پی سی بی میں حکومتی مداخلت نہیں ہونی چاہیے چیئرمین
رکنیت معطل یا کوئی اور سخت قدم اٹھایا گیا تو ملکی کرکٹ کو ہی نقصان ہوگا
چیئرمین پی سی بی ذکا اشرف نے کہا ہے کہ کرکٹ بورڈز میں حکومتی مداخلت کے بارے میں آئی سی سی کا موقف بالکل واضح ہے۔
پی سی بی میں بھی کوئی مداخلت نہیں ہونی چاہیے،ہو سکتا ہے کہ بورڈ کی رکنیت معطل یا کوئی اور سخت قدم اٹھایا جائے،اس کا نقصان پاکستانی کرکٹ کو ہی ہوگا۔ بی بی سی کو انٹرویو کے دوران عام انتخابات سے صرف تین دن پہلے منتخب ہونے کے سوال پر انھوں نے کہا کہ ہمیں ہر صورت میں آئی سی سی کی ڈیڈ لائن سے پہلے چیئرمین منتخب کرنا تھا،اس کے لیے ملک کے عام انتخابات یا حکومتی تبدیلی کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں تھی، جو لوگ ٹائمنگ پر اعتراض کر رہے ہیں انھیں اصل صورتحال کا علم نہیں یا پھر ان کے ذاتی مفادات ہیں۔
ذکا اشرف نے کہا کہ بورڈ کا آئین2007 سے موجود تھا لیکن اس میں تبدیلی کی ضرورت آئی سی سی نے محسوس کی، وہ چاہتی تھی کہ تمام بورڈز کے آئین اس کے قواعد وضوابط سے مطابقت پیدا کر لیں۔ انھوں نے کہا کہ ان سے پہلے بھی کئی لوگ پی سی بی کے چیئرمین رہے لیکن کسی نے اس جانب توجہ نہیں دی، میں نے عہدہ سنبھالنے کے بعد اس پر کام شروع کردیا اور آئی سی سی کے تحفظات دور کرنے کے بعد اسے حکومت سے منظور کرایا۔ ذکا اشرف نے کہا کہ نئے آئین کے تحت صدر مملکت اب بورڈ چیئرمین کیلیے2 یا زائد نام تجویز کرسکتے ہیں۔
بورڈ کی نامزدگی کمیٹی ان میں سے کسی ایک کا انتخاب میرٹ پر کرے گی جیسا کہ میرے معاملے میں ہوا، میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ بورڈ کے تحفظ کیلیے اس میں صدر مملکت کا کچھ نہ کچھ کردار رہنا چاہیے، آج اگر آصف علی زرداری ملک کے صدر ہیں تو کل کوئی اورآ جائیگا جو سرپرست اعلیٰ کی حیثیت سے بورڈ کے کسی چیئرمین کے نام پیش کرے گا۔ اسی طرح میں بھی ساری زندگی چیئرمین نہیں رہوں گا لیکن جب تک بورڈ میں ہوں کرکٹ کی خدمت کرتے رہوں گا۔
انھوں نے کہا کہ اگر نیا آئین نہ ہوتا تو لوگ نوٹوں کی بوریاں لے کر بیٹھ جاتے اور یہ عہدہ حاصل کرنے کیلیے ایک ایک ووٹ کروڑوں میں فروخت ہوتا، اسی صورتحال کو روکنے کے لیے چیک اینڈ بیلنس کا نظام رکھوایا گیا اور آئی سی سی نے بھی پاکستان کے حالات کو سمجھتے ہوئے اس سے اتفاق کیا۔
پی سی بی میں بھی کوئی مداخلت نہیں ہونی چاہیے،ہو سکتا ہے کہ بورڈ کی رکنیت معطل یا کوئی اور سخت قدم اٹھایا جائے،اس کا نقصان پاکستانی کرکٹ کو ہی ہوگا۔ بی بی سی کو انٹرویو کے دوران عام انتخابات سے صرف تین دن پہلے منتخب ہونے کے سوال پر انھوں نے کہا کہ ہمیں ہر صورت میں آئی سی سی کی ڈیڈ لائن سے پہلے چیئرمین منتخب کرنا تھا،اس کے لیے ملک کے عام انتخابات یا حکومتی تبدیلی کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں تھی، جو لوگ ٹائمنگ پر اعتراض کر رہے ہیں انھیں اصل صورتحال کا علم نہیں یا پھر ان کے ذاتی مفادات ہیں۔
ذکا اشرف نے کہا کہ بورڈ کا آئین2007 سے موجود تھا لیکن اس میں تبدیلی کی ضرورت آئی سی سی نے محسوس کی، وہ چاہتی تھی کہ تمام بورڈز کے آئین اس کے قواعد وضوابط سے مطابقت پیدا کر لیں۔ انھوں نے کہا کہ ان سے پہلے بھی کئی لوگ پی سی بی کے چیئرمین رہے لیکن کسی نے اس جانب توجہ نہیں دی، میں نے عہدہ سنبھالنے کے بعد اس پر کام شروع کردیا اور آئی سی سی کے تحفظات دور کرنے کے بعد اسے حکومت سے منظور کرایا۔ ذکا اشرف نے کہا کہ نئے آئین کے تحت صدر مملکت اب بورڈ چیئرمین کیلیے2 یا زائد نام تجویز کرسکتے ہیں۔
بورڈ کی نامزدگی کمیٹی ان میں سے کسی ایک کا انتخاب میرٹ پر کرے گی جیسا کہ میرے معاملے میں ہوا، میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ بورڈ کے تحفظ کیلیے اس میں صدر مملکت کا کچھ نہ کچھ کردار رہنا چاہیے، آج اگر آصف علی زرداری ملک کے صدر ہیں تو کل کوئی اورآ جائیگا جو سرپرست اعلیٰ کی حیثیت سے بورڈ کے کسی چیئرمین کے نام پیش کرے گا۔ اسی طرح میں بھی ساری زندگی چیئرمین نہیں رہوں گا لیکن جب تک بورڈ میں ہوں کرکٹ کی خدمت کرتے رہوں گا۔
انھوں نے کہا کہ اگر نیا آئین نہ ہوتا تو لوگ نوٹوں کی بوریاں لے کر بیٹھ جاتے اور یہ عہدہ حاصل کرنے کیلیے ایک ایک ووٹ کروڑوں میں فروخت ہوتا، اسی صورتحال کو روکنے کے لیے چیک اینڈ بیلنس کا نظام رکھوایا گیا اور آئی سی سی نے بھی پاکستان کے حالات کو سمجھتے ہوئے اس سے اتفاق کیا۔