امریکا نے ایران پر ایک بار پھر اقتصادی پابندیاں عائد کردیں
معاشی پابندیوں کے ساتھ مذاکرات کی دعوت سمجھ سے بالاتر ہے، ایرانی صدر
امریکا نے ایران پر ایک بار پھر اقتصادی پابندیاں عائد کردیں جن کا اطلاق آج رات سے ہوگا، ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ایران سے نیا جوہری معاہدہ کیا جائے گا جس کے لیے امریکا تیار ہے۔
امریکی میڈیا کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے ایران پر دوبارہ معاشی پابندیاں عائد کردی ہیں جن کا مقصد ایران کو ایک بار پھر مذاکرات کی میز پر لانا ہے۔ خبررساں ادارے اے پی کے مطابق ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کے پہلے مرحلے کا اطلاق آج رات سے ہوگا۔
ایران پر پابندیوں کا اطلاق کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ایرانی حکومت پر معاشی دباؤ برقرار رکھیں گے جس کا مقصد ایرانی حکومت سے ایک نیا اور موثر جوہری معاہدہ کرنا ہے جس کے ذریعے ایران کی تخریبی کارروائیاں ختم کی جاسکیں جن میں اس کا بیلسٹک میزائل پروگرام اور دہشت گردوں کی سہولت کاری شامل ہیں۔
ٹرمپ نے ایران پر دو مرحلوں میں معاشی پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا ہے پہلا مرحلہ منگل سے شروع ہوگیا ہے جب کہ پابندیوں کا دوسرا مرحلہ پانچ نومبر سے شروع ہوگا۔
معاشی پابندیوں کے ساتھ مذاکرات کی دعوت سمجھ سے بالاتر ہے، ایرانی صدر
دوسری جانب ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا کہ امریکا کا معاشی پابندیوں کے ساتھ مذاکرات کی دعوت دینا سمجھ سے بالاتر ہے، امریکا ایران کو تقسیم کرکے خانہ جنگی کرانا چاہتا ہے۔
معاشی پابندی کے امریکی اعلان کے بعد سرکاری ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے حسن روحانی نے کہا کہ امریکا ایران کے خلاف نفسیاتی جنگ چاہتا ہے اور وہ ایران کے لوگوں کو تقسیم کررہا ہے۔
ایرانی صدر نے پابندیوں کہا ہے کہ واشنگٹن انتظامیہ پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا امریکا ایران میں انتشار اور افراتفری پیدا کرنا چاہتا ہے، امریکا مذاکرات کی دعوت دینے کے ساتھ ساتھ اسی وقت پابندیاں بھی لگا رہا ہے، مذاکرات کے ساتھ پابندیاں سمجھ سے بالاتر ہیں، امریکا یہ پابندیاں ایرانی بچوں،مریضوں اور ایرانی قوم پر عائد کررہا ہے۔
حسن روحانی نے کہا کہ ہم نے بات چیت کے عمل کا ہمیشہ خیر مقدم کیا لیکن امریکا کو پہلے خود کو قابل اعتبار ظاہر کرنا ہوگا۔ ایرانی صدر نے خدشہ ظاہر کیا کہ منگل کی رات سے پابندیاں شروع ہونے پر جان بچانے والی ادویات کی فراہمی متاثر ہوگی۔
واضح رہے کہ 2015ء میں امریکی صدر باراک اوباما اور ایرانی حکومت میں جوہری معاہدہ ہوا تھا اور اسی دن ایران پر سے معاشی پابندیاں ختم کردی گئی تھیں تاہم نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے کو رواں برس مئی میں غیر موثر کردیا تھا اور کہا تھا کہ یہ ایک غیر فعال معاہدہ ہے جس میں ایران کو نوازا گیا۔
امریکی میڈیا کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے ایران پر دوبارہ معاشی پابندیاں عائد کردی ہیں جن کا مقصد ایران کو ایک بار پھر مذاکرات کی میز پر لانا ہے۔ خبررساں ادارے اے پی کے مطابق ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کے پہلے مرحلے کا اطلاق آج رات سے ہوگا۔
ایران پر پابندیوں کا اطلاق کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ایرانی حکومت پر معاشی دباؤ برقرار رکھیں گے جس کا مقصد ایرانی حکومت سے ایک نیا اور موثر جوہری معاہدہ کرنا ہے جس کے ذریعے ایران کی تخریبی کارروائیاں ختم کی جاسکیں جن میں اس کا بیلسٹک میزائل پروگرام اور دہشت گردوں کی سہولت کاری شامل ہیں۔
ٹرمپ نے ایران پر دو مرحلوں میں معاشی پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا ہے پہلا مرحلہ منگل سے شروع ہوگیا ہے جب کہ پابندیوں کا دوسرا مرحلہ پانچ نومبر سے شروع ہوگا۔
معاشی پابندیوں کے ساتھ مذاکرات کی دعوت سمجھ سے بالاتر ہے، ایرانی صدر
دوسری جانب ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا کہ امریکا کا معاشی پابندیوں کے ساتھ مذاکرات کی دعوت دینا سمجھ سے بالاتر ہے، امریکا ایران کو تقسیم کرکے خانہ جنگی کرانا چاہتا ہے۔
معاشی پابندی کے امریکی اعلان کے بعد سرکاری ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے حسن روحانی نے کہا کہ امریکا ایران کے خلاف نفسیاتی جنگ چاہتا ہے اور وہ ایران کے لوگوں کو تقسیم کررہا ہے۔
ایرانی صدر نے پابندیوں کہا ہے کہ واشنگٹن انتظامیہ پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا امریکا ایران میں انتشار اور افراتفری پیدا کرنا چاہتا ہے، امریکا مذاکرات کی دعوت دینے کے ساتھ ساتھ اسی وقت پابندیاں بھی لگا رہا ہے، مذاکرات کے ساتھ پابندیاں سمجھ سے بالاتر ہیں، امریکا یہ پابندیاں ایرانی بچوں،مریضوں اور ایرانی قوم پر عائد کررہا ہے۔
حسن روحانی نے کہا کہ ہم نے بات چیت کے عمل کا ہمیشہ خیر مقدم کیا لیکن امریکا کو پہلے خود کو قابل اعتبار ظاہر کرنا ہوگا۔ ایرانی صدر نے خدشہ ظاہر کیا کہ منگل کی رات سے پابندیاں شروع ہونے پر جان بچانے والی ادویات کی فراہمی متاثر ہوگی۔
واضح رہے کہ 2015ء میں امریکی صدر باراک اوباما اور ایرانی حکومت میں جوہری معاہدہ ہوا تھا اور اسی دن ایران پر سے معاشی پابندیاں ختم کردی گئی تھیں تاہم نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے کو رواں برس مئی میں غیر موثر کردیا تھا اور کہا تھا کہ یہ ایک غیر فعال معاہدہ ہے جس میں ایران کو نوازا گیا۔