سیاسی بصیرت کا فقدان

سیاست میں آج کے دوست کل کے دشمن اور کل کے دشمن آج کے دوست ہو سکتے ہیں۔

jabbar01@gmail.com

کہتے ہیں کہ علم کا دائرہ جتنا وسیع ہوتا جاتا ہے، لاعلمی کا دائرہ اس سے زیادہ وسیع تر ہوتا جاتا ہے اگر کسی کو اس بات پر یقین نہیں ہے تو آپ انٹرنیٹ استعمال کرکے اس کا تجزیہ کرسکتے ہیں ۔ انٹرنیٹ کے استعمال کے بعد آپ کو اس مقولے کی صداقت پر یقین آجائے گا ۔

اس وقت دنیا میں تقریبا ساڑھے سات ارب آبادی ہے جس میں تقریبا تین ارب آبادی انٹرنیٹ استعمال کرتی ہے۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے یہاں تعلیم کی شرح خطرناک حد تک کم ہے پاکستان کی آبادی کے تقریبا 20 فی صد لوگ انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں ۔ ایک دانشورکے بقول ایک ناخواندہ اور جاہل معاشرے میں کمپیوٹر کا استعمال جہالت کو کمپیوٹرائز بنا دیتا ہے یہ بات کلی طور پر درست نہ ہو لیکن جزوی طور پر ضرور درست ہے آپ اس کا مشاہدہ انٹرنیٹ پر، فیس بک استعمال کر کے دیکھ سکتے ہیں۔

بد قسمتی سے سوشل میڈیا کوئی نظریاتی چیز نہیں ہے اور نہ ہی اس میں موجود مواد کی تصدیق کا کوئی طریقہ کار موجود ہے۔ ہر شخص اس میں اپنی معلومات دے رہا ہے۔ یوں سمجھیے انفرادی مکالمہ کر رہا ہے ۔ چیز درست ہے یا غلط اس سے قطع نظر جو چیز بھی اچھی لگی لوگ فوراً اسے دوسروں تک پہنچا دیتے ہیں۔ چاہے اس کے نتائج منفی ہی کیوں نہ ہوں اس سے کوئی غرض نہیں۔

عام طور پر سوشل میڈیا پر یہ بات کثرت سے دیکھنے میں آئی ہے کہ کسی سیاست دان کے ماضی کے بیانات اور موجودہ وقت کے بیانات کے تضاد کو بیان کرکے ان کی مذمت کی جاتی ہے، اس کے علاوہ اس کی ذاتی زندگی کے منفی کردار کو نمایاں کرکے عوام الناس کے درمیان پیش کیا جاتا ہے۔ میری ذاتی رائے میں ہمارا یہ طرز عمل عوام الناس میں سیاسی بصیرت کے فقدان کو ظاہر کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ سیاست حالات کے تابع ہوتی ہے۔ معاشرہ متواتر تبدیلی پذیر ہوتا ہے یہی وجہ ہے جیسے ہی حالات تبدیل ہوتے ہیں ۔ خیالات اور نظریات تبدیل ہو جاتے ہیں سیاست میں مقاصد کا حاصل کرنا اولین حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں اصول اور حکمت عملی کے فرق کو مد نظر رکھتے ہوئے محبت اور جنگ کی طرح سب کچھ جائز ہوتا ہے۔ حالات کی تبدیلی کے ساتھ اصولوں پر رہتے ہوئے حکمت عملی میں تبدیلی لازمی ہو جاتی ہے۔


ایک بہترین سیاست دان بین الاقوامی قومی اور علاقائی حالات کا نہ صرف ادراک رکھتا ہے بلکہ اس کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر اس کا ٹھوس تجزیہ کر کے درست حکمت عملی مرتب کرتا ہے اور اپنے حالات کے مطابق صحیح فیصلہ کرتا ہے اس کے ساتھ ہی وہ اس بات کا بھی ادراک رکھتا ہے کسی وقت حالات کے بہاؤ کے ساتھ آگے بڑھنے کے ساتھ کس وقت مخالف رخ اختیار کر کے اپنی قوت کو آگے بڑھانا ہے۔ یہ سب کچھ سیاسی تربیت اور سیاسی تجربات سے حاصل ہوتا ہے۔ سیاست میں غلطیوں اور تجربات سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے لیکن سیکھنے کے عمل سے وہی لوگ مستفید ہوتے ہیں جو حقیقت میں صاحب بصیرت ہوتے ہیں۔

دراصل ہمارے یہاں جمہوری عمل تسلسل کے ساتھ جاری نہ رہ سکا جس کی وجہ سے ہمارے یہاں جمہوری روایات اور اقدار کی نشوونما نہ ہو سکی جس کی وجہ سے سیاسی شعورکا فقدان ہے ۔ اس لیے زندگی کے تمام شعبوں میں روایتی سوچ کا غلبہ نظر آتا ہے۔ سیاسی نظری مخالفت کو لوگ ذاتی مخالفت سے تعبیرکرتے ہیں اس طرز فکر کے لوگوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ سیاسی جماعتیں کسی فوجی ادارے کی طرح ایک کمان کے تحت کام نہیں کرتیں۔ ان میں اختلاف رائے اور سمجھوتے کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے بلکہ اسے سیاست کا حسن سمجھا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں اتحاد، علیحدگی، حمایت اور مخالفت کا عمل اس بنیاد پر ایک فطری عمل ہے۔

سیاست میں آج کے دوست کل کے دشمن اور کل کے دشمن آج کے دوست ہو سکتے ہیں۔ ایک جمہوری سماج میں سیاسی جماعتوں کے درمیان تصادم کشمکش اور ٹکراؤ لازمی امر ہے اس کو منفی نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ کچھ لوگ اس بات کے خواہش مند نظر آتے ہیں کہ پاکستان میں با کردار قیادت میسر آ جائے تو پاکستان کے عوام کے سارے مسائل حل ہو جائیںگے۔ یہ بات جزوی طور پر درست ہے کلی طور پر نہیں۔

ذاتی کردار کے حوالے سے پاکستان کی سیاست میں ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیا الحق دو نمایاں نام گزرے ہیں ۔ ایک کے بارے میں ایک عمومی تاثر ہے کہ وہ مغربی تہذیب کے دلدادہ تھے دوسری شخصیت کو ان کے کردار کی وجہ سے بعض سیاسی اکابرین نے مرد مومن، مرد حق کے خطابات سے نوازا تھا۔ جب ہم دو شخصیات کی سیاسی خدمات کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص نے پاکستان کو سیاسی بحرانوں سے نکالا۔ دوسری شخصیت نے اپنے سیاسی اقدامات سے پاکستان کو ایسے سیاسی بحرانوں میں مبتلا کر دیا جس کی آگ آج تک بجھائی نہ جا سکی۔

اس تجزیے کی روشنی میں ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں، سیاست میں سیاست دان کے ذاتی کردار سے زیادہ اس میں سیاسی بصیرت کا ہونا بہت ضروری ہے۔ سیاسی بصیرت کے ذریعے ہی ملک کو مسائل اور بحران سے نکالا جا سکتا ہے۔ ذاتی کردار کے حوالے سے یہ بات لازمی ذہن میں رہے کہ حکمران کسی مالی کرپشن میں مبتلا نہ ہوں ۔ ایک مقولہ ہے کہ اگر بادشاہ باغ سے ایک پھل توڑے گا تو اس کی فوج پورا باغ اجاڑ دے گی۔
Load Next Story