آنے والے دن
ان دنوں ہمیں پڑھے لکھے اور نیا سیاسی وژن رکھنے والے سیاستدانوں کی خواہش کرنی چاہیے۔
2018 کے وہ انتخابات جن کا بہت شہرہ تھا، جن کے بارے میں کچھ کا خیال تھا کہ ان کا انتظار محال ہے اور کچھ کو یقین تھا کہ یہ ہوکر رہیں گے۔ وہ منعقد ہوئے۔ ان کے نتائج کبھی کچھوے اور کبھی خرگوش کی پیٹھ پر سوار ہوکر ہم تک پہنچے۔ یہ تماشا ہم سب نے دیکھا کہ لیاری کا نتیجہ 48 گھنٹے میں آیا اور دور دراز علاقوں میں ووٹوں کی گنتی چند گھنٹوں میں مکمل ہوگئی۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ نیا پاکستان وجود میں آگیا ہے اور انھیں صبح صادق کا گمان ہو رہا ہے اور کوئی اسے صبح کاذب سمجھ رہا ہے۔ کسی کے خیال میں دنیا بدلنے والی ہے اور وہ اس پر خوش ہے، کوئی اس لیے متوحش ہے کہ آنے والی تبدیلی کہیں تباہی و بربادی کا سامان لے کر نہ آئے ۔
کسی نے یہ کہا کہ ''سونامی'' آرہا ہے یا آگیا ہے۔ کہنے والے کو اس کا اندازہ نہیں کہ ''سونامی'' ایک منفی اصطلاح ہے اور تباہی و بربادی کا استعارہ ہے۔ یقین نہ آئے تو اس سونامی کا احوال یاد کیجیے جو مشرقی اور جنوبی ایشیا کے بعض علاقوں میں آیا تھا، سیکڑوں بستیاں اور ہزارہا انسانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا کر رخصت ہوا تھا۔
سچ تو یہ ہے کہ التباس کے موسم نے ہمیں اپنے طلسماتی دوشالے میں لپیٹ اور سمیٹ رکھا ہے۔ متعدد حلقوں کی گنتی دوبارہ ہو رہی ہے، نتائج اسی طرح بدل رہے ہیں جیسے آسمان رنگ بدلتا ہے۔ متحد حزب اختلاف نے مولانا فضل الرحمن کا یہ مشورہ مسترد کردیا کہ نتائج کو رد کرکے پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی حزب اختلاف نے اپنا یہ ایجنڈا بھی آشکار کردیا کہ وہ وزیر اعظم، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب لڑے گی، حلف برداری والے دن جلسہ کرے گی اور ایوان کے اندر اور باہر مبینہ دھاندلی کے مسئلے پر احتجاج کرے گی۔
دوسری جماعتوں کا احتجاج بنیادی طور پر دھاندلی کے الزامات کے بارے میں ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) اور اس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وہ میاں نواز شریف پر چلنے والے مقدموں اور انھیں دی جانے والی سزاؤں کو درست نہیں سمجھتے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں سزائیں اس لیے دی گئیں کہ وہ حکومت کرنا سول انتظامیہ کا حق سمجھتے تھے۔ خارجہ تعلقات کے بارے میں بھی ان کا موقف بالکل الگ تھا۔ وہ سی پیک کی تکمیل اور پڑوسی ملکوں سے گہرے تجارتی روابط کو پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے بنیادی نکتہ خیال کرتے تھے جبکہ امریکا اور ہمارے کچھ اداروں کو یہ بات گوارا نہ تھی۔ اس بارے میں امریکی موقف چند دنوں پہلے کھل کر سامنے آچکا ہے۔
یہ وہ رکاوٹیں اور حقائق ہیں جن کا علم اقتدار لینے والوں کو پارلیمنٹ میں حلف اٹھانے سے پہلے ہوگیا ہے۔ شاید یہ بات پہلے ان کے لیے قابل یقین نہ ہو لیکن اب یہ اندازہ انھیں ہوگیا ہے کہ اقتدار تو انھیں دے دیا جائے گا لیکن اختیار ان سے اسی طرح دور رہے گا جیسے پچھلی سول حکومتوں سے رہا۔ خارجہ پالیسی وہ شجر ممنوع ہے جس کی طرف دیکھنا بھی سول حکومتوں پر حرام رہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو سے میاں نواز شریف تک تمام سول وزرائے اعظم دل میں یہ ارمان رکھتے رہے کہ وہ ملکی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے بین الاقوامی سیاست میں ایک آزاد اور خودمختار پاکستان کے لیے پالیسیاں وضع کریں۔
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف سے کئی معاملات پر اختلافات ان کے حامیوں کو بھی رہے ہیں۔ انھوں نے اپنی سیاسی زندگی میں کئی غلطیاں کی ہیں، وہ اس الزام سے جان نہ چھڑا سکے کہ وہ مذہبی انتہا پسندوں سے قریبی تعلقات رکھتے ہیں، حالانکہ یہی وہ نواز شریف ہیں جنھوں نے ہولی اور دیوالی کی تقریبات میں شرکت کی، پاکستانی کرسچن آبادی کے ساتھ ظلم ہوا تو وہ ان کی دل جوئی کے لیے پہنچے لیکن اپنے ان اقدامات کے باوجود وہ ''فنڈو'' کہلائے اور ایک مدرسے کو 27 کروڑ کا عطیہ دینے والے روشن خیال لبرل ٹھہرے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پڑھی لکھی خواتین کی بھاری تعداد نے ''لبرل'' ہیرو کو ووٹ دیا، اب دیکھنا یہ ہے کہ ان روشن خیال خواتین نے اپنے ہیرو سے جو توقعات لگا رکھی ہیں وہ کس حد تک پوری ہوتی ہیں۔
میاں نواز شریف پاکستان کی تاریخ میں اسی طرح یاد رکھے جائیں گے جیسے متعدد اختلافات کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو لوگوں کو یاد ہیں۔ میاں صاحب کے خلاف جب فیصلہ سنایا گیا تو بے شمار لوگوں کا خیال تھا کہ وہ لوٹ کر پاکستان نہیں آئیں گے اور زندگی کا بڑا حصہ انگلستان میں گزاریں گے۔ چین آرام سے رہیں گے اور عدالتی فیصلے کے بارے میں وہی رویہ اختیار کریں گے جو سابق جرنیل پرویز مشرف نے اختیار کیا ہوا ہے۔ ایسا ہی خیال لوگوں کو ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں بھی تھا کہ ناز و نعم میں پلا ہوا امیرزادہ جیل کی صعوبتیں کہاں سہ پائے گا اور پھانسی کے پھندے سے نکل جانا، معافی مانگ لینا اس کے لیے آسان راستہ ہوگا۔ بھٹو نے ایسے تمام لوگوں کو مایوس کیا، وہ پھانسی چڑھ گئے اور آج سندھ کی سرزمین میں شہید کی نیند سوتے ہیں۔
اسی طرح میاں نواز شریف کے بارے میں ہنس کر کہا جاتا تھا کہ ایک کامیاب تجارتی اور کاروباری گھرانے سے تعلق رکھنے والا، یہ سزائیں کیسے برداشت کرے گا۔ وہ اپنا سرمایہ سینے سے لگا کر یورپ اور برطانیہ کی فضاؤں میں رہے گا، پوتے اور نواسے کھلائے گا، لیکن میاں نواز شریف نے بھی تمام اندازے غلط کر دکھائے۔ وہ جانتے تھے کہ وطن کی زمین پر قدم رکھتے ہی وہ گرفتار کرلیے جائیں گے اور اگر انھوں نے بالادست طبقات سے صلح صفائی نہ کی تو انھیں جیل میں ڈال دیا جائے گا۔ ان کے پاس نہایت معقول عذر کلثوم نواز کی شدید علالت کا تھا۔ وہ ان کی عیادت اور خدمت کرتے رہتے اور لندن میں ہی رہتے لیکن انھوں نے اپنی زندگی کا مشکل ترین فیصلہ کیا۔ کلثوم نواز کو وینٹی لیٹر پر چھوڑ کر وہ پاکستان آئے تاکہ اپنے ناکردہ جرائم کی سزا کاٹ سکیں اور اس دن کا انتظار کریں جب ان کے ساتھ انصاف ہوسکے۔
پاکستان واپس آنے کا انتخاب ان کی بیٹی مریم نواز کا بھی تھا۔ مریم نے بھی اپنی نیم جاں ماں سے رخصت لی اور جیل کاٹنے کے لیے پاکستان کی راہ لی۔ مریم ایک ایسے پاکستانی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں جہاں لڑکیوں کو ہر طرح کے سرد و گرم سے محفوظ رکھا جاتا ہے۔ مریم نے تعلیم تو حاصل کی لیکن وہ کم عمری میں شادی کرکے گھریلو زندگی گزارتی رہیں۔ انھوں نے شاید کبھی سوچا بھی نہ ہو کہ وہ زنان خانے سے نکل کر سیاست کے خارزار میں قدم رکھیں گی۔ ان کے باپ نے ان کے لیے وہ خواب نہیں دیکھے تھے جو بھٹو صاحب کے خواب تھے۔ بیٹی وزارت خارجہ سے متعلق ہو اور پھر اسی شعبے میں سیڑھیاں چڑھتی جائے۔ بھٹو صاحب بیٹی کو دنیا کے نامور رہنماؤں سے ملاتے رہے اور کچھ کہے بغیر ان کی تربیت کرتے رہے۔ باپ اور بیٹی دونوں کے حاشیہ خیال میں بھی نہ تھا کہ زندگی بے نظیر سے کیسے قیامت کے امتحان لے گی، حد تو یہ ہے کہ اس امتحان میں وہ جان سے گزر جائے گی۔
مریم کو میں نے لندن میں اس وقت دیکھا جب وہ سعودی شاہی خاندان کی میزبانی کا لطف اٹھا کر کھلی اور آزاد فضا میں سانس لے رہی تھیں۔ اپنے شور مچاتے اور بھاگتے دوڑتے بچوں کو قابو میں کرنے اور ان کی چاکلیٹ کی حصہ داری میں مصروف مریم کو دیکھ کر یا ان سے باتیں کرکے یہ گمان بھی نہیں ہوتا تھا کہ آنے والے برس ان کے لیے کیا لے کر آرہے ہیں۔ اس ملاقات میں کلثوم نواز بھی موجود تھیں۔ ان سے میری کراچی میں کئی ملاقاتیں ہوچکی تھیں اور ہم دونوں کے درمیان قرۃ العین حیدر سے تعلق کا گہرا رشتہ تھا۔ ان کی کتاب ''رجب علی بیگ سرور کا تہذیبی شعور'' میں پڑھ چکی تھی اور اس کی انھیں داد دے چکی تھی۔
کلثوم نواز نے پاکستان میں حالات کا جی داری سے مقابلہ کیا تھا۔ میرا کہنا تھا کہ آپ کو سیاست سے دست کش نہیں ہونا چاہیے تھا۔ وہ خاموشی سے مسکراتی رہی تھیں اور انھوں نے میرے شکوے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا۔ میرا کہنا تھا کہ ہمارے یہاں سیاست میں جی دار عورتوں کی بہت کمی ہے، ایسے میں اگر آپ جیسی کوئی عورت اپنے جوہر دکھانے کے بعد گھر بیٹھ جائے تو دکھ ہوتا ہے۔ مریم اس بارے میں کھل کر اپنا وہ اختلاف بیان کرتی رہی تھیں جو انھیں اپنے خاندان کے مردوں سے تھا۔ اس لمحے میں نے سوچا بھی نہ تھا کہ کچھ برسوں بعد جھالوں جھمکوں اور ست لڑوں کی شوقین یہی مریم گھر کے آنگن سے نکل کر سیاست کے خارزار میں قدم رکھے گی اور اپنے جغادری انکلز کے لیے مسئلہ بن جائے گی۔ یہی کچھ بے نظیر بھٹو کے ساتھ بھی ہوا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے کئی پرانے اراکین نے سیاست میں مریم کی آمد سے اختلاف کیا اور کچھ نے تو کھل کر یہ کہا کہ میاں صاحب کو مقتدرین کے خلاف بھڑکانے اور ان سے تصادم پر اکسانے والی، کوئی اور نہیں ان کی بیٹی ہے۔
اگر یہ بات درست تسلیم کرلی جائے تو جیل میں شب و روز کاٹنے والی مریم کی سیاسی بصیرت کو داد دینی چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آج نہیں تو کل وہ ملکی سیاست میں اہم کردار ادا کرے گی۔ ہمارے یہاں مفاہمتی سیاست کا سلسلہ اتنا دراز ہوچکا ہے کہ پرانے اور مفاہمت زدہ سیاستدانوں کو مریم، بلاول اور حمزہ سے ڈر لگتا ہے جو نوجوان ہیں اور دنیا کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھتے ہیں۔ مجھے اس بات کا ملال ہے کہ فاطمہ بھٹو نے سیاست چھوڑ دی۔ حالانکہ وہ اس میدان میں کہیں بہتر کارکردگی دکھا سکتی ہے۔
آنیوالے دن پاکستانی سیاست میں بہت سی بنیادی تبدیلیاں لے کر آرہے ہیں۔ ان دنوں ہمیں پڑھے لکھے اور نیا سیاسی وژن رکھنے والے سیاستدانوں کی خواہش کرنی چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ بقول جالب وہ صحافی سربلند ہوں جن کے قلم سے ازار بند ڈالا جائے، قانون کی کتابوں سے بند بنانے کے نقشے نکالے جائیں، مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور اے این پی کی جیت کا راستہ روکنے کے لیے ان عناصر کو بڑھاوا دیا جائے جو خود ایک سیٹ نہ جیت سکیں لیکن قومی پارٹیوں کے ووٹ کاٹنے میں کامیاب ہوجائیں۔ آج شاید اس بات پر غور نہیں کیا جا رہا کہ کل یہ عناصر ملک کی بنیادوں میں کس طور بارود بچھائیں گے۔ کچھ ایسی گرہیں ہوتی ہیں جو ہاتھوں سے لگائی جاتی ہیں لیکن انھیں کھولنے کے لیے پھر دانت استعمال کرنے پڑتے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ مقتدر طاقتیں اس بارے میں کس طور سوچتی ہیں لیکن ہم جو عوام میں سے ہیں اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ ملک سنگین بحران سے دوچار ہے اور یہ بحران حالیہ دنوں میں نمٹتا نظر نہیں آتا۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ نیا پاکستان وجود میں آگیا ہے اور انھیں صبح صادق کا گمان ہو رہا ہے اور کوئی اسے صبح کاذب سمجھ رہا ہے۔ کسی کے خیال میں دنیا بدلنے والی ہے اور وہ اس پر خوش ہے، کوئی اس لیے متوحش ہے کہ آنے والی تبدیلی کہیں تباہی و بربادی کا سامان لے کر نہ آئے ۔
کسی نے یہ کہا کہ ''سونامی'' آرہا ہے یا آگیا ہے۔ کہنے والے کو اس کا اندازہ نہیں کہ ''سونامی'' ایک منفی اصطلاح ہے اور تباہی و بربادی کا استعارہ ہے۔ یقین نہ آئے تو اس سونامی کا احوال یاد کیجیے جو مشرقی اور جنوبی ایشیا کے بعض علاقوں میں آیا تھا، سیکڑوں بستیاں اور ہزارہا انسانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا کر رخصت ہوا تھا۔
سچ تو یہ ہے کہ التباس کے موسم نے ہمیں اپنے طلسماتی دوشالے میں لپیٹ اور سمیٹ رکھا ہے۔ متعدد حلقوں کی گنتی دوبارہ ہو رہی ہے، نتائج اسی طرح بدل رہے ہیں جیسے آسمان رنگ بدلتا ہے۔ متحد حزب اختلاف نے مولانا فضل الرحمن کا یہ مشورہ مسترد کردیا کہ نتائج کو رد کرکے پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی حزب اختلاف نے اپنا یہ ایجنڈا بھی آشکار کردیا کہ وہ وزیر اعظم، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب لڑے گی، حلف برداری والے دن جلسہ کرے گی اور ایوان کے اندر اور باہر مبینہ دھاندلی کے مسئلے پر احتجاج کرے گی۔
دوسری جماعتوں کا احتجاج بنیادی طور پر دھاندلی کے الزامات کے بارے میں ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) اور اس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وہ میاں نواز شریف پر چلنے والے مقدموں اور انھیں دی جانے والی سزاؤں کو درست نہیں سمجھتے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں سزائیں اس لیے دی گئیں کہ وہ حکومت کرنا سول انتظامیہ کا حق سمجھتے تھے۔ خارجہ تعلقات کے بارے میں بھی ان کا موقف بالکل الگ تھا۔ وہ سی پیک کی تکمیل اور پڑوسی ملکوں سے گہرے تجارتی روابط کو پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے بنیادی نکتہ خیال کرتے تھے جبکہ امریکا اور ہمارے کچھ اداروں کو یہ بات گوارا نہ تھی۔ اس بارے میں امریکی موقف چند دنوں پہلے کھل کر سامنے آچکا ہے۔
یہ وہ رکاوٹیں اور حقائق ہیں جن کا علم اقتدار لینے والوں کو پارلیمنٹ میں حلف اٹھانے سے پہلے ہوگیا ہے۔ شاید یہ بات پہلے ان کے لیے قابل یقین نہ ہو لیکن اب یہ اندازہ انھیں ہوگیا ہے کہ اقتدار تو انھیں دے دیا جائے گا لیکن اختیار ان سے اسی طرح دور رہے گا جیسے پچھلی سول حکومتوں سے رہا۔ خارجہ پالیسی وہ شجر ممنوع ہے جس کی طرف دیکھنا بھی سول حکومتوں پر حرام رہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو سے میاں نواز شریف تک تمام سول وزرائے اعظم دل میں یہ ارمان رکھتے رہے کہ وہ ملکی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے بین الاقوامی سیاست میں ایک آزاد اور خودمختار پاکستان کے لیے پالیسیاں وضع کریں۔
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف سے کئی معاملات پر اختلافات ان کے حامیوں کو بھی رہے ہیں۔ انھوں نے اپنی سیاسی زندگی میں کئی غلطیاں کی ہیں، وہ اس الزام سے جان نہ چھڑا سکے کہ وہ مذہبی انتہا پسندوں سے قریبی تعلقات رکھتے ہیں، حالانکہ یہی وہ نواز شریف ہیں جنھوں نے ہولی اور دیوالی کی تقریبات میں شرکت کی، پاکستانی کرسچن آبادی کے ساتھ ظلم ہوا تو وہ ان کی دل جوئی کے لیے پہنچے لیکن اپنے ان اقدامات کے باوجود وہ ''فنڈو'' کہلائے اور ایک مدرسے کو 27 کروڑ کا عطیہ دینے والے روشن خیال لبرل ٹھہرے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پڑھی لکھی خواتین کی بھاری تعداد نے ''لبرل'' ہیرو کو ووٹ دیا، اب دیکھنا یہ ہے کہ ان روشن خیال خواتین نے اپنے ہیرو سے جو توقعات لگا رکھی ہیں وہ کس حد تک پوری ہوتی ہیں۔
میاں نواز شریف پاکستان کی تاریخ میں اسی طرح یاد رکھے جائیں گے جیسے متعدد اختلافات کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو لوگوں کو یاد ہیں۔ میاں صاحب کے خلاف جب فیصلہ سنایا گیا تو بے شمار لوگوں کا خیال تھا کہ وہ لوٹ کر پاکستان نہیں آئیں گے اور زندگی کا بڑا حصہ انگلستان میں گزاریں گے۔ چین آرام سے رہیں گے اور عدالتی فیصلے کے بارے میں وہی رویہ اختیار کریں گے جو سابق جرنیل پرویز مشرف نے اختیار کیا ہوا ہے۔ ایسا ہی خیال لوگوں کو ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں بھی تھا کہ ناز و نعم میں پلا ہوا امیرزادہ جیل کی صعوبتیں کہاں سہ پائے گا اور پھانسی کے پھندے سے نکل جانا، معافی مانگ لینا اس کے لیے آسان راستہ ہوگا۔ بھٹو نے ایسے تمام لوگوں کو مایوس کیا، وہ پھانسی چڑھ گئے اور آج سندھ کی سرزمین میں شہید کی نیند سوتے ہیں۔
اسی طرح میاں نواز شریف کے بارے میں ہنس کر کہا جاتا تھا کہ ایک کامیاب تجارتی اور کاروباری گھرانے سے تعلق رکھنے والا، یہ سزائیں کیسے برداشت کرے گا۔ وہ اپنا سرمایہ سینے سے لگا کر یورپ اور برطانیہ کی فضاؤں میں رہے گا، پوتے اور نواسے کھلائے گا، لیکن میاں نواز شریف نے بھی تمام اندازے غلط کر دکھائے۔ وہ جانتے تھے کہ وطن کی زمین پر قدم رکھتے ہی وہ گرفتار کرلیے جائیں گے اور اگر انھوں نے بالادست طبقات سے صلح صفائی نہ کی تو انھیں جیل میں ڈال دیا جائے گا۔ ان کے پاس نہایت معقول عذر کلثوم نواز کی شدید علالت کا تھا۔ وہ ان کی عیادت اور خدمت کرتے رہتے اور لندن میں ہی رہتے لیکن انھوں نے اپنی زندگی کا مشکل ترین فیصلہ کیا۔ کلثوم نواز کو وینٹی لیٹر پر چھوڑ کر وہ پاکستان آئے تاکہ اپنے ناکردہ جرائم کی سزا کاٹ سکیں اور اس دن کا انتظار کریں جب ان کے ساتھ انصاف ہوسکے۔
پاکستان واپس آنے کا انتخاب ان کی بیٹی مریم نواز کا بھی تھا۔ مریم نے بھی اپنی نیم جاں ماں سے رخصت لی اور جیل کاٹنے کے لیے پاکستان کی راہ لی۔ مریم ایک ایسے پاکستانی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں جہاں لڑکیوں کو ہر طرح کے سرد و گرم سے محفوظ رکھا جاتا ہے۔ مریم نے تعلیم تو حاصل کی لیکن وہ کم عمری میں شادی کرکے گھریلو زندگی گزارتی رہیں۔ انھوں نے شاید کبھی سوچا بھی نہ ہو کہ وہ زنان خانے سے نکل کر سیاست کے خارزار میں قدم رکھیں گی۔ ان کے باپ نے ان کے لیے وہ خواب نہیں دیکھے تھے جو بھٹو صاحب کے خواب تھے۔ بیٹی وزارت خارجہ سے متعلق ہو اور پھر اسی شعبے میں سیڑھیاں چڑھتی جائے۔ بھٹو صاحب بیٹی کو دنیا کے نامور رہنماؤں سے ملاتے رہے اور کچھ کہے بغیر ان کی تربیت کرتے رہے۔ باپ اور بیٹی دونوں کے حاشیہ خیال میں بھی نہ تھا کہ زندگی بے نظیر سے کیسے قیامت کے امتحان لے گی، حد تو یہ ہے کہ اس امتحان میں وہ جان سے گزر جائے گی۔
مریم کو میں نے لندن میں اس وقت دیکھا جب وہ سعودی شاہی خاندان کی میزبانی کا لطف اٹھا کر کھلی اور آزاد فضا میں سانس لے رہی تھیں۔ اپنے شور مچاتے اور بھاگتے دوڑتے بچوں کو قابو میں کرنے اور ان کی چاکلیٹ کی حصہ داری میں مصروف مریم کو دیکھ کر یا ان سے باتیں کرکے یہ گمان بھی نہیں ہوتا تھا کہ آنے والے برس ان کے لیے کیا لے کر آرہے ہیں۔ اس ملاقات میں کلثوم نواز بھی موجود تھیں۔ ان سے میری کراچی میں کئی ملاقاتیں ہوچکی تھیں اور ہم دونوں کے درمیان قرۃ العین حیدر سے تعلق کا گہرا رشتہ تھا۔ ان کی کتاب ''رجب علی بیگ سرور کا تہذیبی شعور'' میں پڑھ چکی تھی اور اس کی انھیں داد دے چکی تھی۔
کلثوم نواز نے پاکستان میں حالات کا جی داری سے مقابلہ کیا تھا۔ میرا کہنا تھا کہ آپ کو سیاست سے دست کش نہیں ہونا چاہیے تھا۔ وہ خاموشی سے مسکراتی رہی تھیں اور انھوں نے میرے شکوے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا۔ میرا کہنا تھا کہ ہمارے یہاں سیاست میں جی دار عورتوں کی بہت کمی ہے، ایسے میں اگر آپ جیسی کوئی عورت اپنے جوہر دکھانے کے بعد گھر بیٹھ جائے تو دکھ ہوتا ہے۔ مریم اس بارے میں کھل کر اپنا وہ اختلاف بیان کرتی رہی تھیں جو انھیں اپنے خاندان کے مردوں سے تھا۔ اس لمحے میں نے سوچا بھی نہ تھا کہ کچھ برسوں بعد جھالوں جھمکوں اور ست لڑوں کی شوقین یہی مریم گھر کے آنگن سے نکل کر سیاست کے خارزار میں قدم رکھے گی اور اپنے جغادری انکلز کے لیے مسئلہ بن جائے گی۔ یہی کچھ بے نظیر بھٹو کے ساتھ بھی ہوا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے کئی پرانے اراکین نے سیاست میں مریم کی آمد سے اختلاف کیا اور کچھ نے تو کھل کر یہ کہا کہ میاں صاحب کو مقتدرین کے خلاف بھڑکانے اور ان سے تصادم پر اکسانے والی، کوئی اور نہیں ان کی بیٹی ہے۔
اگر یہ بات درست تسلیم کرلی جائے تو جیل میں شب و روز کاٹنے والی مریم کی سیاسی بصیرت کو داد دینی چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آج نہیں تو کل وہ ملکی سیاست میں اہم کردار ادا کرے گی۔ ہمارے یہاں مفاہمتی سیاست کا سلسلہ اتنا دراز ہوچکا ہے کہ پرانے اور مفاہمت زدہ سیاستدانوں کو مریم، بلاول اور حمزہ سے ڈر لگتا ہے جو نوجوان ہیں اور دنیا کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھتے ہیں۔ مجھے اس بات کا ملال ہے کہ فاطمہ بھٹو نے سیاست چھوڑ دی۔ حالانکہ وہ اس میدان میں کہیں بہتر کارکردگی دکھا سکتی ہے۔
آنیوالے دن پاکستانی سیاست میں بہت سی بنیادی تبدیلیاں لے کر آرہے ہیں۔ ان دنوں ہمیں پڑھے لکھے اور نیا سیاسی وژن رکھنے والے سیاستدانوں کی خواہش کرنی چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ بقول جالب وہ صحافی سربلند ہوں جن کے قلم سے ازار بند ڈالا جائے، قانون کی کتابوں سے بند بنانے کے نقشے نکالے جائیں، مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور اے این پی کی جیت کا راستہ روکنے کے لیے ان عناصر کو بڑھاوا دیا جائے جو خود ایک سیٹ نہ جیت سکیں لیکن قومی پارٹیوں کے ووٹ کاٹنے میں کامیاب ہوجائیں۔ آج شاید اس بات پر غور نہیں کیا جا رہا کہ کل یہ عناصر ملک کی بنیادوں میں کس طور بارود بچھائیں گے۔ کچھ ایسی گرہیں ہوتی ہیں جو ہاتھوں سے لگائی جاتی ہیں لیکن انھیں کھولنے کے لیے پھر دانت استعمال کرنے پڑتے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ مقتدر طاقتیں اس بارے میں کس طور سوچتی ہیں لیکن ہم جو عوام میں سے ہیں اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ ملک سنگین بحران سے دوچار ہے اور یہ بحران حالیہ دنوں میں نمٹتا نظر نہیں آتا۔