نواز شریف نے اہم مسائل کے حل کیلیے کوششیں شروع کردیں
ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے صدر ن لیگ اسٹبلشمنٹ سے تنائو پیدا نہیں کریں گے
ن لیگ جہاں ایک طرف مرکز، پنجاب اور بلوچستان میں حکومت بنانے میں مصروف ہے وہاں دوسری طرف نواز شریف نے دہشت گردی سمیت اہم مسائل کے حل کے لیے بھی کوششیں تیزکردی ہیں۔
آئندہ ہفتوں میں انکی آرمی چیف جنرل کیانی سے ملاقاتوں کا بھی امکان ہے مگراس سے قبل ہی انھوں نے مولانا فضل الرحمٰن کو طالبان سے مذاکرات کے حوالے ذمے داری دینے کے لیے اشارہ دیا ہے۔ ن لیگ کے لیے دہشت گردی، معیشت، توانائی،سیاسی استحکام، بھارت سے تعلقات، بلوچستان اور کراچی کے مسائل اہم ترجیحات ہونگے۔ بلوچستان میں ن لیگ بلوچ قوم پرستوں کو بھی ساتھ رکھنے کی کوشش کرے گی مگر ثنا اللہ زہری کے وزیراعلیٰ بننے کی صورت میں بی این پی(مینگل) کے ساتھ تعلقات میں مشکلات ہونگی کیونکہ زہری نے اپنے قافلے پرحملے کا الزام مینگل پرلگایا ہے۔
نواز شریف کے ذہن میں کراچی کے حوالے سے بھی کچھ منصوبے ہیں اور انھوں نے اکثر کہا ہے کہ کراچی میں امن کے بغیر ملک میں استحکام نہیں آسکتا، جب وہ آرمی چیف اور انٹیلی جنس سربراہان سے ملیں گے توکراچی کی صورتحال بھی ایجنڈے میں شامل ہوگی۔ ن لیگ کے لیے پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانا مشکل ہوگا کیونکہ اس سے قبل کبھی بھی سابق آمرکے خلاف غداری کا مقدمہ نہیں چلایا گیا۔ ن لیگ اس معاملے میں جلدی سے کام نہیں لے گی، وہ انتقامی کارروائیوں کا تاثر نہیں دیتا چاہتی مگر پارٹی 3 نومبر 2007ء کے اقدامات پر مشرف کے خلاف کارروائی چاہتی ہے۔
ن لیگ صدر زرداری سے بھی کسی قسم کا تنازع نہیں چاہے گی کیونکہ وہ ابتدائی سال میں سیاسی درجہ حرارت کم رکھنا چاہتی ہے۔ طالبان بھی دہشتگردی کے خلاف جنگ اور امریکا سے تعلقات کے حوالے سے نوازشریف کی پالیسی کا انتظارکر رہے ہیں۔ شہباز شریف نے گزشتہ روز مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات بھی کی ہے، ملاقات میں ایک طرف طالبان سے مذاکرات اور دوسری طرف خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کے حوالے سے گفتگو ہوئی ہے۔
گزشتہ دنوں میں نوازشریف سے امریکی صدر اوباما کی بھی ٹیلیفون پر بات ہوئی ہے اور امریکی سفیر نے بھی قائد ن لیگ سے ملاقات کی ہے لیکن اس حوالے سے جان کیری کا دورہ پاکستان اہم ہوگا۔ نوازشریف نے اسحٰق ڈار اور سرتاج عزیز کو ہدایات جاری کر دی ہیں کہ پہلا بجٹ عوام دوست ہونا چاہیے۔ ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے نواز شریف اسٹبلشمنٹ سے تنائو کی صورتحال پیدا نہیں کرینگے مگر اس کے ساتھ ساتھ اپنی رٹ قائم کرنے کی بھی کوشش کرینگے۔
آئندہ ہفتوں میں انکی آرمی چیف جنرل کیانی سے ملاقاتوں کا بھی امکان ہے مگراس سے قبل ہی انھوں نے مولانا فضل الرحمٰن کو طالبان سے مذاکرات کے حوالے ذمے داری دینے کے لیے اشارہ دیا ہے۔ ن لیگ کے لیے دہشت گردی، معیشت، توانائی،سیاسی استحکام، بھارت سے تعلقات، بلوچستان اور کراچی کے مسائل اہم ترجیحات ہونگے۔ بلوچستان میں ن لیگ بلوچ قوم پرستوں کو بھی ساتھ رکھنے کی کوشش کرے گی مگر ثنا اللہ زہری کے وزیراعلیٰ بننے کی صورت میں بی این پی(مینگل) کے ساتھ تعلقات میں مشکلات ہونگی کیونکہ زہری نے اپنے قافلے پرحملے کا الزام مینگل پرلگایا ہے۔
نواز شریف کے ذہن میں کراچی کے حوالے سے بھی کچھ منصوبے ہیں اور انھوں نے اکثر کہا ہے کہ کراچی میں امن کے بغیر ملک میں استحکام نہیں آسکتا، جب وہ آرمی چیف اور انٹیلی جنس سربراہان سے ملیں گے توکراچی کی صورتحال بھی ایجنڈے میں شامل ہوگی۔ ن لیگ کے لیے پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانا مشکل ہوگا کیونکہ اس سے قبل کبھی بھی سابق آمرکے خلاف غداری کا مقدمہ نہیں چلایا گیا۔ ن لیگ اس معاملے میں جلدی سے کام نہیں لے گی، وہ انتقامی کارروائیوں کا تاثر نہیں دیتا چاہتی مگر پارٹی 3 نومبر 2007ء کے اقدامات پر مشرف کے خلاف کارروائی چاہتی ہے۔
ن لیگ صدر زرداری سے بھی کسی قسم کا تنازع نہیں چاہے گی کیونکہ وہ ابتدائی سال میں سیاسی درجہ حرارت کم رکھنا چاہتی ہے۔ طالبان بھی دہشتگردی کے خلاف جنگ اور امریکا سے تعلقات کے حوالے سے نوازشریف کی پالیسی کا انتظارکر رہے ہیں۔ شہباز شریف نے گزشتہ روز مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات بھی کی ہے، ملاقات میں ایک طرف طالبان سے مذاکرات اور دوسری طرف خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کے حوالے سے گفتگو ہوئی ہے۔
گزشتہ دنوں میں نوازشریف سے امریکی صدر اوباما کی بھی ٹیلیفون پر بات ہوئی ہے اور امریکی سفیر نے بھی قائد ن لیگ سے ملاقات کی ہے لیکن اس حوالے سے جان کیری کا دورہ پاکستان اہم ہوگا۔ نوازشریف نے اسحٰق ڈار اور سرتاج عزیز کو ہدایات جاری کر دی ہیں کہ پہلا بجٹ عوام دوست ہونا چاہیے۔ ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے نواز شریف اسٹبلشمنٹ سے تنائو کی صورتحال پیدا نہیں کرینگے مگر اس کے ساتھ ساتھ اپنی رٹ قائم کرنے کی بھی کوشش کرینگے۔