نواز شریف اور عمران خان کا امتحان
نتائج کے ابتدائی چند دن تو وہ باقاعدہ صدمے اور سوگ کی کیفیت میں رہے۔
الیکشن میں نواز شریف نے جتنی کامیابی حاصل کی وہ شاید خود بھی اس کی توقع نہیں کر رہے ہوں گے۔ نواز شریف اور شہباز شریف جلسوں اور انٹرویوز میں یہ اپیل ضرور کرتے رہے کہ عوام انھیں اتنی سیٹیں ضرور دیں کہ انھیں حکومت کرنے کے لیے بیساکھیوں کی ضرورت نہ پڑے۔ بیساکھیوں پر کھڑی سابق حکومت کے دور میں اس ملک کا جو حشر ہوا، وہ سب کے سامنے ہے۔ جمہوریت کو بہترین انتقام کہنے والوں سے عوام نے انتقام لے لیا۔ مبصرین کا خیال تھا کہ الیکشن میں (ن) لیگ سب سے زیادہ سیٹیں لے گی مگر یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ قریب قریب سادہ اکثریت حاصل کر لے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ پنجاب اسمبلی میں تو دو تہائی سے بھی زیادہ اکثریت لے کر (ن) لیگ نے کمال کر دیا۔ صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن ننھی مُنی ہو گی، جس کے ارکان کسی مسئلے پر شور بھی کریں گے تو وہ اسپیکر تک بھی مشکل سے پہنچے گا۔
دوسری طرف تحریک انصاف ہے، جس کے سپورٹر ابھی تک اپنی ہار برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ نتائج کے ابتدائی چند دن تو وہ باقاعدہ صدمے اور سوگ کی کیفیت میں رہے۔ میرے ایک بینک مینجر دوست دو دن ڈیوٹی پر ہی نہیں جا سکے۔ میرے خیال میں پی ٹی آئی کی کارکردگی بہت اچھی رہی۔ پہلے بھرپور الیکشن میں دوسری بڑی پارٹی بن کر اُبھرنا چھوٹا کارنامہ نہیں ہے، وہ بھی ابتدائی اسٹیج پر۔ جہاں تک دھاندلی کے الزامات کا تعلق ہے تو وہ تقریباً تمام پارٹیوں نے لگائے۔ دھاندلی انفرادی سطح پر ہر الیکشن میں ہوتی ہے، جہاں جس کا زور چلتا ہے وہ وہاں کم نہیں کرتا۔ یہ ابتدا ہے ایک آدھ الیکشن اور ہو گا تو اس دھاندلی کا بھی مکمل خاتمہ ہو جائے گا۔ بہتر یہ ہے فریش اسٹارٹ لیا جائے۔
نواز شریف نے اسپتال جا کر کپتان کی عیادت کر کے انتخابی مہم کی تلخیاں ختم کر دی ہیں۔ عمران خان اقتدار میں اس لیے آنا چاہتے ہیں کہ اس قوم کی بگڑی قسمت سنوار دیں۔ انھیں چاہیے کہ خیبر پختونخوا سے اس کا آغاز کریں' وہاں حکومت بنائیں اور صوبے کو مثالی بنا دیں۔ اگلے الیکشن میں پھر میدان میں اُتریں اور قوم سے مینڈیٹ لے کر اپنا ایجنڈا پورا کر لیں۔ کپتان کو ویسے تو اب ''پاکستانی'' سیاست کی بھی کافی سمجھ آ گئی ہے لیکن میں ان سے کرکٹ کی زبان میں بات کرنا چاہوں گا۔ خان صاحب حالیہ الیکشن کو 1987ء کے ورلڈ کپ کا سیمی فائنل سمجھیں جو آپ لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں سخت مقابلے کے بعد ہار گئے تھے۔ میلبورن کا فائنل ابھی باقی ہے۔ عمران کا امتحان شروع ہو چکا ہے۔ خیبر پختونخوا میں وزارت اعلیٰ کا امیدوار فائنل کرنے میں جو مشکلات پیش آ رہی ہیں ان سے مستقبل کی مشکلات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ خان صاحب یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ وفاقی حکومت اور پنجاب میں وہ اپوزیشن میں ہیں اور یہاں اپوزیشن میں رہ کر پارٹی کو بچانا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔
نواز شریف کی تیسری وزارتِ عظمیٰ اب چند دن کی دوری پر ہے۔ 14 سال بعد اقتدار میں آنا ایسا ہی ہے جیسے عمر قید کاٹ کر آیا جائے۔ میاں صاحب جس سیاستدان کو گلدستہ پیش کر کے آئے ہیں، وہ ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہو گا۔ متوقع وزیر اعظم کا امتحان بھی شروع ہو چکا ہے، انھیں پرفارمنس دینا ہو گی، الیکشن میں ان کی کامیابی اس لیے ممکن ہو سکی کہ شہباز شریف پانچ سالہ دور کے مین آف دی میچ رہے۔ مجھے یاد ہے میں نے 13 فروری کے کالم میں لکھا تھا... ''شہباز شریف نے میٹرو بس کے اجراء سے لاہور کی سیٹیں پھر نواز شریف کی جھولی میں ڈال دی ہیں۔'' یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ نواز شریف پہلے امتحان میں کامیاب رہے ہیں، انھوں نے خیبر پختونخوا میں کپتان کا مینڈیٹ تسلیم کر لیا ہے ورنہ مولانا جیسے زیرک اور گھاگ سیاستدان نے تو دانہ ڈال دیا تھا۔
مولانا کپتان کا مینڈیٹ تسلیم کرنے سے بھی انکار کر چکے ہیں۔ میں انھیں غلط نہیں سمجھتا کیونکہ امریکی افواج کا افغانستان سے انخلا ہونے والا ہے۔ اس موقع پر صوبائی حکومت کی بہت اہمیت ہو گی۔ عین ممکن تھا مولانا کی حکومت ہوتی تو اس پر امریکی نوازشات کی بارش ہو جاتی۔ مولانا کو ایک تو صوبائی حکومت نہیں ملی' دوسرا جھٹکا یہ بھی لگا ہے کہ جماعت اسلامی صوبائی حکومت کا حصہ بننے جا رہی ہے۔ مولانا اب کیا کریں؟ احتجاج ہی واحد راستہ ہے۔ تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کا کارڈ بھی اب صرف مولانا کے ہاتھ میں نہیں رہا۔ نواز شریف اور عمران یہ کام آسانی سے کر سکتے ہیں۔
میاں صاحب کو لوڈ شیڈنگ اور تباہ حال معیشت سمیت لاتعداد اندرونی اور بیرونی چیلنجز درپیش ہیں، ان کی تفصیلات آپ دیکھ، سن اور پڑھ چکے ہیں۔ عالمی میڈیا کو میاں صاحب کے حوالے سے کوئی تشویش ہے تو وہ ان کے فوج کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ہے۔ میاں صاحب اس کی وضاحت کر چکے ہیں کہ وہ صرف پرویز مشرف اور ان کے چند ساتھی جرنیلوں کو تختہ الٹنے کا ذمے دار سمجھتے ہیں۔ فوج ان کی اپنی ہے اور اس کے ساتھ تعلقات اچھے ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے فوج اس ملک کی اہم سٹیک ہولڈر ہے۔ اس فوج کی اہمیت سے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے جس کے بغیر الیکشن کا انعقاد بھی ممکن نہیں۔ آئین میں یہ طے ہے کہ فوج منتخب حکومت کے ماتحت ہوتی ہے، کیا یہ ضروری نہیں کہ کوئی ایسا پلیٹ فارم بنایا جائے جہاں دہشت گردی اور خارجہ پالیسی جیسے اہم امور پر مشترکہ فیصلے کیے جائیں۔
پیپلز پارٹی کی حکومت میں کیری لوگر بل اور میمو گیٹ اسکینڈل کے ایشو پر سویلین حکومت اور فوج کے اختلافات سے دنیا میں اچھا پیغام نہیں گیا تھا۔ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے نیشنل سیکیورٹی کونسل کی بحالی بُرا آئیڈیا نہیںہے۔ ضیاء الحق کے دور میں بھی نیشنل سیکیورٹی کونسل بنی تھی لیکن فعال کردار ادا کرنے میں ناکام رہی۔ 1998ء میں آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو محض نیشنل سیکیورٹی کونسل کی تجویز دینے پر مستعفی ہونا پڑا تھا۔ یہ نام پسند نہ ہو تو اس کا کوئی اور نام بھی رکھا جا سکتا ہے۔ صدر فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹو حکومت کو گھر بھجوا کر ملک معراج خالد کی نگراں حکومت کے دور میں کونسل آن ڈیفنس اینڈ نیشنل سیکیورٹی (CDNS)بنائی تھی جس کا غالباً کوئی اجلاس نہیں ہو سکا تھا۔
پرویز مشرف نے 2004ء میں سیکیورٹی کونسل بنائی اور گذشتہ دور حکومت کے آغاز تک یہ قائم رہی۔ اب اگر اسے قابل عمل سمجھا جائے تو صدرکے بجائے وزیر اعظم اس کے سربراہ ہو سکتے ہیں، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، آرمی، ایئر فورس اور نیوی کے سربراہان، چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی، وزیر دفاع اور وزیر داخلہ اس کے ارکان ہوں۔ ضروری سمجھیں تو اپوزیشن لیڈر کو بھی شامل کر لیں۔ اس پلیٹ فارم کا یہ فائدہ ہو گا کہ مشترکہ فیصلے کیے جاسکیں گے۔ کابینہ کی دفاعی کمیٹی اتنا موثر کردار ادا نہیں کر سکتی۔ اور سچی بات ہے مضبوط وزیر دفاع کا تقرر ابھی ممکن نہیں۔
متحرک اور آزاد عدلیہ کے حوالے سے حکومت کے لیے ممکنہ مسائل پر بھی عالمی میڈیا قیاس آرائیاں کر رہا ہے لیکن میرا خیال ہے وہاں سے کوئی پرابلم پیدا نہیں ہو گی۔ اسٹیبلشمنٹ بھی بظاہر مستحکم حکومت کے حق میں لگتی ہے۔ عمران خان فرینڈلی اپوزیشن نہیں کرینگے لیکن بہتر ہے وہ مثبت اپوزیشن کریں۔ حکومت کے ہر اچھے کام کی حمایت اور ہر غلط کام پر اس کی سرزنش، کامیاب اور مہذب جمہوریت کا یہی چلن ہے۔ نواز شریف نے کپتان کا مینڈیٹ تسلیم کر لیا بہتر ہے وہ بھی ان کا مینڈیٹ تسلیم کر لیں۔ سیاست میں مفاہمت بھی ضروری ہے لیکن پلیز... گزشتہ 5 سال والی مفاہمت نہیں... پلیز نہیں۔ عوام میں مزید برداشت کی ہمت نہیں ہے۔
دوسری طرف تحریک انصاف ہے، جس کے سپورٹر ابھی تک اپنی ہار برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ نتائج کے ابتدائی چند دن تو وہ باقاعدہ صدمے اور سوگ کی کیفیت میں رہے۔ میرے ایک بینک مینجر دوست دو دن ڈیوٹی پر ہی نہیں جا سکے۔ میرے خیال میں پی ٹی آئی کی کارکردگی بہت اچھی رہی۔ پہلے بھرپور الیکشن میں دوسری بڑی پارٹی بن کر اُبھرنا چھوٹا کارنامہ نہیں ہے، وہ بھی ابتدائی اسٹیج پر۔ جہاں تک دھاندلی کے الزامات کا تعلق ہے تو وہ تقریباً تمام پارٹیوں نے لگائے۔ دھاندلی انفرادی سطح پر ہر الیکشن میں ہوتی ہے، جہاں جس کا زور چلتا ہے وہ وہاں کم نہیں کرتا۔ یہ ابتدا ہے ایک آدھ الیکشن اور ہو گا تو اس دھاندلی کا بھی مکمل خاتمہ ہو جائے گا۔ بہتر یہ ہے فریش اسٹارٹ لیا جائے۔
نواز شریف نے اسپتال جا کر کپتان کی عیادت کر کے انتخابی مہم کی تلخیاں ختم کر دی ہیں۔ عمران خان اقتدار میں اس لیے آنا چاہتے ہیں کہ اس قوم کی بگڑی قسمت سنوار دیں۔ انھیں چاہیے کہ خیبر پختونخوا سے اس کا آغاز کریں' وہاں حکومت بنائیں اور صوبے کو مثالی بنا دیں۔ اگلے الیکشن میں پھر میدان میں اُتریں اور قوم سے مینڈیٹ لے کر اپنا ایجنڈا پورا کر لیں۔ کپتان کو ویسے تو اب ''پاکستانی'' سیاست کی بھی کافی سمجھ آ گئی ہے لیکن میں ان سے کرکٹ کی زبان میں بات کرنا چاہوں گا۔ خان صاحب حالیہ الیکشن کو 1987ء کے ورلڈ کپ کا سیمی فائنل سمجھیں جو آپ لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں سخت مقابلے کے بعد ہار گئے تھے۔ میلبورن کا فائنل ابھی باقی ہے۔ عمران کا امتحان شروع ہو چکا ہے۔ خیبر پختونخوا میں وزارت اعلیٰ کا امیدوار فائنل کرنے میں جو مشکلات پیش آ رہی ہیں ان سے مستقبل کی مشکلات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ خان صاحب یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ وفاقی حکومت اور پنجاب میں وہ اپوزیشن میں ہیں اور یہاں اپوزیشن میں رہ کر پارٹی کو بچانا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔
نواز شریف کی تیسری وزارتِ عظمیٰ اب چند دن کی دوری پر ہے۔ 14 سال بعد اقتدار میں آنا ایسا ہی ہے جیسے عمر قید کاٹ کر آیا جائے۔ میاں صاحب جس سیاستدان کو گلدستہ پیش کر کے آئے ہیں، وہ ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہو گا۔ متوقع وزیر اعظم کا امتحان بھی شروع ہو چکا ہے، انھیں پرفارمنس دینا ہو گی، الیکشن میں ان کی کامیابی اس لیے ممکن ہو سکی کہ شہباز شریف پانچ سالہ دور کے مین آف دی میچ رہے۔ مجھے یاد ہے میں نے 13 فروری کے کالم میں لکھا تھا... ''شہباز شریف نے میٹرو بس کے اجراء سے لاہور کی سیٹیں پھر نواز شریف کی جھولی میں ڈال دی ہیں۔'' یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ نواز شریف پہلے امتحان میں کامیاب رہے ہیں، انھوں نے خیبر پختونخوا میں کپتان کا مینڈیٹ تسلیم کر لیا ہے ورنہ مولانا جیسے زیرک اور گھاگ سیاستدان نے تو دانہ ڈال دیا تھا۔
مولانا کپتان کا مینڈیٹ تسلیم کرنے سے بھی انکار کر چکے ہیں۔ میں انھیں غلط نہیں سمجھتا کیونکہ امریکی افواج کا افغانستان سے انخلا ہونے والا ہے۔ اس موقع پر صوبائی حکومت کی بہت اہمیت ہو گی۔ عین ممکن تھا مولانا کی حکومت ہوتی تو اس پر امریکی نوازشات کی بارش ہو جاتی۔ مولانا کو ایک تو صوبائی حکومت نہیں ملی' دوسرا جھٹکا یہ بھی لگا ہے کہ جماعت اسلامی صوبائی حکومت کا حصہ بننے جا رہی ہے۔ مولانا اب کیا کریں؟ احتجاج ہی واحد راستہ ہے۔ تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کا کارڈ بھی اب صرف مولانا کے ہاتھ میں نہیں رہا۔ نواز شریف اور عمران یہ کام آسانی سے کر سکتے ہیں۔
میاں صاحب کو لوڈ شیڈنگ اور تباہ حال معیشت سمیت لاتعداد اندرونی اور بیرونی چیلنجز درپیش ہیں، ان کی تفصیلات آپ دیکھ، سن اور پڑھ چکے ہیں۔ عالمی میڈیا کو میاں صاحب کے حوالے سے کوئی تشویش ہے تو وہ ان کے فوج کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ہے۔ میاں صاحب اس کی وضاحت کر چکے ہیں کہ وہ صرف پرویز مشرف اور ان کے چند ساتھی جرنیلوں کو تختہ الٹنے کا ذمے دار سمجھتے ہیں۔ فوج ان کی اپنی ہے اور اس کے ساتھ تعلقات اچھے ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے فوج اس ملک کی اہم سٹیک ہولڈر ہے۔ اس فوج کی اہمیت سے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے جس کے بغیر الیکشن کا انعقاد بھی ممکن نہیں۔ آئین میں یہ طے ہے کہ فوج منتخب حکومت کے ماتحت ہوتی ہے، کیا یہ ضروری نہیں کہ کوئی ایسا پلیٹ فارم بنایا جائے جہاں دہشت گردی اور خارجہ پالیسی جیسے اہم امور پر مشترکہ فیصلے کیے جائیں۔
پیپلز پارٹی کی حکومت میں کیری لوگر بل اور میمو گیٹ اسکینڈل کے ایشو پر سویلین حکومت اور فوج کے اختلافات سے دنیا میں اچھا پیغام نہیں گیا تھا۔ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے نیشنل سیکیورٹی کونسل کی بحالی بُرا آئیڈیا نہیںہے۔ ضیاء الحق کے دور میں بھی نیشنل سیکیورٹی کونسل بنی تھی لیکن فعال کردار ادا کرنے میں ناکام رہی۔ 1998ء میں آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو محض نیشنل سیکیورٹی کونسل کی تجویز دینے پر مستعفی ہونا پڑا تھا۔ یہ نام پسند نہ ہو تو اس کا کوئی اور نام بھی رکھا جا سکتا ہے۔ صدر فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹو حکومت کو گھر بھجوا کر ملک معراج خالد کی نگراں حکومت کے دور میں کونسل آن ڈیفنس اینڈ نیشنل سیکیورٹی (CDNS)بنائی تھی جس کا غالباً کوئی اجلاس نہیں ہو سکا تھا۔
پرویز مشرف نے 2004ء میں سیکیورٹی کونسل بنائی اور گذشتہ دور حکومت کے آغاز تک یہ قائم رہی۔ اب اگر اسے قابل عمل سمجھا جائے تو صدرکے بجائے وزیر اعظم اس کے سربراہ ہو سکتے ہیں، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، آرمی، ایئر فورس اور نیوی کے سربراہان، چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی، وزیر دفاع اور وزیر داخلہ اس کے ارکان ہوں۔ ضروری سمجھیں تو اپوزیشن لیڈر کو بھی شامل کر لیں۔ اس پلیٹ فارم کا یہ فائدہ ہو گا کہ مشترکہ فیصلے کیے جاسکیں گے۔ کابینہ کی دفاعی کمیٹی اتنا موثر کردار ادا نہیں کر سکتی۔ اور سچی بات ہے مضبوط وزیر دفاع کا تقرر ابھی ممکن نہیں۔
متحرک اور آزاد عدلیہ کے حوالے سے حکومت کے لیے ممکنہ مسائل پر بھی عالمی میڈیا قیاس آرائیاں کر رہا ہے لیکن میرا خیال ہے وہاں سے کوئی پرابلم پیدا نہیں ہو گی۔ اسٹیبلشمنٹ بھی بظاہر مستحکم حکومت کے حق میں لگتی ہے۔ عمران خان فرینڈلی اپوزیشن نہیں کرینگے لیکن بہتر ہے وہ مثبت اپوزیشن کریں۔ حکومت کے ہر اچھے کام کی حمایت اور ہر غلط کام پر اس کی سرزنش، کامیاب اور مہذب جمہوریت کا یہی چلن ہے۔ نواز شریف نے کپتان کا مینڈیٹ تسلیم کر لیا بہتر ہے وہ بھی ان کا مینڈیٹ تسلیم کر لیں۔ سیاست میں مفاہمت بھی ضروری ہے لیکن پلیز... گزشتہ 5 سال والی مفاہمت نہیں... پلیز نہیں۔ عوام میں مزید برداشت کی ہمت نہیں ہے۔