وزیر اعلیٰ کا انتخاب ن لیگ عبدالعلیم خان سے خوفزدہ کیوں
عمران خان نے 1996 ء میں سیاست کا آغاز کیا تھا اور ان 22 برس میں انھیں سخت حالات کا سامنا رہا
آئندہ چند روز میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان وزیر اعظم کا منصب سنبھال لیں گے اور اس کے ساتھ ہی ان کیلئے آسمان کو چھوتے چیلنجز سے نمٹنے کا امتحان شروع ہوجائے گا، اس ملک کی عوام، میڈیا اور افسرشاہی نے گزشتہ 4 دہائیوں میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی حکومتیں دیکھی ہیں یا پھر آمریت، لہذا ابھی تک تو عوام کو یقین ہی نہیں آرہا کہ انہیں تینوں سے نجات مل چکی ہے اور ایک نئی پارٹی، ایک نیا چہرہ اقتدار میں آگیا ہے۔
عمران خان نے 1996 ء میں سیاست کا آغاز کیا تھا اور ان 22 برس میں انھیں سخت حالات کا سامنا رہا لیکن انھوں نے ہمت نہیں ہاری۔ عمران خان نے ''نیا پاکستان'' کا نعرہ تو دیا ہے مگر پانچ برس کی حکومت (وہ بھی علم نہیں، ملتے ہیں یا نہیں) میں سو فیصد رزلٹ آنا ممکن نہیں ہے۔ کسی یورپی دانشور نے کہا تھا کہ کسی قوم اور ملک کو تبدیل کرنے کیلئے 25 برس درکار ہوتے ہیں یعنی ایک نسل نئی جوان ہوتی ہے جو تبدیلی کے نظریات کے ساتھ پروان چڑھتی ہے تبھی جا کر ملک و قوم تبدیل ہوتے ہیں۔ عمران خان کے ساتھ پاکستانی قوم کو بہت توقعات ہیں اور یہ قوم ان سے ان کے منشور کے 100 فیصد نتیجہ کی طلبگار نہیں بس ایک ہی امید وابستہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے جو زخم اس ملک کی معیشت، انتظامیہ اور سماج پر لگائے ہیں ان پر مرہم لگ جائے۔
عمران خان کے سامنے سب سے بڑا اور پہلا چیلنج پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے اعلی کا انتخاب ہے جو کہ 13 روز بعد بھی طے نہیں ہو پا رہا ہے۔کے پی کے میں سابق وزیر اعلی پرویزخٹک کی وزیر اعلی بننے کی تمام لابنگ اور کوششیں دم توڑ چکی ہیں اور وہ دوڑ سے باہر ہو چکے ہیں ۔کے پی کے اسمبلی میں تحریک انصاف کے پاس عددی اکثریت اتنی زیادہ ہے کہ اسے کوئی بڑی پریشانی پیش نہیں آئے گی لیکن پنجاب میں صورتحال تلوار کی دھار پر چلنے جیسی ہے جہاں حکومتی اور اپوزیشن بنچوں کی تعداد میں فرق بہت نازک سا ہے۔ پنجاب کو مسلم لیگ (ن) کی تیس سالہ طاقت کی بنیاد کہا جاتا ہے۔
اس مرتبہ بھی ن لیگ نے پنجاب میں اپنے وجود کو قابل ذکر تعداد میں باقی رکھا ہے۔ تمام سیاسی تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ ن لیگ سب سے زیادہ سخت اور جارحانہ اپوزیشن پنجاب میں کرے گی کیونکہ تین دہائیوں کے اقتدار کی وجہ سے ان کی بیوروکریسی میں جڑیں بہت مضبوط ہیں اور یہی افسر شاہی ن لیگ کی ''سہولت کار'' ثابت ہو سکتی ہے۔گزشتہ برس تک صورحال یہ تھی کہ 2018 ء کے الیکشن کے بعد تحریک انصاف کی ممکنہ حکومت کی صورت میں وزیر اعلی پنجاب کا جب ذکر آتا تھا تو پہلا اور آٓخری نام جہانگیر خان ترین کا گونجتا تھا لیکن تکنیکی بنیادوں پر جہانگیر ترین کی نا اہلی کے بعد صورتحال تبدیل ضرور ہوئی لیکن عبدالعلیم خان بہت مضبوط متبادل کے طور پر سامنے آئے۔
عبدالعلیم خان اور جہانگیر ترین یہ دونوں وہ کھلاڑی ہیں جنہوں نے اپنے کپتان کی خاطر ن لیگ کی وفاقی و صوبائی حکومت کی تمام تر انتقامی کارروائیوں کا سینہ سپر ہو کر مقابلہ کیا۔ شریف برادران نے اپنے دور اقتدار میں ہر وفاقی و صوبائی محکمہ کو ان دونوں کی کمزوریاں تلاش کرنے کیلئے ہر قانونی و محکمانہ قواعد وضوابط کی حدود مسمار کرتے ہوئے استعمال کیا۔ این اے122 کے ضمنی الیکشن میں جب سردار ایاز صادق کے مقابلے کیلئے کپتان نے علیم خان کو میدان میں اتارا تو شاید ملکی تاریخ کے چند بدترین میڈیا ٹرائل میں سے ایک اس وقت علیم خان کا بھی کیا گیا۔
وفاقی وصوبائی کابینہ کا ہر وزیر اس ضمنی الیکشن میں متحرک دکھائی دیا لیکن اس کے باوجود عبدالعلیم خان نے اس ضمنی الیکشن کو پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا ضمنی معرکہ بنا دیا۔ حالات اس نہج پر جا پہنچے کہ اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو اس حلقہ میں سے گزرنا پڑا۔ تحریک انصاف کے حلقوں میں آج بھی یہ بات کہی جاتی ہے کہ مبینہ طور پر الیکشن سے چند روز قبل اگر تحریک انصاف کے ایک ایم پی اے چوہدری منیر سے رات کی تاریکیوں میں ملاقات نہ کرتے تو عبدالعلیم خان بہت آسانی سے یہ الیکشن جیت چکے تھے۔25 ہزار سے زائد ووٹ اس حلقہ سے منتقل کرنے کے باوجود سردار ایاز صادق کی لیڈ 1800 ووٹ کے لگ بھگ تھی۔
نیب کے ملزم احد چیمہ نے بحیثیت ڈی جی ایل ڈی اے سب سے زیادہ نقصان عبدالعلیم خان کی ہاوسنگ سوسائٹیز کو پہنچایا لیکن اس تمام تر انتقامی کارروائیوں اور پاتال شکن کوشش کے باوجود ن لیگی حکومت عبدالعلیم خان کے خلاف آج تک ایک بھی ایسا ٹھوس ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہی ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ علیم خان واقعی قبضہ گروپ ہے۔اس وقت نیب میں علیم خان کے خلاف جو درخواستیں موجود ہیں ان میں بھی کوئی ثبوت لف نہیں ہے اور بادی النظر میں یہ سیاسی ٹارگٹ کلنگ معلوم ہوتی ہے جو ن لیگ کی جانب سے ہے۔ تادم تحریر یہ صورتحال ہے کہ عمران خان کے پاس پنجاب میں وزارت اعلی کیلئے عبدالعلیم خان ہی سب سے پہلی اور بہتر آپشن ہے کیونکہ میاں اسلم اقبال، میاں محمود الرشید ، ڈاکٹر یاسمین راشد ، فواد چوہدری اور راجہ یاسر سب از خود وزارت اعلی کی دوڑ میں شامل ہوئے تھے اور از خود ہی باہر ہو چکے ہیں۔
شاہ محمود قریشی کو بھی''جواب'' مل چکا ہے۔ اس وقت دو ہی نام ہیں جو سنجیدہ ہیں ان میں سب سے مضبوط اور قابل ذکر عبدالعلیم خان ہے۔ علیم خان پر پارٹی کے اندر سے جو تنقید کی جا رہی ہے اس میں پہلی یہ کہ وہ نیب زدہ ہیں تو جناب گزشتہ روز نیا پاکستان کے وزیر اعظم بھی نیب پشاور سے ہو کر آئے ہیں کیا وہ بھی وزیر اعظم بننے کے اہل نہیں۔ نیب میں کسی درخواست پر انکوائری سے کوئی فرد مجرم نہیں بن جاتا۔ دوسرا الزام یہ عائد کیا جاتا ہے کہ الیکشن میں علیم خان نے ٹکٹوں کی غلط تقسیم کی تو اس حوالے سے بھی یہ اہم ہے کہ اس مرتبہ ٹکٹوں کی تقسیم کا بنیادی معیار خود عمران خان سمیت اعلی قیادت نے مقرر کیا تھا۔
جس میں امیدوار کی پارٹی کیلئے خدمات، حلقہ میں اثر ورسوخ، مالی استعداد شامل تھے۔ عبدالعلیم خان نے 800 سے زائد افراد کا انٹرویو کرنے کے بعد ہر حلقہ کیلئے تین ناموں پر مشتمل پینل عمران خان کی زیر صدارت قائم پارلیمانی بورڈ کو بھیجا تھا جہاں سب فیصلے ہوئے،اس میں کوئی شک نہیں کہ ریجنل صدور کی رائے بہت اہم تھی اور اس میں بھی اختلاف نہیں کہ ریجنل صدور سے بعض فیصلے غلط بھی ہوئے لیکن ان کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ ویسے اگر 2013 اور 2018 ء کے الیکشن کا موازنہ کیا جائے تو سنٹرل پنجاب کی کارکردگی بہت بہتر ہے اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ سنٹرل پنجاب میں ن لیگ غیر معمولی حد تک مضبوط سمجھی جاتی ہے۔
2013 ء میں سنٹرل پنجاب ریجن کی 48 نشستوں میں سے صرف ایک نشست تحریک انصاف نے جیتی تھی جبکہ 2018 ء میں یہاں 44 میں سے11 نشستیں جیتی گئی ہیں اور امیدواروں کو ملنے والے ووٹ کی اوسط شرح بھی 35 ہزار سے بڑھ کر 79 ہزار ہو چکی ہے۔آج عمران خان پنجاب کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کریں گے اور قوی امید ہے کہ آج پنجاب کی وزارت اعلی کیلئے امیدوار کا نام بھی ظاہر کردیا جائے گا، اب دیکھنا ہے کہ پنجاب کے مشکل ترین محاذ پر عمران خان اپنے کونسے سٹار کھلاڑی کو میدان میں اتارتے ہیں۔
عمران خان نے 1996 ء میں سیاست کا آغاز کیا تھا اور ان 22 برس میں انھیں سخت حالات کا سامنا رہا لیکن انھوں نے ہمت نہیں ہاری۔ عمران خان نے ''نیا پاکستان'' کا نعرہ تو دیا ہے مگر پانچ برس کی حکومت (وہ بھی علم نہیں، ملتے ہیں یا نہیں) میں سو فیصد رزلٹ آنا ممکن نہیں ہے۔ کسی یورپی دانشور نے کہا تھا کہ کسی قوم اور ملک کو تبدیل کرنے کیلئے 25 برس درکار ہوتے ہیں یعنی ایک نسل نئی جوان ہوتی ہے جو تبدیلی کے نظریات کے ساتھ پروان چڑھتی ہے تبھی جا کر ملک و قوم تبدیل ہوتے ہیں۔ عمران خان کے ساتھ پاکستانی قوم کو بہت توقعات ہیں اور یہ قوم ان سے ان کے منشور کے 100 فیصد نتیجہ کی طلبگار نہیں بس ایک ہی امید وابستہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے جو زخم اس ملک کی معیشت، انتظامیہ اور سماج پر لگائے ہیں ان پر مرہم لگ جائے۔
عمران خان کے سامنے سب سے بڑا اور پہلا چیلنج پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے اعلی کا انتخاب ہے جو کہ 13 روز بعد بھی طے نہیں ہو پا رہا ہے۔کے پی کے میں سابق وزیر اعلی پرویزخٹک کی وزیر اعلی بننے کی تمام لابنگ اور کوششیں دم توڑ چکی ہیں اور وہ دوڑ سے باہر ہو چکے ہیں ۔کے پی کے اسمبلی میں تحریک انصاف کے پاس عددی اکثریت اتنی زیادہ ہے کہ اسے کوئی بڑی پریشانی پیش نہیں آئے گی لیکن پنجاب میں صورتحال تلوار کی دھار پر چلنے جیسی ہے جہاں حکومتی اور اپوزیشن بنچوں کی تعداد میں فرق بہت نازک سا ہے۔ پنجاب کو مسلم لیگ (ن) کی تیس سالہ طاقت کی بنیاد کہا جاتا ہے۔
اس مرتبہ بھی ن لیگ نے پنجاب میں اپنے وجود کو قابل ذکر تعداد میں باقی رکھا ہے۔ تمام سیاسی تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ ن لیگ سب سے زیادہ سخت اور جارحانہ اپوزیشن پنجاب میں کرے گی کیونکہ تین دہائیوں کے اقتدار کی وجہ سے ان کی بیوروکریسی میں جڑیں بہت مضبوط ہیں اور یہی افسر شاہی ن لیگ کی ''سہولت کار'' ثابت ہو سکتی ہے۔گزشتہ برس تک صورحال یہ تھی کہ 2018 ء کے الیکشن کے بعد تحریک انصاف کی ممکنہ حکومت کی صورت میں وزیر اعلی پنجاب کا جب ذکر آتا تھا تو پہلا اور آٓخری نام جہانگیر خان ترین کا گونجتا تھا لیکن تکنیکی بنیادوں پر جہانگیر ترین کی نا اہلی کے بعد صورتحال تبدیل ضرور ہوئی لیکن عبدالعلیم خان بہت مضبوط متبادل کے طور پر سامنے آئے۔
عبدالعلیم خان اور جہانگیر ترین یہ دونوں وہ کھلاڑی ہیں جنہوں نے اپنے کپتان کی خاطر ن لیگ کی وفاقی و صوبائی حکومت کی تمام تر انتقامی کارروائیوں کا سینہ سپر ہو کر مقابلہ کیا۔ شریف برادران نے اپنے دور اقتدار میں ہر وفاقی و صوبائی محکمہ کو ان دونوں کی کمزوریاں تلاش کرنے کیلئے ہر قانونی و محکمانہ قواعد وضوابط کی حدود مسمار کرتے ہوئے استعمال کیا۔ این اے122 کے ضمنی الیکشن میں جب سردار ایاز صادق کے مقابلے کیلئے کپتان نے علیم خان کو میدان میں اتارا تو شاید ملکی تاریخ کے چند بدترین میڈیا ٹرائل میں سے ایک اس وقت علیم خان کا بھی کیا گیا۔
وفاقی وصوبائی کابینہ کا ہر وزیر اس ضمنی الیکشن میں متحرک دکھائی دیا لیکن اس کے باوجود عبدالعلیم خان نے اس ضمنی الیکشن کو پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا ضمنی معرکہ بنا دیا۔ حالات اس نہج پر جا پہنچے کہ اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو اس حلقہ میں سے گزرنا پڑا۔ تحریک انصاف کے حلقوں میں آج بھی یہ بات کہی جاتی ہے کہ مبینہ طور پر الیکشن سے چند روز قبل اگر تحریک انصاف کے ایک ایم پی اے چوہدری منیر سے رات کی تاریکیوں میں ملاقات نہ کرتے تو عبدالعلیم خان بہت آسانی سے یہ الیکشن جیت چکے تھے۔25 ہزار سے زائد ووٹ اس حلقہ سے منتقل کرنے کے باوجود سردار ایاز صادق کی لیڈ 1800 ووٹ کے لگ بھگ تھی۔
نیب کے ملزم احد چیمہ نے بحیثیت ڈی جی ایل ڈی اے سب سے زیادہ نقصان عبدالعلیم خان کی ہاوسنگ سوسائٹیز کو پہنچایا لیکن اس تمام تر انتقامی کارروائیوں اور پاتال شکن کوشش کے باوجود ن لیگی حکومت عبدالعلیم خان کے خلاف آج تک ایک بھی ایسا ٹھوس ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہی ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ علیم خان واقعی قبضہ گروپ ہے۔اس وقت نیب میں علیم خان کے خلاف جو درخواستیں موجود ہیں ان میں بھی کوئی ثبوت لف نہیں ہے اور بادی النظر میں یہ سیاسی ٹارگٹ کلنگ معلوم ہوتی ہے جو ن لیگ کی جانب سے ہے۔ تادم تحریر یہ صورتحال ہے کہ عمران خان کے پاس پنجاب میں وزارت اعلی کیلئے عبدالعلیم خان ہی سب سے پہلی اور بہتر آپشن ہے کیونکہ میاں اسلم اقبال، میاں محمود الرشید ، ڈاکٹر یاسمین راشد ، فواد چوہدری اور راجہ یاسر سب از خود وزارت اعلی کی دوڑ میں شامل ہوئے تھے اور از خود ہی باہر ہو چکے ہیں۔
شاہ محمود قریشی کو بھی''جواب'' مل چکا ہے۔ اس وقت دو ہی نام ہیں جو سنجیدہ ہیں ان میں سب سے مضبوط اور قابل ذکر عبدالعلیم خان ہے۔ علیم خان پر پارٹی کے اندر سے جو تنقید کی جا رہی ہے اس میں پہلی یہ کہ وہ نیب زدہ ہیں تو جناب گزشتہ روز نیا پاکستان کے وزیر اعظم بھی نیب پشاور سے ہو کر آئے ہیں کیا وہ بھی وزیر اعظم بننے کے اہل نہیں۔ نیب میں کسی درخواست پر انکوائری سے کوئی فرد مجرم نہیں بن جاتا۔ دوسرا الزام یہ عائد کیا جاتا ہے کہ الیکشن میں علیم خان نے ٹکٹوں کی غلط تقسیم کی تو اس حوالے سے بھی یہ اہم ہے کہ اس مرتبہ ٹکٹوں کی تقسیم کا بنیادی معیار خود عمران خان سمیت اعلی قیادت نے مقرر کیا تھا۔
جس میں امیدوار کی پارٹی کیلئے خدمات، حلقہ میں اثر ورسوخ، مالی استعداد شامل تھے۔ عبدالعلیم خان نے 800 سے زائد افراد کا انٹرویو کرنے کے بعد ہر حلقہ کیلئے تین ناموں پر مشتمل پینل عمران خان کی زیر صدارت قائم پارلیمانی بورڈ کو بھیجا تھا جہاں سب فیصلے ہوئے،اس میں کوئی شک نہیں کہ ریجنل صدور کی رائے بہت اہم تھی اور اس میں بھی اختلاف نہیں کہ ریجنل صدور سے بعض فیصلے غلط بھی ہوئے لیکن ان کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ ویسے اگر 2013 اور 2018 ء کے الیکشن کا موازنہ کیا جائے تو سنٹرل پنجاب کی کارکردگی بہت بہتر ہے اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ سنٹرل پنجاب میں ن لیگ غیر معمولی حد تک مضبوط سمجھی جاتی ہے۔
2013 ء میں سنٹرل پنجاب ریجن کی 48 نشستوں میں سے صرف ایک نشست تحریک انصاف نے جیتی تھی جبکہ 2018 ء میں یہاں 44 میں سے11 نشستیں جیتی گئی ہیں اور امیدواروں کو ملنے والے ووٹ کی اوسط شرح بھی 35 ہزار سے بڑھ کر 79 ہزار ہو چکی ہے۔آج عمران خان پنجاب کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کریں گے اور قوی امید ہے کہ آج پنجاب کی وزارت اعلی کیلئے امیدوار کا نام بھی ظاہر کردیا جائے گا، اب دیکھنا ہے کہ پنجاب کے مشکل ترین محاذ پر عمران خان اپنے کونسے سٹار کھلاڑی کو میدان میں اتارتے ہیں۔