کیا سندھ کی قسمت بدلے گی
کیا سندھ کے عوام نے ’’بھٹو‘‘ کی محبت میں ہمیشہ وڈیروں کا غلام اور محکوم بن کر رہنے کا فیصلہ کرلیا ہے؟
2018ء کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی نے سندھ میں مسلسل حکومت بنانے کی ہیٹ ٹرک مکمل کر لی ہے اور یوں اسے یہ اعزاز حاصل ہوگیا ہے کہ پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں وہ واحد جماعت ہے جس نے صوبہ سندھ میں سب سے زیادہ طویل حکومت کی ہے، بلکہ چار بار پیپلز پارٹی اپنا وزیراعظم لانے میں کامیاب رہی، جس میں ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو جیسی شخصیت بھی وزیراعظم تھیں۔ دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی کو سب سے زیادہ عوام کی خدمت کرنے کا موقع ملا۔ وفاق کی علامت سمجھی جانے والی جماعت اب سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ لیاری جو پیپلز پارٹی کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا تھا بلکہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں ہمیشہ پیپلز پارٹی کی جھولی میں باآسانی گر جاتی تھیں، لیاری جو پیپلز پارٹی پر پھول نچھاور کیا کرتا تھا، پارٹی ترانوں پر لیاری جھوم جاتا تھا، مگر اس بار لیاری نے اپنا رنگ ہی بدل لیا۔ پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے لیاری سے اپنی الیکشن مہم کا آغاز کیا تو ان کے خلاف جیالوں نے بھر پور احتجاج کیا۔
عوام کے شدید ردعمل کو پیپلز پارٹی کی قیادت نے سنجیدگی سے نہیں لیا بلکہ مخالفین کی سازش سمجھ کر نظر انداز کر گئے۔ لیاری کے تیور دیکھتے ہوئے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بلاول بھٹو کو اس نشست سے نہ لڑایا جاتا اور یوں پیپلز پارٹی کی عزت بچ جاتی۔ لیکن لیاری کو اپنا محکوم اور مزارع سمجھے والوں کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہوا کہ لیاری اب بدل چکا ہے۔ 40 سال سے پیپلز پارٹی کے سحر میں مدہوش لیاری نے اپنے شعوری اور جمہوری انداز کو اپناتے ہوئے ''جمہوریت بہترین انتقام ہے'' کے اصول پر عمل کرتے ہوئے پیپلز پارٹی سے انتقام لے ہی لیا۔
لیاری تو اس وقت ہی پیپلز پارٹی کے ہاتھوں سے نکل گیا تھا جب 2013ء کے انتخابات میں لیاری امن کمیٹی کے عذیر بلوچ اور حبیب جان کے منتخب ناموں کو پیپلز پارٹی بحالت مجبوری پارٹی ٹکٹ دینے پر مجبور ہوئی تھی، لیاری سے کامیاب ہونے والے ممبر قومی و صوبائی اسمبلی کو مبارک باد دینے وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ، آصف علی زردای کی بہن فریال تالپور سمیت پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت لیاری پہنچی اور یہ ملاقات عذیر بلوچ کے گھر پر ہوئی۔
پیپلز پارٹی کا ماضی جمہوری رہا ہے، جس نے آمریت کے خلاف سب زیادہ جدوجہد کی۔ جیالوں نے ظلم و جبر برداشت کیا، لاہور قلعے کے عقوبت خانوں میں اذیتیں برداشت کیں، کوڑے کھائے بلکہ جئے بھٹو کا نعرہ لگاتے ہوئے پھانسی چڑھ گئے۔ پیپلز پارٹی کے بانی اور قائد کو جھوٹے مقدمے میں پھانسی چڑھایا گیا۔ بینظیر بھٹو جلاوطنی ختم کرکے وطن واپس آئیں، آمریت کے خاتمے اور جمہوریت کو پروان چڑھانے کی جدوجہد میں انھوں نے بھی شہادت حاصل کی۔ پیپلز پارٹی کو صفحہ ہستی سے ختم کرنے کی خواہش لیے جنرل ضیاالحق دنیا سے رخصت ہوگئے مگر وہ تمام تر ریاستی مظالم کے باوجود پیپلز پارٹی کو ختم کرنے میں ناکام رہے۔ اسٹیٹس کو سے ٹکرانے والی جماعت کو کوئی آمر اور جابر ختم نہ کر سکا۔ لیکن گزشتہ 10 برس کی خراب طرزِ حکمرانی نے اس پارٹی کو اپنے ہی صوبے تک محدود کر دیا ہے، پیپلز پارٹی مصلحت پسندی اور Dictation لینے والی جماعت بن گئی ہے۔ پیپلز پارٹی کو ملنے والے ووٹوں سے اس کی مقبولت کا اندازہ لگا جاسکتا ہے۔
حالیہ انتخابات میں تحریک انصاف نے 1 کروڑ 70 لاکھ، مسلم لیگ نون نے 1 کروڑ 13 لاکھ جب کہ پیپلز پارٹی نے صرف 69 لاکھ ووٹ حاصل کیے۔ اس کی وجہ بے انتہا کرپشن، اقربا پروری، اختیارات کا ناجائز استعمال اور جمہوری رویہ ہے۔ گزشتہ دس برسوں میں سندھ کو کھنڈر بنادیا گیا ہے، سندھ گندگی اور کھنڈرات کی تصویر پیش کررہا ہے، جہاں نہ پینے کا صاف پانی ملتا ہے اور نہ انڈر گراؤنڈ سیوریج کا نظام ستر برسوں میں ڈالا گیا ہے۔ حکومتی رٹ کا یہ عالم ہے کہ صحت کا شعبہ تباہی کے دہانے پر لاکھڑا ہے، سرکاری اسپتالوں میں ناقص ادویات کی فراہمی اور صفائی ستھرائی کی ابتر صورتحال ہے، تعلیم پر اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود سرکاری اسکولوں کی حالت زار میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، ایک غریب انسان کی زندگی مزید بد سے بدتر بنادی گئی ہے، سندھ میں گورننس کی بدترین صورتحال کے باوجود پیپلز پارٹی سندھ میں ایک بار پھر حکومت بنانے جارہی ہے۔
2018ء کے انتخابات میں ملک بھر میں بڑی تبدیلیاں رونماں ہوئی ہیں، تبدیلی کے نعرے میں دنیائے سیاست کے بڑے بڑے برج ڈھے گئے ہیں، دیگر صوبوں کے مقابلے میں مسلم لیگ ن نے پنجاب میں خوب ترقیا تی کام کیے مگر اس کے باوجود تحریک انصاف نے مسلم لیگ کو مات دے دی ہے، لیکن حیرت انگیز طور پر پیپلز پارٹی سندھ میں ناصرف کامیاب ہوئی بلکہ گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں زیادہ نشستیں حاصل کرنے میںکامیاب رہی ہے۔
گزشتہ دس برسوں میں بدترین کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے باوجود سندھ کے سیاسی منظرنامہ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اسے سندھ کی بدقسمتی ہی کہا جائے گا کہ پاکستان کی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف نے کبھی بھی سنجیدگی سے سندھ میں تبدیلی لانے کی کوشش ہی نہیں کی۔ دونوں جماعتیں پنجاب میں ہی محاذ جنگ میں مصروف رہیں اور یوں سندھ میں پیپلز پارٹی کو واک اوور مل گیا۔ الیکشن سے قبل جی ڈی اے کا اتحاد ضرور وجود میں آیا تھا، یہ اتحاد ان جماعتوں اور چند شخصیات پر مشتمل تھا جو چار سال تک خواب خرگوش کے مزے لیتے ہیں اور الیکشن سے چار ماہ قبل جاگتے ہیں مگر الیکشن کے بعد سیاسی منظر سے غائب ہوجاتے ہیں۔
حالیہ انتخابات میں ملک کے سب سے پسماندہ علاقے تھر کی خواتین نے 70 فیصد سے زائد تعداد میں ووٹ ڈال کر بلند ترین انتخابی شرح کا ریکارڈ قائم کیا ہے، یہاں سے پیپلز پارٹی کے دونوں امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ این اے 221 تھرپارکر i میں مجموعی ٹرن آؤٹ 68.6 فیصد تھا، جس میں 72.83 فیصد خواتین نے ووٹ ڈالے۔ این اے 222 تھرپارکر II میں جہاں مجموعی ٹرن آؤٹ 70.91 فیصد تھا، یہاں 71.40 فیصد خواتین نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ 25 جولائی کو تھر کے گرم ترین دن کی حدت، دور دراز مقام پر واقع پولنگ اسٹیشنز اور ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کے باوجود پیپلز پارٹی کو اتنی بڑی تعداد میں ووٹ مل جانا یہ انسانی کام نظر نہیں آتا۔
تھر وہ ضلع ہے جہاں خواتین اور بچوں کی سب سے زیادہ اموات ہوتی ہیں، خواتین سب سے زیادہ تکلیف دہ اور مشکل زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، جہاں آج بھی انسانوں کے لیے پینے کا صاف پانی میسر نہیں، پھر بھی پیپلز پارٹی کو تاریخی طور اتنی بڑی تعداد میں خواتین کا ووٹ ڈالنا کسی معجزے سے کم نہیں۔ یہ تمام صورت حال دیکھ کر ذہن میں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کیا سندھ کے عوام نے ''بھٹو'' کی محبت میں ہمیشہ وڈیروں کا غلام اور محکوم بن کر رہنے کا فیصلہ کرلیا ہے؟
اہم بات یہ ہے کہ لیاری جو پیپلز پارٹی کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا تھا بلکہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں ہمیشہ پیپلز پارٹی کی جھولی میں باآسانی گر جاتی تھیں، لیاری جو پیپلز پارٹی پر پھول نچھاور کیا کرتا تھا، پارٹی ترانوں پر لیاری جھوم جاتا تھا، مگر اس بار لیاری نے اپنا رنگ ہی بدل لیا۔ پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے لیاری سے اپنی الیکشن مہم کا آغاز کیا تو ان کے خلاف جیالوں نے بھر پور احتجاج کیا۔
عوام کے شدید ردعمل کو پیپلز پارٹی کی قیادت نے سنجیدگی سے نہیں لیا بلکہ مخالفین کی سازش سمجھ کر نظر انداز کر گئے۔ لیاری کے تیور دیکھتے ہوئے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بلاول بھٹو کو اس نشست سے نہ لڑایا جاتا اور یوں پیپلز پارٹی کی عزت بچ جاتی۔ لیکن لیاری کو اپنا محکوم اور مزارع سمجھے والوں کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہوا کہ لیاری اب بدل چکا ہے۔ 40 سال سے پیپلز پارٹی کے سحر میں مدہوش لیاری نے اپنے شعوری اور جمہوری انداز کو اپناتے ہوئے ''جمہوریت بہترین انتقام ہے'' کے اصول پر عمل کرتے ہوئے پیپلز پارٹی سے انتقام لے ہی لیا۔
لیاری تو اس وقت ہی پیپلز پارٹی کے ہاتھوں سے نکل گیا تھا جب 2013ء کے انتخابات میں لیاری امن کمیٹی کے عذیر بلوچ اور حبیب جان کے منتخب ناموں کو پیپلز پارٹی بحالت مجبوری پارٹی ٹکٹ دینے پر مجبور ہوئی تھی، لیاری سے کامیاب ہونے والے ممبر قومی و صوبائی اسمبلی کو مبارک باد دینے وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ، آصف علی زردای کی بہن فریال تالپور سمیت پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت لیاری پہنچی اور یہ ملاقات عذیر بلوچ کے گھر پر ہوئی۔
پیپلز پارٹی کا ماضی جمہوری رہا ہے، جس نے آمریت کے خلاف سب زیادہ جدوجہد کی۔ جیالوں نے ظلم و جبر برداشت کیا، لاہور قلعے کے عقوبت خانوں میں اذیتیں برداشت کیں، کوڑے کھائے بلکہ جئے بھٹو کا نعرہ لگاتے ہوئے پھانسی چڑھ گئے۔ پیپلز پارٹی کے بانی اور قائد کو جھوٹے مقدمے میں پھانسی چڑھایا گیا۔ بینظیر بھٹو جلاوطنی ختم کرکے وطن واپس آئیں، آمریت کے خاتمے اور جمہوریت کو پروان چڑھانے کی جدوجہد میں انھوں نے بھی شہادت حاصل کی۔ پیپلز پارٹی کو صفحہ ہستی سے ختم کرنے کی خواہش لیے جنرل ضیاالحق دنیا سے رخصت ہوگئے مگر وہ تمام تر ریاستی مظالم کے باوجود پیپلز پارٹی کو ختم کرنے میں ناکام رہے۔ اسٹیٹس کو سے ٹکرانے والی جماعت کو کوئی آمر اور جابر ختم نہ کر سکا۔ لیکن گزشتہ 10 برس کی خراب طرزِ حکمرانی نے اس پارٹی کو اپنے ہی صوبے تک محدود کر دیا ہے، پیپلز پارٹی مصلحت پسندی اور Dictation لینے والی جماعت بن گئی ہے۔ پیپلز پارٹی کو ملنے والے ووٹوں سے اس کی مقبولت کا اندازہ لگا جاسکتا ہے۔
حالیہ انتخابات میں تحریک انصاف نے 1 کروڑ 70 لاکھ، مسلم لیگ نون نے 1 کروڑ 13 لاکھ جب کہ پیپلز پارٹی نے صرف 69 لاکھ ووٹ حاصل کیے۔ اس کی وجہ بے انتہا کرپشن، اقربا پروری، اختیارات کا ناجائز استعمال اور جمہوری رویہ ہے۔ گزشتہ دس برسوں میں سندھ کو کھنڈر بنادیا گیا ہے، سندھ گندگی اور کھنڈرات کی تصویر پیش کررہا ہے، جہاں نہ پینے کا صاف پانی ملتا ہے اور نہ انڈر گراؤنڈ سیوریج کا نظام ستر برسوں میں ڈالا گیا ہے۔ حکومتی رٹ کا یہ عالم ہے کہ صحت کا شعبہ تباہی کے دہانے پر لاکھڑا ہے، سرکاری اسپتالوں میں ناقص ادویات کی فراہمی اور صفائی ستھرائی کی ابتر صورتحال ہے، تعلیم پر اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود سرکاری اسکولوں کی حالت زار میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، ایک غریب انسان کی زندگی مزید بد سے بدتر بنادی گئی ہے، سندھ میں گورننس کی بدترین صورتحال کے باوجود پیپلز پارٹی سندھ میں ایک بار پھر حکومت بنانے جارہی ہے۔
2018ء کے انتخابات میں ملک بھر میں بڑی تبدیلیاں رونماں ہوئی ہیں، تبدیلی کے نعرے میں دنیائے سیاست کے بڑے بڑے برج ڈھے گئے ہیں، دیگر صوبوں کے مقابلے میں مسلم لیگ ن نے پنجاب میں خوب ترقیا تی کام کیے مگر اس کے باوجود تحریک انصاف نے مسلم لیگ کو مات دے دی ہے، لیکن حیرت انگیز طور پر پیپلز پارٹی سندھ میں ناصرف کامیاب ہوئی بلکہ گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں زیادہ نشستیں حاصل کرنے میںکامیاب رہی ہے۔
گزشتہ دس برسوں میں بدترین کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے باوجود سندھ کے سیاسی منظرنامہ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اسے سندھ کی بدقسمتی ہی کہا جائے گا کہ پاکستان کی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف نے کبھی بھی سنجیدگی سے سندھ میں تبدیلی لانے کی کوشش ہی نہیں کی۔ دونوں جماعتیں پنجاب میں ہی محاذ جنگ میں مصروف رہیں اور یوں سندھ میں پیپلز پارٹی کو واک اوور مل گیا۔ الیکشن سے قبل جی ڈی اے کا اتحاد ضرور وجود میں آیا تھا، یہ اتحاد ان جماعتوں اور چند شخصیات پر مشتمل تھا جو چار سال تک خواب خرگوش کے مزے لیتے ہیں اور الیکشن سے چار ماہ قبل جاگتے ہیں مگر الیکشن کے بعد سیاسی منظر سے غائب ہوجاتے ہیں۔
حالیہ انتخابات میں ملک کے سب سے پسماندہ علاقے تھر کی خواتین نے 70 فیصد سے زائد تعداد میں ووٹ ڈال کر بلند ترین انتخابی شرح کا ریکارڈ قائم کیا ہے، یہاں سے پیپلز پارٹی کے دونوں امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ این اے 221 تھرپارکر i میں مجموعی ٹرن آؤٹ 68.6 فیصد تھا، جس میں 72.83 فیصد خواتین نے ووٹ ڈالے۔ این اے 222 تھرپارکر II میں جہاں مجموعی ٹرن آؤٹ 70.91 فیصد تھا، یہاں 71.40 فیصد خواتین نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ 25 جولائی کو تھر کے گرم ترین دن کی حدت، دور دراز مقام پر واقع پولنگ اسٹیشنز اور ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کے باوجود پیپلز پارٹی کو اتنی بڑی تعداد میں ووٹ مل جانا یہ انسانی کام نظر نہیں آتا۔
تھر وہ ضلع ہے جہاں خواتین اور بچوں کی سب سے زیادہ اموات ہوتی ہیں، خواتین سب سے زیادہ تکلیف دہ اور مشکل زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، جہاں آج بھی انسانوں کے لیے پینے کا صاف پانی میسر نہیں، پھر بھی پیپلز پارٹی کو تاریخی طور اتنی بڑی تعداد میں خواتین کا ووٹ ڈالنا کسی معجزے سے کم نہیں۔ یہ تمام صورت حال دیکھ کر ذہن میں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کیا سندھ کے عوام نے ''بھٹو'' کی محبت میں ہمیشہ وڈیروں کا غلام اور محکوم بن کر رہنے کا فیصلہ کرلیا ہے؟