الیکشن 2013ء ایک طائرانہ جائزہ…

11 مئی کے انتخابات میں عوام نے دہشت گردی کے خطرات کے باوجود جس طرح انتخابی عمل میں بھرپور حصہ لیا.

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تحسین کی جانی چاہیے کہ جس نے بے جا تنقید، الزامات اور بے شمار سازشوں کے باوجود اپنے آئینی فرائض کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہیں برتی اور ملک میں ایک ایسا الیکشن منعقد کرایا کہ جس پر عوام نے اپنے غیر متزلزل اعتماد کا بھرپور اظہار کیا۔ اس امرکا واضح ثبوت یہ ہے کہ موجودہ انتخابات میں ملکی تاریخ میں پہلی بار ووٹرز کا ٹرن آئوٹ 60 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔ الیکشن کمیشن کو متنازع بناکر انتخابی عمل میں رخنہ اندازی کے خواہش مند عناصر نہ الیکشن کے انعقاد سے پہلے اپنے عزائم میں کامیاب ہوسکے اور نہ اب الیکشن کے بعدنتائج پر ہنگامہ آرائی کرکے اپنے ارادوں میں کامیاب ہوسکیں گے کیونکہ ان کا اعتراض صرف ان نشستوں تک محدود ہے جن پر وہ ناکام ہوئے ہیں۔

انھوں نے انتخابی عمل کے دوران اپنے کسی قسم کے اعتراض کا اظہار نہیں کیا لیکن اپنے خلاف نتیجہ آتے ہی انھوں نے دھاندلی کے الزامات عائد کرکے الیکشن کمیشن پر بھی طرح طرح کے الزامات لگانا شروع کردیے ہیں۔ عوام ایسے لوگوں کو مسترد کردیں گے کیونکہ اب ملک میں جمہوریت کے علاوہ کسی اور طرز فکر یا انداز سیاست کی کوئی گنجائش نہیں رہی ہے۔ جوعناصر جمہوری رویے کے خلاف طرز عمل اختیار کریں گے وہ خود تنہائی کا شکار ہوتے چلے جائیں گے اور وہی سیاسی قوتیں آگے بڑھیں گی جو جمہوری طرز عمل اختیار کریں گی۔

''جمہوریت بہترین انتقام'' ہے۔ 11 مئی کے انتخابات نے اس سوچ وفکر پر مہر تصدیق ثبت کرکے اسے درست قرار دے دیا ہے۔ عوام نے جمہوری عمل کے ذریعے ان سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کو شکست سے دوچار کیا جن کی کارکردگی سے وہ مطمئن نہیں تھے۔ لیکن جن کی کارکردگی سے وہ کلی یا جزوی طور پر مطمئن تھے انھیں اپنی حمایت اور تائید سے نوازا ہے تاکہ وہ ایک مرتبہ پھر ملک و قوم کی خدمت میں اپنا مؤثر کردار ادا کریں۔


11 مئی کے انتخابات میں عوام نے دہشت گردی کے خطرات کے باوجود جس طرح انتخابی عمل میں بھرپور حصہ لیا اوراس روز ملک بھر میں شدید گرمی کی پرواہ کیے بغیر لوگوں نے لمبی لمبی قطاروں میں گھنٹوں کھڑے ہوکر اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ۔ اس کے ساتھ ایک اور بہت ہی مثبت طرز عمل یہ دیکھنے میں آیا کہ ملک کے خوشحال علاقوں کے عوام کہ جہاں پہلے کبھی انتخابات کے موقعے پر اتنی گہما گہمی نہیں دیکھی گئی تھی وہاں کے لوگوں نے بھی اس بار انتخابی عمل میں ملک کے دیگر علاقوں کے عوام کی طرح بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ اس صورتحال سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ اب عوام نے اس حقیقت کو تسلیم کرلیا ہے کہ تبدیلی کا ہر راستہ فقط جمہوریت کی طرف سے ہی ہوکر گزرتا ہے۔ جمہوریت کے بغیر اپنی خواہش اور مرضی کی حکومت مسلط کرنے کے دن گزرچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس بار ملک بھر میں ووٹرزکا ٹرن آئون ماضی کے تمام انتخابات سے بڑھ کر رہا جو عوام کی جانب سے انتخابی عمل پر اعتماد کی دلیل اور الیکشن کمیشن پر اپنے مکمل اطمینان کا اظہار ہے۔

الیکشن 2013ء کا انعقاد جمہوریت کے مخالفین کی فکری شکست بھی ثابت ہوا جمہوری نظام کے مخالفین نے الیکشن سے کئی ماہ قبل ہی الیکشن کے انعقاد کے خلاف سازشوںکا آغاز کردیا تھا اور یہ سلسلہ آج تک کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ آج بھی کچھ لوگ الیکشن کے نتائج پر اپنے تحفظات کا اظہار کرکے اسے متنازعہ بنا دینا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب دہشت گردوں نے مختلف نوعیت کی دہشت گردی کی کارروائیاں بھی کیں اور الیکشن کے روز دہشت گردی کی بڑی کارروائیوں کی دھمکیاں دیں تاکہ عوام گھروں میں محصور ہوجائیں اور ٹرن آئوٹ اتنا کم ہو کہ لوگ ان انتخابات کو تسلیم کرنے سے انکار کردیں۔ لیکن عوام نے اپنے شعور کا مظاہرہ کیا اور گھروں سے باہر نکل کر آئینی فرض ادا کیا۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ عوام نے اب تک جمہوری نظام کے مخالفین کی تمام سازشوں کو ناکام بنایا ہے اور وہ اس مرحلے پر انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرنے کا نعرہ لگانے والوں کو بھی مسترد کردیں گے۔

الیکشن 2013ء کا اس طور اگر جائزہ لیا جائے کہ آخر ووٹرز نے کس معیار کے مطابق جماعتوں کو ووٹ دیے تو کہا جاسکتا ہے کہ فیصلہ کرتے وقت ووٹر نے جماعتوں کے سیاسی طرز عمل اور کارکردگی دونوں کو پیش نظر رکھا۔ میاںمحمد نواز شریف نے جمہوریت کے استحکام کے لیے پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف کوئی مہم جوئی نہ کی اور فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ برداشت کیا۔ انتخابی نتائج سے معلوم ہوا کہ قوم نے میاں محمد نواز شریف کے سنجیدہ طرز سیاست کوزبردست پذیرائی بخشی اور اسی طرز سیاست کو سراہتے ہوئے انھیں اپنی بھرپو تائید سے نوازا جب کہ مسلم لیگ (ن) کی واضح کامیابی میں دوسراغالب عنصر پنجاب کی صوبائی حکومت کی مثالی کارکردگی تھی۔ 11 مئی کے انتخابی نتائج کا جائزہ لیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ اس مرتبہ قوم نے بھرپورشعور کا مظاہرہ کیا اور اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے وقت کارکردگی کو بھی پیش نظر رکھا۔ امید کی جاسکتی ہے کہ اب انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے صرف ایک ہی پیمانہ باقی رہ جائے گا اور وہ ہوگا جماعتوں کی کارکردگی۔ جو جماعت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرکے عوام کے معیار پر پورا اترے گی۔ وہی جماعت کامیاب وکامران ہوگی اور جو ایسا نہ کرسکے گی تاریخ کا کوڑا دان اس کا مقدر ہوگا۔
Load Next Story