مکافاتِ عمل

اب قوم نے فیصلہ کیا ہے کہ اب ان کے بچے نہیں پالنے، اپنے بچے پالنے کا انتظام کرنا ہو گا

meemsheenkhay@gmail.com

25 جولائی 2018ء کو اس قوم نے اپنی رائے کا اظہار کر ہی دیا اور یہ الیکشن گزشتہ برسوں میں ہونے والے انتخابات سے زیادہ پرامن ہوئے۔ بلوچستان میں کچھ سانحے ہوئے، جس پر دل خون کے آنسو روتا رہا۔ اس مرتبہ الیکشن میں بڑے کرتب دیکھے اور کچھ کرتب تو کمال کے تھے۔

سیاستدان لاوارثوں کی طرح مارے مارے پھر رہے تھے، قوم کی آنکھوں میں روشنی اس وقت صاف نمودار ہوئی جب ان کو بے سروساماں بغیر پروٹوکول کے دیکھا، وہ قیمتی گاڑیاں جو یہ قوت زور سے اپنی مراعات سمجھ کر لیتے رہے، وہ غائب تھیں۔ پولیس بھی پرسکون تھی، ٹریفک بھی اس طرح رواں دواں رہا جیسے 1970ء میں ہوتا تھا۔

قوم کا تو کچھ نہیں بگڑا امیدواروں کے چہرے پر قائم رہنے والا تکبر ملیامیٹ نظر آیا۔ دس سال سے وزارت کے مزے لوٹنے والے شرمندگی کی بھول بھلیوں میں بھٹکتے نظر آئے، پذیرائی کا لفظ تو ایسے غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ مذہب اور ملک سے لاپرواہ ان خود سر سیاستدانوں کو پارلیمنٹ سے نکال باہر کیا۔ آخر زیادتی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے، جتنے بھی من پسند چاچا خوامخوا تھے سب فارغ ہو گئے۔ عوام نے ان کی طرف سے بہت سختیاں جھیلی ہیں، آنے والی حکومت کو چاہیے کہ اسمبلی میں باقاعدہ قانون پاس کروائے کہ ایک حلقے سے صرف ایک امیدوار کھڑا ہو گا۔ اب 50 قومی اور صوبائی اسمبلی حلقوں پر ضمنی انتخابات ہوں گے۔

یہ قوم کب تک ان کے ناز اٹھائے گی؟ کون اس کا ذمے دار ہے؟ یہ جو آزمائے ہوئے شکاری چار چار حلقوں سے کھڑے ہوئے ان کا مشن یہ ہوتا ہے کہ آنے والے جمہوری نظام میں ہمارے لیے اداس رنگ نہ ہو اور مزے کی بات دیکھیں ہارنے والے اب واویلا مچا رہے ہیں کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی۔ ان کے کہنے پر فوج کو ذمے داری سونپی گئی کہ وہ صاف اور شفاف الیکشن منعقد کروائے، ان کی کارکردگی تو الیکشن والے دن ہی نظر آگئی تھی، جب عوام نے دوران ووٹنگ پاک آرمی کو پھول اور مٹھائیاں تقسیم کیں۔ کیا یہ آنکھوں کے اندھے ہیں، انھیں نظر نہیں آ رہا تھا کہ قوم نے کس طرح فوج کو عزت و تکریم سے نوازا۔ تم نے قوم کو کیا دیا، صرف ذخیرہ اندوزی، کرپشن، لوٹ ماری، بینکوں کے قرضے اور بد دیانتی کا جھنڈا بلند رکھا، جس کی زندہ مثال یہ خود ہیں۔

چاروں صوبوں میں جب یہ سیاسی چور ووٹ کے لیے گئے تو عوم نے انھیں دیکھ کر توبہ و استغفار کیا۔ اب قوم نے تعصب سے بالاتر ہوکر اپنے نمایندے منتخب کیے اور بڑے بڑے سورماؤں کی سیاسی میت بغیر کفن کے دفن ہوگئی۔ وہ لوگ جو قومی اسمبلی کے دلہا کہلاتے تھے اب مایوسی کے کنوؤں میں جھانک رہے ہیں۔ صوبہ سندھ کے شہر کراچی میں بھی بڑے بڑے نامی نام دار بھی اپنے انجام کو پہنچے۔ ویسے بھی کراچی اور حیدرآباد میں رہنے والا تعلیم یافتہ طبقہ تو گزشتہ 10 سال سے پولنگ اسٹیشن کا رخ ہی نہیں کرتا تھا، مگر اس دفعہ اس نے بھی تنگ آکر ایک ہی دفعہ جھاڑو پھیر دی۔ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔ پاکستان کے چاروں صوبوں سے ہارنے والے امیدواروں میں ہمت ہے تو اپنی کارکردگی کے حوالے سے وائٹ پیپر شایع کریں تاکہ اس قوم کو پتہ چلے کہ انھوں نے کیا توپ چلائی تھی جس کے بارود کی وجہ سے وہ ڈھیر ہوگئے۔


اندھی تقلید نے اس عوام کو مروا دیا، مگر یہ وہ لوگ تھے جو غیر تعلیم یافتہ تھے اور ان کی چکنی چپڑی باتوں میں آ کر خود تو کلہاڑی کی زد میں آئے مگر اس چکر میں تعلیم یافتہ طبقہ بھی پس کر رہ گیا۔ ادھر ایک سیاسی قوت جو 15 سال سے اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے، کہتے ہیں کہ حلقے نہ کھولے جائیں پورا الیکشن کالعدم قرار دیا جائے۔ انھیں پتہ ہے کہ 2018ء کے الیکشن پر تقریباً 40 ارب روپے خرچ ہوئے، اگر ان کے کہنے کے مطابق دوبارہ الیکشن کروائے تو اس پر 40 ارب روپے خرچ ہوں گے۔ یہ پیسہ غریبوں نے دیا ہے، جن کے پاس نہ نوکری ہے، نہ پانی ہے، نہ کھانے کو روٹی ہے، نہ بجلی ہے، نہ گیس ہے۔ رہتے وہ بھی اسی سرزمین پر ہیں، جب کہ آپ تمام چیزوں سے برملا ہیں، حتیٰ کہ ان غریبوں کو تو جان کی ضمانت نہیں۔

آپ سیاستدان تو ان تمام چیزوں میں مستفید ہوتے ہیں۔ آپ کو پانی کی کیا فکر ہے، منرل واٹر سے تو آپ لوگ ہاتھ دھوتے ہیں، پیٹ ہے کہ بھرنے کا نام نہیں لیتا، روٹی ہی روٹی ہے، وہ بھی مرغن قسم کی، بجلی کی آپ کو فکر نہیں، بڑے بڑے جنریٹر آپ کے محلوں میں موجود ہیں، جو سرکاری ڈیزل سے چلتے ہیں۔ رہا معاملہ گیس کا تو اس کی آپ کو کیا فکر۔ اگر دوبارہ الیکشن کرواتے ہیں کہ وہ منصفانہ ہوں تو اس پر 40 ارب روپے خرچ ہوں گے۔ اس کا ایک حل ہے کہ آپ سب ہارنے والے مل کر 40 ارب روپے جمع کریں اور پھر دوبارہ الیکشن کروا دیتے ہیں۔ پھر بھی رزلٹ یہی ہوگا کہ اس قوم کو آپ سیاسی حضرات نے کچھ نہیں دیا۔

15 سال آپ نے قوم کی کیا خدمت کی، اس کو ایک پریس کانفرنس کے ذریعے بتائیں کہ یہ وائٹ پیپر ہے اور ہم نے اپنے حلقوں میں یہ کام کیے ہیں۔ آپ لوگ تو 5 سال میں ایک دفعہ اپنے حلقے میں ووٹ کے لیے جاتے ہیں اور اس دفعہ قوم نے اتحاد و یگانگت کے تحت آپ سیاسی حضرات کا استقبال کیا تو آپ دنگ رہ گئے۔ کراچی سے لے کر خیبر تک قوم نے آپ کی جو درگت بنائی وہ تاریخ میں سنہری لفظوں میں لکھی جائے گی۔ اب آپ الیکشن کو کالعدم کرنے کی باتیں کرکے کہتے ہیں کہ قانونی تقاضے پورے کیے جائیں۔ بے شمار سیاستدان کرپشن کے بازار میں اچھل کود کر رہے ہیں۔ دل آزاری کی آخری چوٹی پر کھڑے ہو کر کہتے ہو کہ ہم بے قصور ہیں۔ عوامی قدر و منزلت کو دفن کر کے کہتے ہو کہ ہم بے قصور ہیں، انسانیت ناپید کر کے کہتے ہو کہ ہم بے قصور ہیں۔ اب مکافات عمل ہوا ہے تو کہتے ہو کہ ہم بے قصور ہیں۔

اس دفعہ عوام نے جس طرح ووٹ کا حق ادا کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ 25 سال پرانے بت توڑ دیے گئے۔ عوام نے لٹیروں اور کرپٹ سیاست دانوں سے بڑی مشکل سے جان چھڑائی ہے۔ ہارنے والے کہتے ہیں کہ الیکشن ایمانداری سے نہیں کروائے گئے اور جو جیتے ہیں وہاں کیا جادوئی چھڑی کام کر رہی تھی۔ اپنی جیت پر بھی تنقید کریں کہ ہمارے حلقے میں الیکشن ایمانداری سے نہیں ہو سکا، کیونکہ ہم نے تو قوم کو کچھ بھی ڈلیور نہیں کیا تھا، پھر ہم جیت کیسے گئے۔

اب یہ ان کے سوچنے کا مقام ہے، قوم نے تو فیصلہ کر دیا، پاکستانی دنیا کی وہ واحد قوم ہے جو ووٹ دے کر بھی اپنی محنت کی کمائی سے ان حکمرانوں کے ناز اٹھاتی ہے اور انھیں پالتی ہے۔ اب قوم نے فیصلہ کیا ہے کہ اب ان کے بچے نہیں پالنے، اپنے بچے پالنے کا انتظام کرنا ہو گا۔
Load Next Story