دنیا کا سب سے مہنگا زہر جس کی قیمت اربوں روپے میں ہے
اگر ایک بار کوئی اس بچھو کے زہر کا نشانہ بن گیا تو اسے بچانا نہایت مشکل ہے۔
دنیا کا سب سے مہنگا زہر بچھوؤں کی ایک قسم '' ڈیتھ اسٹاکر بچھو'' (Deathstalker Scorpion) میں پایا جاتا ہے جسے جان لینے والا بچھو بھی کہتے ہیں۔ اگر ایک بار کوئی اس بچھو کے زہر کا نشانہ بن گیا تو اسے بچانا نہایت مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس بچھو کا زہر دنیا میں سب سے مہنگا ہے۔
اس خطرناک ترین بچھو کا تعلق بچھوؤں کے خاندان ''بوتھائی ڈی'' سے ہے جبکہ اسے اسرائیلی اور فلسطینی بچھو بھی کہا جاتا ہے۔ یہ دنیا کا سب سے خطرناک بچھو ہے جسے لیوریس کوینکوسٹیریٹس (Leiurus quinquestriatus) کا نام اس کی دم پر موجود پانچ حصوں کی وجہ سے دیا گیا ۔
اس کا رنگ پیلا ہوتا ہے اور یہ 30 سے 77 ملی میٹر تک لمبا ہوتا ہے۔ عام طور پر یہ بچھو شمالی افریقا اور وسطی ایشیا کے ریگستانوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ بچھو اپنے قیمتی زہر کی وجہ سے دنیا بھر میں مقبول ہے اور اس کے ایک لیٹر زہر کی قیمت تقریباً 10.5 ملین ڈالر (1 ارب 10 کروڑ 63 لاکھ پاکستانی روپے) ہے۔ یعنی اس کا صرف ایک گیلن تقریباً 5 ارب 15 کروڑ روپے کا ہوتا ہے۔ تاہم خطرناک ہونے کے ساتھ اس بچھو کا زہر بہت کارآمد بھی ہے۔ تل ابیب یونیورسٹی کے پروفیسر مائیکل گریوٹز کے مطابق اس زہر کا استعمال بہت سی طبی تحقیقات اور علاج میں کیا جا رہا ہے۔ اس زہر میں کچھ ایسے اجزاء موجود ہوتے ہیں جو درد کش ادویہ کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔
2013 ء میں شائع ہونے والی فریڈ ہچنسن کینسر ریسرچ سینٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق اس بچھو کا زہر کینسر والے خلیوں کو بننے سے روکتا ہے۔ سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ زہر جسمانی اعضا کی محفوظ منتقلی میں بھی معاون ہوتا ہے۔ کئی بار جسم میں اعضا کی پیوند کاری پر انسانی جسم انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔
ایسی صورتحال میں اس زہر میں تبدیلی کر کے بہت ہی معمولی مقدار میں جسم کے اندر داخل کیا جائے گا جس کے بعد یہ سیدھا مدافعتی نظام پر عمل کرے گا اور مصنوعی اعضا مسترد ہونے کا امکان کم ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ یہ زہر ہڈیوں کی بیماریوں میں بھی بہت فائدہ مند ہے۔ عمر بڑھنے کے ساتھ انسانی جسم میں ہڈیاں کمزور ہونے لگتی ہیں اور اس طرح کام نہیں کر پاتیں جیسے ایک نوجوان کے جسم میں ہڈیاں کام کرتی ہیں۔ لہٰذا اس زہر کو استعمال کرکے ہڈیوں کے کمزور ہونے کا عمل سست رفتار بنایا جا سکتا ہے۔
2011 ء میں کیوبا کے ایک اکہتر سالہ شخص نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے خود کو ڈیتھ اسٹاکر بچھوسے کٹوایا تھا۔ جیسے ہی بچھوؤں کا زہر اس کے جسم میں داخل ہوا، اس کے سارے درد غائب ہو گئے۔ ان بچھوؤں کا زہر نکالنے کے لیے لیبارٹری میں انہیں کرنٹ دیا جاتا ہے جس کے باعث بچھوؤں کا زہر ان کے ڈنک میں آ جاتا ہے ۔اسے ایک بوتل میں محفوظ کر لیا جاتا ہے۔ تاہم یہ عمل بہت پیچیدہ ہے اور ایک وقت میں ایک بچھو کے ڈنک سے صرف ایک بوند زہر نکلتا ہے۔ اس صورت میں ایک لیٹر زہر نکالنے کے لیے تقریباً 1000 سے زائد بچھو درکار ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ان بچھوؤں کے ایک لیٹر زہر کی قیمت 110 کروڑ روپے کے لگ بھگ ہے۔ واضح رہے کہ اس زہر کا اثر براہ داست دماغ پر ہوتا ہے اور اسی خاصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس زہر پر مزید تحقیق جاری ہے۔ دماغ اور اعصاب پر اثر کرنے والے زہروں کو ''نیورو ٹاکسنز'' کہا جاتا ہے جو ہلاکت خیز ہونے کے ساتھ ساتھ علاج میں مفید بھی ثابت رہتے ہیں، بشرط یہ کہ انہیں احتیاط سے اور بہت ہی کم مقدار میں استعمال کیا جائے۔
اس خطرناک ترین بچھو کا تعلق بچھوؤں کے خاندان ''بوتھائی ڈی'' سے ہے جبکہ اسے اسرائیلی اور فلسطینی بچھو بھی کہا جاتا ہے۔ یہ دنیا کا سب سے خطرناک بچھو ہے جسے لیوریس کوینکوسٹیریٹس (Leiurus quinquestriatus) کا نام اس کی دم پر موجود پانچ حصوں کی وجہ سے دیا گیا ۔
اس کا رنگ پیلا ہوتا ہے اور یہ 30 سے 77 ملی میٹر تک لمبا ہوتا ہے۔ عام طور پر یہ بچھو شمالی افریقا اور وسطی ایشیا کے ریگستانوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ بچھو اپنے قیمتی زہر کی وجہ سے دنیا بھر میں مقبول ہے اور اس کے ایک لیٹر زہر کی قیمت تقریباً 10.5 ملین ڈالر (1 ارب 10 کروڑ 63 لاکھ پاکستانی روپے) ہے۔ یعنی اس کا صرف ایک گیلن تقریباً 5 ارب 15 کروڑ روپے کا ہوتا ہے۔ تاہم خطرناک ہونے کے ساتھ اس بچھو کا زہر بہت کارآمد بھی ہے۔ تل ابیب یونیورسٹی کے پروفیسر مائیکل گریوٹز کے مطابق اس زہر کا استعمال بہت سی طبی تحقیقات اور علاج میں کیا جا رہا ہے۔ اس زہر میں کچھ ایسے اجزاء موجود ہوتے ہیں جو درد کش ادویہ کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔
2013 ء میں شائع ہونے والی فریڈ ہچنسن کینسر ریسرچ سینٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق اس بچھو کا زہر کینسر والے خلیوں کو بننے سے روکتا ہے۔ سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ زہر جسمانی اعضا کی محفوظ منتقلی میں بھی معاون ہوتا ہے۔ کئی بار جسم میں اعضا کی پیوند کاری پر انسانی جسم انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔
ایسی صورتحال میں اس زہر میں تبدیلی کر کے بہت ہی معمولی مقدار میں جسم کے اندر داخل کیا جائے گا جس کے بعد یہ سیدھا مدافعتی نظام پر عمل کرے گا اور مصنوعی اعضا مسترد ہونے کا امکان کم ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ یہ زہر ہڈیوں کی بیماریوں میں بھی بہت فائدہ مند ہے۔ عمر بڑھنے کے ساتھ انسانی جسم میں ہڈیاں کمزور ہونے لگتی ہیں اور اس طرح کام نہیں کر پاتیں جیسے ایک نوجوان کے جسم میں ہڈیاں کام کرتی ہیں۔ لہٰذا اس زہر کو استعمال کرکے ہڈیوں کے کمزور ہونے کا عمل سست رفتار بنایا جا سکتا ہے۔
2011 ء میں کیوبا کے ایک اکہتر سالہ شخص نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے خود کو ڈیتھ اسٹاکر بچھوسے کٹوایا تھا۔ جیسے ہی بچھوؤں کا زہر اس کے جسم میں داخل ہوا، اس کے سارے درد غائب ہو گئے۔ ان بچھوؤں کا زہر نکالنے کے لیے لیبارٹری میں انہیں کرنٹ دیا جاتا ہے جس کے باعث بچھوؤں کا زہر ان کے ڈنک میں آ جاتا ہے ۔اسے ایک بوتل میں محفوظ کر لیا جاتا ہے۔ تاہم یہ عمل بہت پیچیدہ ہے اور ایک وقت میں ایک بچھو کے ڈنک سے صرف ایک بوند زہر نکلتا ہے۔ اس صورت میں ایک لیٹر زہر نکالنے کے لیے تقریباً 1000 سے زائد بچھو درکار ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ان بچھوؤں کے ایک لیٹر زہر کی قیمت 110 کروڑ روپے کے لگ بھگ ہے۔ واضح رہے کہ اس زہر کا اثر براہ داست دماغ پر ہوتا ہے اور اسی خاصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس زہر پر مزید تحقیق جاری ہے۔ دماغ اور اعصاب پر اثر کرنے والے زہروں کو ''نیورو ٹاکسنز'' کہا جاتا ہے جو ہلاکت خیز ہونے کے ساتھ ساتھ علاج میں مفید بھی ثابت رہتے ہیں، بشرط یہ کہ انہیں احتیاط سے اور بہت ہی کم مقدار میں استعمال کیا جائے۔