خاموش ہریالی اور پلے گراؤنڈ

نقل مکانی انسانی خمیر میں روز اول سے شامل ہے جبکہ بے چین فطرت لوگ ہر وقت رخت سفر باندھے رہتے ہیں۔

h.sethi@hotmail.com

لوگ سیر و تفریح، تبدیلی آب و ہوا، عیش و عشرت، بچوں دوستوں رشتہ داروں سے ملنے، تجارت کا کاروبار، نئی دنیائیں تلاش کرنے، میٹنگز کے لیے، خریداری کی غرض سے، قانون سے فرار، حرام دولت کو ٹھکانے لگانے، تلاش روزگار کے سلسلے میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خاطر علاج معالجے کے لیے مقدس مقامات کی زیارت کے لیے دوسرے ممالک کا سفر کرتے ہیں۔

نقل مکانی انسانی خمیر میں روز اول سے شامل ہے جبکہ بے چین فطرت لوگ ہر وقت رخت سفر باندھے رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ملک کے جنرل الیکشن والے دن ہمارا فرار بھی مندرجہ بالا میں سے ایک مقصد کے پیش نظر تھا۔ چند روز ہیوسٹن میں گزار کر ہم نیو جرسی جا پہنچے۔

ہیوسٹن اور نیوجرسی دونوں جگہ موسم ابر آلود اور ہوا خوشگوار پا کر سڑکوں اور مکانوں کے درمیان پگڈنڈیوں پر سیر کا لطف اٹھانے کا ارادہ ہوا کیونکہ ایسا ماحول لاہور میں اب ناپید ہو چلا ہے۔

روزانہ صبح اور شام کے وقت طویل سیر کے لیے درختوں کے درمیان پیدل چلنے کا موقع لمبے عرصے کے بعد ملا تھا۔ دائیں بائیں آگے پیچھے سبزہ اور ہریالی اگرچہ وہاں ایک معمول کی بات تھی لیکن صرف ایک ہفتہ قبل جن سڑکوں پر میں چلتا رہا تھا ان میں کھڈے، مٹی اور کچرے کے ڈھیر تھے۔ درخت خشک، گنجے، پیلے گرد آلود اور بدرنگ تھے اور آج میرے ارد گرد خوشی سے جھومتی پتوں بھری ٹہنیاں تھیں جن کے پتے تالیاں بجاتے معلوم ہو رہے تھے۔ میرے ارد گرد سبزہ اور ہریالی کسی ایک مقام تک محدود نہ تھی بلکہ جب علی ضرار مجھے کار میں لے کر کسی سے ملوانے یا مارکیٹ لے کر جاتا تو وہ رستہ بھی سبزہ و گل سے بھرا ہوا ملتا۔


مجھے یاد آیا کہ پچیس سال قبل میرے ڈپٹی کمشنر چوہدری اشرف نے ساہیوال میں درخت لگانے کا دن منایا تھا۔ سڑک کے دو رویہ ہر بیس قدم کے فاصلے پر ایک فٹ گہرے گڑھے محکمہ جنگلات کے عملے سے دو کلو میٹر تک کھدوائے گئے اور ان کے پاس زمین میں بونے کے لیے کدال اور پانی کا انتظام کیا گیا اور ساتھ ایک شاخ رکھی گئی۔ ضلع کے تمام محکموں کے کئی سو ملازم وہاں لے جا کر Plantation کا دن منایا گیا۔ کئی گھنٹے ہم سب سڑک کنارے درخت لگاتے رہے۔ دوپہر کے بعد وہیں ایک جگہ دیگیں منگوا کر سب کے لیے لنچ کا اہتمام ہوا۔ اس Plantation کے ساتھ آٹھ سال بعد میں اور چوہدری محمد اشرف یہ دیکھنے کے ہمارے لگائے ہوئے درخت کتنے بڑے ہوگئے ہیں ساہیوال کی اس سڑک پر گئے تو بے حد صدمہ ہوا کہ چند درختوں کے سوا وہاں کچھ باقی نہ بچا تھا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کچھ شاخوں کو گزرتے جانور کھاگئے تھے، کچھ کو آتے جاتے لوگوں نے اکھاڑ دیا تھا اور محکمہ جنگلات والوں نے ان کی پرورش اور نگہداشت نہیں کی تھی۔ اب تو دیکھنے سننے میں بھی نہیں آتا کہ محکمہ جنگلات یا سرکار کے نزدیک Plantation کی بھی کوئی اہمیت یا ضرورت ہے۔

مکانوں کے آگے سے گزرتے ہوئے دیکھا کہ سڑک کے کنارے سے مکان تک ہموار گھاس لگی ہے، کیاریاں بنی ہیں، چھوٹے پودے ہیں، گملوں میں پھولدار پودوں نے گھروں کو سجا رکھا ہے۔ ہر مکان کی عمارت کے آگے ایک دوسرے سے مختلف باغیچے بنے ہیں جو مالک کے ذوق و شوق کے عکاس ہیں۔

پیدل اور کار میں گھومتے ہوئے درختوں پودوں کی ہریالی اور رنگ برنگے پھولوں نے دیدہ و دل کی ضیافت کرنے کے علاوہ موسم اور ماحول کو معطر و معتدل کرنے کا احساس دلانے کے ساتھ اپنے ملک میں اس ضرورت کو اجاگر کرنے کا جذبہ جگایا۔ امید کی جا سکتی ہے کہ آنے والی PTI کی حکومت جسے بڑے بڑے چیلنجوں کا سامنا ہوگا ماحولیات کے ایشو پر بھی توجہ دے گی۔

نیوجرسی کے بعد ہمارا اگلا پڑاؤ چار گھنٹے کی مسافت پر ایش برگ میں تھا جہاں سے ڈاکٹر انور سعید ہمیں لینے آئے تھے۔ یہ سفر بھی بذریعہ سڑک تھا۔ ٹریفک کا ڈسپلن تو ہم گزشتہ آٹھ روز سے دیکھ چلے آ رہے تھے۔ سبزے اور ہریالی کا ذکر ہو چکا۔ ان دنوں میں ہر نئی بستی میں ہم نے بے شمار کھیل کے میدان بھی دیکھے۔ کسی جگہ فٹ بال اور کہیں ہاکی کسی جگہ ٹینس کورٹس کی سہولت تھی لیکن بہت سی جگہ بچوں کے لیے جھولے، سلائیڈز وغیرہ لگے دیکھے۔ کئی گراؤنڈز میں صرف دوڑنے اور واک کے لیے بندوبست تھا۔ بہت سی پلے گراؤنڈز میں کھیل اور ورزش کا نظارہ کیا جبکہ کئی گراؤنڈز خالی پڑی تھیں۔

ایک ہفتہ قیام اور تین شہروں کے وزٹ میں سڑکوں پر بذریعہ موٹر کار آتے جاتے درخت ہریالی کھیل کے میدانوں اور بغیر موٹروں کے شور شرابے سے یہ تاثر ملا کہ ضروری نہیں کہ ہنگامے ہی زندگی اور ترقی کی علامت سمجھے جائیں۔ خاموشی اور کم آبادی میں بھی بھر پور زندگی کی علامات دیکھی جا سکتی ہیں۔
Load Next Story