اسلام کو بدنام کرنے کی سازشیں
گستاخانہ خاکوں کی اشاعت سے دنیا کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا گیا ہے۔
یورپی ممالک اسلام کو بد نام کرنے اور مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے لیے آئے دن کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑنے سے باز نہیں آتے ۔ ان کی جانب سے کبھی گستاخانہ خاکے شایع کیے جاتے ہیں تو کبھی حجاب اور داڑھی کو دہشت گردی کی علامت قرار دے کر اس پر خواہ مخواہ پابندی عائد کردی جاتی ہے۔
ابھی حال ہی میں ہالینڈ کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت فریڈم پارٹی کے سرغنہ مردود و ملعون گیرٹ وائلڈرز کی جانب سے ایک مذموم سوچی سمجھی اسکیم کے تحت ہالینڈ میں گستاخانہ مواد پر مشتمل ایک نمائش کے اعلان سے دنیا بھر کے مسلمانوں کی انتہائی شدید دل آزاری ہوئی ہے۔
حکومت پاکستان نے اس مذموم حرکت کا شدید اور فوری نوٹس لیتے ہوئے ڈچ سفیرکو دفتر خارجہ طلب کیا اور واضح کیا کہ ہالینڈ میں اسلام سے متعلق کارٹونوں کے اس مقابلے پر نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری مسلم امہ میں شدید غم و غصے کی ایک زبردست لہر دوڑگئی ہے اور ان کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا ہے۔ ڈچ سفیر کے گوش گزار کروایا گیا کہ پاکستان ایسی مذموم اور گستاخانہ حرکت ہرگز برداشت نہیں کرسکتا۔
پوری دنیا اس وقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ مسلمانوں کے نزدیک ناموس رسالت سے بڑھ کر کوئی بھی چیز عزیز نہیں۔ بقول اقبال:
کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
گناہ گار سے گناہ گار مسلمان بھی ناموس رسالت پر اپنی جان قربان کرنے میں ذرا سی دیر بھی نہیں کرے گا۔ ہالینڈ کے ملعون رکن پارلیمان کی جانب سے گستاخانہ خاکوں پر مبنی مقابلوں کا مذموم اور ناپاک اعلان پوری مسلم امہ کے لیے نہ صرف ناقابل قبول بلکہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ لہٰذا اس مذموم اعلان کے خلاف شدید سے شدید احتجاج حضور اکرمؐ سے انتہائی محبت کا اولین تقاضا اور ایمانی فریضہ ہے۔
رب کریم نے نبیؐ پاک کو صرف مسلمانوں ہی کے لیے نہیں بلکہ پوری کائنات کے لیے رحمت بناکر بھیجا اور رحمت اللعالمین کے لقب سے نوازا ہے۔ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوری انسانیت کی رہنمائی کی اور بنی نوع انسان کو زندگی گزارنے کا قرینہ اور سلیقہ سکھایا۔ آپؐ نے انسانی معاشرے سے نسلی امتیاز کا خاتمہ کیا اور مساوات اور بھائی چارے کا درس دیا۔ آپؐ کی تعلیمات کا دائرہ محض مسلمانوں تک محدود نہیں بلکہ پوری انسانیت پر محیط ہے۔ اس لیے تو شاعر نے کہا ہے:
عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمدؐ پر اجارہ تو نہیں
بے شک حضور پاکؐ محسن انسانیت ہیں اور دنیا کا ہر پاک باز اور نیک انسان اس حقیقت کو کھلے دل سے تسلیم کرتا ہے، لیکن بعض بد بخت آپؐ کی ذات پاک سے بغض اور عناد رکھتے ہیں اور آپؐ کی شان میں موقع بہ موقع گستاخی کرنے سے باز نہیں آتے کیونکہ جہنم ہی ان کا آخری ٹھکانہ ہے۔ دراصل اسلام دشمنی ان بد بختوں کے خمیر میں شامل ہے۔ان اسلام دشمن حلقوں نے پیغمبر اسلامؐ کی شان میں گستاخی کی جسارت کرکے دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں کو نہ صرف ٹھیس پہنچانے کی مذموم کوشش کی ہے بلکہ عالم اسلام کو للکارا ہے۔ ان کی اس حرکت سے ان کے مکروہ چہرے بے نقاب ہوگئے ہیں اور ان کی بددیانتی کا پردہ چاک ہوگیا ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا ہے کہ اسلام دشمنی میں یہود و نصاریٰ کا آپس میں گہرا گٹھ جوڑ ہے اور اس معاملے میں دونوں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ مغربی دنیا میں روزانہ نت نئی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور طرز حیات اور نظام زندگی بڑی تیزی سے بدل رہا ہے۔ آداب معاشرت تبدیل ہو رہے ہیں اور لوگوں کے طور طریقے اور سوچ کے زاویے بھی تبدیل ہوگئے ہیں، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ مغرب کی اسلام دشمنی میں ذرا سی بھی تبدیلی نہیں آئی ۔ آزادی اظہار رائے کے نام پر اسلام کے شعائر کی توہین برابر جاری ہے۔ یہ کیسی عجیب آزادی ہے جس کے تحت صرف شعائر اسلام ہی کو نشانہ بناکر ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔
آزادی اظہار رائے کے نام پر یہ کھلم کھلا اشتعال انگیزی اور اسلام کو بدنام کرنے کی انتہائی مکروہ اور مذموم کوشش ہے جس کا پوری مسلم امہ کو متحد ہوکر پوری قوت کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہیے۔ توہین آمیز خاکوں کے حوالے سے اہل اسلام کا جو ردعمل سامنے آیا ہے وہ ایمان افروز بھی ہے اور حوصلہ افزا بھی ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے خون میں آج بھی جذبہ اسلامی کی حرارت موجود ہے اور ناموس رسالت کی حرمت انھیں اب بھی اپنی ہر شے حتیٰ کہ جان سے بھی زیادہ عزیز ہے۔
پاکستان کے نگران وزیر خارجہ عبداللہ حسین ہارون نے او آئی سی کے سیکریٹری جنرل کو ایک خط بھی ارسال کیا ہے جس میں توہین آمیز خاکوں کے معاملے میں سخت ترین اقدامات کرنے کی پر زور سفارش کی گئی ہے ۔ خط میں کہا گیا ہے کہ گستاخانہ خاکوں کے ذریعے ہماری قوت برداشت کا امتحان لیا گیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ گستاخانہ خاکوں کی اشاعت سے دنیا کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا گیا ہے ۔ حالات اور وقت کا تقاضا ہے کہ فوری طور پر اسلامی سربراہی کانفرنس کا اجلاس طلب کیا جائے اور دشمنان اسلام کو ٹھوس اور واضح پیغام دیا جائے ۔
ابھی حال ہی میں ہالینڈ کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت فریڈم پارٹی کے سرغنہ مردود و ملعون گیرٹ وائلڈرز کی جانب سے ایک مذموم سوچی سمجھی اسکیم کے تحت ہالینڈ میں گستاخانہ مواد پر مشتمل ایک نمائش کے اعلان سے دنیا بھر کے مسلمانوں کی انتہائی شدید دل آزاری ہوئی ہے۔
حکومت پاکستان نے اس مذموم حرکت کا شدید اور فوری نوٹس لیتے ہوئے ڈچ سفیرکو دفتر خارجہ طلب کیا اور واضح کیا کہ ہالینڈ میں اسلام سے متعلق کارٹونوں کے اس مقابلے پر نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری مسلم امہ میں شدید غم و غصے کی ایک زبردست لہر دوڑگئی ہے اور ان کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا ہے۔ ڈچ سفیر کے گوش گزار کروایا گیا کہ پاکستان ایسی مذموم اور گستاخانہ حرکت ہرگز برداشت نہیں کرسکتا۔
پوری دنیا اس وقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ مسلمانوں کے نزدیک ناموس رسالت سے بڑھ کر کوئی بھی چیز عزیز نہیں۔ بقول اقبال:
کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
گناہ گار سے گناہ گار مسلمان بھی ناموس رسالت پر اپنی جان قربان کرنے میں ذرا سی دیر بھی نہیں کرے گا۔ ہالینڈ کے ملعون رکن پارلیمان کی جانب سے گستاخانہ خاکوں پر مبنی مقابلوں کا مذموم اور ناپاک اعلان پوری مسلم امہ کے لیے نہ صرف ناقابل قبول بلکہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ لہٰذا اس مذموم اعلان کے خلاف شدید سے شدید احتجاج حضور اکرمؐ سے انتہائی محبت کا اولین تقاضا اور ایمانی فریضہ ہے۔
رب کریم نے نبیؐ پاک کو صرف مسلمانوں ہی کے لیے نہیں بلکہ پوری کائنات کے لیے رحمت بناکر بھیجا اور رحمت اللعالمین کے لقب سے نوازا ہے۔ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوری انسانیت کی رہنمائی کی اور بنی نوع انسان کو زندگی گزارنے کا قرینہ اور سلیقہ سکھایا۔ آپؐ نے انسانی معاشرے سے نسلی امتیاز کا خاتمہ کیا اور مساوات اور بھائی چارے کا درس دیا۔ آپؐ کی تعلیمات کا دائرہ محض مسلمانوں تک محدود نہیں بلکہ پوری انسانیت پر محیط ہے۔ اس لیے تو شاعر نے کہا ہے:
عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمدؐ پر اجارہ تو نہیں
بے شک حضور پاکؐ محسن انسانیت ہیں اور دنیا کا ہر پاک باز اور نیک انسان اس حقیقت کو کھلے دل سے تسلیم کرتا ہے، لیکن بعض بد بخت آپؐ کی ذات پاک سے بغض اور عناد رکھتے ہیں اور آپؐ کی شان میں موقع بہ موقع گستاخی کرنے سے باز نہیں آتے کیونکہ جہنم ہی ان کا آخری ٹھکانہ ہے۔ دراصل اسلام دشمنی ان بد بختوں کے خمیر میں شامل ہے۔ان اسلام دشمن حلقوں نے پیغمبر اسلامؐ کی شان میں گستاخی کی جسارت کرکے دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں کو نہ صرف ٹھیس پہنچانے کی مذموم کوشش کی ہے بلکہ عالم اسلام کو للکارا ہے۔ ان کی اس حرکت سے ان کے مکروہ چہرے بے نقاب ہوگئے ہیں اور ان کی بددیانتی کا پردہ چاک ہوگیا ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا ہے کہ اسلام دشمنی میں یہود و نصاریٰ کا آپس میں گہرا گٹھ جوڑ ہے اور اس معاملے میں دونوں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ مغربی دنیا میں روزانہ نت نئی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور طرز حیات اور نظام زندگی بڑی تیزی سے بدل رہا ہے۔ آداب معاشرت تبدیل ہو رہے ہیں اور لوگوں کے طور طریقے اور سوچ کے زاویے بھی تبدیل ہوگئے ہیں، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ مغرب کی اسلام دشمنی میں ذرا سی بھی تبدیلی نہیں آئی ۔ آزادی اظہار رائے کے نام پر اسلام کے شعائر کی توہین برابر جاری ہے۔ یہ کیسی عجیب آزادی ہے جس کے تحت صرف شعائر اسلام ہی کو نشانہ بناکر ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔
آزادی اظہار رائے کے نام پر یہ کھلم کھلا اشتعال انگیزی اور اسلام کو بدنام کرنے کی انتہائی مکروہ اور مذموم کوشش ہے جس کا پوری مسلم امہ کو متحد ہوکر پوری قوت کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہیے۔ توہین آمیز خاکوں کے حوالے سے اہل اسلام کا جو ردعمل سامنے آیا ہے وہ ایمان افروز بھی ہے اور حوصلہ افزا بھی ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے خون میں آج بھی جذبہ اسلامی کی حرارت موجود ہے اور ناموس رسالت کی حرمت انھیں اب بھی اپنی ہر شے حتیٰ کہ جان سے بھی زیادہ عزیز ہے۔
پاکستان کے نگران وزیر خارجہ عبداللہ حسین ہارون نے او آئی سی کے سیکریٹری جنرل کو ایک خط بھی ارسال کیا ہے جس میں توہین آمیز خاکوں کے معاملے میں سخت ترین اقدامات کرنے کی پر زور سفارش کی گئی ہے ۔ خط میں کہا گیا ہے کہ گستاخانہ خاکوں کے ذریعے ہماری قوت برداشت کا امتحان لیا گیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ گستاخانہ خاکوں کی اشاعت سے دنیا کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا گیا ہے ۔ حالات اور وقت کا تقاضا ہے کہ فوری طور پر اسلامی سربراہی کانفرنس کا اجلاس طلب کیا جائے اور دشمنان اسلام کو ٹھوس اور واضح پیغام دیا جائے ۔