انتخابات کے بعد کا بلوچستان
جہاں تک بڑے سیاسی برج الٹنے کی بات ہے، تو بلوچستان میں اس کے امکانات اب تک نظر نہیں آتے۔
تمام تر خدشوں ، اندیشوں، دعوؤں اور امکانات کے ساتھ بالآخر بلوچستان میں بھی انتخابی عمل اختتام کو پہنچا۔ حسبِ معمول ملکی میڈیا کی توجہ اس طرف ذرا کم ہی رہی۔ جیسے یہاں کے عوام کی اکثریت کو ووٹ دینے میں کوئی دلچسپی نہ تھی، ایسے ہی لگتا ہے کہ ملک کے دیگر عوام کو یہاں کے انتخابی عمل میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ بلوچستان میں ووٹنگ کا مجموعی ٹرن آئوٹ تیس فیصد سے آگے نہ جا سکا جب کہ بلوچ علاقوں میں یہ سرکاری ذرایع کے مطابق دس فیصد رہا۔ مقامی ذرایع اسے تین فیصد بتاتے ہیں۔ گو کہ ہر دو دعوئوں میں مبالغہ آرائی کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا لیکن حقیقی شرح کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جہاں کراچی میں ایک طرف ایک امیدوار دو لاکھ ووٹ لے کر سب سے زیادہ ووٹ لینے کا ریکارڈ قائم کر رہا تھا، وہیں بلوچستان کے حلقہ پی بی اکتالیس آواران میں ایک امیدوار محض 544ووٹ لے کر کامیاب رہا اور صوبائی اسمبلی کا ممبر منتخب ہوا۔
قوم پرست قوتوں کے اتحاد بی این ایف (بلوچ نیشنل فرنٹ ) کی جانب سے دی گئی تین روزہ شٹر ڈائون اور پہیہ جام ہڑتال مستونگ سے لے کر قلات، خضدار، خاران، آواران، پنجگور ، اور مکران بھر میں مؤثر رہی۔ یہاں حقیقی ٹرن آئوٹ پانچ فیصد سے آگے نہ جا سکا۔ گو کہ مزاحمتی تنظیموں کی جانب سے پولنگ اسٹیشنوں کو اڑانے کی دھمکیوں کے باعث خوف و ہراس کی صورت حال بھی رہی لیکن ان دھمکیوں پر عمل در آمد نہ ہو سکا، ماسوائے نصیرآباد میں ایک آزاد امیدوار کے قافلے پر حملے کے نتیجے میں کچھ افراد زخمی ہوئے۔ حملے نہ ہونے کا سبب ایک طرف جہاں سیکیورٹی کے خاطر خواہ اقدامات بتائے گئے ، وہیں دوسرا نقطہ نظر یہ بھی تھا کہ مزاحمتی تنظیموں کی دھمکیوں اور اپیلوں کے نتیجے میں ٹرن آئوٹ نہ ہونے کے برابر ہوگیا، جس سے ان کا مطلوبہ مقصد حاصل ہو گیا، اس لیے انھوں نے مزید کوئی کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ مسلح تنظیموں کی دھمکیوں اور اپیلوں کے نتائج کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک طرف گیارہ حساس اضلاع میں اساتذہ نے الیکشن ڈیوٹی سے انکارکر دیا تو وہیں پنجگور میں متبادل عملے نے بھی آنے سے انکار کر دیا، جس کے باعث کئی پولنگ اسٹیشن قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے اہلکاروں کو سنبھالنے پڑے۔
اس سب کے بعد پولنگ نتائج کو چیلنج کرنے سمیت دھاندلیوں کے الزامات کا روایتی سلسلہ بھی جاری رہا۔ اس معاملے میں اختر مینگل کی سیاسی جماعت بی این پی نمایاں رہی۔ جنہوں نے الزام لگایا کہ نصف درجن سے زائد پولنگ اسٹیشنز پر ان کے جیتے ہوئے امیدواروں کے نتائج روک کر انھیں رات کی تاریکی میں تبدیل کر دیا گیا۔ بی این پی کے ان الزامات کو بالفرض اگر درست مان لیا جائے ، تب بھی وہ بلوچستان کی نمایندہ جماعت کے طور پر سامنے نہیں آتی۔ اس کی نسبت مڈل کلاس کی نمایندہ کہلائی جانے والی نیشنل پارٹی اور پشتون قوم پرست جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کہیں زیادہ عوامی مینڈیٹ کے ساتھ سامنے آئی ہیں۔ بی این پی اس وقت ایک بند گلی میں جا چکی ہے۔ دھاندلیوں کے الزامات اپنی جگہ، لیکن اس جماعت اور اس کی قیادت کو اپنی سیاسی غلطیوں پر بھی غورکرنے کی ضرورت ہے۔
اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد پارلیمنٹ سے علیحدگی اختیار کرنے کا نعرہ لگانے والی یہ جماعت اگلے چھ، سات برس تک گومگوں کیفیت کا شکار رہی۔ ایک سیاسی اور پارلیمانی جماعت ہونے کے باوجود محض علیحدگی پسند تنظیموں کی دھمکیوں میں آکر اس نے 2008ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔ نہ صرف یہ بلکہ اس کی مرکزی قیادت نے خود ساختہ جلاوطنی اختیارکر لی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عوام سے پارٹی کا رابطہ ختم ہوکر رہ گیا۔ حالیہ انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ بھی انھوں نے عین آخری لمحوں میں کیا، جس کے باعث دیگر جماعتوں سے ان کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بیل بھی منڈھے نہ چڑھ سکی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں بھی اس جماعت کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔چونکہ دیگر جماعتیں نیشنل پارٹی، پشتونخوا میپ، ن لیگ او ر جے یو آئی اچھی خاصی نشستوں کے ساتھ جیت چکی ہیں، اس لیے وہ بی این پی کے احتجاج میں بھی شریک نہیں۔ بلوچستان میں بی این پی کا مستقبل ،اے این پی کے حال سے ملتا جلتا نظر آتا ہے۔
جہاں تک بڑے سیاسی برج الٹنے کی بات ہے، تو بلوچستان میں اس کے امکانات اب تک نظر نہیں آتے۔ سردار یار محمد رند اور ان کے بیٹے چونکہ نااہل قرار پا چکے تھے، اس لیے ان کے حمایت یافتہ ان کے بھانجے نے صوبائی اسمبلی کی ان کی آبائی نشست بچا لی۔ بلوچ علاقوں میں جہاں بی این پی عوامی کا راج تھا، اب وہاں حسبِ توقع نیشنل پارٹی نے جگہ لے لی ہے۔ باقی تمام موروثی نشستیں تقریباََ محفوظ رہی ہیں۔ نصیرآباد میں البتہ پیپلز پارٹی کے سینئرجیالے صادق عمرانی کو جاموٹ قومی موومنٹ کی نوجوان قیادت کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ گو کہ یہ کسی سردار کی نہ سہی، لیکن مڈل کلاس کی لوئر کلاس کے ہاتھوں شکست ہے۔ جاموٹ قبائل پہلی بار اتحاد کامظاہرہ کرتے ہوئے نچلے طبقے کی قیادت کو سامنے لائے اور بلاشبہ ایک قابلِ رشک کامیابی حاصل کی ہے۔ اسی علاقے میں قومی اسمبلی کی نشست پر سابق وزیراعظم ظفراللہ جمالی کی جیت کے معاملے میں ان کے سیاسی حریف کھوسہ قبائل کے سیکڑوں افراد کا احتجاج تادم تحریر جاری ہے اور انتخابات کے اَسی گھنٹے گزر جانے کے بعد بھی الیکشن کمیشن نے اس حلقے کا غیرحتمی نتیجہ بھی اب تک جاری نہیں کیا۔
ایک بڑی حقیقت یہ ہے کہ موجودہ انتخابات کے نتیجے میں بلوچستان میں پشتونخوا میپ سب سے بڑی سیاسی قوت بن کر سامنے آئی ہے۔ گو کہ ان پر بھی الزامات ہیں ، لیکن بہرحال اس وقت وہ ایک نمایاں سیاسی جماعت کے طور پر اسمبلی میں موجود ہے۔ سن ستر میں ترقی پسند قوم دوست قوتوں پر مشتمل نیپ کے بعد پہلی بار صوبے میں کسی جماعت کو اس قدر واضح اکثریت حاصل ہوئی ہے۔ یہ چاہیں تو نظریاتی مخالف لیکن پشتون قوم پرست جی یو آئی کے ممبران کو ملا کر ،بلوچ قوتوں کے بغیر بھی صوبے میں مکمل پشتون حکومت قائم کر سکتے ہیں۔ اَسی کی دَہائی سے لے کرسیاسی قوتوں نے بلوچستان میں سیاسی رواداری قائم کرنے کے لیے سندھ کی طرز پر یہ طے کیا تھا کہ صوبے کا گورنر پشتون اور وزیراعلیٰ بلوچ ہوگا۔
ذوالفقار مگسی کی گورنر شپ پہ اس لیے کئی بار اعتراضات بھی ہوئے۔ اب پشتون قوم پرست اتنی قوت میں ہیں کہ چاہیں تو اپنا وزیراعلیٰ لا سکتے ہیں۔ دوسری اکثریت ن لیگ کے پاس ہے، مرکزمیں حکومت سازی کے بعد ن لیگ کی خواہش ہو گی کہ وہ پنجاب سمیت دوسرے صوبے میں بھی اپنی حکومت قائم کرے۔ اس صورت میں ن لیگ اپنا وزیر اعلیٰ منتخب کروا کے اہم وزارتیں قوم پرستوں میں تقسیم کر سکتی ہے ۔ دوسری صورت میں قوم پرست قوتوں کو ہی حکومت سازی کی دعوت دی جا سکتی ہے۔ صورت حال خواہ کچھ بھی ہو، بلوچستان میں آیندہ جو بھی حکومت قائم ہو گی، وہ (ووٹ کی شرح کے مطابق)کم از کم دس فیصد عوام کی نمایندہ ضرور ہو گی۔اس پر غیر جمہوری ہونے کا ٹھپہ نہ ہوگا۔ لیکن یہ پارلیمنٹ اس کے لیے پھولوں کا بستر نہیں بلکہ کانٹوں کی سیج ثابت ہو گی۔ آنے والی حکومت بلوچستان کے سیاسی مسائل کے حل میں کس قدر سنجیدہ ہوگی اورآیندہ اسمبلی، بلوچستان کے مستقبل کو کس رُخ پہ لے جائے گی، اس کا اندازہ حکومت سازی کے مراحل کے دوران ان جماعتوں کے سیاسی ظرف کے مظاہرے سے ہی ہوجائے گا۔
قوم پرست قوتوں کے اتحاد بی این ایف (بلوچ نیشنل فرنٹ ) کی جانب سے دی گئی تین روزہ شٹر ڈائون اور پہیہ جام ہڑتال مستونگ سے لے کر قلات، خضدار، خاران، آواران، پنجگور ، اور مکران بھر میں مؤثر رہی۔ یہاں حقیقی ٹرن آئوٹ پانچ فیصد سے آگے نہ جا سکا۔ گو کہ مزاحمتی تنظیموں کی جانب سے پولنگ اسٹیشنوں کو اڑانے کی دھمکیوں کے باعث خوف و ہراس کی صورت حال بھی رہی لیکن ان دھمکیوں پر عمل در آمد نہ ہو سکا، ماسوائے نصیرآباد میں ایک آزاد امیدوار کے قافلے پر حملے کے نتیجے میں کچھ افراد زخمی ہوئے۔ حملے نہ ہونے کا سبب ایک طرف جہاں سیکیورٹی کے خاطر خواہ اقدامات بتائے گئے ، وہیں دوسرا نقطہ نظر یہ بھی تھا کہ مزاحمتی تنظیموں کی دھمکیوں اور اپیلوں کے نتیجے میں ٹرن آئوٹ نہ ہونے کے برابر ہوگیا، جس سے ان کا مطلوبہ مقصد حاصل ہو گیا، اس لیے انھوں نے مزید کوئی کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ مسلح تنظیموں کی دھمکیوں اور اپیلوں کے نتائج کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک طرف گیارہ حساس اضلاع میں اساتذہ نے الیکشن ڈیوٹی سے انکارکر دیا تو وہیں پنجگور میں متبادل عملے نے بھی آنے سے انکار کر دیا، جس کے باعث کئی پولنگ اسٹیشن قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے اہلکاروں کو سنبھالنے پڑے۔
اس سب کے بعد پولنگ نتائج کو چیلنج کرنے سمیت دھاندلیوں کے الزامات کا روایتی سلسلہ بھی جاری رہا۔ اس معاملے میں اختر مینگل کی سیاسی جماعت بی این پی نمایاں رہی۔ جنہوں نے الزام لگایا کہ نصف درجن سے زائد پولنگ اسٹیشنز پر ان کے جیتے ہوئے امیدواروں کے نتائج روک کر انھیں رات کی تاریکی میں تبدیل کر دیا گیا۔ بی این پی کے ان الزامات کو بالفرض اگر درست مان لیا جائے ، تب بھی وہ بلوچستان کی نمایندہ جماعت کے طور پر سامنے نہیں آتی۔ اس کی نسبت مڈل کلاس کی نمایندہ کہلائی جانے والی نیشنل پارٹی اور پشتون قوم پرست جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کہیں زیادہ عوامی مینڈیٹ کے ساتھ سامنے آئی ہیں۔ بی این پی اس وقت ایک بند گلی میں جا چکی ہے۔ دھاندلیوں کے الزامات اپنی جگہ، لیکن اس جماعت اور اس کی قیادت کو اپنی سیاسی غلطیوں پر بھی غورکرنے کی ضرورت ہے۔
اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد پارلیمنٹ سے علیحدگی اختیار کرنے کا نعرہ لگانے والی یہ جماعت اگلے چھ، سات برس تک گومگوں کیفیت کا شکار رہی۔ ایک سیاسی اور پارلیمانی جماعت ہونے کے باوجود محض علیحدگی پسند تنظیموں کی دھمکیوں میں آکر اس نے 2008ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔ نہ صرف یہ بلکہ اس کی مرکزی قیادت نے خود ساختہ جلاوطنی اختیارکر لی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عوام سے پارٹی کا رابطہ ختم ہوکر رہ گیا۔ حالیہ انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ بھی انھوں نے عین آخری لمحوں میں کیا، جس کے باعث دیگر جماعتوں سے ان کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بیل بھی منڈھے نہ چڑھ سکی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں بھی اس جماعت کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔چونکہ دیگر جماعتیں نیشنل پارٹی، پشتونخوا میپ، ن لیگ او ر جے یو آئی اچھی خاصی نشستوں کے ساتھ جیت چکی ہیں، اس لیے وہ بی این پی کے احتجاج میں بھی شریک نہیں۔ بلوچستان میں بی این پی کا مستقبل ،اے این پی کے حال سے ملتا جلتا نظر آتا ہے۔
جہاں تک بڑے سیاسی برج الٹنے کی بات ہے، تو بلوچستان میں اس کے امکانات اب تک نظر نہیں آتے۔ سردار یار محمد رند اور ان کے بیٹے چونکہ نااہل قرار پا چکے تھے، اس لیے ان کے حمایت یافتہ ان کے بھانجے نے صوبائی اسمبلی کی ان کی آبائی نشست بچا لی۔ بلوچ علاقوں میں جہاں بی این پی عوامی کا راج تھا، اب وہاں حسبِ توقع نیشنل پارٹی نے جگہ لے لی ہے۔ باقی تمام موروثی نشستیں تقریباََ محفوظ رہی ہیں۔ نصیرآباد میں البتہ پیپلز پارٹی کے سینئرجیالے صادق عمرانی کو جاموٹ قومی موومنٹ کی نوجوان قیادت کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ گو کہ یہ کسی سردار کی نہ سہی، لیکن مڈل کلاس کی لوئر کلاس کے ہاتھوں شکست ہے۔ جاموٹ قبائل پہلی بار اتحاد کامظاہرہ کرتے ہوئے نچلے طبقے کی قیادت کو سامنے لائے اور بلاشبہ ایک قابلِ رشک کامیابی حاصل کی ہے۔ اسی علاقے میں قومی اسمبلی کی نشست پر سابق وزیراعظم ظفراللہ جمالی کی جیت کے معاملے میں ان کے سیاسی حریف کھوسہ قبائل کے سیکڑوں افراد کا احتجاج تادم تحریر جاری ہے اور انتخابات کے اَسی گھنٹے گزر جانے کے بعد بھی الیکشن کمیشن نے اس حلقے کا غیرحتمی نتیجہ بھی اب تک جاری نہیں کیا۔
ایک بڑی حقیقت یہ ہے کہ موجودہ انتخابات کے نتیجے میں بلوچستان میں پشتونخوا میپ سب سے بڑی سیاسی قوت بن کر سامنے آئی ہے۔ گو کہ ان پر بھی الزامات ہیں ، لیکن بہرحال اس وقت وہ ایک نمایاں سیاسی جماعت کے طور پر اسمبلی میں موجود ہے۔ سن ستر میں ترقی پسند قوم دوست قوتوں پر مشتمل نیپ کے بعد پہلی بار صوبے میں کسی جماعت کو اس قدر واضح اکثریت حاصل ہوئی ہے۔ یہ چاہیں تو نظریاتی مخالف لیکن پشتون قوم پرست جی یو آئی کے ممبران کو ملا کر ،بلوچ قوتوں کے بغیر بھی صوبے میں مکمل پشتون حکومت قائم کر سکتے ہیں۔ اَسی کی دَہائی سے لے کرسیاسی قوتوں نے بلوچستان میں سیاسی رواداری قائم کرنے کے لیے سندھ کی طرز پر یہ طے کیا تھا کہ صوبے کا گورنر پشتون اور وزیراعلیٰ بلوچ ہوگا۔
ذوالفقار مگسی کی گورنر شپ پہ اس لیے کئی بار اعتراضات بھی ہوئے۔ اب پشتون قوم پرست اتنی قوت میں ہیں کہ چاہیں تو اپنا وزیراعلیٰ لا سکتے ہیں۔ دوسری اکثریت ن لیگ کے پاس ہے، مرکزمیں حکومت سازی کے بعد ن لیگ کی خواہش ہو گی کہ وہ پنجاب سمیت دوسرے صوبے میں بھی اپنی حکومت قائم کرے۔ اس صورت میں ن لیگ اپنا وزیر اعلیٰ منتخب کروا کے اہم وزارتیں قوم پرستوں میں تقسیم کر سکتی ہے ۔ دوسری صورت میں قوم پرست قوتوں کو ہی حکومت سازی کی دعوت دی جا سکتی ہے۔ صورت حال خواہ کچھ بھی ہو، بلوچستان میں آیندہ جو بھی حکومت قائم ہو گی، وہ (ووٹ کی شرح کے مطابق)کم از کم دس فیصد عوام کی نمایندہ ضرور ہو گی۔اس پر غیر جمہوری ہونے کا ٹھپہ نہ ہوگا۔ لیکن یہ پارلیمنٹ اس کے لیے پھولوں کا بستر نہیں بلکہ کانٹوں کی سیج ثابت ہو گی۔ آنے والی حکومت بلوچستان کے سیاسی مسائل کے حل میں کس قدر سنجیدہ ہوگی اورآیندہ اسمبلی، بلوچستان کے مستقبل کو کس رُخ پہ لے جائے گی، اس کا اندازہ حکومت سازی کے مراحل کے دوران ان جماعتوں کے سیاسی ظرف کے مظاہرے سے ہی ہوجائے گا۔