سندھ پھر سیاسی دلدل میں
1970ء کے عام انتخابات کے بعد یہ تقسیم دو وجوہات کی بنا پر مزید گہری ہوئی
حالیہ انتخابات جیسے تیسے ہو ہی گئے۔ حکومت سازی کا مرحلہ بھی امید ہے کہ اسی ہفتے تکمیل پا جائے گا۔ وفاق، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوجانے کے ساتھ بلوچستان میں طاقتور حلقوں کی زیر سرپرستی قائم ہونے والی بلوچستان عوامی پارٹی (BAP) تحریک انصاف کی حمایت سے حکومت بنا پائے گی۔ سندھ میں حسب سابق پیپلز پارٹی حکومت بنائے گی۔ مگر اس مرتبہ بھی یہ صوبہ دیہی اور شہری نمایندگی کی بنیاد پر منقسم رہے گا۔ جس کی وجہ سے سیاسی عدم توازن کے برقرار رہنے اور حکومتی کارکردگی میں دوسرے صوبوں سے پیچھے رہ جانے کے خدشات آنے والے پانچ برسوں کے دوران بھی منڈلاتے نظر آ رہے ہیں۔ لہٰذا اس صورتحال کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لینا ضروری ہو گیا ہے۔
سندھ کے ساتھ المیہ یہ ہوا ہے کہ برٹش انڈیا کے مسلم اقلیتی صوبوں سے ہجرت کر کے آنے والوں کی اکثریت، جو ملازمت پیشہ اور ہنرمند افرادی قوت پر مشتمل تھی، نے شہروں میں رہائش اختیار کی۔ جب کہ بہت معمولی تعداد دیہی علاقوں میں آباد ہوئی۔ اس طرح صوبے میں شہری اور دیہی کی تقسیم معاشی اور معاشرتی کے بجائے لسانی بنیادوں پر ہو گئی یا دانستہ کرائی گئی۔ جسے سیاسی جماعتوں اور اہل دانش نے بھی من وعن قبول کر لیا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ معاشروں کی شہری اور دیہی تشکیلات کا انحصار معیشت پر ہوتا ہے۔ جو معاشرے صنعتی معیشت سے جڑے ہوتے ہیں، وہ شہری (Urban)کہلاتے ہیں۔ جن معاشروں کا انحصار زرعی معیشت پر ہوتا ہے، وہ دیہی (Rural) کہلاتے ہیں۔
1970ء کے عام انتخابات کے بعد یہ تقسیم دو وجوہات کی بنا پر مزید گہری ہوئی۔ ایک تو شہری علاقوں سے علمائے پاکستان اور جماعت اسلامی کے نمایندے منتخب ہوئے، جب کہ پیپلز پارٹی کو کراچی اور حیدرآباد کے نواحی علاقوں سمیت پورے سندھ سے حق نمایندگی ملا۔ پیپلز پارٹی نے اپنے دیہی ووٹ بینک کی خاطر اس وقت سے خود کو دیہی سندھ کی نمایندہ جماعت سمجھ رکھا ہے۔ حالانکہ پیپلزپارٹی شہری علاقوں سے دوسری مقبول جماعت کے طور پر سامنے آتی رہی ہے۔ دوسرے بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد جب باقی ماندہ ملک میں منتخب حکومت قائم ہوئی، تو سندھ میں قائم ہونے والی حکومت زیادہ تر ان اراکین پر مشتمل تھی، جن کا تعلق دیہی سندھ سے تھا۔ اس دوران دو ایسے اقدامات ہوئے، جن کے نتیجے میں تقسیم مزید گہری ہوئی۔ اول، صوبائی اسمبلی کی جانب سے پیش اور منظور ہونے والا لسانی بل۔ جو کسی بھی طور غلط اقدام نہیں تھا، مگر بعض رجعت پسند حلقوں نے اسے ایشو بنا دیا۔ دوئم، آئین میں دس برسوں کے لیے سندھ کے تین شہروں (کراچی، حیدرآباد اور سکھر) کے لیے علیحدہ کوٹا مختص کیا جانا۔
1988ء میں جب ان علاقوں کی نمایندگی پر ایم کیوایم کا تسلط قائم ہوا، تو تقسیم مزید گہری ہوگئی۔ اب شہری علاقوں کی نمایندگی میں تحریک انصاف (PTI) بھی شامل ہوگئی ہے۔ کیونکہ اسے بھی صرف شہری سندھ ہی میں نمایندگی مل سکی ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ حقوق انسانی پر یقین رکھنے والا کوئی بھی دانشمند فرد نہ تو حقیقی مقامی باشندوں(Indigenous People)کی حق تلفی کو قبول کرتا ہے اور نہ ہی نئے آنے والوں کے ساتھ کسی قسم کے امتیازی رویے کو تسلیم کرتا ہے۔ سیاسی جماعتیں اس مظہر کو سمجھنے میں ناکام رہیں۔ جس کی وجہ سے وہ اس سماجی و سیاسی توازن کو قائم نہیں رکھ سکیں، جو ایسے نازک معاملات کے سنجیدہ حل کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ ویسے بھی جمہوریت اکثریت کے بل بوتے پر اقتدار میں آنے، مگر اقلیت کے حقوق کے تحفظ سے عبارت ہوتی ہے۔
1984ء میں ایم کیوایم کے قیام اور مہاجر قومیت کے نعرے نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اگر ایم کیوایم ابتدا ہی میں لسانی شناخت بنانے کے بجائے خود کو اربن ڈیموکریٹک پارٹی کے طور پر متعارف کراتی تو لسانی تقسیم گہری ہونے کے بجائے کم ہونے اور اصل شہری مسائل کے واضح طور پر اجاگر ہوکر سامنے آنے اور ان کے حل کے امکانات بڑھ سکتے تھے۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ گوکہ اگلے چند برسوں کے دوران ایم کیوایم نے اپنا نام تبدیل کرکے متحدہ قومی موومنٹ رکھ لیا۔ لیکن وہ مہاجریت کے تصور سے چھٹکارا پانے میں ناکام رہی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ بالادست حلقے جن کی سندھ بالخصوص کراچی کے وسائل پر مضبوط گرفت قائم ہے، اسے ایسا نہیں کرنے دے رہے، ساتھ ہی سندھ میں لسانی بنیادوں پر تقسیم کے ختم یا کم کیے جانے میں بھی سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کراچی کی قومی اسمبلی کی 21 نشستوں میں سے 14 پر PTI کامیاب ہوئی ہے۔ 4 ایم کیوایم کے حصے میں آئی ہیں، جب کہ تین پیپلز پارٹی کو ملی ہیں۔ حیدرآباد کی دونوں شہری نشستیں شامل کرنے سے ایم کیوایم قومی اسمبلی میں کل نشستیں 6 ہوگئی ہیں۔ اب اگر ان دونوں شہروں کی سماجی اور لسانی تقسیم پر نظر ڈالیں، تو پیپلز پارٹی نے ان دونوں شہروں سے ملحقہ دیہی آبادی سے نمایندگی حاصل کی ہے، جب کہ شہری حلقوں کا حق نمایندگی PTI اور ایم کیو ایم کے پاس ہے۔ اس طرح سندھ میں سہ جہتی (یا تین سمتی) رسہ کشی شروع ہونے کے خدشات قوی ہوگئے ہیں۔
گوکہ ایم کیو ایم نے PTI کی حمایت کا فیصلہ کرلیا ہے، مگر یہاں کئی سوالات پیدا ہورہے ہیں۔ اول، آیا دونوں سنجیدگی کے ساتھ شہری علاقوں کے مسائل کے حل کے لیے تعاون کررہے ہیں؟ یا محض اپنی سیاسی بنیاد کو مستحکم کرنے کے لیے قریب آرہے ہیں؟ دوئم، کیا PTI کی صوبائی قیادت ایم کیو ایم کو ساتھ لے کر چلنے پر آمادہ ہوسکے گی؟ کیونکہ PTI نے تو خود کو ایم کیو ایم کے متبادل (Replacement) کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس مرتبہ اس نے قومی اسمبلی کی 14 نشستیں جیتی ہیں، جب کہ صوبائی اسمبلی میں دوسری بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے۔ ایسی صورت میں کیا دونوں جماعتوں کے درمیان شہری علاقوں کی سیاست پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لیے رسہ کشی نہیں ہوگی؟
دوسری طرف قابل غور بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کو دیہی سندھ میں ایم کیو ایم سے کبھی کوئی خطرہ نہیں رہا ہے، مگر PTI اس کے لیے مسلسل خطرے کی گھنٹی بنتی جارہی ہے۔ جو آیندہ انتخابات میں اس کے مضبوط گڑھ میں گھس کر اس کی سیاسی قوت کے خاتمے کا موجب بن سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ میں حکومت بنانے کی تمام تر عددی قوت رکھنے کے باوجود ایم کیوایم کو ساتھ لے کر چلنے کی خواہش کا اظہار کر رہی ہے، تاکہ PTI کو سیاسی طور پر محدود کیا جاسکے۔
ہم 2008ء سے مسلسل دونوں جماعتوں (پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم) کو سمجھانے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ سندھ کے وسیع تر مفاد میں انھیں سنجیدگی کے ساتھ ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلنے کی ضرورت ہے۔ مگر ایک طرف پیپلز پارٹی چالاکی اور چترپن میں لگی رہی، جب کہ ایم کیوایم نادیدہ قوتوں کے اشارے پر پیپلز پارٹی کی حکومت کو کمزور کرنے پر تلی رہی۔ یوں ان دونوں جماعتوں کی غیر سنجیدہ حکمت عملی اور باہمی رسہ کشی کے نتیجے میں اصل نقصان سندھ کے عوام کا ہوا، جو وہ تسلسل کے ساتھ بھگتتے چلے آ رہے ہیں۔
لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سندھ میں سیاسی Status Quo کے برقرار رہنے اور شہری اور دیہی کی تقسیم کے مزید گہرے ہونے کے خدشات اپنی جگہ خاصے قوی ہیں۔ خدشہ یہ ہے کہ بلاول بھٹو کی سنجیدہ کوششوں کے باوجود منتخب ہونے والے بااثر فیوڈلز اور الیکٹ ایبلز گزشتہ دس برسوں کی طرح اگلے پانچ برسوں کے دوران بھی اپنی سابقہ خو نہیں چھوڑیں گے۔ جب کہ شہری علاقوں میں سہ فریقی رسہ کشی اس کے ترقی کے اہداف کو گہنائے رکھے گی۔ نتیجتاً سندھ اگلے پانچ برسوں کے دوران بھی ماضی کی طرح زد پذیر ہی رہتا نظر آ رہا ہے، جسے اس صوبے کے عوام کی بدنصیبی کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے۔
سندھ کے ساتھ المیہ یہ ہوا ہے کہ برٹش انڈیا کے مسلم اقلیتی صوبوں سے ہجرت کر کے آنے والوں کی اکثریت، جو ملازمت پیشہ اور ہنرمند افرادی قوت پر مشتمل تھی، نے شہروں میں رہائش اختیار کی۔ جب کہ بہت معمولی تعداد دیہی علاقوں میں آباد ہوئی۔ اس طرح صوبے میں شہری اور دیہی کی تقسیم معاشی اور معاشرتی کے بجائے لسانی بنیادوں پر ہو گئی یا دانستہ کرائی گئی۔ جسے سیاسی جماعتوں اور اہل دانش نے بھی من وعن قبول کر لیا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ معاشروں کی شہری اور دیہی تشکیلات کا انحصار معیشت پر ہوتا ہے۔ جو معاشرے صنعتی معیشت سے جڑے ہوتے ہیں، وہ شہری (Urban)کہلاتے ہیں۔ جن معاشروں کا انحصار زرعی معیشت پر ہوتا ہے، وہ دیہی (Rural) کہلاتے ہیں۔
1970ء کے عام انتخابات کے بعد یہ تقسیم دو وجوہات کی بنا پر مزید گہری ہوئی۔ ایک تو شہری علاقوں سے علمائے پاکستان اور جماعت اسلامی کے نمایندے منتخب ہوئے، جب کہ پیپلز پارٹی کو کراچی اور حیدرآباد کے نواحی علاقوں سمیت پورے سندھ سے حق نمایندگی ملا۔ پیپلز پارٹی نے اپنے دیہی ووٹ بینک کی خاطر اس وقت سے خود کو دیہی سندھ کی نمایندہ جماعت سمجھ رکھا ہے۔ حالانکہ پیپلزپارٹی شہری علاقوں سے دوسری مقبول جماعت کے طور پر سامنے آتی رہی ہے۔ دوسرے بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد جب باقی ماندہ ملک میں منتخب حکومت قائم ہوئی، تو سندھ میں قائم ہونے والی حکومت زیادہ تر ان اراکین پر مشتمل تھی، جن کا تعلق دیہی سندھ سے تھا۔ اس دوران دو ایسے اقدامات ہوئے، جن کے نتیجے میں تقسیم مزید گہری ہوئی۔ اول، صوبائی اسمبلی کی جانب سے پیش اور منظور ہونے والا لسانی بل۔ جو کسی بھی طور غلط اقدام نہیں تھا، مگر بعض رجعت پسند حلقوں نے اسے ایشو بنا دیا۔ دوئم، آئین میں دس برسوں کے لیے سندھ کے تین شہروں (کراچی، حیدرآباد اور سکھر) کے لیے علیحدہ کوٹا مختص کیا جانا۔
1988ء میں جب ان علاقوں کی نمایندگی پر ایم کیوایم کا تسلط قائم ہوا، تو تقسیم مزید گہری ہوگئی۔ اب شہری علاقوں کی نمایندگی میں تحریک انصاف (PTI) بھی شامل ہوگئی ہے۔ کیونکہ اسے بھی صرف شہری سندھ ہی میں نمایندگی مل سکی ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ حقوق انسانی پر یقین رکھنے والا کوئی بھی دانشمند فرد نہ تو حقیقی مقامی باشندوں(Indigenous People)کی حق تلفی کو قبول کرتا ہے اور نہ ہی نئے آنے والوں کے ساتھ کسی قسم کے امتیازی رویے کو تسلیم کرتا ہے۔ سیاسی جماعتیں اس مظہر کو سمجھنے میں ناکام رہیں۔ جس کی وجہ سے وہ اس سماجی و سیاسی توازن کو قائم نہیں رکھ سکیں، جو ایسے نازک معاملات کے سنجیدہ حل کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ ویسے بھی جمہوریت اکثریت کے بل بوتے پر اقتدار میں آنے، مگر اقلیت کے حقوق کے تحفظ سے عبارت ہوتی ہے۔
1984ء میں ایم کیوایم کے قیام اور مہاجر قومیت کے نعرے نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اگر ایم کیوایم ابتدا ہی میں لسانی شناخت بنانے کے بجائے خود کو اربن ڈیموکریٹک پارٹی کے طور پر متعارف کراتی تو لسانی تقسیم گہری ہونے کے بجائے کم ہونے اور اصل شہری مسائل کے واضح طور پر اجاگر ہوکر سامنے آنے اور ان کے حل کے امکانات بڑھ سکتے تھے۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ گوکہ اگلے چند برسوں کے دوران ایم کیوایم نے اپنا نام تبدیل کرکے متحدہ قومی موومنٹ رکھ لیا۔ لیکن وہ مہاجریت کے تصور سے چھٹکارا پانے میں ناکام رہی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ بالادست حلقے جن کی سندھ بالخصوص کراچی کے وسائل پر مضبوط گرفت قائم ہے، اسے ایسا نہیں کرنے دے رہے، ساتھ ہی سندھ میں لسانی بنیادوں پر تقسیم کے ختم یا کم کیے جانے میں بھی سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کراچی کی قومی اسمبلی کی 21 نشستوں میں سے 14 پر PTI کامیاب ہوئی ہے۔ 4 ایم کیوایم کے حصے میں آئی ہیں، جب کہ تین پیپلز پارٹی کو ملی ہیں۔ حیدرآباد کی دونوں شہری نشستیں شامل کرنے سے ایم کیوایم قومی اسمبلی میں کل نشستیں 6 ہوگئی ہیں۔ اب اگر ان دونوں شہروں کی سماجی اور لسانی تقسیم پر نظر ڈالیں، تو پیپلز پارٹی نے ان دونوں شہروں سے ملحقہ دیہی آبادی سے نمایندگی حاصل کی ہے، جب کہ شہری حلقوں کا حق نمایندگی PTI اور ایم کیو ایم کے پاس ہے۔ اس طرح سندھ میں سہ جہتی (یا تین سمتی) رسہ کشی شروع ہونے کے خدشات قوی ہوگئے ہیں۔
گوکہ ایم کیو ایم نے PTI کی حمایت کا فیصلہ کرلیا ہے، مگر یہاں کئی سوالات پیدا ہورہے ہیں۔ اول، آیا دونوں سنجیدگی کے ساتھ شہری علاقوں کے مسائل کے حل کے لیے تعاون کررہے ہیں؟ یا محض اپنی سیاسی بنیاد کو مستحکم کرنے کے لیے قریب آرہے ہیں؟ دوئم، کیا PTI کی صوبائی قیادت ایم کیو ایم کو ساتھ لے کر چلنے پر آمادہ ہوسکے گی؟ کیونکہ PTI نے تو خود کو ایم کیو ایم کے متبادل (Replacement) کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس مرتبہ اس نے قومی اسمبلی کی 14 نشستیں جیتی ہیں، جب کہ صوبائی اسمبلی میں دوسری بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے۔ ایسی صورت میں کیا دونوں جماعتوں کے درمیان شہری علاقوں کی سیاست پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لیے رسہ کشی نہیں ہوگی؟
دوسری طرف قابل غور بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کو دیہی سندھ میں ایم کیو ایم سے کبھی کوئی خطرہ نہیں رہا ہے، مگر PTI اس کے لیے مسلسل خطرے کی گھنٹی بنتی جارہی ہے۔ جو آیندہ انتخابات میں اس کے مضبوط گڑھ میں گھس کر اس کی سیاسی قوت کے خاتمے کا موجب بن سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ میں حکومت بنانے کی تمام تر عددی قوت رکھنے کے باوجود ایم کیوایم کو ساتھ لے کر چلنے کی خواہش کا اظہار کر رہی ہے، تاکہ PTI کو سیاسی طور پر محدود کیا جاسکے۔
ہم 2008ء سے مسلسل دونوں جماعتوں (پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم) کو سمجھانے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ سندھ کے وسیع تر مفاد میں انھیں سنجیدگی کے ساتھ ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلنے کی ضرورت ہے۔ مگر ایک طرف پیپلز پارٹی چالاکی اور چترپن میں لگی رہی، جب کہ ایم کیوایم نادیدہ قوتوں کے اشارے پر پیپلز پارٹی کی حکومت کو کمزور کرنے پر تلی رہی۔ یوں ان دونوں جماعتوں کی غیر سنجیدہ حکمت عملی اور باہمی رسہ کشی کے نتیجے میں اصل نقصان سندھ کے عوام کا ہوا، جو وہ تسلسل کے ساتھ بھگتتے چلے آ رہے ہیں۔
لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سندھ میں سیاسی Status Quo کے برقرار رہنے اور شہری اور دیہی کی تقسیم کے مزید گہرے ہونے کے خدشات اپنی جگہ خاصے قوی ہیں۔ خدشہ یہ ہے کہ بلاول بھٹو کی سنجیدہ کوششوں کے باوجود منتخب ہونے والے بااثر فیوڈلز اور الیکٹ ایبلز گزشتہ دس برسوں کی طرح اگلے پانچ برسوں کے دوران بھی اپنی سابقہ خو نہیں چھوڑیں گے۔ جب کہ شہری علاقوں میں سہ فریقی رسہ کشی اس کے ترقی کے اہداف کو گہنائے رکھے گی۔ نتیجتاً سندھ اگلے پانچ برسوں کے دوران بھی ماضی کی طرح زد پذیر ہی رہتا نظر آ رہا ہے، جسے اس صوبے کے عوام کی بدنصیبی کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے۔