نذیر عباسی کی شہادت

نذیر عباسی کی شہادت کے بعد دوسرے روز کراچی میں این ایس ایف نے ایک بہت بڑا احتجاجی جلسہ کیا۔

zb0322-2284142@gmail.com

KARACHI:
طالب علم رہنما نذیر عباسی جو کہ جامشورو یونیورسٹی کے ایم اے علم سیاسیات کے آخری سال کے طالب علم تھے، کو 9 اگست 1980 میں جنرل ضیاالحق کے بدترین مارشل لاء کے دور میں کراچی میں شدید جسمانی اذیت دے کر شہید کردیا گیا تھا۔ آج ان کی 38 ویں برسی ہے۔

نذیر عباسی طلبا کی فیسوں، کتابوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، ہاسٹلوں میں رہائش کے مسائل اور تعلیمی اداروں کی کمی کے خلاف جدوجہد میں برسر پیکار تھے۔ وہ پاکستان فیڈرل یونین آف اسٹوڈنٹس کے نائب صدر تھے، اور پاکستان کے سب سے کم عمر کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے رکن بنے۔ انھوں نے مزدوروں، کسانوں، دانشوروں، اساتذہ، نرسوں، ڈاکٹروں، انجینئروں اور پیداواری قوتوں کے مسائل کے حل کے لیے ہمہ گیر جدوجہد شروع کردی۔ ان کا تعلق ٹنڈوالہیار کے ایک محنت کش گھرانے سے تھا۔

آمروں نے ہمارے ملک پر 36 برس تک سیاست کی اور اقتدار پر قابض رہے، اور عوام پر مظالم ڈھاتے رہے۔ جنرل ایوب خان اور جنرل ضیا الحق نے تمام بائیں بازو کی جماعتوں اور ان سے ملحقہ تنظیموں پر پا بندی لگادی۔ 1952 میں ڈیمو کریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور 1954 میں کمیونسٹ پارٹی آف پا کستان پر پابندی لگادی گئی۔ جب کہ کالعدم سیاسی جماعتوں کو سرگرمی کرنے کی کھلی چھوٹ دے گئی۔ نذیر عباسی نے ملک میں مزدوروں، کسانوں، طلبا اور شہریوں کے مسائل کے خلاف جدوجہد کے علاوہ کبھی کوئی تخریب کاری، عوام دشمنی یا ملک دشمنی کے کوئی اقدامات نہیں کیے اور نہ حکمران ان پر کوئی الزام لگا پائے۔ ان کے وکیل بیرسٹر سید عبدالودود سندھ ہائی کورٹ میں ان کی پیروی کررہے تھے۔

ودود مرحوم کا خود بھی کمیونسٹ پارٹی سے تعلق تھا۔ حبس بے جا کی درخواست پر وہ خود بھی مشکوک تھے کہ شاید ہی درخواست منظور ہو۔ بہرحال درخواست منظور ہوگئی اور مقدمہ شروع ہوگیا۔ جب پوسٹ مارٹم کی سرکاری رپورٹ آئی تو اس میں کہا گیا کہ نذیر عباسی حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے انتقال کرگئے۔

انھیں غسل دینے اور دفنانے کے وقت کوئی کارکن موجود تھا اور نہ کوئی رشتہ دار۔ حکام نے خاموشی سے انھیں دفنا دیا۔ لیکن عبدالستار ایدھی، جنھوں نے نذیر عباسی کو غسل دیا، کا کہنا تھا کہ ''نذیر عباسی کے جسم پر جابجا زخم کے نشانات تھے، کھرچنے اور شیشے سے کٹے ہوئے داغ بھی تھے''۔ درحقیقت حکمران غیر طبقاتی نظام کے لیے لڑنے والوں سے اس حد تک خوف زدہ تھے کہ انھیں صفحہ ہستی سے مٹانے کی ٹھان لی تھی۔ اس لیے بھی کہ اگر غیر طبقاتی نظام قائم ہوجائے تو جاگیرداری اور سرمایہ داری کا خاتمہ ہوجائے گا اور سامراجی مداخلت اور لوٹ میں بھی خاصی کمی ہوجائے گی۔


نذیر عباسی کی شہادت کے بعد دوسرے روز کراچی میں این ایس ایف نے ایک بہت بڑا احتجاجی جلسہ کیا۔ کراچی ریگل، صدر میں مزدور طلبا کسان عوامی رابطہ کمیٹی نے مظاہرہ کیا، کراچی نشتر پارک سے نماز عیدالفطر کے بعد نمازیوں نے احتجاجی جلوس نکالا۔ وہ یہ نعرے لگا رہے تھے کہ ''نذیر ہم شرمندہ ہیں، تیرے قاتل زندہ ہیں''۔ یہ عوام کے جذبات تھے جس کا وہ برملا اظہار کر رہے تھے۔ نذیر عباسی کا مشن یعنی عوام کے مسائل کے حل کے لیے جدوجہد ختم نہیں ہوئی۔ یہ جاری اور ساری ہے۔

آج بھی عوام کے مسائل پہلے سے زیادہ خراب اور ذلت آمیز ہوگئے ہیں۔ مہنگائی کا پہاڑ عوام کے سروں پر گر رہا ہے۔ چاول ایک سو پچاس روپے کلو، دالیں سو روپے کلو، ٹماٹر سو روپے کلو، دودھ سو روپے کلو، تیل خوردنی کم از کم دو سو روپے کلو، سبزیاں 80 سے ایک سو تیس روپے کلو، پٹرول اور دیگر ایندھن کے تیل اوسطاً سو روپے لیٹر یعنی کہ ہر اشیائے خوردنی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔

یہاں کم عمری میں بچوں کی اموات جن چار ملکوں میں زیادہ ہیں، ان میں سے ایک پاکستان ہے۔ کرپشن میں نمبر ایک نائیجیریا ہے جب کہ تیسرے نمبر پر پاکستان اور چوتھے پر ہندوستان۔ دنیا میں جن چار ملکوں میں خواتین پر تشدد ہوتا ہے، ان میں ایتھوپیا، افغانستان کے بعد پاکستان کا نمبر آتا ہے۔ دنیا میں ناخواندگی میں ساتواں نمبر اور ہیپاٹائٹس کے امراض میں مبتلا لاکھوں افراد ہیں۔ یہاں اوسطاً ہر روز چار افراد قتل ہوتے ہیں۔ کاروکاری، غیرت اور مرضی سے شادی کرنے پر روزانہ چار پانچ خواتین اور مرد قتل ہوتے ہیں۔ 80 فیصد لوگوں کو پینے کا شفاف پانی اور سینیٹری کا انتظام نہیں ہے۔ نذیر عباسی عوام کی ان مشکلات کو ختم کرنے کی جدوجہد میں برسر پیکار تھے۔ اور یہ مشکلات تب ہی ختم ہوسکتی ہیں جب اس ملک کے نظام کو بدلا جائے، یعنی سرمایہ داری کو یکسر ختم کرکے تمام بیرونی اور ملکی صنعتوں کو قومی ملکیت میں لے لیا جائے۔

زمین، بے زمین کسانوں میں بانٹ دی جائے۔ ملک میں کارخانوں کا جال بچھا دیا جائے، اور بے روزگاری کا خاتمہ کردیا جائے۔ اس کام کے لیے محنت کش عوام پیداواری قوتوں اور شہریوں کو ان کے حقوق کے لیے منظم کرنا ہوگا۔ انھیں سماجی شعور سے لیس کرنا ہوگا، تب جاکر اس نظام کی کایا پلٹ کر ایک ایسا امداد باہمی کا سماج قائم کرنا ہوگا جہاں کوئی بھوکا نہ مرے، کوئی لاعلاج نہ رہے، اور کوئی ناخواندہ اور بے گھر نہ رہے۔ ان مسائل کے خلاف پاکستان کے عوام جابجا احتجاج، مظاہرے اور ریلی نکالتے ہوئے نظر آئیں گے۔ لیکن حکمران انھیں بندوقوں اور لاٹھیوں سے مار مار کر روکنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں زیادہ رقم ان ہی کاموں پر خرچ ہوتی ہے نہ کہ صحت، علاج، تعلیم اور بے روزگاری کے خاتمے پر۔

ہمارا سب سے زیادہ بجٹ دفاع اور امن و امان پر خرچ ہوتا ہے۔ امن و امان کو بگاڑنے کے لیے ہمارے حکمران خود ایسے اقدامات کرتے ہیں کہ امن و امان خراب ہو، پھر اسے بحال کرنے کے نام پر اخراجات کیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر افغانستان کی سامراج مخالف ڈاکٹر نجیب کی حکومت کے خلاف سامراجی آلہ کار بن کر ہمارے حکمرانوں نے مدا خلت کی اور وہی طالبان اور داعش پاکستان اور افغانستان پر حملہ آور ہیں، اور قتل و غارت گری کر رہے ہیں۔ افغانستان میں اگر نیٹو کی غیر ملکی فوج عوام پر مظالم ڈھائے گی تو عوام بھی ردعمل دیں گے۔

آج اگر افغانستان سے نیٹو کی فوج چلی جائے تو افغانستان میں قتل و غارت گری کا وقتی طور پر سہی خاتمہ ہوگا اور بعد میں قتل و غارت گری ہوئی تو یہاں کے عوام خود اپنا مسئلہ حل کریں گے۔ نیٹو مسئلے کا کوئی حل نہیں، یہ تو عوام کو آگ اور خون کے علاوہ کچھ نہیں دے سکتی ہے۔ نذیر عباسی کا مشن بھی یہی تھا کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج (نیٹو) واپس جائیں، جو کچھ کرنا ہے ملک کے عوام خود کریں۔ یہی کام ہمیں بھی کرنا ہے۔ یہاں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضہ جات کو ضبط کرکے سامراجی مداخلت اور لوٹ مار کو ختم کرکے ہی عوام میں خوشحالی لائی جاسکتی ہے۔ ہر چند کہ مسائل کا مکمل حل ایک امداد باہمی کے آزاد معاشرے کے قیام میں ممکن ہے۔
Load Next Story