کوئی ٹیکنوکریٹ یا بیورو کریٹ ملک نہیں چلا سکتا ۔ وزیر اعظم

سیاسی جماعتیں ہی ملک جوڑکررکھنے والی قوت ہیں، ایکسپریس میڈیاگروپ اوردی یونیورسٹی آف لاہورکے زیراہتمام سیمینار

اسلام آباد:ایکسپریس میڈیاگروپ اور دی یونیورسٹی آف لاہور کے زیراہتمام ’’میری شناخت پاکستان‘‘ سیمینار سے وزیراعظم راجا پرویز اشرف خطاب کررہے ہیں اسٹیج پر وفاقی وزیر اطلاعات قمرزمان کائرہ،امجد اسلام امجد، ڈاکٹر مہدی حسن،پروفیسر ایم اے رئوف، گلوکار عارف لوہار،آئی ٹی انجینئر شافع تھوبانی اور اجمل ستار ملک بیٹھے ہیں (فوٹو ایکسپریس)

KARACHI:
وزیراعظم راجا پرویزاشرف نے کہا ہے کہ جمہوریت کے بغیر ملک کا کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا ، سیکڑوں سال کی تاریخ نے ثابت کردیا ہے کہ وہی نظامِ حکومت چلتا ہے جو عوام کی مرضی اور منشاء کے مطابق ہوتا ہے۔ یہ بات انھوں نے ایکسپریس میڈیا گروپ اور دی یونیورسٹی آف لاہور کے زیراہتمام ''میری شناخت پاکستان'' سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

وزیراعظم نے کہا کہ جمہوریت، جمہور سے ہے اور جمہور عوام ہیں، عوامی سوچ، عوامی تگ ودو اور عوامی طاقت وشعور جمہوریت ہے، ہماری تحریک آزادی ایک ایسی تحریک تھی جو جمہوری قوت اور جمہوری رہنمائی کی بہترین مثال ہے۔ ایوب خان کا مارشل لاء دس گیارہ سال رہا۔ انھوں نے بنیادی جمہریت کا نظام نافذ کیا اور ملک کا کنٹرول 80ہزار افراد کو دیدیا جمہوریت کا لبادہ اوڑھے بنیادی جمہوریت کے اس نظام سے ملک میں نفرتیں اتنی بڑھیں کہ آخر مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوگیا۔

وزیراعظم نے کہا اگر مذاہب اقوام کو جوڑ کر رکھتے تو دنیا میں جتنے بڑے مذاہب ہیں ، اتنے ہی ممالک اور ریاستیںہوتیں، اگر افواج ملک کو جوڑ کر رکھ سکتیں تو ہماری فوج بھی ملک کو دو ٹکڑے ہونے سے بچالیتی۔ تقسیم پاکستان کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس وقت کوئی ایسی وفاقی جماعت نہیں تھی جس کا اثر ملک کے دونوں حصوں میں ہوتا اور جس کی جڑیں پورے وفاق میں ہوتیں۔ وفاقی جماعتوں میں ہر زبان، نسل ، قومیت اور طبقے کا بندہ ہوتا ہے، یہ ایک قوت ہوتی ہے جو ایک پروگرام کو ساتھ لے کر چلتی ہے۔

کوئی ٹیکنوکریٹ یا کوئی بیوروکریٹ ملک نہیںچلاسکتا، ہم اس کے تجربات کرچکے ہیں۔کسی بھی ملک کو جوڑ کر رکھنے والی قوتیں سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں ۔ اگرچہ سوچ اور منشور مختلف ہوسکتا ہے لیکن ہم سب پاکستانی ہیں، ہم نے اپنی سوچ کو محدودکردیاہے،ہم سمجھتے ہیںجوہم چاہتے ہیں وہی ہو،ہم تو چھوٹی چھوٹی باتوںپرجھگڑتے ہیں، میڈیاکے کردار پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ میڈیا معاشرے کاسب سے مضبوط جزو ہے، اسے سچ بولناچاہیے،اس کاقبلہ درست ہوناچاہیے، اسے غیرجانبدار اور پاکستانی سوچ کاحامل ہونا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان اتنا برا نہیں جتنا ہم نے اسے بناکر پیش کردیا ہے۔

انھوں نے میڈیا سے کہا کہ وہ حکومت پر تنقید ضرور کرے لیکن ملک پر تنقید نہ کرے ۔ انھوں نے کہا کہ کوئی قوم کسی دشمن سے زیر نہیں ہوتی، حادثات سے بھی گزر کر اقوام ابھرتی ہیں، قومیں صرف اس وقت مرتی ہیں جب ان کے اندر امید ختم کردی جاتی ہے یا ختم ہوجاتی ہے۔ انھوں نے کہا ہمیں انھیں دیکھنا چاہیے جن کی کوئی شناخت اور پہچان نہیں ہے، ہمیں اپنی سمت ٹھیک کرنی ہے، سیاستدانوں میں بھی کوتاہیاں ہیں لیکن میڈیا والوں کو ہمیشہ امید کا چراغ روشن رکھنا ہے اور ملک کے بارے میں مثبت امیج کو ابھارنا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ایکسپریس نے بہت اچھا کام کیا ، ہمیں شافع جیسے آئی ٹی سرٹیفائیڈ کم عمر بچے کو دیکھ کر ہمت کرنی چاہیے ، جس قوم کے اندر ایسے ٹیلنٹڈ بچے ہوں،اس کے ہاں امید کا چراغ گل نہیں ہوسکتا، ہماری سب سے بڑی شناخت ہماری قومی زبان ہے۔ انھوں نے سعودی فرمانروا سے اپنی ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں انگریزی میں بات کر رہا تھا اور سعودی فرمانروا عربی میں بات کر رہے تھے اور مترجم ترجمہ کر رہا تھا، انھوں نے کہاکہ میں اردو میں بات کرتا لیکن پھر میڈیا نے کہنا تھا کہ وزیراعظم کو انگریزی نہیں آتی، انھوں نے میڈیا سے کہا کہ وہ مطالبہ کرے کہ تمام اکابرین اپنی قومی زبان میں بات کریں۔

انھوں نے کہا کہ پنجاب یونیورسٹی میں بی اے میں پہلی پوزیشن تنور میں روٹیاں لگانے والے نے لی، تیسری پوزیشن ایسی لڑکی نے لی جس کے بہن بھائی سماعت سے محروم ہیں اور جو اپنے والد کے ساتھ خراد کی مشین پر کام کرتی ہے۔ انھوں نے میڈیا سے کہا کہ وہ ایسے لوگوں کے بارے میں بتائیں، قوم کی مثبت تصویر سامنے لائیں، نہ کہ اپنے پروگراموں میں سیاستدانوں کو آپس میں لڑواکر تماشا دکھائیں، اچھے کام کرنے والوں کو دکھائیں۔ انھوں نے کہا کہ جتنا انسانی حقوق کاتحفظ پاکستان میںہوتا ہے کہیں بھی نہیںہوتا۔

اس موقع پر انھوں نے پنجابی میںمیاںمحمدبخش کاشعر بھی سنایا۔ وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے کہا کہ وہ ایکسپریس اور اس کی ٹیم کے شکرگزار ہیں جنھوں نے یوم آزادی کی مناسبت سے اس پروگرام کا انعقاد کیا، '' ہماری شناخت پاکستان'' ایک خوبصورت موضوع ہے۔ اس موقع پر انھوں نے اپنی لکھی ہوئی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک سیاسی ورکر کیلیے لکھی ہوئی تقریر پڑھنا دشواری کا باعث ہوتا ہے اس لیے میں اپنے دل کی آواز کہوں گا،

یہ کہتے ہوئے انھوں نے لکھی ہوئی تقریر ایک طرف رکھ دی اور کہا کہ سیمینار میں مقررین نے خوبصورت باتیں کی ہیں جن میں بڑی گہرائی اور پیغام تھا۔ انھوں نے کہاکہ اس میں شک نہیں کہ پاکستان ہی ہماری پہچان ہے، شروع دن سے تھی اور ہمیشہ رہے گی۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی بدل ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ آج ہمارا سب سے بڑامسئلہ یہ ہے کہ آیا پارلیمنٹ بالادست ہے یاکوئی اور ادارہ ؟ پاکستان کا وہ ادارہ جو سب قومتیوں کی شناخت ہے وہ پارلیمان ہے، ہمیں پارلیمان کو بے توقیر نہیںکرنا، پارلیمان کو بے توقیر کرکے نظام کو گالی مت دیں۔ یہ باتیں انھوں نے پیر کو ایکسپریس میڈیا گروپ اور دی یونیورسٹی آف لاہور کے زیر اہتمام ''میری شناخت پاکستان'' سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔


قمر زمان کائرہ نے کہا کہ پارلیمنٹ تمام قومیتوں پر مشتمل ہے، خیبرپختونخوا کو اس کا نام دیا گیا، سندھ بلوچستان اور پنجاب کو سیاسی و صوبائی خودمختاری دی گئی، صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ میں ان کا حق دینا پاکستان کو مضبوط کرنیکی کوشش ہے، اگرچہ آغاز حقوق بلوچستان پوری طرح سے نتائج حاصل نہیں کرسکا لیکن آج ہم بیٹھ کر بلوچستان پر بات کر رہے ہیں، صوبوں کو وسائل دینے سے ملک تگڑا ہوا ہے، شناختیں بہت ضروری ہوتی ہیں، تنوع کے بغیر جمہوریتیں نہیں پنپ سکتیں، ہم اپنے تئیں کوششیں کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے، وزیراعظم نے سیمینار میں آکراپنی ذمے داری پوری کی ہے۔

قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ آج کے سارے مسائل کی جڑ ضیاء الحق ہیں، پاکستان بننے سے 1977 تک جو حاصل کیا گیا وہ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات نے ڈھادیا۔1988 میں ملک میں انتخابات ہوئے لوگوں نے ملک کو مضبوط بنانے کا کام شروع کیا لیکن ہمارے ہاں ایک کے بعد دوسری آمریت آجاتی ہے۔ آج جماعتیں مضبوط نہیں امیدوار مضبوط ہیں ۔ بینظیر کی حکومت دو مرتبہ ختم کی گئی، دو مرتبہ نواز شریف کو اقتدار سے نکالا گیا اور انھیں جان بچانے کیلیے ملک سے باہر جانا پڑا۔

ایک منتخب وزیرِاعظم کو پھانسی دی گئی اور دوسرے وزیراعظم کو نا اہل قرار دیدیا گیا ہے، کیا یہی ہماری سیاست اور پہچان ہے؟ کل کسی ایک ادارے کو شک تھا کہ وہ پاکستان کو مضبوط کرسکتا ہے تو آج یہی شک ایک دوسرے ادارے کو ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے یوم آزادی کے حوالے سے ہر سال کی طرح قومی ہیروز کو خراج تحسین پیش کرنے کیلیے اس مرتبہ بھی سیمینار منعقد کرنے پر ایکسپریس میڈیا گروپ کو سراہا۔

پاکستان کے عوام کو پہلی مرتبہ اپنے نمائندے چننے کا حق 1977ء میں ملا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ملک رہنے کیلیے بنا، اگر یہ رہنے کیلیے بنا تھا تو پھر یہ ٹوٹا کیوں؟ ہمیں اسے بچاکر رکھنا ہے اور اس کے بنیادی اصولوں کے تحت چلانا ہے ورنہ فوج، پارلیمنٹ یا عدلیہ سمیت کوئی ادارہ اسے نہیں بچاسکتا۔ 1977ء میں وفاقیت کا معاہدہ ہوا اس سے قبل ایک فرد واحد کا بنایا ہوا نظام کام کر رہا تھا۔اس وقت کو ئی قومیت کی بات کرتا تھا تو اسے غدار کہا جاتا تھا۔

سیمینار سے دی یونیورسٹی آف لاہور اسلام آباد کیمپس کے صدر بریگیڈیئر(ر)محمد عجائب نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ایکسپریس میڈیا گروپ اور دی یونیورسٹی آف لاہور نے اکٹھے اپنے اپنے اداروں کی بنیاد رکھی اور دونوں اداروں نے ترقی کی ہے، انھوں نے کہا کہ اس وقت دی یونیورسٹی آف لاہور میں 15 ہزار سے زائد طلبہ زیور تعلیم سے آراستہ ہورہے ہیں اوراِس یونیورسٹی کے طلبہ نے میڈیکل سائنسز اور انجینئرنگ سمیت تمام شعبوںمیںنام پیدا کیا ہے ، انھوں نے کہا کہ دی یونیورسٹی آف لاہور کاشمار دنیا کی 6 کم عمر ترین یونیورسٹیوں میں اور ایشیاء کی ٹاپ کی 30 یونیورسٹیوںمیں ہوتا ہے ۔

انھوں نے کہا کہ تمام ترمسائل کے باوجود پاکستانی قوم اپنے قومی تشخص پر یقین رکھتی ہے اور جو قومیں اپنے قومی تشخص پر یقین رکھتی ہیں ، دنیا کی کوئی طاقت انھیں سرنگوں نہیں کرسکتی ہے ۔8 سالہ مائیکروسافٹ سرٹیفائڈ ایکسپرٹ شافع تھوبانی نے کہا کہ پاکستان دہشت گردملک نہیں بلکہ ایک امن پسندملک ہے، خواہش ہے کہ پاکستان کو مزید مضبوط بنایا جائے، پاکستان میں بچوں پر مشتمل ایک فورس ہونی چاہیے جو ملک کے مستقبل کو تابناک بنانے میںاپنا کردار ادا کرے کیونکہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے اور انشاء اللہ پاکستان میں نئی صُبح کا آغاز ہوگا۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سابق سربراہ ڈاکٹرمہدی حسن نے کہا کہ ہمیںاس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ہم کیوں ایک ایسی قوم بن گئے ہیں جس کا کوئی قومی فلسفہ ہے نہ کوئی نظریہ ، ہم نظریاتی خلا میںزندگی گزاررہے ہیں ۔ ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ ایک ڈان اخبارکے علاوہ تمام اخبارات نے ایک بیوروکریٹ کی پریس ایڈوائس پر عمل کیا تھا، ڈان اخبار کے اس وقت کے مدیر الطاف حسین چونکہ قائد اعظم کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے ، نے قائد اعظم کی تقریر کا مکمل متن شائع کیا اور اپنے3 رپورٹرز کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ معاملے کی انکوائری کریں اور بتائیں کہ پریس ایڈوائس کیسے جاری ہوئی جنہوں نے اخبار کے مدیر کو بتایا کہ جس بیوروکریٹ نے پریس ایڈوائس جاری کی ہے کہ وہ انڈین سول سروس (آئی سی ایس)کرکے تعینات ہونیوالا افسر ہے جس پر اخبار کے مدیر نے اس بیوروکریٹ کو فون کیا اور کہا کہ وہ اس کی اس حرکت کے بارے میں قائداعظم کو آگاہ کریں گے جس پراس بیورو کریٹ نے جواب دیا کہ قائد اعظم کی اس تقریر کے بارے میں میرا اختلاف رائے ہے ۔

ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ قائد اعظم کے وژن پر مشتمل تقریر کا مکمل متن شائع ہونے سے روکنے والا بیورو کریٹ بدقسمتی سے بعدازاں 1955-56 میںملک کاوزیراعظم بن گیا۔ انھوں نے کہا کہ جب ایسے لوگ پاکستان کے وزیراعظم ہونگے توہماری پہچان کیا ہوگی ؟ ملک کے لوگ اس وقت تقسیم ہیں ، 162سیاسی جماعتیں کام کررہی ہیں جن میں60 سے زیادہ مذہب کی بنیاد پر قائم ہیں جو ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں اور ایک دوسرے پر کُفر کے فتوے لگاتی ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ میرے خلاف بھی کُفر اور واجب القتل ہونے کے فتوے جاری کیے گئے کیونکہ مجھے سچ بولنے کی عادت ہے ۔

نامور ادیب و شاعر امجداسلام امجد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو قائم ہوئے65 سال ہوگئے ہیں اور آج بھی ہم اسی سوال پر کھڑے ہیں کہ ہماری پہچان کیا ہے۔ ترقی کیلیے تین نکات اہم اور ضروری ہیں جن میں بہتر نظام تعلیم، میرٹ اور انصاف کی بالادستی شامل ہیں۔ مجھے دکھ ہوا کہ ترکی کے صدرو وزیراعظم پاکستان آئے تو انھوں نے ترکی زبان میں بات کی جبکہ ہمارے صدر اور وزیراعظم نے انگریزی میں جواب دیا ، انھوں نے کہا کہ جب مترجم نے ترجمہ کرنا تھا تو ہمارے صدر و وزیراعظم کو بھی اپنی قومی زبان میں جواب دینا چاہیے تھا ،

انھوں نے کہا کہ لیاقت علی خان سے لیکر موجودہ وزیراعظم تک سب اپنے اپنے دور کے ترجمان ہوتے ہیں ، عوام کو بھی چاہیے کہ وہ صرف حکمرانوں کو بُرا بھلا کہنے کے بجائے اپنے اوپر بھی نگاہ ڈالیں اور اپنی خامیاں بھی دور کریں ۔ معروف گلوکار عارف لوہار نے اپنے خطاب میںکہا کہ پاکستان قائم دائم ہے اور مشکلات آتی رہتی ہیں، ہم بھاگنے والے نہیں، تمام مشکلات پر مل کر قابو پائیں گے۔ اُنھوں نے کہا کہ سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد میںنے سب سے پہلے وسط ایشیائی ریاستوں میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی اور یہ میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے۔
Load Next Story