پیپلز پارٹی سندھ میں تنہا حکومت بنائے
ووٹروں کی اکثریت بلکہ یہ سوال کرتی پائی گئی کہ ان پانچ سالوں نے انھیں کیا دیا۔
مجھے ہرگز یہ علم نہیں کہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کو اس بات کی خبر ہے یا نہیں۔ مگر کراچی میں اپنے قیام کے دوران سندھی بولنے والے کچھ لوگوں کی باتیں سن کر احساس ہوا کہ پیپلز پارٹی کے بہت سارے چاہنے والے بڑی سنجیدگی سے یہ محسوس کر رہے ہیں کہ ان کی جماعت کو ان کے صوبے میں ایک بار پھر اکثریت دلوا کر سندھیوں نے بی بی کی لاج رکھ لی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو سے اپنے لوگوں کی دیوانہ وار محبت کا اعتراف کرتے ہوئے وہ تواتر کے ساتھ اس خدشے کا اظہار بھی کرتے پائے گئے کہ اگر ان کی جماعت کا موجودہ چلن برقرار رہا تو آیندہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کا سندھ میں وہی حشر ہو گا جو 2013ء میں اے این پی کا خیبر پختون خوا میں ہوا ہے۔
جن لوگوں سے میری بات چیت ہوئی وہ بنیادی طور پر سیاسی لوگ نہیں ہیں۔ وہ روایتی وڈیرے بھی نہیں۔ اکثریت کا تعلق شہری متوسط طبقے سے تھا۔ وہ سرکاری نوکری کرتے ہیں یا اپنے طور پر مسلسل محنت کرتے ہوئے کامیاب کاروباری ادارے چلا رہے ہیں۔ ان میں سے ایک کافی فیاض آدمی نے حالیہ انتخابات میں قومی اسمبلی کے کم از کم تین امیدواروں کی دامے، درمے، سخنے مدد بھی کی تھی۔ مجھ سے گپ شپ لگانے والے اس بات پر کافی خوش تھے کہ ان انتخابات میں مخدوم امین فہیم، فریال تالپور اور اعجاز جھاکرانی جیسے قد آور لوگوں کو گھر گھر جا کر ووٹوں کی بھیک مانگنا پڑی۔ مگر زیادہ پریشانی انھیں اس بات کی بھی تھی کہ حالیہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کے بہت سارے امیدوار ووٹ خریدنے پر مجبور ہوئے۔
2013ء سے پہلے بھٹو اور بے نظیر کے ساتھ وابستگی کا اظہار ہی کسی امیدوار کی کامیابی کو یقینی بنا دیتا تھا۔ بے دریغ پیسہ خرچ کرنا پیپلز پارٹی کے مخالف امیدواروں کی مجبوری ہوا کرتا تھا۔ یا پھر چند وڈیرے تھے جو پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کے نام پر اپنی خدمات نام نہاد Establishment کو پیش کیا کرتے تھے۔ اس بار آصف علی زرداری نے بڑی ہوشیاری سے ماضی میں اپنی جماعت کے خلاف آلہ کار بننے والوں کی اکثریت کو اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔ لہذا بچت ہو گئی۔ مگر کب تک؟!
جن لوگوں سے میری بات ہوئی سارے کے سارے اس بات پر متفق تھے کہ سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ کا چنائو کرتے وقت پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت واضح طور پر یہ پیغام دے دے گی کہ اس نے حالیہ انتخابات کے نتائج سے کوئی سبق لیا ہے یا نہیں۔ کہنے کو 2008ء سے 2013ء تک سید قائم علی شاہ سندھ کے وزیر اعلیٰ ہوا کرتے تھے۔ مگر یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ فیصلہ سازی کی اصل قوت آصف علی زرداری کے منہ بولے بھائی مظفر اویس ٹپی کے پاس رہی۔2013ء کے انتخابات میں جب یہی ٹپی ٹھٹھہ سے صوبائی اسمبلی کے امیدوار بنے تو لوگوں کی اکثریت نے یہ طے کر لیا کہ انھیں سندھ کا نیا وزیر اعلیٰ بنانے کے لیے انتخابی میدان میں اُتارا گیا ہے۔ میں ان صاحب کو ہرگز نہیں جانتا۔
2005ء میں البتہ ان سے دبئی میں چند ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ ان دنوں آصف علی زرداری جیل سے رہائی کے بعد کچھ دن بی بی اور اپنے بچوں کے ساتھ گزارنے کے بعد لاہور پہنچ کر متحرک ہونا چاہ رہے تھے۔ میرے ساتھ ملاقاتوں میں ٹپی بہت شائستہ، مؤدب اور ملنسار نظر آئے۔ اس کے بعد ان سے کبھی کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے خلاف جو کہانیاں گردش میں ہیں، ساری کی ساری جھوٹی ہوں۔ مگر انگریزی کا ایک محاورہ اصرار کرتا ہے کہ سیاست میں حقیقت سے زیادہ اہم بات یہ ہوتی ہے کہ لوگ کسی متحرک سیاسی شخصیت کے بارے میں کیا تصور کرتے ہیں اور اس بات کے تناظر میں مظفر اویس ٹپی کی شہرت زیادہ خوش گوار نہیں۔ انھیں اگر سندھ کاوزیر اعلیٰ بنایا گیا تو فوری طور پر نہ سہی کچھ عرصہ بعد پیپلز پارٹی میںردعمل ہو سکتا ہے جسے سنبھالنا خاصا مشکل ہو جائے گا۔ پیپلز پارٹی اگر طویل المعیاد سیاست کرنا چاہتی ہے تو اسے اپنے صوبائی اسمبلی کے اراکین کو بڑی دیانت داری اور کشادہ دلی کے ساتھ یہ موقعہ فراہم کرنا ہو گا کہ وہ خوب سوچ بچار کے بعد اپنے وزیر اعلیٰ کا انتخاب کریں۔
وہ کسی ایک نام پر اتفاق کر لیں تو اس وزیر اعلیٰ کو اپنے وزیروں کا چنائو کرنے، انھیں محکمے سونپنے اور بعد ازاں حکومتی امور نبٹانے کے لیے کلی خود مختاری دینا ہو گی۔ اس بات کا فیصلہ بھی نئے اراکین صوبائی اسمبلی اور ان کا بنایا وزیر اعلیٰ کرے کہ اس بار پیپلز پارٹی کو صوبے میں تن تنہا حکومت بنانی ہے یا ایک بار پھر ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر ایک مخلوط حکومت چلانا ہے۔ وسیع تر مفاہمت کی جو سیاست آصف علی زرداری نے اپنائی اس نے یقیناً پاکستان پیپلز پارٹی کو مرکز اور سندھ میں پانچ سال پورے کرنے کا تمام تر مشکلات کے باوجود ایک بہترین موقع فراہم کیا۔ حکومت میں پانچ سال پورے کرنا مگر 2013ء کے انتخابات میں کسی کام نہ آیا۔ ووٹروں کی اکثریت بلکہ یہ سوال کرتی پائی گئی کہ ان پانچ سالوں نے انھیں کیا دیا۔ حکومت برائے حکومت کی یہ پالیسی اب سندھ میں بھی کام نہیں آئے گی۔ ذاتی طور پر میں یہ محسوس کر رہا ہوں کہ شاید پیپلز پارٹی کو اپنے طویل تر مفاد کو ذہن میں رکھتے ہوئے سادہ اکثریت سے تن تنہا سندھ حکومت بنانا چاہیے۔ اگر اس کے سیاسی مخالفین اس امر کو ہضم نہ کر سکیں تو بہت ساری وجوہات کی بناء پر اس حکومت کو کھو دینا بھی شاید گھاٹے کا سودا نہیں ہو گا۔
جن لوگوں سے میری بات چیت ہوئی وہ بنیادی طور پر سیاسی لوگ نہیں ہیں۔ وہ روایتی وڈیرے بھی نہیں۔ اکثریت کا تعلق شہری متوسط طبقے سے تھا۔ وہ سرکاری نوکری کرتے ہیں یا اپنے طور پر مسلسل محنت کرتے ہوئے کامیاب کاروباری ادارے چلا رہے ہیں۔ ان میں سے ایک کافی فیاض آدمی نے حالیہ انتخابات میں قومی اسمبلی کے کم از کم تین امیدواروں کی دامے، درمے، سخنے مدد بھی کی تھی۔ مجھ سے گپ شپ لگانے والے اس بات پر کافی خوش تھے کہ ان انتخابات میں مخدوم امین فہیم، فریال تالپور اور اعجاز جھاکرانی جیسے قد آور لوگوں کو گھر گھر جا کر ووٹوں کی بھیک مانگنا پڑی۔ مگر زیادہ پریشانی انھیں اس بات کی بھی تھی کہ حالیہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کے بہت سارے امیدوار ووٹ خریدنے پر مجبور ہوئے۔
2013ء سے پہلے بھٹو اور بے نظیر کے ساتھ وابستگی کا اظہار ہی کسی امیدوار کی کامیابی کو یقینی بنا دیتا تھا۔ بے دریغ پیسہ خرچ کرنا پیپلز پارٹی کے مخالف امیدواروں کی مجبوری ہوا کرتا تھا۔ یا پھر چند وڈیرے تھے جو پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کے نام پر اپنی خدمات نام نہاد Establishment کو پیش کیا کرتے تھے۔ اس بار آصف علی زرداری نے بڑی ہوشیاری سے ماضی میں اپنی جماعت کے خلاف آلہ کار بننے والوں کی اکثریت کو اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔ لہذا بچت ہو گئی۔ مگر کب تک؟!
جن لوگوں سے میری بات ہوئی سارے کے سارے اس بات پر متفق تھے کہ سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ کا چنائو کرتے وقت پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت واضح طور پر یہ پیغام دے دے گی کہ اس نے حالیہ انتخابات کے نتائج سے کوئی سبق لیا ہے یا نہیں۔ کہنے کو 2008ء سے 2013ء تک سید قائم علی شاہ سندھ کے وزیر اعلیٰ ہوا کرتے تھے۔ مگر یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ فیصلہ سازی کی اصل قوت آصف علی زرداری کے منہ بولے بھائی مظفر اویس ٹپی کے پاس رہی۔2013ء کے انتخابات میں جب یہی ٹپی ٹھٹھہ سے صوبائی اسمبلی کے امیدوار بنے تو لوگوں کی اکثریت نے یہ طے کر لیا کہ انھیں سندھ کا نیا وزیر اعلیٰ بنانے کے لیے انتخابی میدان میں اُتارا گیا ہے۔ میں ان صاحب کو ہرگز نہیں جانتا۔
2005ء میں البتہ ان سے دبئی میں چند ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ ان دنوں آصف علی زرداری جیل سے رہائی کے بعد کچھ دن بی بی اور اپنے بچوں کے ساتھ گزارنے کے بعد لاہور پہنچ کر متحرک ہونا چاہ رہے تھے۔ میرے ساتھ ملاقاتوں میں ٹپی بہت شائستہ، مؤدب اور ملنسار نظر آئے۔ اس کے بعد ان سے کبھی کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے خلاف جو کہانیاں گردش میں ہیں، ساری کی ساری جھوٹی ہوں۔ مگر انگریزی کا ایک محاورہ اصرار کرتا ہے کہ سیاست میں حقیقت سے زیادہ اہم بات یہ ہوتی ہے کہ لوگ کسی متحرک سیاسی شخصیت کے بارے میں کیا تصور کرتے ہیں اور اس بات کے تناظر میں مظفر اویس ٹپی کی شہرت زیادہ خوش گوار نہیں۔ انھیں اگر سندھ کاوزیر اعلیٰ بنایا گیا تو فوری طور پر نہ سہی کچھ عرصہ بعد پیپلز پارٹی میںردعمل ہو سکتا ہے جسے سنبھالنا خاصا مشکل ہو جائے گا۔ پیپلز پارٹی اگر طویل المعیاد سیاست کرنا چاہتی ہے تو اسے اپنے صوبائی اسمبلی کے اراکین کو بڑی دیانت داری اور کشادہ دلی کے ساتھ یہ موقعہ فراہم کرنا ہو گا کہ وہ خوب سوچ بچار کے بعد اپنے وزیر اعلیٰ کا انتخاب کریں۔
وہ کسی ایک نام پر اتفاق کر لیں تو اس وزیر اعلیٰ کو اپنے وزیروں کا چنائو کرنے، انھیں محکمے سونپنے اور بعد ازاں حکومتی امور نبٹانے کے لیے کلی خود مختاری دینا ہو گی۔ اس بات کا فیصلہ بھی نئے اراکین صوبائی اسمبلی اور ان کا بنایا وزیر اعلیٰ کرے کہ اس بار پیپلز پارٹی کو صوبے میں تن تنہا حکومت بنانی ہے یا ایک بار پھر ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر ایک مخلوط حکومت چلانا ہے۔ وسیع تر مفاہمت کی جو سیاست آصف علی زرداری نے اپنائی اس نے یقیناً پاکستان پیپلز پارٹی کو مرکز اور سندھ میں پانچ سال پورے کرنے کا تمام تر مشکلات کے باوجود ایک بہترین موقع فراہم کیا۔ حکومت میں پانچ سال پورے کرنا مگر 2013ء کے انتخابات میں کسی کام نہ آیا۔ ووٹروں کی اکثریت بلکہ یہ سوال کرتی پائی گئی کہ ان پانچ سالوں نے انھیں کیا دیا۔ حکومت برائے حکومت کی یہ پالیسی اب سندھ میں بھی کام نہیں آئے گی۔ ذاتی طور پر میں یہ محسوس کر رہا ہوں کہ شاید پیپلز پارٹی کو اپنے طویل تر مفاد کو ذہن میں رکھتے ہوئے سادہ اکثریت سے تن تنہا سندھ حکومت بنانا چاہیے۔ اگر اس کے سیاسی مخالفین اس امر کو ہضم نہ کر سکیں تو بہت ساری وجوہات کی بناء پر اس حکومت کو کھو دینا بھی شاید گھاٹے کا سودا نہیں ہو گا۔