زرداری اب پارٹی پر بھاری ثابت ہونے لگے بی بی سی
پیپلزپارٹی کے ساتھ وہ کچھ ہو گیا جس کا تصور مخالفین نے بھی نہیں کیا ہوگا،مبصرین
حالیہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ساتھ وہ کچھ ہوگیا ہے جس کا تصور شایدکبھی اس کے کارکن توکیا اس کے مخالفین نے بھی نہیں کیا ہوگا۔
وہ پیپلز پارٹی جس کی مقتول چیئرپرسن کو چاروں صوبوں کی زنجیرکہا جاتا تھا اس زنجیر کی کڑیاں سندھ سے نکل کر زیادہ دور نہ جاسکیں۔ سندھ کو چھوڑکر باقی سارے پاکستان سے اسے قومی اسمبلی کی صرف دو سیٹیں ملی ہیں۔ بی بی سی کے مطابق پیپلزپارٹی کے کرتا دھرتا رہنماؤں کے پاس ہارنے کی نہ کوئی دلیل ہے نہ کوئی بہانہ، سوائے یہ کہ انھوں نے اپنے عہدوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ پنجاب میں کوئی خودکش حملہ ہوا نہ کوئی بم دھماکا اس لیے پیپلزپارٹی کو اپنی انتخابی مہم چلانے میں کوئی امرمانع نہیں تھا۔
اب بظاہر وہ پارٹی رہنما خودکو عقلمند سمجھ رہے ہوں گے جنھوں نے مختلف بہانے بناکر الیکشن نہیں لڑا اور بعض نے تو پارٹی ٹکٹ تک واپس کردیے تھے۔ پیپلز پارٹی تو دھاندلی کا الزام لگانے کے قابل بھی نہیں رہی کیونکہ جس حلقے میں مسلم لیگ ن کے امیدوار کے ووٹ ایک لاکھ سے زائد اور تحریک انصاف کے 80 ہزار سے زائد تھے، وہاں پیپلز پارٹی کے امیدوار3،4 ہزار ووٹوں سے آگے نظر نہیں آتے ۔
وہ تمام امیدوار جن کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ ان کا اپنے حلقے میں اپنا ذاتی اثر ورسوخ بہت ہے، وہ پارٹی کے انتخابی نشان تیر سے خود ہی گھائل ہوگئے اور انھوں نے ثابت کیاکہ ان کے ذاتی اثر و رسوخ سے زیادہ پارٹی کی غیر مقبولیت کام دکھا گئی۔ تجزیہ نگاروں کاکہناہے کہ ووٹروں کے فیصلے سے لگتا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے 5 سالہ دور اقتدار سے خوش نہیں رہے اور انھوں نے معاشی بدحالی اور توانائی کے بحران کا انتقام جمہوری طریقے سے لیا ہے۔ وہ صدر زرداری جن کے بارے میں پیپلز پارٹی نعرہ لگاتی تھی کہ 'ایک زرداری سب پر بھاری' وہ بظاہر اپنی پارٹی کے لیے بھاری ثابت ہورہے ہیں۔
وہ پیپلز پارٹی جس کی مقتول چیئرپرسن کو چاروں صوبوں کی زنجیرکہا جاتا تھا اس زنجیر کی کڑیاں سندھ سے نکل کر زیادہ دور نہ جاسکیں۔ سندھ کو چھوڑکر باقی سارے پاکستان سے اسے قومی اسمبلی کی صرف دو سیٹیں ملی ہیں۔ بی بی سی کے مطابق پیپلزپارٹی کے کرتا دھرتا رہنماؤں کے پاس ہارنے کی نہ کوئی دلیل ہے نہ کوئی بہانہ، سوائے یہ کہ انھوں نے اپنے عہدوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ پنجاب میں کوئی خودکش حملہ ہوا نہ کوئی بم دھماکا اس لیے پیپلزپارٹی کو اپنی انتخابی مہم چلانے میں کوئی امرمانع نہیں تھا۔
اب بظاہر وہ پارٹی رہنما خودکو عقلمند سمجھ رہے ہوں گے جنھوں نے مختلف بہانے بناکر الیکشن نہیں لڑا اور بعض نے تو پارٹی ٹکٹ تک واپس کردیے تھے۔ پیپلز پارٹی تو دھاندلی کا الزام لگانے کے قابل بھی نہیں رہی کیونکہ جس حلقے میں مسلم لیگ ن کے امیدوار کے ووٹ ایک لاکھ سے زائد اور تحریک انصاف کے 80 ہزار سے زائد تھے، وہاں پیپلز پارٹی کے امیدوار3،4 ہزار ووٹوں سے آگے نظر نہیں آتے ۔
وہ تمام امیدوار جن کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ ان کا اپنے حلقے میں اپنا ذاتی اثر ورسوخ بہت ہے، وہ پارٹی کے انتخابی نشان تیر سے خود ہی گھائل ہوگئے اور انھوں نے ثابت کیاکہ ان کے ذاتی اثر و رسوخ سے زیادہ پارٹی کی غیر مقبولیت کام دکھا گئی۔ تجزیہ نگاروں کاکہناہے کہ ووٹروں کے فیصلے سے لگتا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے 5 سالہ دور اقتدار سے خوش نہیں رہے اور انھوں نے معاشی بدحالی اور توانائی کے بحران کا انتقام جمہوری طریقے سے لیا ہے۔ وہ صدر زرداری جن کے بارے میں پیپلز پارٹی نعرہ لگاتی تھی کہ 'ایک زرداری سب پر بھاری' وہ بظاہر اپنی پارٹی کے لیے بھاری ثابت ہورہے ہیں۔