نواز شریف کی آزمائش

انتخابات میں پاک بھارت دوستی کا نعرہ بھی موجود تھا مگر اسے کبھی زیادہ اہمیت نہیں ملی۔

یہ ایک جذباتی تاثر تھا جب متوقع وزیراعظم نواز شریف نے پاکستان میں انتخابات جیتنے کے بعد اپنی حلف برداری کی تقریب میں بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ کو شرکت کی دعوت دیدی، جس کا مقصد بھارت کے ساتھ حقیقی دوستی پیدا کرنے کی خواہش کا اظہار تھا، لیکن یہ کوئی حیرت کی بات نہیں تھی۔ نواز شریف نے بینظیر بھٹو کے خلاف الیکشن بھی بھارت کے ساتھ دوستی کے نعرے سے جیتا تھا۔

بدقسمتی سے اس مرتبہ نئی دہلی کا جواب مثبت نہیں تھا۔ میری خواہش ہے یہاں بھی اٹل بہاری واجپائی ہوتے جو امرتسر سے بس میں بیٹھ کر لاہور پہنچے تھے۔ تب دونوں وزرائے اعظم نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو معمول پر لانے کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی تھی۔ افسوس کہ یہ خیرسگالی تادیر برقرار نہ رہی۔ کارگل کی مہم جوئی کا الزام نواز شریف پر عاید نہیں کیا جاسکتا۔ یہ جنرل پرویز مشرف تھے، جن کا خیال تھا کہ وہ تزویراتی (اسٹرٹیجک) بلندیوں پر قبضہ کر کے بھارت کو زِچ کر سکتے ہیں۔ نواز شریف کو صورتحال کے بارے میں علم نہیں تھا۔ پرویز مشرف تو آج یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ سب کو پتہ تھا۔ لیکن یہ درست نہیں۔ نواز شریف کو خواہ مخواہ ایک لڑائی میں گھسیٹا جا رہا ہے جو پرویز مشرف نے شروع کی۔

اب نواز شریف پھر وزیر اعظم بن رہے ہیں جنہوں نے کارگل کے بارے میں انکوائری کرانے کی بات کر کے اچھا کام کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ نواز شریف نے کارگل بحران کا خاتمہ امریکا کے تعاون سے کیا تھا۔ انھوں نے یہ معاملہ امریکی صدر بل کلنٹن کے سامنے رکھا حالانکہ دونوں جانتے تھے کہ کارگل کا واقعہ پرویز مشرف کا کیا دھرا ہے۔ بہرحال انکوائری سے یہ پتہ چل جائے گا کہ اصل ذمے دار کون تھا۔ اسی قسم کی انکوائری 26/11 کے ممبئی حملے پر بھی کرائی جانی چاہیے۔ نواز شریف نے یقین دہانی کرائی ہے کہ سرحد پار سے اس قسم کا کوئی واقع مستقبل میں ہرگز نہیں ہو گا۔

پاکستان میں ہونے والے انتخابات میں بہت شور شرابا ہوتا ہے۔ نظم و ضبط کی بھی کمی ہوتی ہے جیسے کوئی تماشہ ہو رہا ہو حتیٰ کہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کا اغوا بھی زیادہ حیرانی کی بات نہیں ہوتی۔ البتہ سیاسی جماعتیں اپنے امیدواروں کے مقابلے کا اس انداز سے اہتمام کرتی ہیں جس سے وہ جیتنے کے قابل ہو سکیں۔ پارٹیاں اپنا حساب کتاب کر رہی تھیں اور انھیں اپنی طاقت کا اندازہ تھا۔ پولنگ سے پہلے ہی یہ معلوم ہو چکا تھا کہ نواز شریف پنجاب میں بہت مضبوط ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اپنے لیڈر آصف علی زرداری کی قیادت میں سندھ میں اور عمران خان کی تحریک انصاف شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا میں کامیابی حاصل کرے گی۔ نتائج بھی کم و بیش ویسے ہی برآمد ہوئے ہیں۔ اگرچہ نواز شریف کی جیت بہت متاثر کن ہے جنہوں نے پنجاب میں شہری اور دیہی دونوں علاقوں کی نشستیں جیتی ہیں۔

انتخابات میں پاک بھارت دوستی کا نعرہ بھی موجود تھا مگر اسے کبھی زیادہ اہمیت نہیں ملی۔ تمام سیاسی جماعتیں نئی دہلی کے ساتھ اچھے تعلقات کی بات کر رہی تھیں جو اہم انتخابی پہلو تھا۔ مجھے اس پر کوئی حیرت نہیں کیونکہ میں نے ہمیشہ یہ دیکھا ہے کہ دونوں طرف کا عام آدمی پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے۔ حکومتیں سیاست بازی کرتی ہیں۔ لیکن اب ان کو احساس ہو گیا ہے کہ بھارت یا پاکستان کے ساتھ دشمنی کی باتوں کو مزید پذیرائی حاصل نہیں ہو سکتی۔ یہ اب کامیاب انتخابی نعرہ نہیں رہا۔ اس کے باوجود وہ موافقت کے بجائے اختلاف پر زیادہ زور دیتے ہیں۔

مجھے یاد ہے بھارت کے ساتھ دوستی کے موقف پر نواز شریف کو انتخابات میں بھرپور کامیابی ملی تھی۔ لیکن آخر سیاسی جماعتوں کو بیدار ہونے میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی، یہ بات یقیناً قابل غور ہے۔ نواز شریف نے کہا ہے وہ بھارت سے بات چیت اسی نکتے سے شروع کریں گے جہاں اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ پہنچی تھی۔ یہ ایک مثبت پیشرفت ہے کیونکہ اس کا مطلب تنگ نظری پر آزاد خیالی کی فوقیت ہے۔


پولنگ کے لیے لوگوں کے بھاری تعداد میں گھروں سے باہر نکلنے کا سہرا ووٹروں کے سر بندھتا ہے کیونکہ طالبان نے انھیں دھمکیاں بھی دے رکھی تھیں، اس کے باوجود لوگ جمہوری عمل کو جاری رکھنے کے بارے میں پر عزم تھے۔ نواز شریف کو اب تیسری بار وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کا موقع ملا ہے۔ اس سے پاکستانیوں کی توقیر میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ انھوں نے اس شخص کو منتخب کیا ہے جس نے کہا ہے کہ وزیراعظم آرمی کا باس ہے۔

نواز شریف نے اپنا کام مرتب کر لیا ہے۔ اسے پچھلی حکومت کی طرف سے کی جانے والی بہت سی چیزیں ختم کرنا پڑیں گی۔

سب سے پہلی اور سب سے اہم چیز تو انتخابی دعوئوں کو پورا کرنا ہو گا جن میں عوام کے لیے بجلی کی بلا تعطل فراہمی کو یقینی بنانا سر فہرست ہے۔ پاکستان میں بیروز گاری کے مسئلے نے بہت سے گمراہ نوجوانوں کو انتہا پسند عناصر کا آسان ہدف بنا دیا ہے۔ نواز شریف حکومت کو یہ مسئلہ عوام کی تسلی کے مطابق حل کرنا چاہیے جنہوں نے ان کی پارٹی کو ووٹ دے کر مسند اقتدار پر پہنچایا۔ نواز شریف کو سیاسی جماعتوں اور بیورو کریسی کی حدسے بڑھی ہوئی کرپشن پر بھی قابو پانا ہو گا جو عوام کے لیے سب سے بڑی پریشانی کا باعث ہے۔ ایک اور مشکل کام جو انھیں کرنا پڑے گا وہ سوال انتظامیہ اور ملٹری کے اختیارات میں توازن پیدا کرنا ہے جس نے طویل عرصے سے شکایات کو جنم دیا ہے۔

نواز شریف کو اداروں کو مضبوط بنانا ہو گا اور ان پر عوام کا اعتماد قائم کرنا ہو گا۔ یہی ایک طریقہ ہے جس سے فوج کو مداخلت کا موقع نہیں ملے گا۔ پولنگ نے پاکستان میں بلوغت کے آثار نمایاں کر دیے ہیں۔ ملک کی آزادی کے بعدسے یہ پہلے انتخابات ہیں جو کسی منتخب سیاسی حکومت نے کرائے ہیں۔ اب تک مرکزی کردار اسٹیبلشمنٹ کا رہا ہے جسے منتشر سیاسی منظر نامہ زیادہ مرغوب ہے۔

زرداری ستمبر تک صدر رہیں گے جس کے بعد پی ایم ایل ن کے لیڈر کو ایک ایسا صدر مقرر کرنا پڑے گا جو نواز شریف کے روز مرہ کے کاموں میں دخل اندازی نہ کرے۔ اسی طرح نواز شریف کو عدلیہ کے بارے میں بھی آنکھیں کھلی رکھنا پڑیں گی۔ پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری دسمبر میں ریٹائر ہو رہے ہیں اور نواز شریف کو ان کا بھی مناسب متبادل تلاش کرنا ہو گا۔ نواز شریف کو اپنی حکومت کو مضبوط گرفت میں رکھنا پڑے گا تا کہ وہ ایک ایک کر کے اہم مسائل کو حل کر سکیں۔

اچھی جمہوریت کے لیے اداروں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ پرویز مشرف نے اپنا ذاتی اقتدار قائم رکھنے کی خاطر تمام اداروں کو تباہ کر دیا۔ تاہم اس انتخاب نے ثابت کر دیا ہے کہ جمہوری اقدار کو ایک بار پھر فتح ہوئی ہے۔ عوام کو یقین آ گیا ہے کہ جمہوریت جس نے کہ چند سال قبل پاکستان میں اپنی جڑیں پکڑی تھیں اس کو جڑوں سے اکھاڑا نہیں جا سکا۔ امید کی جا سکتی ہے کہ جمہوریت کی یہ فتح حقیقی ہو گی۔ اور اس کا انحصار اب نواز شریف پر ہے کہ وہ عوام کی توقعات اور اعتماد پر پورا اتریں۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)
Load Next Story