سندھ کی نئی حکومت کو متعدد چیلنجز کا سامنا کرنا ہو گا

سندھ میں نئی جمہوری حکومت کی تشکیل کے لیے تمام تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں

سندھ میں نئی جمہوری حکومت کی تشکیل کے لیے تمام تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں

سندھ میں نئی جمہوری حکومت کی تشکیل کے لیے تمام تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔ سندھ کی نئی کابینہ میں شمولیت کے لیے کوششیں جاری ہیں۔

نئی سندھ حکومت کو سب سے پہلے رواں مالی سال 2018-19 کے باقی 9 ماہ کا بجٹ سندھ اسمبلی سے منظور کرانا ہو گا۔ یہ سندھ حکومت کے لیے پہلا بڑا چیلنج ہو گا لیکن اسے مستقل بنیادوں پر ایک بڑے چیلنج کا بھی سامنا ہو گا۔ وہ چیلنج ایف آئی اے اور نیب جیسے وفاقی تحقیقاتی اداروں کی سندھ میں کارروائیوں اور نئی وفاقی حکومت کے ساتھ تعلقات سے متعلق ہو گا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں سید مراد علی شاہ کو دوبارہ سندھ کا وزیر اعلی بنانے کا اعلان کیا تھا لیکن تادم تحریر پیپلز پارٹی سندھ کی پارلیمانی پارٹی کا ابھی تک اجلاس نہیں بلایا گیا ہے، جس میں سندھ کے نئے وزیر اعلی اور سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر کا باقاعدہ اعلان ہو گا۔

اس باقاعدہ اعلان میں تاخیر کی وجہ سے مختلف قیاس آرائیاں بھی ہو رہی ہیں۔ کچھ حلقے بھی کہہ رہے ہیں کہ بعض دیگر شخصیات نے بھی وزیر اعلی سندھ کے عہدے کے لیے لابنگ شروع کر دی ہے۔ اس قیاس آرائی میں کوئی صداقت ہو یا نہ ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ سندھ کابینہ میں شمولیت اور اہم قلمدان حاصل کرنے کے لیے متعدد ارکان اپنے طور پر کوششوں میں مصروف ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس مرتبہ سندھ کابینہ زیادہ تر نئے چہروں پر مشتمل ہو گی ۔ گذشتہ دس سالوں کے دوران پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کے بعض سینئر ترین رہنما اس دفعہ کابینہ میں شامل نہیں ہوں گے۔ ان میں نثار احمد کھوڑو، منظور حسین وسان، جام مہتاب حسین ڈاہر، سید علی نواز شاہ اور ڈاکٹر سکندر میندھرو جیسے لوگ شامل نہیں ہوں گے۔ نثار احمد کھوڑو اور منظورحسین وسان الیکشن کے لیے نااہل ہو گئے ہیں۔


جام مہتاب حسین الیکشن ہار گئے ہیں۔ سید علی نواز شاہ پیپلز پارٹی سے الگ ہو گئے ہیں اور ڈاکٹر سکندر میندھرو سینیٹر بن گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نئی کابینہ میں نوجوانوں کی زیادہ شمولیت کے حامی ہیں۔ لیکن کچھ تجربہ کار اور سینئر لوگ بھی کابینہ میں شامل کیے جا سکتے ہیں۔ سندھ کابینہ میں ممکنہ طور پر شامل ہونے والے نئے لوگوں میں امتیاز احمد شیخ، ڈاکٹر عذرا پیچوہو، تیمور تالپور، پیر مجیب الحق، ہری رام کشوری لعل، ارباب لطف اللہ، عزیز جونیجو ، قاسم سومرو ، سردار خان چانڈیو، ندا کھوڑو، منظور وسان ، شبیر بجارانی ، مخدوم محمود کے نام لیے جا رہے ہیں ۔ سب سے اہم معاملہ اسپیکر سندھ اسمبلی کی نامزدگی کا ہے کیونکہ موجودہ سندھ اسمبلی آغا سراج کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ آئندہ اس عہدے پر نہیں رہنا چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ انہیں سندھ کابینہ میں شامل کیا جائے اور بلدیات یا کوئی اور قلمدان دیا جائے۔ اسپیکر کے لیے جام مدد علی کا نام بھی لیا جا رہا ہے۔ اگر جام مدد علی اسپیکر نہ بنے تو انہیں سندھ کابینہ میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

سابق وزیر اعلی سندھ سید قائم علی شاہ کو بھی اسپیکر بنانے پر غور کیا جا رہا ہے ۔ آئندہ ایک دو روز میں صورت حال واضح ہو جائے گی ۔ عام انتخابات سے قبل سندھ کی سابقہ حکومت نے رواں مالی سال کے لیے سندھ اسمبلی میں صرف تین ماہ کا بجٹ منظور کرایا تھا ۔ یعنی جولائی تا ستمبر 2018 کا بجٹ سندھ اسمبلی نے منظور کیا ہے۔ اس بجٹ میں اگرچہ پورے سال کے اعداد و شمار دیئے گئے تھے لیکن ترقیاتی بجٹ میں نئی اسکیموں کا اعلان نہیں کیا گیا تھا۔ نئی سندھ حکومت کو یکم اکتوبر 2018 سے 30 جون 2019 تک 9 ماہ کا مجموعی بجٹ نہ صرف منظور کرانا ہے بلکہ اس بجٹ میں نئی ترقیاتی اسکیموں کے بجٹ کی بھی منظوری لینی ہے۔ نئی ترقیاتی اسکیموں کے لیے 50 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ۔ نئی ترقیاتی اسکیموں کے بارے میں فیصلہ پہلے ہی کر لیا گیا تھا لیکن ان اسکیموں میں تبدیلی بھی کی جا سکتی ہے۔

اس مرتبہ سندھ اسمبلی میں اپوزیشن پاکستان تحریک انصاف، متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) پاکستان اور گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس ( جی ڈی اے ) پر مشتمل ہو گی ۔ یہ اپوزیشن بہت زیادہ مضبوط ہو گی اور سندھ حکومت کے لیے بہت سی مشکلات پید ا کر سکتی ہے۔

بجٹ کی منظوری میں پتہ چل جائے گا کہ اپوزیشن کا رویہ کیا ہے اور آئندہ وہ کس طرح چلے گی ۔ سندھ حکومت کے لیے بجٹ کی منظوری پہلا بڑا چیلنج ہو گا۔ سندھ حکومت کے لیے ایک مستقل چیلنج مرکز میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ تعلقات سے متعلق ہو گا ۔ نئی حکومت کے قیام سے قبل پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے صدر اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سمیت متعدد افراد کے خلاف مبینہ منی لانڈرنگ کیس میں ایف آئی اے نے سپریم کورٹ میں ثبوت پیش کر دیئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے گذشتہ ہفتے کراچی میں پریس کانفرنس کرکے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے بشیر میمن پر زبردست تنقید کی تھی اور انہیں جانبدار قرار دیا تھا۔ ایف آئی اے کی کارروائیوں کے معاملے میں اس مرتبہ نئی حکومت پہلے سے زیادہ مخالفانہ پالیسی کے ساتھ سامنے آ سکتی ہے۔ اسی طرح قومی احتساب بیورو ( نیب ) کی کارروائیوں پر بھی زیادہ ردعمل کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔ نئی مرکزی اور سندھ حکومت کے مابین تعلقات کیسے ہوں گے ؟ یہ سوال بہت اہم ہوگیا ہے۔
Load Next Story