طلوع ہونے لگا ہے آزادی سے آزادی کا دن منایا جاتا ہے لیکن اس بار اسی ماہ اگست میں عمران خان وزیر اعظم ہوں گے انشا اللہ، جو اللہ کی بڑی مہربانی اور کرم کی بدولت ممکن ہوگا اور کسی معجزے سے کم نہیں۔
اس موقعے پر شیخ رشید نے ٹی وی اینکر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 9 سال عمران خان کے ساتھ شانے سے شانہ ملاکر چلا ہوں، اس دن کے لیے جدوجہد کی اور غالباً سات بار وزیر بنایا گیا ہوں اور اب اگر وزارت نہیں بھی ملتی ہے تو کوئی غم نہیں جس سے دوستی قائم رہنی چاہیے جو قائم ہے۔اسے کہتے ہیں وطن عزیز کے لیے قربانیاں دینا، بڑے لوگوں کی یہی شان ہوتی ہے وہ کرسی کے بھوکے نہیں ہوتے وہ اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ہر میدان میں سرخرو ہوتا ہے۔
شیخ رشید نے دھاندلی کے بارے میں کہا کہ ہارنے والے کبھی ہار نہیں مانتے بلکہ روتے ہی رہتے ہیں اور یہ تو ساری عمر روئیں گے۔ تحریک انصاف کے حوالے سے ایک نعرہ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ صاف چلی شفاف چلی، تحریک انصاف چلی، یہ نعرہ غلط تو نہیں تھا بے شک صاف و شفاف جماعت ہے ۔
عمران خان کی 22 سالہ جدوجہد اور صبح و شام کی محنت ہے اپنے ملک سے محبت اور اس کے تحفظ کے لیے بھرپور کوشش کی ہے۔ پاکستان کی یہ یقینا بدنصیبی ہی رہی ہے کہ اسے اچھے اور مخلص لیڈر میسر نہیں آئے اور جو ملے بھی تو ان کی زندگی نے وفا نہ کی جب کہ اس ملک پرحکومت کرنے اور باریاں لینے والوں نے عوام کے حقوق کو غصب کرنے میں کسر نہ چھوڑی دنیا کے پیچھے دوڑنے والے اپنی عاقبت کو یکسر بھول جاتے ہیں اپنوں کے دکھ بیماری اور اموات سے بھی سبق نہیں سیکھتے ہیں کہ ان کا بھی ایسا ہی انجام جلد یا کچھ دنوں بعد ہونے والا ہے۔
اللہ نے بارہا اپنے بندوں کو مخاطب کرتے ہوئے دنیا کی بے ثباتی کا ذکرکیا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ دولت کو گن گن کر رکھنے والے بھی ایک دن قبروں تک پہنچ جاتے ہیں اور خدائی کا دعویٰ کرنے والے بھی وقت آنے پر منہ کے بل اوندھے گر جاتے ہیں کوئی ان کا مددگار نہیں ہوتا، اللہ رب العزت نے ''سورۃ سبا'' میں عظیم الشان سلطنتوں کا ذکر کیا ہے ایک طرف حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کی زبردست سلطنت تھی جس کی کوئی نظیر دنیا میں نہیں ملتی لیکن ان برگزیدہ پیغمبروں نے تکبر کو اپنے قریب بھٹکنے نہ دیا بلکہ مخلوق خدا کو فیض پہنچانے کے لیے ہر لمحہ کمربستہ رہے اور اپنی حکومت کو اللہ کی طرف سے عطا کردہ انعام سمجھ کر دین کی ترویج اور فلاح کے امور انجام دیتے رہے، اس طرح انھوں نے دین و دنیا کی کامیابی حاصل کرلی۔
دوسری طرف قوم سبا تھی جو یمن میں آباد تھی اس قوم کو اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کی خوشحالی سے نوازا تھا لیکن انھوں نے ناشکری کی روش اختیار کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ کے بھیجے ہوئے عذاب میں گھر گئے اور ان کی کامیابی ناکامی میں بدل گئی اور وہ بدحال ہوگئے اور قوم سبا ایک قصہ پارینہ بن گئی قرآن کریم کے واقعات مثل راہ بن سکتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اگر پڑھا جائے تب یہ ممکن ہے۔
اقتدار میں آنیوالوں کو سورۂ اخلاص تک نہیں آتی ہے، سورہ الکوثر سے بھی ناواقف ہیں، ایسے لوگ حکومت کرنے کے حق دار ہرگز نہیں ہیں۔ دین سے معلومات نہ ہونے کی وجہ سے گمراہی کا اندھیرا بتدریج بڑھتا چلا جاتا ہے جیساکہ گزشتہ سالوں سے اندھیروں نے اپنا سفر جاری رکھا ہوا ہے لیکن اب انشا اللہ بہت جلد روشنی تاریکی پر غالب آجائے گی اللہ آس کو نہ ٹوٹنے دے ۔(آمین)