پاکستان سوا2کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے دبئی بھی اسمگل کیے جانے کا انکشاف
ملتان ڈویژن میں23ہزاربچے جنسی تشددکا شکار ہوئے،کم عمربچے جنسی استحصال کیلیے دبئی بھیجے جاتے ہیں،ڈی جی کی بریفنگ
RIO DE JANEIRO:
وزارت انسانی حقوق کے حکام نے انکشاف کیاہے کہ ملک میں دوکروڑتیس لاکھ بچے اسکول نہیںجاتے پاکستان سے بچے اغلام بازی(جنسی استحصال) کیلیے دبئی بھیجے جاتے ہیں۔ پیرکوبچوں کے حقوق کیلیے قائم قومی اسمبلی کی خصو صی کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے ڈائریکٹرجنرل انسانی حقوق ڈویژن حسان مانگی نے بتایاکہ ایک سال کے دوران صرف ملتان ڈویژن میں23ہزارسے زائدبچے جنسی تشددکاشکار ہوئے یہاں سے بچے اغلام بازی کیلیے دبئی بھی بھیجے جاتے ہیں بچوں پرجنسی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہورہاہے وفاقی حکومت چائلڈپروٹیکشن کیلیے کام کررہی ہے،
کمیٹی کی سربراہ روبینہ سعادت قائم خانی نے ادارے کے کام پرعدم اطمینان کا اظہار کیا،انھوںنے کہاکہ اس سے زیادہ تفصیلات نیٹ پرموجود ہیںان کاکہناتھاکہ کہ ملک میںبچوں کی برتھ رجسٹریشن کاکوئی ریکارڈموجودنہیںہے۔
ثنانیوزکے مطابق کمیٹی کو بتایاگیاکہ ملک کے نصف علاقوں میںپرائمری اسکول ہی نہیںہیں نوزائیدہ بچوں کے اندراج کابھی کوئی موثرنظام نہیںہے صرف 30 فیصد بچوں کا اندراج ہو رہاہے کمیٹی نے بچوں کی تعلیم ،صحت،خوراک کے حوالے سے حقوق کے تحفظ کیلیے نادرا کے ذریعے'' خصوصی کارڈز''جاری کرنیکافیصلہ کیا صوبوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے بچوں کے بارے میں قومی کانفرنس منعقدکی جائیگی حکومت کو بچوںکواسکولوں بھجوانے والی ہی مستحق خواتین کوبینظیرانکم سپورٹ پروگرام کے تحت امداد دینے کی سفارش کی گئی خصوصی کمیٹی نے کمیٹی کے قواعد وضوابط وضع کرنے کیلیے شازیہ مری کی سربراہی میں 3رکنی کمیٹی قائم کردی ہے ۔
ملتان اورسندھ سے کم عمر بچوں کو جنسی استحصال کی غرض سے دبئی اسمگل کیا جا رہا ہے جہاں سے انھیں دوسرے ملکوں میں بھیجا جاتاہے جہاںانھیںجسم فروشی پر مجبور کیا جاتا ہے چیئرپرسن روبینہ سعادت قائم خانی نے کہاکہ ملک میں بچوںکا جنسی استحصال روکنے، ان کوتعلیم اورصحت کی سہولیات کی فراہمی اوردیگرحقوق کے تحفظ کیلیے قانون سازی کی جائیگی ۔
وزارت انسانی حقوق کے حکام نے انکشاف کیاہے کہ ملک میں دوکروڑتیس لاکھ بچے اسکول نہیںجاتے پاکستان سے بچے اغلام بازی(جنسی استحصال) کیلیے دبئی بھیجے جاتے ہیں۔ پیرکوبچوں کے حقوق کیلیے قائم قومی اسمبلی کی خصو صی کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے ڈائریکٹرجنرل انسانی حقوق ڈویژن حسان مانگی نے بتایاکہ ایک سال کے دوران صرف ملتان ڈویژن میں23ہزارسے زائدبچے جنسی تشددکاشکار ہوئے یہاں سے بچے اغلام بازی کیلیے دبئی بھی بھیجے جاتے ہیں بچوں پرجنسی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہورہاہے وفاقی حکومت چائلڈپروٹیکشن کیلیے کام کررہی ہے،
کمیٹی کی سربراہ روبینہ سعادت قائم خانی نے ادارے کے کام پرعدم اطمینان کا اظہار کیا،انھوںنے کہاکہ اس سے زیادہ تفصیلات نیٹ پرموجود ہیںان کاکہناتھاکہ کہ ملک میںبچوں کی برتھ رجسٹریشن کاکوئی ریکارڈموجودنہیںہے۔
ثنانیوزکے مطابق کمیٹی کو بتایاگیاکہ ملک کے نصف علاقوں میںپرائمری اسکول ہی نہیںہیں نوزائیدہ بچوں کے اندراج کابھی کوئی موثرنظام نہیںہے صرف 30 فیصد بچوں کا اندراج ہو رہاہے کمیٹی نے بچوں کی تعلیم ،صحت،خوراک کے حوالے سے حقوق کے تحفظ کیلیے نادرا کے ذریعے'' خصوصی کارڈز''جاری کرنیکافیصلہ کیا صوبوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے بچوں کے بارے میں قومی کانفرنس منعقدکی جائیگی حکومت کو بچوںکواسکولوں بھجوانے والی ہی مستحق خواتین کوبینظیرانکم سپورٹ پروگرام کے تحت امداد دینے کی سفارش کی گئی خصوصی کمیٹی نے کمیٹی کے قواعد وضوابط وضع کرنے کیلیے شازیہ مری کی سربراہی میں 3رکنی کمیٹی قائم کردی ہے ۔
ملتان اورسندھ سے کم عمر بچوں کو جنسی استحصال کی غرض سے دبئی اسمگل کیا جا رہا ہے جہاں سے انھیں دوسرے ملکوں میں بھیجا جاتاہے جہاںانھیںجسم فروشی پر مجبور کیا جاتا ہے چیئرپرسن روبینہ سعادت قائم خانی نے کہاکہ ملک میں بچوںکا جنسی استحصال روکنے، ان کوتعلیم اورصحت کی سہولیات کی فراہمی اوردیگرحقوق کے تحفظ کیلیے قانون سازی کی جائیگی ۔