حضور دھاندلی کو پہلی بار روکا گیا ہے

محترم شہباز شریف کی قبل ازوقت تقریرنے پورے الیکشن کی نفی کر ڈالی

raomanzar@hotmail.com

ISLAMABAD:
ووٹ فیصل آباد میں تھا۔25جولائی کوووٹ ڈالنے کے لیے لاہورسے علی الصبح نکلناتھا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے، پولنگ اسٹیشن پرلوگوں کی قطاریں بڑھتی جاتی ہیں۔ انتظار کادورانیہ بھی طویل ترہوتاجاتاہے۔ٹھیک نو بجے گرین ٹاؤن میں واقع پولنگ اسٹیشن پہنچا توحیران کن حدتک رش بہت تھا۔بلاکی گرمی اورحبس میں اُمیدواروں کی طرف سے لگائے ہوئے خیموں میں ایک جگہ پہنچا تاکہ اپنا بوتھ معلوم کر سکوں۔وہاں دونوجوان میزپرڈھیروں کاغذ رکھ کربیٹھے ہوئے تھے۔ایک نوجوان کوشناختی کارڈدیا تواس نے فوراً فہرست میں سے نام دیکھااورایک پرچی پرنمبرلکھ کرمیرے حوالے کردیا۔تھوڑی دیرمیں معلوم ہواکہ اس ترددکی کوئی ضرورت نہیں تھی۔موبائل فون پرالیکشن کمیشن کی طرف سے مختص نمبرپرمیسج کریں۔آپکے پولنگ اسٹیشن سے لے کرتمام تفصیلات بیس سیکنڈ میں سامنے آجائے گی۔پرجس طرح زندگی میں تقریباًہرکام میں غلطی کرتاہوں،اسی طرح بہرحال ووٹ کی چٹ بھی لے لی۔شائد انسان پہچانا ہی اپنی غلطیوں کی وجہ سے جاتاہے۔

ایک عجیب چیزدیکھنے میں آئی۔جن نوجوانوں نے بوتھ اوردیگرمعلومات دیں۔انہو ں نے وحشت ناک گرمی میں گلے میں پی ٹی آئی کے اسکارف پہن رکھے تھے۔سوال کیاکہ کس اُمیدوارکے نمایندہ ہیں۔جواب بے حدمختلف تھا۔''ہم کپتان کے ساتھ ہیں۔اُمیدواروں سے ہماراکوئی تعلق نہیں''۔ذاتی طور پر سرکاری زندگی میں ہرسطح کے الیکشن کرائے ہیں۔ مگریہ جواب کبھی پہلے سننے کونہیں ملا۔گاڑی کو پولنگ اسٹیشن سے کافی پہلے روک لیاگیا۔راجہ والا کے مردانہ پولنگ اسٹیشن پرپولیس کے چند اہلکار باہر کھڑے تھے۔ ان کے ساتھ ایک فوجی، گرمیوں کی یونیفارم میں ڈیوٹی کر رہا تھا۔گن گلے میں لٹکی ہوئی تھی۔اندرجاکرایک خوشگوارحیرت ہوئی۔تین فوجی پولنگ بوتھ کے سامنے کھڑے تھے۔لوگوں کی سیدھی قطاریں بنوارہے تھے۔جس لائن میں کھڑا تھا، تھوڑی سی ٹیڑھی ہوگئی۔میرے پیچھے ایک نوجوان کھڑا ہوا تھا۔ فوجی ایک دم آیااوردرشت لہجے میں کہاکہ فوری طورپر لائن سیدھی کرلیں۔پیچھے کھڑے ہوئے نوجوان نے سختی سے جواب دیاکہ پولیس میں ڈی ایس پی ہے اورنظم وضبط کو جانتاہے۔مگراس فوجی جوان نے کسی قسم کے رعب میں آئے بغیرلائن سیدھی کرادی۔کسی نے چوں تک نہیں کی۔ میرے لیے یہ نظم وضبط پسندیدہ تھا۔ووٹ ڈالنے میں صرف ایک دشواری محسوس ہوئی۔اس مشق کادورانیہ کافی حدتک تکلیف دہ اورطویل تھا۔ووٹ ڈالنے میں چھ سے آٹھ منٹ لگے۔گرمی سے حشرہوگیا۔پورے کمرے میں حبس حددرجہ تکلیف دہ تھا۔پولنگ اسٹیشن سے باہر نکلنے کاراستہ علیحدہ تھا۔ذاتی تجربے کی بنیادپرعرض کررہاہوں کہ کم ازکم مجھے پولنگ اسٹیشن پرمعمولی سی بے ضابطگی بھی محسوس نہیں ہوئی۔ فوج کے نوجوانوں نے پولنگ میں حددرجہ نظم وضبط نافذ کیا ہواتھا۔

لاہورآکررات گئے تک نتائج دیکھتارہا۔پتہ چل گیا کہ مسلم لیگ ن،سیاسی طورپرپسپائی کاشکارہے۔محترم شہباز شریف کی قبل ازوقت تقریرنے پورے الیکشن کی نفی کر ڈالی۔ابھی نتائج موصول نہیں ہوئے تھے،مگرپھربھی نتائج جانے بغیرمستردکردیے گئے۔طالبعلم کی رائے میں یہ ایک انتہائی غیرسنجیدہ حرکت تھی۔صبح تک تقریباًنظرآگیاکہ کپتان جیت چکاہے۔پہلی بارن لیگ اپنے گڑھ سے شکست فاش کھاچکی تھی۔اسی وقت اندازہ ہوگیاکہ ہمارے ہاں اتنی پختہ جمہوری روایات نہیں ہیں کہ ہارنے والی پارٹیاں شکست کوتسلیم کرلیں۔سابقہ دس الیکشنوں میں ہرہارنے والی جماعت دھاندلی کاالزام ضرورلگاتی ہے۔یہ ایک مستقل مسئلہ ہے۔الیکشن کمیشن کے آرٹی ایس سسٹم کی خرابی نے باقاعدہ ایک جوازپیداکیاکہ الیکشن میںمسئلہ ہواہے۔یہ الگ بات کہ غیرمصدقہ طورپرخبرگردش کرنے لگی کہ اس میں پنجاب کاپی آئی ٹی بی مکمل طورپرملوث ہے۔ بہرحال اس کی بے لاگ تحقیق ہونی چاہیے۔

خیرالیکشن گزرچکاہے۔عمران خان انتہائی سادگی اور سنجیدگی سے معاملات کولے کرآگے چل رہاہے۔محترم شہباز شریف،ان کی خالص سیاسی حلیف پیپلزپارٹی،جماعت اسلامی، حددرجہ غصہ کی کیفیت میں مولانافضل الرحمن اور محترم اچکزئی تمام خاک چاٹ رہے ہیں۔ایک ایسی عجیب اپوزیشن بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔مولاناصاحب نے بلوچستان میں اچکزئی صاحب کی سیاسی اجارہ داری ختم کر ڈالی۔پیپلزپارٹی نے سندھ میں سابق منفی روایات کے مطابق اکثریت حاصل کی۔انکامقابلہ ہرگزہرگزپی ٹی آئی سے نہیں تھا۔کراچی میں معاملات خیرمختلف تھے۔اگرعمران خان سے واقعی کوئی جماعت ہاری ہے تون لیگ ہے۔ میرا مقصد قطعاً کسی بھی سیاسی جماعت کے متعلق بات کرنا نہیں ہے۔ مگر حیرت انگیزبات یہ ہے کہ تمام زور عمران خان کے خلاف صَرف ہورہاہے۔ایک دوسرے سے ہارنے کے باوجود دشمن عمران خان ہے۔یہ بذات خودحیرت انگیزبات ہے۔


اچکزئی اورمولانا،ایک دوسرے سے ہارنے کے باوجود دوست ہیں۔ مگر ان کی تمام نفرت خان کی جانب مبذول ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ''دھاندلی''کاشورمزیدقوت سے مچائیں گے۔عام لوگوں کے ذہنوں کومتاثرکرنے کی بھرپور کوشش کریںگے کہ دیکھیے ظلم ہوگیا۔بالکل اسی طرح جس طرح احسن اقبال ایک مصنوعی ترقی کی بات کرتے تھے۔ عبوری حکومت کے وزیرچیخ چیخ کربتارہے ہیں کہ خاقان عباسی صاحب دوسوارب روپے کے چیک ایشوکرگئے جن پرایک ماہ بعدکی تاریخیں ڈالی گئی تھیں۔اگرنظریہِ انصاف سے دیکھا جائے تویہ دھوکا دہی کے زمرے میں آتاہے۔یہ ہارے ہوئے لوگ،اسی طرح دھاندلی کابیانیہ پیش کرینگے جس طرح پنجاب میں شفافیت اورخدمت کاانتہائی ادنیٰ بیانیہ بار بار دہرایا گیا تھا۔ صرف ایک مثال حاضر ہے۔ ''جگر اور گردوںکے سینٹر''کے فورنزک آڈٹ نے کرپشن، اقربا پروری اورطے شدہ اقتصادی اصولوں سے بے ضابطگی لوگوں کے سامنے کھل کر پیش کرتی ہے۔پنجاب کے کئی افسروں نے بتایاکہ کرپشن کاحجم دیکھ کران کے ہوش اُڑچکے ہیں۔ مرکزی، صوبائی حکومت نے تقریباًایک ارب ڈالر ذاتی تشہیر پر خرچ کرڈالے ہیں۔ بہرحال دھاندلی کاڈھول اب شفافیت کے ڈھول کے برابر پیٹاجائیگا۔

اس صورتحال میں عمران خان کیاکرسکتاہے یااسے کیا کرناچاہیے۔یہ وہ اصل سوال ہے جس کابے رحم تجزیہ ہوناچاہیے۔پہلاحل تو روایتی ساہے کہ اپوزیشن کوشورمچانے دیاجائے اوروہ خوداوراس کی ٹیم ملک کے انتہائی مخدوش حالات کودرست کرنے میں جت جائے۔اس روش کے فائدے کم اورنقصان زیادہ ہیں۔دوسراحل یہ بھی ہوسکتاہے کہ جہاں ہمارے ہارے ہوئے قائدین بہت شورمچارہے ہیں وہاں ٹی وی چینلزکے سامنے ''دوبارہ گنتی''کاعمل کیا جائے۔ اس میں ایک چیزکاخیال رہے کہ پنجاب میں ن لیگ سے ہمدردی رکھنے والے ایسے افسران اورعملہ موجود ہے، جو تھیلوں کوکھول کرجیتے ہوئے شخص کے ووٹوں پرڈبل مہر لگا کرخاموشی سے دوبارہ گنتی کے عمل کویکطرفہ طورپرخراب کر سکتاہے۔ایسی ٹیم،یونین کونسل سے لے کرضلع کی حدتک موجودہے اوریہ پہلے یہ کام کرتے رہے ہیں۔ری کاؤنٹنگ سے پہلے اس اَمرکویقینی بنالیاجائے کہ تھیلے،پہلی گنتی کے بعد کھولے نہیں گئے۔اس چیزکاپچاس فیصدامکان موجودہے کہ تھیلوں کوکھولنے کی ناکام یاکامیاب کوشش ضرورکی گئی ہوگی۔تیسراحل،یہ ہے کہ جیسے ہی نئی حکومت قائم ہوکرفعال ہوجائے،اقتصادی بدحالی جیسے معاملات کوبہتربنالیں۔اسی وقت،اپوزیشن کے بتائے ہوئے حلقوں میں دوبارہ الیکشن کروالے۔پچیس تیس نشستوں پردوبارہ الیکشن کرواناکسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں۔چوتھاحل یہ ہے جوکافی حدتک غیرمعمولی بھی ہے کہ ٹھیک ایک یادوسال بعددوبارہ الیکشن کروادیے جائیں۔ہوسکتاہے کہ اس کے نتائج سے معاملہ بہتر ہو جائے۔

یہاں تک عرض کرونگاکہ صوبوں میں مرحلہ وارالیکشن کروائے جائیں۔ہرصوبہ میں باری باری یہ مرحلہ مکمل ہو اور نتائج فی الفورسامنے لائے جائیں۔پانچواں حل یہ ہے کہ الیکشن کاپورانظام آئی ٹی بیس ہوجائے۔یعنی الیکشن کمیشن اس طرح کابندوبست کرے کہ ٹیکنالوجی کے استعمال سے ووٹ ڈل جائیں۔ہمارے پاس اس بلندسطح کے آئی ٹی ماہرین موجودہیں جویہ کام چندمہینوں میں کرسکتے ہیں۔انسان کے انگوٹھے کانشان،کرہِ اَرض پرکسی دوسرے سے نہیں ملتا۔ "موبائل ایپ"یامخصوص سوفٹ وئیرسے یہ کام بخوبی ہوسکتا ہے۔اس پرکوئی اعتراض اسلیے نہیں کر سکتا کہ جیسے ہی آپ الیکٹرونک ووٹ ڈالیں گے،پولنگ اسٹیشن پرتمام ووٹوں کی تفصیل آپکے سامنے آجائیگی۔ شرط صرف یہ ہی ہے کہ آئی ٹی ماہرین کسی بھی حکومت کے خوشہ چیں نہ ہوں۔ان کا رجحان کسی بھی پارٹی کی طرف نہ ہو۔ہمارے پاس ایسے لوگ موجود ہیں۔ اگر ضرورت پڑے توہزاروں پاکستانی جوامریکا میں مقیم ہیں،یہ کام مفت سرانجام دے سکتے ہیں۔

قطعی طورپرنہیں کہہ سکتاکہ تحریک انصاف کی حکومت، کس آپشن پرکام کریگی۔یاکوئی اورحل تلاش کریگی۔ مگر ہمارے ملک کی سیاسی بلوغت تقریباًنہ ہونے کے برابر ہے۔یہاں کبھی بھی کسی نے الیکشن میں اپنی شکست کوتسلیم نہیں کیا۔اپوزیشن کے جیدرہنماؤں کے ماضی کاطرزِعمل اس بات کی گواہی دیتاہے کہ وہ کسی بھی صورت میں ملک کومستحکم نہیں ہونے دینگے۔عدم استحکام اور انتشار کا ایک مقصد،بے لاگ احتساب سے بچنابھی ہے۔ان کے لیے گردن اور ناجائزدولت کی حفاظت کرناسب سے ضروری اَمرہے۔اس نکتہ پرسب متفق ہیں۔کسی قسم کاکوئی اختلاف نہیں۔ذاتی تجزیہ کی بنیادپرعرض کررہاہوں۔ پہلی بارہوا ہے کہ فوج، الیکشن کمیشن اورعدلیہ نے ملکرہمیشہ سے ہونے والی دھاندلی کوروکاہے۔مسئلہ بالکل اُلٹ ہے۔ ہارے ہوئے جید رہنما دراصل اس بات پرسینہ کوبی کر رہے ہیں کہ بھئی ہمیں دھاندلی کی اجازت کیوں نہیں ملی۔ہم صندوقوں میں عملے کے ساتھ ملکرجعلی ووٹ کیوں نہیں ڈال سکے۔ مسئلہ ہی یہی ہے کہ پہلی بارہمیشہ سے ہونے والی دھاندلی کوروکاگیاہے!
Load Next Story